رینجرز اختیارات کا قضیہ
بالآخر بدھ 16 دسمبر کو جب پوری قوم آرمی پبلک اسکول کے شہداء کی برسی منا رہی تھی
بالآخر بدھ 16 دسمبر کو جب پوری قوم آرمی پبلک اسکول کے شہداء کی برسی منا رہی تھی، سندھ اسمبلی نے بعض شرائط کے ساتھ کراچی میں رینجرز کے پولیسنگ اختیارات کی توثیق کر دی۔ حالیہ قضیہ میں رینجرز کو حاصل اختیارات کے تسلسل کا برقرار رہنا یا نہ رہنا اصل ایشو نہیں تھا، بلکہ صوبائی اسمبلی کی اس قرارداد کے ذریعے سندھ حکومت نے وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ آئین کی رو سے امن و امان سمیت کسی بھی صوبائی سبجیکٹ کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حتمی اختیار صوبائی حکومت کو حاصل ہے۔ جس میں وفاق یا کسی ریاستی ادارے کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی جتا دیا ہے کہ کسی بھی ریاستی ادارے کو تفویض کردہ مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جہاں تک صوبائی اسمبلی کے ذریعے رینجرز کو حاصل پولیسنگ اختیارات کی توثیق کا معاملہ ہے، تو یہ آئینی اور قانونی طور پر سندھ حکومت کا درست اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر اس بارے میں فیصلہ ستمبر 2013ء میں کراچی آپریشن شروع کیے جانے سے پہلے کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ اس وقت یہ فیصلہ کئی بدگمانیوں کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ کراچی میں آپریشن کا فیصلہ کرتے وقت کئی اہم اور حساس آئینی و قانونی پہلوؤں کو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے آپریشن کے طریقہ کار میں ان گنت قانونی اور تکنیکی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔
کراچی آپریشن کی حکمت عملی اور اب تک کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں سندھ کے شہریوں میں متضاد خیالات پائے جاتے ہیں۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ رینجرز کو دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کی ذمے داری تفویض کی گئی ہے، لہٰذا انھیں اپنی کارروائیاں اسی ذمے داری تک محدود رکھنا چاہئیں۔ کیونکہ ان اختیارات سے تجاوز ان گنت دیگر مسائل کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے، جو قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ جب کہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوانیاں دراصل دہشت گردی کو تقویت دینے کا سبب بن رہی ہیں، اس لیے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جہاں اس کے سہولت کاروں پر گرفت ضروری ہے، وہیں کرپشن اور بدعنوانیوں کا قلع قمع کر کے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا راستہ بند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
درج بالا نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے کے لیے موجودہ آپریشن کا ناقدانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ رینجرز کی تشکیل کیوں کی گئی اور ان کی کیا ذمے داریاں طے کی گئیں؟ اس کے علاوہ انھیں پولیسنگ اختیارات دینے سے کیا فوائد اور کیا نقصانات ہوتے ہیں یا ہوئے ہیں؟ رینجرز 1959ء میں بارڈر سیکیورٹی فورس کے طور پر وجود میں لائی گئی ایک پیرا ملٹری فورس ہے۔ یہ حالت امن میں ملکی سرحد کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے۔ ان کی تربیت بھی اسی نقطہ نظر سے اسی انداز میں کی جاتی ہے۔
1989ء میں محترمہ شہید کے پہلے دور حکومت میں جو سید قائم علی شاہ کی وزارت اعلیٰ کا بھی پہلا دور تھا، رینجرز کو آئین کی شق 147 کے تحت کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس کی مدد کے لیے تعینات کیا تھا۔ موجودہ وفاقی حکومت نے ستمبر 2013ء میں 1989ء سے کراچی میں تعینات رینجرز کو پولیس کی معاون فورس کے بجائے ایک متوازی پولیس فورس کے طور پر اختیارات تفویض کر دیے۔ ساتھ ہی 1997ء کے Anti Terrorist Act میں ترمیم کر کے رینجرز کو گرفتار ملزمان کو 90 دن تک تحویل میں رکھ کر تفتیش کا اختیار بھی دے دیا۔ یوں رینجرز کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے اس کے بعض اقدمات متنازع ہو گئے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ رینجرز حالت امن میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے تشکیل دی گئی فورس ہے۔ جس کی تربیت ان ہی خطوط پر کی جاتی ہے۔ انھیں شہروں میں انتظام چلانے اور پولیسنگ جیسے معاملات کی نہ تربیت ہے اور نہ تجربہ۔ اس پر مستزاد یہ کہ انھیں ملزمان کو 90 روز تک اپنی حراست میں رکھنے کا اختیار بھی مل گیا، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور مسلسل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں خاصی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان واردتوں میں کمی دیرپا ہے یا وقتی؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جن وسیع البنیاد اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان سوا دو برسوں کے دوران سامنے نہیں آئے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ پورے ملک بالخصوص کراچی میں سیاست اور جرائم ایک دوسرے کے ساتھ بری طرح پیوست ہو چکے ہیں۔ لیکن کراچی میں امن و امان کے مسائل شہر کی سیاسی بااختیاریت کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بضد رہتی ہے کہ شہر کے انتظامی، مالیاتی اور سیاسی اختیارات اس کی مکمل گرفت رہیں۔ وہ سوا دو کروڑ آبادی کے شہر کو ایک قصبہ یا چھوٹے شہر کے انداز میں چلانے کی کوشش کرتی ہے۔ جب کہ اس شہر کی نمایندگی کرنے والی سیاسی قوت چاہتی ہے کہ شہری معاملات میں اس کی بااختیاریت کو تسلیم کیا جائے۔ صوبے کی ان دو قوتوں کے باہمی ٹکراؤ کے نتیجے میں شہر کے سیاسی اور انتظامی معاملات و مسائل پیچیدہ تر ہو کر ناقابل حل ہوتے جا رہے ہیں۔ اقتدار و اختیار کی اس رسہ کشی میں ایک تیسرا عامل وفاقی حکومت بھی ہے، جو اس شہر پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ اپنے مقاصد کے تکمیل کی خاطر وہ صوبے کی دو اہم سیاسی قوتوں کے درمیان تنازعات کو مسلسل ہوا دینے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ رینجرز کب تک اس شہر میں ایک متوازی پولیسنگ سسٹم چلاتے رہیں گے؟ کیا یہ امن و امان کے مسئلے کا واحد حل ہے؟ کیا یہ اقدامات پائیدار اور دیر پا ہیں؟ اگر نہیں تو حکومت نے متبادل اقدامات پر غور کیوں نہیں کیا؟ یہ بات اب ہر ذی شعور شخص بخوبی سمجھتا ہے کہ کراچی کے مسئلہ کا حل کا تعلق رینجرز کے اختیارات میں اضافے سے نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل بااختیار مقامی حکومت کی تشکیل سے مشروط ہے۔ جو پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی کی مقامی حکومت کو دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ مقامی حکومت (بظاہر) کے انتخابات کے تیسرے مرحلہ میں کراچی میں ایم کیو ایم کو واضح اکثریت ملنے کے بعد سندھ حکومت نے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اختیارات میں مزید کمی کر دی ہے۔ نتیجتاً میگا سٹی کا میئر کے پاس پیدائش اور اموات کے سرٹیفیکٹ پر دستخط کرنے کے علاوہ کوئی بھی اہم ترقیاتی کام کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ حد یہ ہے کہ ٹھوس کچرا (Solid Waste) اٹھانے کا ٹھیکہ دینے کا اختیار بھی صوبائی حکومت نے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھا ہے۔
ایسی صورتحال میں ایک نیا قضیہ پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے، جو ممکنہ طور پر ایک نئے سیاسی تصادم کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ کیا وفاقی حکومت اس تصادم کو روکنے کے لیے رینجرز کو استعمال کرے گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے، تو اس پر لگنے والا یہ الزام درست ثابت ہو گا کہ وہ کراچی کے دو اہم stakeholders کو ایک دوسرے سے گتھم گتھا کرکے خود شہر پر حکمرانی چاہتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اپنے اقدامات کو جواز فراہم کرنے کی خاطر شہر کی نمایندہ جماعت کے خلاف رینجرز کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو عصبیتوں اور تصادم کا ایک سلسلہ شروع ہو سکتا ہے، جس پر قابو پانا رینجرز کے بس میں بھی نہیں ہو گا۔
اس لیے دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ رینجرز یا کسی دوسری پیرا ملٹری فورس پر تکیہ کرنے کے بجائے مقامی حکومتی نظام کو زیادہ بااختیار بنایا جائے۔ تمام بڑے شہروں کی مقامی حکومتوں کو وہ تمام اختیارات دیے جائیں، جو دنیا بھر میں مقامی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیرا ملٹری فورسز پر تکیہ کرنے کے بجائے پولیس کے محکمے کو Depoliticise کرکے اس کی جدید خطوط پر تشکیل نو کرنے پر توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں کمیونٹی پولیسنگ اہم کردار ادا کر سکتی ہے، جس کے قیام پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اقتدار و اختیار کے حوالے سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کی تحلیل کا اختیار نہیں دیا جا سکتا، تو پھر صوبائی حکومت کو بھی ضلعی حکومت کو ختم کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ اب وفاقی اور صوبائی حکومت کو دہرے معیار سے باہر نکل کر مقامی حکومتی نظام کے بارے میں واضح فیصلے کرنے ہوں گے۔ کیونکہ شہری معاملات کی صوبائی سطح پر مرکزیت قائم کرنے کی کوشش ان گنت پیچیدہ مسائل کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے۔ اس لیے جس قدر جلد ممکن ہو، پورے ملک کے لیے ایک مکمل بااختیار اور یکساں مقامی حکومتی نظام تشکیل دینے پر توجہ دی جائے۔ پہلے مرحلہ میں حال ہی میں منتخب ہونے والی مقامی حکومتوں کے اختیارات مختلف حیلوں بہانوں سے سلب کرنے کے بجائے انھیں آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔