شادی مسائل کا حل مگر۔۔۔

بعض الجھنیں نئی زندگی  پر منفی اثرات ڈالتی ہیں


نادیہ فاطمہ December 21, 2015
بعض الجھنیں نئی زندگی  پر منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: یہ حقیقت ہے کہ شادی کا بندھن مقدس و خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذمے داری اور فرائض سے بھی پُر ہے، جب ایک لڑکا لڑکی اس رشتے سے منسلک ہوتے ہیں، تو دونوں فریقین اس کے تقاضے انتہائی ذمے داری اور دیانت داری سے نبھانے کے پابند ہوتے ہیں، جب میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض بخوبی ادا کرتے ہیں، تب ہی ایک صحت مند اور باشعور نسل پروان چڑھتی ہے، وگرنہ دوسری صورت میں معاشرے میں بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل شادی شدہ زندگی ہے، مگر یہ بھی سچائی ہے کہ ہر مسئلے کا حل شادی نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کے اکثر و بیش تر والدین یہی سوچ رکھتے ہیں کہ بیٹیاں جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جائیں، ان کی یہ سوچ غلط بھی نہیں، مگر وہ والدین جن کی بیٹیوں کے ساتھ کوئی نفسیاتی و ذہنی مسائل ہوتے ہیں یا پھر کسی اور وجوہ کی بنا پر ان کی شخصیت میں کسی قسم کا خلا ہوتا ہے، تو ایسے والدین یہ چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اپنی بیٹیوں کی شادیاں کر دیں۔ ان کے عزیز رشتے دار بھی انہیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ بیٹی کی شادی کر دو، شادی کے بعد یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی وغیرہ جب کہ ایسا کرنے سے بعض اوقات لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔

اگر کسی لڑکی کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا پھر وہ لڑکی ذہنی طور پر شادی جیسی گمبھیر ذمے داری کو اٹھانے کی متحمل نہیں ہے اور شادی کرنے سے خائف ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ بچکانہ ذہن کی مالک ہے، تو ایسی صورت میں والدین کو اس کا واحد حل شادی ہی دکھائی دیتا ہے اور پھر ہوتا یوں ہے کہ وہ لڑکی اپنی زندگی میں اچانک آنے والی اتنی بڑی تبدیلی کو قبول نہیں کر پاتی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر واپس آجاتی ہے یا پھر اس کے ذہن میں اس تبدیلی کی بنا پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔

ایک خاتون نے اپنی بیٹی کی شادی یہ سوچ کر کی تھی کہ ان کی بیٹی جو نفسیاتی طور پر تھوڑی ڈسٹرب تھی کہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گی، مگر نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ صرف تین ماہ بعد اسے طلاق ہوگئی۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہماری نگاہوں کے سامنے سے گزرے ہیں۔ کسی بیماری یا وجوہ کی بنا پر والدین نے فی الفور بیٹی کی شادی کر دی اور صرف چند ماہ میں وہ طلاق کا داغ ماتھے پر سجا کر والدین کے گھر واپس آگئی۔

آج کل طلاق کی شرح میں اضافے کا سبب یہ خاص وجہ بھی ہے، بلکہ بسا اوقات اس قسم کی صورت حال میں بچے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح لڑکیوں کے والدین کی بھی یہی سوچ ہوتی ہے۔ اگر ان کا لڑکا منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو گیا ہے یا پھر اس نے غلط صحبت اختیار کرلی ہے، تو والدین کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کوئی سیدھی سادی نیک فطرت لڑکی سے فی الفور اس کو نتھی کر دیا جائے، تاکہ آنے والی لڑکی ان کے بیٹے کو جو ان سے تو سدھر نہیں سکا، وہ اسے آکر سدھارے۔ ایسا کر کے وہ انتہائی خود غرضی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اپنے بے ڈھب بیٹے کو کسی شریف اور معصوم لڑکی سے بیاہ کر وہ اس لڑکی کی زندگی کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں، جب کہ اسی طرح لڑکیوں کے والدین بھی کسی وجوہ کی بنا پر شادی کے لیے نامناسب لڑکی کی شادی کر کے، وہ لڑکے کو فریب اور دھوکا دیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا ایک چلن یہ بھی ہے کہ ان کے بچے اگر خود ہی اپنے لیے شریک سفر منتخب کر لیتے ہیں اور والدین کو کسی بھی وجہ سیاس شادی سے اعتراض ہوتا ہے، تو وہ زبردستی اپنے بچوں کی شادی اپنی پسند اور مرضی کی جگہ کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکی اپنے اوپر زبردستی تھوپے جانے والے شوہر کو پسند نہیں کرتی اور لڑکا اپنے ماں باپ کی پسند کی بیوی کو قبول نہیں کرپاتا اور پھر بالآخر تباہی وبربادی مقدر بنتی ہے، جب کہ بعض شادی شدہ جوڑے اگر سمجھوتہ کر بھی لیں، تو ان کی زندگیاں گویا سولی پر لٹکنے کی مانند گزرتی ہیں۔

اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی اپنی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ جذباتی ہوتی ہے، مگر اچھا رشتہ آنے کی صورت میں والدین زبردستی اس کی شادی کر دیتے ہیں۔ اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے اور خوابوں کے ٹوٹ جانے کی بنا پر بھی لڑکیاں ازدواجی زندگی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پاتیں اور خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو بھی بے سکون و مضطرب کر دیتی ہیں، جب کہ بیش تر لڑکوں کے والدین کا یہ طرز عمل ہوتا ہے کہ اگر ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں ملک سے باہر جا رہا ہے، تو والدین اس خوف سے کہ کہیں بیٹا کسی گوری سے شادی نہ کر لے زبردستی اس کا نکاح پڑھوا دیتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ شادی ہمارے مشرقی معاشرے میں بہت سے مسائل کا حل ہے، مگر کچھ معاملات اتنے گمبھیر اور مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، جہاں شادی کا بندھن گلے کا پھندا ثابت ہوتا ہے، جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شادی کرنا بہت آسان ہے، مگر اسے نبھانا بے حد مشکل اور یہ بات لڑکی اور لڑکا دونوں کے والدین بخوبی جانتے ہیں، کیوں کہ یقیناً وہ بھی ازدواجی زندگی کی پرخار اور کھٹن راہوں سے گزر کر ہی گلستان میں پہنچے ہوں گے۔ ایسی لڑکی کے والدین جن کی بیٹی کے ساتھ کوئی نفسیاتی یا ذہنی مسئلہ ہے، تو اس کی شادی کر کے اس پر ظلم مت کیجیے، بلکہ اسے خوش گوار اور دوستانہ ماحول فراہم کرکے ان وجوہات کو جاننے اور پھر انھیں دور کرنے کی کوشش کیجیے جس کی بدولت آپ کی اولاد کسی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہوگئی ہے، اسے وقت دیجیے اور اس کی کاؤنسلنگ کرنے کی کوشش کیجیے۔

اس ضمن میں آپ کسی اچھے نفسیاتی معالج کی بھی خدمات لے سکتے ہیں۔ اگر آپ کی بیٹی ازدواجی زندگی کے تقاضوں سے خائف ہے یا شادی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے اور منع کر رہی ہے، تو اس کے ساتھ ہرگز زبردستی مت کیجیے، بلکہ اسے اپنے تعاون کا یقین دلایئے اور پھر آہستہ آہستہ اسے شادی کی اہمیت اور افادیت سے گاہے بگاہے آگاہ کرتے رہیے۔ گھر کی بزرگ خواتین، نانی، دادی، بڑی خالہ، تائی وغیرہ پر اثر انداز میں لڑکی کو شادی کرنے پر راضی کریں، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کی ذمے داریوں اور فرائض سے بھی آگاہ کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ اس کی ذہنی الجھنوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں، اگر ان تمام عوامل پر غور و خوص کرنے کے بعد والدین اپنے بچوں کو شادی کے بندھن میں باندھیں، تو یقینا بہت سے مسائل ا ور پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں