باجی راؤ مستانی ۔۔۔۔ تاریخ کی بوجھل کہانی
جو لوگ مرہٹوں اور مغل سلطنت کی چپقلش سے واقف ہیں، صرف ان کیلئے فلم کی جنگوں اور اسکے سیاسی کردار کو سمجھنا آسان ہوگا۔
بڑے بڑے عالیشان سیٹ، خوبصورت ملبوسات، جذبات اور حساسیت سے بھرپور کردار بالی ووڈ ڈائرکٹر سنجے لیلا بھنسالی کی پہچان ہیں اور 'باجی راؤ مستانی' بھی انہی تمام لوازمات سے پر تاریخی رومانوی داستان ہے۔
فلم کی کہانی مرہٹہ پیشوا باجی راؤ کی زندگی کے پیشہ وارانہ اور نجی امور کا امتزاج ہے جس میں ایک طرف اسے جنگ کے میدانوں میں کامیابیاں سمیٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے تو دوسری طرف گھریلو سیاست میں الجھا ہوا بھی پیش کیا گیا ہے۔
باجی راؤ مستانی شروع ہوتی ہے مرہٹوں کے نئے پیشوا کے انتخاب کیلئے بلائے گئے اجلاس سے جہاں باجی راؤ (رنویر سنگھ) اپنی غیر معمولی عسکری قابلیت اور مغل سلطنت کے خلاف اپنے عزائم کے باعث پیشوا منتخب کرلیا جاتا ہے۔ نجی زندگی میں اسکے تعلقات اپنی بیوی کاشی بائی (پریانکا چوپڑہ)، اپنی ماں رادھا بائی(تنوی اعظمی)، بھائی چھیما جی اپا (وائیبھو تتواوڑی) کے ساتھ انتہائی خوشگوار ہیں۔ ایک مہم کے دوران بندیل کھنڈ کے ہندو راجا کی مسلمان بیٹی مستانی (دپیکا پڈوکون) انتہائی ڈرامائی انداز میں مغلوں کے خلاف پیشوا کی مدد مانگتی ہے۔ پیشوا کی دلیری اور بہادری مستانی کو اپنا اسیر بنالیتی ہے جبکہ باجی راؤ خود بھی مستانی کی ذہانت اور شخصیت سے متاثرہوجاتا ہے۔
مرہٹہ فوج کے پونا پہنچنے کے بعد مستانی بھی پونا آجاتی ہے۔ پیشوا باجی راؤ کی ماں اور بھائی کو مستانی کا باجی راؤ کے پیچھے آنا ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن باجی راؤ اسکا ساتھ دیتے ہوئے اس سے شادی کرلیتا ہے۔ اب نہ صرف خاندان بلکہ مرہٹہ پیشوا کو مذہبی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سب سے مستانی مایوس ہوجائے گی یا باجی راؤ اسکا ساتھ دیگا یہ تو آپ کو پوری فلم دیکھ کر ہی معلوم ہوگا۔
فلم کے گانے کچھ خاص قابل ذکر نہیں ہیں البتہ فلم دیوداس کی جھلک گانوں میں ضرور ملتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ موسیقی اور عکس بندی دیوداس کی یاد تازہ کرتی رہتی ہے۔ توقعات کے برعکس اسکرپٹ کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ سست روی کا بھی شکار ہے۔ اسپیشل ایفیکٹس اور غیر ضروری گرافکس بھی بدمزہ کردیتے ہیں۔ مکالمے اتنے جذباتی ہیں کہ بعض جگہوں پر بوجھل محسوس ہوتے ہیں۔ جنگجو مرہٹہ پیشوا اکثر قافیہ اور ردیف ملاکر اتنی جذباتیت کا مظاہرہ کرتا ہے کہ عجیب لگتا ہے اور پھر جھوم جھوم کر گانا گاتے ہوئے کچھ زیادہ ہی فلمی لگتا ہے۔
اداکاری کے شعبے کی بات کی جائے تو رنویر سنگھ سب پر بازی لے گئے ہیں۔ اپنی دیگر فلموں کے شوخ کرداروں سے ہٹ کر انہوں نے باجی راؤ کے کردار کو بہت توزان سے ادا کیا ہے۔ چہرے کے تاثرات، آواز کا اتار چڑھاؤ اور ایک کامیاب جنگجو کا پُراعتماد انداز غرض سب کچھ ہی نہایت جاندار رہا ہے۔ یوں تو پریانکا چوپڑہ کے کرنے کو فلم میں کچھ خاص نہیں تھا لیکن جب جب کاش بائی اسکرین پر آئی عمدگی سے اپنے احساسات ناظرین تک پہنچاگئی۔
مستانی کے پاس بہت گنجائش تھی جسکا فائدہ دیپیکا بھرپور طریقے سے نہیں اٹھا پائیں پھر بھی مناسب کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہیں جبکہ دیگر کاسٹ بھی اپنے اپنے کرداروں میں موزوں نظرآئی۔ درحقیقت اچھی اداکاری ہی اس فلم کی خامیوں کا بوجھ خوش اسلوبی سے اٹھائے ہوئے ہے۔
بنیادی طور پر باجی راؤ مستانی رومانوی ہونے کے باوجود خاصی سنجیدہ فلم ہے جس میں ہنسنے مسکرانے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاریخی فلمیں اکثر اپنے منتخب شدہ تاریخی کردار سے انصاف نہیں کرپاتیں اور سنیما کی ڈیمانڈ کے مطابق کئی گئی تبدیلیاں بھی تاریخ پر گراں گزرتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ جو لوگ مرہٹوں اور مغل سلطنت کی چپقلش سے واقف ہیں، انکے لئے باجی راؤ کی جنگوں اور اسکے سیاسی کردار کو سمجھنا آسان ہوگا بصورت دیگر یہ محض تاریخی پس منظر میں فلمائی گئی رومانوی کہانی ہے جو دیرپا اثر چھوڑنےمیں ناکام ہے۔
فلم کو مجموعی طورپر 5 میں سے 3 نمبر دئیے جاسکتے ہیں۔
[poll id="837"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔