تفتیشی افسر کی رپورٹ مسترد سندھ ہائیکورٹ کا ڈاکٹرعاصم کو حراست میں لینے کا حکم

تفتیشی افسرعدالت کو مطمئن نہیں کرسکے اس لئے ڈاکٹر عاصم کو حراست میں لے کرعدالت میں پیش کیا جائے، جج کا حکم


ویب ڈیسک December 21, 2015
ڈٓاکٹر عاصم کو دفعہ 497 کے تحت بری کرنے کا فیصلہ کیا، ڈی ایس پی الطاف حسین۔ فوٹو: فائل

MULTAN: انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے منتظم جج نے سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹرعاصم کی بریت سے متعلق تفتیشی افسر کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے انہیں حراست میں لے کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے منتظم جج نعمت اللہ پھپھوٹو نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف مقدمے کی سماعت کی، سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ڈاکٹر عاصم کی بریت سے متعلق پولیس کی رپورٹ کو مسترد کردیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں لگتا ہے کہ جرم ہوا ہے اس لئے ملزم کو حراست میں لیا جائے اور منگل کو انسدادہ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔

اس سے قبل ڈاکٹر عاصم کے مقدمے میں پولیس کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے اور مقدمے کی تفتیشی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ملزم پر لگائے گئے الزامات کی روشنی میں اپنی تفتیش مکمل کرلی ہے جس میں ڈاکٹر عاصم پر لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات کے شواہد نہیں ملے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ انہیں 4 دسمبر کو کیس کی تفتیش سونپی گئی لیکن سابق تفتیشی افسر نے تعاون نہیں کیا، کیس سے متعلق رینجرز سے تفصیلات حاصل کی گئیں تاہم ان کی جانب سے واجبات کی نقول اور دیگر تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں جس کے بعد ڈاکٹرعاصم کو دفعہ 497 کے تحت بری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ڈاکٹر عاصم کیس کے نئے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نثار احمد درانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ وہ پولیس کے تفتیشی افسر کی رپورٹ سے مطمئن ہیں، ڈاکٹرعاصم کوشخصی ضمانت پررہا کیا گیا لیکن اگر وہ کسی جرم میں ملوث پائے گئے توانہیں شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔

سماعت کے دوران ڈاکٹر عاصم سے تفتیش کے لئے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ ڈاکٹرعاصم کے اسپتالوں میں ان دہشت گردوں کا علاج کیا گیا جن کی گرفتاری پر حکومت سندھ نے انعام مقرر کررکھا تھا۔ رینجرز لاء آفیسر نے تفتیشی افسر کی رپورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تفتیشی افسر نے کیس کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ جب کہ چشم دید گواہ کے بیان حلفی سے بھی عدالت کو آگاہ نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر عاصم نے بھی عدالت میں اپنا بیان حلفی جمع کراتے ہوئے کہا کہ انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، پہلے بھی کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے، ان سے بندوق کی نوک پر بیان لیا گیا، ان کے ساتھ زیادتی بند ہونی چاہیئے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پوری رات کھڑا کر کے رکھا جائے۔

قبل ازیں ڈاکٹر عاصم کے مقدمے میں اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کو تبدیل کرنے کے فیصلے کو رینجرز نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور رینجرز کے وکیل عنایت اللہ درانی نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ محکمہ داخلہ نے چھٹی والے دن خاموشی سے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر مشتاق جہانگیری کو ہٹا کر اپنے من پسند وکیل نثار احمد درانی کو تعینات کر دیا۔ پراسیکیوٹر کی تبدیلی سندھ حکومت کی جانب سے بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے، حکومت سندھ ڈاکٹر عاصم کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

رینجرز کے وکیل نے کہا کہ مقدمہ تفتیشی مراحل میں ہے اور اس دوران کسی کو بھی پراسیکیوٹر تبدیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا، تبدیلی غیر قانونی ہے لہذا عدالت مشتاق جہانگیری کو ہی مقدمے میں اسپیشل پراسیکیوٹر رہنے دیا جائے اور درخواست کو سماعت کے لئے منظور کیا جائے۔ عدالت نے رینجرز کی درخواست منظور کرتے ہوئے جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ تشکیل دے دیا۔

دوسری جانب سول سوسائٹی کی ایک بڑی تعداد نے ڈاکٹر عاصم کی ممکنہ رہائی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے ہاہر دھرنا دے دیا۔ سول سوسائٹی نے سندھ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے غریب کے لئے الگ قانون جب کہ من پسند افراد کے لئے الگ قانون بنا رکھا ہے جو کسی صورت منظور نہیں، دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار ڈاکٹر عاصم کو سخت سزا دی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں