سندھ میں افسوس ناک کھینچا تانی

سندھ انتظامیہ کے اقدامات سے رینجرز تنازع حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے


Editorial December 22, 2015
رینجرز کو ڈاکٹر عاصم کیس میں عدالت سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا، حکومت چاہے تو اس کا آئینی مدت پوری کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

NEW YORK: آثار بتارہے ہیں کہ سندھ اور وفاق کے درمیان پیدا شدہ چپقلش کے خاتمہ کی کوشش کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا بلکہ اس کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے اور اس مقولہ کے بقول کہ سیاست میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا ، صورتحال ابتر ہونے کا خطرہ ہے۔ فریقین کو دہشتگردی کی حساسیت کا ادراک کرنا چاہیے کہ کہیں افسوسناک کھینچاتانی اسٹریٹجیکل تصادم کی شکل نہ اختیار کرلے ، اس ضمن میں ماضی کی تاریخ تلخ تجربات سے بھری ہوئی ہے، اسے نہ دہرایا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اداروں کے درمیان کسی قسم کی کشیدگی اور رسہ کشی سے دہشتگرد نیٹ ورک اور ان کے سہولت کاروں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

صائب مشورہ یہی ہے کہ دہشتگردی یا کرپشن میں ملوث ہائی پروفائل کیسز کی سماعت عدالتوں میں جاری ہو تو ایسی لڑائی میڈیا میں لڑنا کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ کراچی آپریشن اس وجہ سے قطعی متاثر نہیں ہونا چاہیے کہ دہشتگردی کے خلاف کارروائی فیصلہ کن مرحلہ میں ہے جہاں سندھ حکومت اور وفاق کو ایک دوسرے کے خلاف سیاسی مصلحتوں سے بالاتر رہ کر رینجرز کے اختیارات اور اس کی مدت میں توسیع پر مفاہمت کا در کھولنا چاہیے۔ تاہم سندھ میں معاملات کو ریورس گیئر لگتا نظر آرہا ہے، سندھ انتظامیہ کے اقدامات سے رینجرز تنازع حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے، ایک طرف سندھ حکومت نے لفظ ''دہشت گردی'' کو قرارداد میں شامل کرکے کر وفاق کو خط بھیج دیا ہے مگر ساتھ ہی آرٹیکل 147 کے تحت رینجرز کی تعیناتی کی توثیق سے متعلق جو خط وفاق کے نام ارسال کیا ہے اس میں رینجرز کے اختیارات کو صرف کراچی تک محدود رکھنے کا کہا گیا ہے، اس ضمن میں موقف یہ اختیار کیا گیا ہے کہ اگر پورے سندھ میں رینجرز کو کارروائی کا اختیار دیا گیا تو حکومت سندھ کیا کریگی، چنانچہ اس اندیشہ سود و زیاں کے پیش نظر میعاد چار ماہ کے بجائے دو ماہ کی گئی ہے۔

اگرچہ اس میں بد نیتی نہ ہو تب بھی بادی النظر میں اس اضطراری اقدام سے معاملات مصالحت یا اتفاق رائے کے بجائے پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جاسکتے ہیں، جو کسی طور دہشتگردی کے خلاف کارروائی کے حق میں نہیں، جب کہ ضرورت ایک مشترکہ اور ناقابل تسخیر حکمت عملی کے ساتھ ان عناصر کا قلع قمع کرنا ہے جو سندھ اور وفاق کی جنگ سے اپنا الو سیدھا کرنے کے انتظار میں ہیں۔ دوسری جانب پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان نے معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے جب کہ مشتاق جہانگیری نے کہا انھیں بھی اس بارے میں علم نہیں جب کہ مشتاق جہانگیری نے درخواست دائر کی تھی کہ انھیں ہٹانے کی سازش کی جا رہی ہے جب کہ رینجرز نے بھی گزشتہ روز درخواست دائر کی جس میں الزام عائد کیا گیا کہ حکومت سندھ کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے۔

سابق وزیراعظم صدر مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ وفاق اور سندھ میں جاری چپقلش سے ملک و قوم اور جمہوریت کو نقصان ہوگا، رینجرز کو ڈاکٹر عاصم کیس میں عدالت سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا، حکومت چاہے تو اس کا آئینی مدت پوری کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے تاہم حکومت کو اپنی روش تبدیل کرنا ہوگی ۔ اتنی بات تو سندھ کے ارباب اختیار کو سمجھنی چاہیے ، اور اس کا کھوج لگانا چاہیے کہ دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ اورکرپشن کے گٹھ جوڑ خلاف ایک فل سوئنگ نتیجہ خیز آپریشن میں رکاوٹیں کون ڈال رہا ہے جس کا کہ سندھ حکومت اور وفاق سمیت پورا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں