تعلیم سے بے اعتنائی کیوں

گھوسٹ تعلیمی اداروں اور گھوسٹ ملازمین کی وجہ سے دن بہ دن یہ شعبہ پس ماندگی کا شکار رہا ہے


فاطمہ نقوی December 22, 2015
[email protected]

کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کے تعلیمی نظام کے ڈھانچے تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب اور اس نصاب کو پروان چڑھانے کے لیے ایسے تعلیمی اداروں کے قیام سے منسلک ہوتا ہے جو طلبا کو جدید تکنیک اور جدید خطوط کے مطابق تعلیم و تربیت فراہم کریں پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم نے تعلیم کے شعبے کو ہمیشہ نظرانداز کیا۔

گھوسٹ تعلیمی اداروں اور گھوسٹ ملازمین کی وجہ سے دن بہ دن یہ شعبہ پس ماندگی کا شکار رہا ہے گورنمنٹ کی جانب سے تعلیمی شعبے سے متعلق کی جانے والی کوششوں سے خواندگی کی شرح میں اضافہ نہ ہوتے دیکھ کر اکثر پرائیویٹ ادارے قائم ہوگئے ہیں جن میں اکثریت کا رجحان کمرشل ہوگیا ہے بھاری بھرکم فیسیں اور سالانہ اخراجات کی مد میں لی جانے والی بڑی بڑی رقمیں دیکھ کر عام آدمی ان اداروں کی طرف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا جیسے تیسے طلبا گریجویشن تو کرلیتے ہیں مگر ہائر ایجوکیشن کے لیے ایک بڑی تعداد کے لیے اکیلی کراچی یونی ورسٹی بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو ساتھ ساتھ کچھ پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی سامنے آئی ہیں مگر ان کی بڑھتی ہوئی فیسیں اور غیر معیاری تعلیم نے ڈگری تو فراہم کردی مگر علم نہیں دے سکے مگر ان اداروں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ادارے بھی پرائیویٹ طور پر سامنے آئے ہیں جن کا مقصد ملک و قوم کے لیے ایسے طلبا کو تیار کرنا ہے جوکہ واقعی قوم کے معمار ثابت ہوں پچھلے ہفتے ہماری ملاقات ایک ایسی خاتون ڈاکٹر انجم کاظمی سے ہوئی جوکہ نہایت سنجیدگی سے طلبا کی فکری نظری تربیت کرنے میں مصروف ہیں انھوں نے ہم سے شکایت کی کہ خبروں کے لیے اور کالمز کے لیے لوگ چٹ پٹی خبروں میں دلچسپی رکھتے ہیں مگر کچھ ادارے جو بغیر کسی صلہ و ستائش کے اپنا کام ایمان داری سے سرانجام دے رہے ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا ان اداروں میں نذر حسین یونیورسٹی ہے جس کا نام کم لوگ ہی جانتے ہیں اور جوکہ نیشنل انٹرنیشنل لیول کے مطابق اپنا تدریسی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

ایک ورکشاپ کے سلسلے میں جب ہمارا نذیر حسین یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو حقیقتاً آنکھیں کھلی رہ گئیں کریم آباد کے اندر کے علاقے میں موجود یہ یونیورسٹی واقعی ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طرح نظر آتی ہے۔ پیرزادہ قاسم جنھوں نے اپنے دور وائس چانسلری میں کراچی یونیورسٹی میں ایک ایسا ماحول فراہم کیا جوکہ سنہرا دور کہلائے جانے کے قابل ہے وہ اب اس تعلیمی ادارے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں شعبہ اسپیشل ایجوکیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر انجم کاظمی جیسی شخصیت جوکہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے طلبا میں بے حد مقبول ہیں نے ہمیں پوری یونیورسٹی کا وزٹ کرایا جس کو دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ یہاں جدید خطوط پر طلبا کو تربیت فراہم کی جا رہی ہے ہر ڈپارٹمنٹ کو دیکھ کر آنے والوں پر خوشگوار اثر بھی پڑتا ہے اس ادارے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کوئی بھی طالب علم صرف اس وجہ سے داخلے سے محروم نہ رہ جائے کہ اس کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں ایسے تعلیمی ادارے ہمارے شہر کراچی میں چاند کی طرح چمک رہے ہیں اور بغیر کسی صلہ ستائش کی پروا کیے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں خواندگی کی شرح میں اضافے کے لیے کچھ لوگ اپنا کام کر رہے ہیں جن کی خدمات کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ایسی ہی ایک خاتون مسز ریحانہ مفتی ہیں جو آج کل کینیڈا سے کراچی تشریف لائی ہوئی ہیں۔

ریحانہ مفتی عمر کے اس دور میں ہیں جب لوگ آرام کی غرض سے چارپائی سنبھال لیتے ہیں مگر آپ اب بھی قوم کے بچوں اور بڑوں کی فکر میں دن رات کوشاں ہیں۔ تعلیم بالغاں کی متعدد کتابوں کی خالق سابقہ پروفیسر سرسید کالج خواندگی کے نیشنل کریکولم میں بھی معاون رہی ہیں اور اب بھی پرعزم ہیں کہ وہ ایسے ٹرینرز کی ایک کھیپ تیار کریں جوکہ آیندہ خواندگی کی شرح کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوں ایسے پرعزم لوگوں کے جذبے اور بے لوث لگن کو دیکھتے ہوئے خیال اجاگر ہوتا ہے کہ ہم کبھی نہ کبھی خواندگی کی شرح کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے شہروں میں تو پھر بھی بہتر صورتحال موجود ہے لیکن دیہاتوں میں آج بھی صنفی تفریق موجود ہے جس کو دور کرنے کے لیے اب بھی متواتر کوششوں کی ضرورت ہے اگر درست طریقے سے تعلیم حاصل کی جائے تو انسان کی سوچ اور شخصیت میں تبدیلی نظر آجاتی ہے جس وقت مسلمانوں کی حالت انتہائی خراب تھی ہندو انگریزوں کے منظور نظر بن چکے تھے۔

اس وقت سرسید احمد خان نے اپنا تجربہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ جدید تعلیم کو حاصل کیے بغیر مسلمان ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکتے اور یہی وجہ تھی کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا نے پاکستان کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا آج جب کہ پاکستانی معاشرہ استحصال کا شکار ہے متعدد نظام تعلیم رائج ہیں جو ڈگری تو فراہم کر رہے ہیں مگر ایک قوم بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے وہاں آئی ایس پی آر کا دوسرا نغمہ آپ کو ایک پیغام دیتا نظر آتا ہے دلوں کو چھو لینے والے الفاظ اور موسیقی سے مرصع اس نغمے کے بول ''ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے'' پیغام دے رہے ہیں کہ پڑھائی ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ہی ہم دشمن کے اندر نئی سوچ پیدا کرسکتے ہیں اور اسے معاشرے کے ڈھب میں لاسکتے ہیں یاد رکھیے کہ قرآن میںاقراء کے تذکرے کے ساتھ ساتھ قلم یعنی لکھنے سے بھی رشتہ جوڑا ہے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اچھی سوچ اچھی باتیں لکھ کر معاشرے میں پھیلائی جائیں تاکہ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی پیدا ہو اور وہ دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کے قابل ہوسکیں انتہاپسندی کو فروغ دینے کی بجائے اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل میں ہمیں اپنا حصہ ڈالنا ہی ہوگا جب ہی ہم معاشرے میں اور تاریخ میں کوئی مقام حاصل کرسکیں گے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں