امن محبت کا متقاضی ہے
ٹرمپ کے اس بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکا میں اس کی وسیع پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے
امریکا میں صدارتی الیکشن کے لیے ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو امریکا کے مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ ''امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگا دینی چاہیے'' خیال رہے کہ امیگریشن کی مخالفت ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا اہم حصہ ہے۔ پیرس حملوں کے بعد انھوں نے اپنی توجہ امریکا میں مسلمان آبادی کی جانب مرکوز کرلی ہے۔ انھوں نے مساجد کی نگرانی اور مسلمانوں کے رجسٹریشن ڈیٹا کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پیور ریسرچ کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان امریکیوں کے خلاف ہیں۔ یہ نفرت کہاں سے آتی ہے اور کیوں آتی ہے؟ ہمیں اس کا تعین کرنا ہے، ہمارا ملک ان لوگوں کے ہولناک حملوں کا نشانہ نہیں بن سکتا جو صرف جہاد پر یقین رکھتے ہیں۔''
ٹرمپ کے اس بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکا میں اس کی وسیع پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بیان امریکی اقدار اور قومی سلامتی کے خلاف اور امریکی قوم کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ ڈیموکریٹس کی ممکنہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے ٹوئیٹ کیا کہ اسلام کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا یا امریکی مسلمانوں کو برا بھلا کہنا نہ صرف ہماری اقدار کے برعکس ہے بلکہ یہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صرف بنیاد پرست اسلام کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہودیوں کی حمایتی تنظیم اینٹی ڈیفامیشن لیگ نے کہا ہے کہ لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر امریکا میں داخلے سے روکنا ناقابل قبول اور انتہائی توہین آمیز ہے۔ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بلوائیوں کے سربراہ کی طرح بات کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے مکمل اختلاف کرتے ہیں۔ ری پبلکن جماعت میں ٹرمپ کے مدمقابل جیب بش نے بھی اس بیان کو غیر محتاط بیان قرار دیتے ہوئے ٹرمپ کو بدحواس قرار دیا ہے اس طرح سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی نے بھی ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ بھی مسلمانوں کی حمایت میں بول پڑے۔کہتے ہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت کرتا ہوں، میں ایک یہودی ہوں لیکن میرے والدین نے مجھے سکھایا ہے کہ کسی بھی کمیونٹی پر حملے کی صورت میں اس کا ساتھ دوں، پیرس حملوں اور رواں ہفتے پروان چڑھنے والی نفرت کے بعد وہ اس خوف کا تصور کرسکتے ہیں جو مسلمان محسوس کرتے ہیں اور انھیں دوسروں کے اعمال کے باعث ستایا جاتا ہے۔ فیس بک کے بعد گوگل کے سربراہ سندرپچائی نے بھی مسلمانوں کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔
سرچ انجن گوگل کے سی ای او بھارتی نژاد امریکی شہری سندرپچائی نے اپنے کھلے خط میں کہا ہے کہ آزادی، برداشت اور کھلے دل سے نقل مکانی کرنے والوں کی قبولیت امریکا کی سب سے بڑی قوت ہے جب کہ امریکی مسلمان اس وقت خوف زدہ ہیں، امریکی اقدار کو شکست نہ ہونے دیں، یہ دل شکستہ عمل ہے کہ ان دنوں شہروں میں عدم برداشت کے بیانات کا راج ہے جب کہ یہ اتفاقیہ بات نہیں کہ امریکا نقل مکانی کرنے والوں کی سرزمین تھی اور ہے، میں 22 سال قبل امریکا آیا تھا اور یہاں تعلیم حاصل کی تھی کیونکہ امریکا کو میں اپنا حصہ سمجھتا ہوں اور یہ ملک میرے لیے بھارت جیسی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ باکسنگ کے سابق عالمی چیمپئن محمد علی کلے نے ٹرمپ کے بیان پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مسلمانوں کو ان لوگوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا جو اسلام کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں، ایسے لوگوں نے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے کئی لوگوں کو دور کیا۔ واضح رہے کہ 73 سالہ محمد علی 3 مرتبہ باکسنگ کے عالمی چیمپئن رہ چکے ہیں اور ایک ثقافتی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے سب سے مشہور مسلمانوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔
برطانیہ میں لاکھوں افراد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی کی پٹیشن سائن کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مختلف امریکی این جی اوز نے واشنگٹن میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین میں مسلمان، عیسائی، یہودی اور سکھ بھی شامل تھے۔ مظاہرین ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نعرے درج تھے اور وہ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات کے لیے نااہلی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے بیانات نہ صرف دنیا بھر میں امریکی ساکھ خراب کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردوں کی مدد بھی کر رہے ہیں۔ کانگریشنل یونائیٹڈ چرچ کے ترجمان ریونڈ گرے لینڈ ہیگر نے کہا ہے کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور ٹرمپ کا مطالبہ جمہوری روایت کے منافی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکا ہی نہیں دنیا بھر سے لوگوں نے تنقید کی ہے جن میں سے کئی افراد نے انھیں ہٹلر سے تشبیہہ دی اور ان پر نفرت پھیلانے اور اکسانے جیسے الزامات لگائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں بھی متنازع بیانات دیتے رہے ہیں۔ ان کی مذمت کرنے والوں میں ان کی اپنی جماعت کے بھی افراد شامل ہیں۔
امریکا میں صدارتی الیکشن کے لیے ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے خلاف مذکورہ بالا مذمتی بیانات خوش آیند ہیں اس طرح نفرت کی آگ بھڑکنے سے پہلے اپنی موت آپ مرگئی ہے۔ اگر اسی طرح مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا جاتا رہے گا تو دنیا کو میدان جنگ بنانے والی قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور دیگر ممالک کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے وہ ایسا کوئی اقدام و عمل نہ کریں جس سے نفرت کو ہوا ملے اور امن کے دشمن فائدہ اٹھاسکیں۔
دین اسلام ایک پرامن مذہب ہے، ایک بے گناہ شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ لیکن کچھ کٹھ پتلی طاقتوں کو جو اسلام کا نام استعمال کرکے خون ریزی کرتے رہتی ہیں ان کو سپورٹ کیا جاتا رہا ہے اگر یہ عمل بند کردیا جائے تو یقین جانیے دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ لیکن ان طاقتوں کو امن راس نہیں آتا جو یہ سمجھتے ہیں کہ ''میدان جنگ'' کے ذریعے ہی مفادات حاصل کیے جاسکتے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کے اکثریتی انسان امن پسند ہوں اور چند ہزار شدت پسند ان پر حاوی ہوں۔ یہ ناقابل امر بات ہے۔ امن پیار و محبت کا متقاضی ہے نہ کہ نفرت پھیلانے اور میدان جنگ سجانے سے امن کا قیام ممکن ہے۔