سولرپینلزسورج کی ساری توانائی جذب کرلیں گے
شمسی فارم کی مخالفت کا انوکھا جواز
PASADENA:
بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے دنیا بھر میں سولر پینلز کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ انھیں فوٹووولٹک یا سولر سیل بھی کہا جاتا ہے۔
سولر پینلز کی بدولت ان خطوں کے باسی بھی بجلی جیسی بنیادی سہولت سے مستفید ہورہے ہیں جہاں بجلی کی فراہمی کا کوئی سرکاری نظام نہیں۔ بالخصوص تیسری دنیا کے لیے سولر پینلز انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان کا استعمال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ کئی ممالک میں سولر فارم قائم ہوچکے ہیں۔ سولر فارم سے مراد ایک وسیع و عریض قطعہ اراضی ہے جس پر سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں سولر پینلز نصب ہوتے ہیں۔ ان سے حاصل ہونے والی بجلی مشترکہ طورپرایک سسٹم میں جمع ہوتی ہے اورپھرآگے فراہم کردی جاتی ہے۔ ایک سولرفارم عام طور پر اتنی بجلی پیدا کرتا ہے جو ایک قصبے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں قصبوں اورچھوٹے شہروں کے لیے الگ الگ سولر فارم قائم کرکے انھیں بجلی کی پیداوار کے معاملے میں خودکفیل بنانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔
امریکا میں بھی متعدد قصبوں کے نواح میں سولر فارم قائم کرکے ان کی بجلی کی ضروریات پوری کی جارہی ہیں۔ اسی لیے گذشتہ دنوں یہ خبر بڑی حیرانی سے پڑھی اور سُنی گئی کہ شمالی کیرولائنا کی یولو کاؤنٹی کے قصبے وُڈلینڈ کے باسیوں نے سولر فارم کے قیام کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ مگر خبر سے بھی زیادہ حیران کُن وہ جواز تھے جو ٹاؤن کونسل کے اجلاس کے دوران مقامی لوگوں نے انکار کے جواز کے طور پر پیش کیے۔ بوبی مین نامی شخص نے کہا،''سولر پینلز سورج کی ساری توانائی جذب کرلیں گے!'' سائنس کی تدریس کرنے والی ایک سابقہ سابقہ استانی کا کہنا تھا کہ سولرپینلز کی وجہ سے آس پاس کے پودے سوکھ جائیں گے، کیوں کہ ان تک دھوپ نہیں پہنچے گی، نتیجتاً وہ خوراک تیار نہیں کرپائیں گے اور مَر جائیں گے ۔ جین مین کے بیان کے مطابق اس نے کئی علاقوں میں سولر پینلز کے اطراف سوکھے ہوئے پودے دیکھے ہیں۔
البرٹو نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ آس پاس جن علاقوں میں سولر پینلز لگے ہوئے ہیں، وہاں کینسر کی وجہ سے ہلاکتوں کی شرح بڑھ گئی ہے۔ البرٹو کے مطابق ابھی تک اسے کوئی یہ یقین دہانی نہیں کرواسکا کہ سولر پینلز کینسر کا سبب نہیں بنتے۔
وُڈلینڈ میں'' اسٹراٹا سولر کمپنی'' سولر فارم قائم کرنے کی خواہش مند ہے۔ مذکورہ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وُڈلینڈ میں بجلی کا سب اسٹیشن موجود ہے۔ اس لیے اس کے اطراف کا علاقہ سولر فارم قائم کرنے کے لحاظ سے نہایت موزوں ہے۔ فارم سے حاصل ہونے والی بجلی سب اسٹیشن کے ذریعے نیشنل گرڈ میں منتقل ہوجائے گی۔ تاہم مقامی آبادی سولر فارم کے حق میں نہیں ہے۔ ٹاؤن کونسل نے حال ہی میں اس معاملے پر رائے شماری بھی کروائی تھی۔ رائے شماری کے نتائج کے مطابق ٹاؤن کی دو تہائی آبادی نے سولر فارم کے قیام کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔
بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے دنیا بھر میں سولر پینلز کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ انھیں فوٹووولٹک یا سولر سیل بھی کہا جاتا ہے۔
سولر پینلز کی بدولت ان خطوں کے باسی بھی بجلی جیسی بنیادی سہولت سے مستفید ہورہے ہیں جہاں بجلی کی فراہمی کا کوئی سرکاری نظام نہیں۔ بالخصوص تیسری دنیا کے لیے سولر پینلز انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان کا استعمال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ کئی ممالک میں سولر فارم قائم ہوچکے ہیں۔ سولر فارم سے مراد ایک وسیع و عریض قطعہ اراضی ہے جس پر سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں سولر پینلز نصب ہوتے ہیں۔ ان سے حاصل ہونے والی بجلی مشترکہ طورپرایک سسٹم میں جمع ہوتی ہے اورپھرآگے فراہم کردی جاتی ہے۔ ایک سولرفارم عام طور پر اتنی بجلی پیدا کرتا ہے جو ایک قصبے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں قصبوں اورچھوٹے شہروں کے لیے الگ الگ سولر فارم قائم کرکے انھیں بجلی کی پیداوار کے معاملے میں خودکفیل بنانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔
امریکا میں بھی متعدد قصبوں کے نواح میں سولر فارم قائم کرکے ان کی بجلی کی ضروریات پوری کی جارہی ہیں۔ اسی لیے گذشتہ دنوں یہ خبر بڑی حیرانی سے پڑھی اور سُنی گئی کہ شمالی کیرولائنا کی یولو کاؤنٹی کے قصبے وُڈلینڈ کے باسیوں نے سولر فارم کے قیام کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ مگر خبر سے بھی زیادہ حیران کُن وہ جواز تھے جو ٹاؤن کونسل کے اجلاس کے دوران مقامی لوگوں نے انکار کے جواز کے طور پر پیش کیے۔ بوبی مین نامی شخص نے کہا،''سولر پینلز سورج کی ساری توانائی جذب کرلیں گے!'' سائنس کی تدریس کرنے والی ایک سابقہ سابقہ استانی کا کہنا تھا کہ سولرپینلز کی وجہ سے آس پاس کے پودے سوکھ جائیں گے، کیوں کہ ان تک دھوپ نہیں پہنچے گی، نتیجتاً وہ خوراک تیار نہیں کرپائیں گے اور مَر جائیں گے ۔ جین مین کے بیان کے مطابق اس نے کئی علاقوں میں سولر پینلز کے اطراف سوکھے ہوئے پودے دیکھے ہیں۔
البرٹو نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ آس پاس جن علاقوں میں سولر پینلز لگے ہوئے ہیں، وہاں کینسر کی وجہ سے ہلاکتوں کی شرح بڑھ گئی ہے۔ البرٹو کے مطابق ابھی تک اسے کوئی یہ یقین دہانی نہیں کرواسکا کہ سولر پینلز کینسر کا سبب نہیں بنتے۔
وُڈلینڈ میں'' اسٹراٹا سولر کمپنی'' سولر فارم قائم کرنے کی خواہش مند ہے۔ مذکورہ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وُڈلینڈ میں بجلی کا سب اسٹیشن موجود ہے۔ اس لیے اس کے اطراف کا علاقہ سولر فارم قائم کرنے کے لحاظ سے نہایت موزوں ہے۔ فارم سے حاصل ہونے والی بجلی سب اسٹیشن کے ذریعے نیشنل گرڈ میں منتقل ہوجائے گی۔ تاہم مقامی آبادی سولر فارم کے حق میں نہیں ہے۔ ٹاؤن کونسل نے حال ہی میں اس معاملے پر رائے شماری بھی کروائی تھی۔ رائے شماری کے نتائج کے مطابق ٹاؤن کی دو تہائی آبادی نے سولر فارم کے قیام کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔