ہم یہ کہتے ہیں کہ کہیں تھے بھی مسلم موجود
مسلمانوں سے زیادہ اسلامی تعلیمات پر وہ معاشرے عمل پیرا ہیں جنہیں ہم کافر و غیر مسلم قرار دیتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 1.7 ارب سے زائد مسلمان آباد ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی یعنی 23.4 فیصد بنتے ہیں اور 2015ء کے ریکارڈ کے مطابق 193 ریاستیں اقوام متحدہ کی رکن ہیں جبکہ 2 ملک اقوام متحدہ کے تاحال ممبر نہیں ہیں اس طرح دنیا میں تقریباً 195 ملک ہیں جن میں سے کم و بیش 47 مسلم ریاستیں ہیں اور ان میں سے اب 5 ریاستیں اسلامی جمہوریہ ہیں۔ شاید آپ کے لئے یہ حیرت کی بات ہو کہ دنیا کو اسلامی جمہوریہ کی اصطلاح سے پاکستان نے متعارف کروایا تھا اور پاکستان پہلا ملک ہے جس نے اپنے لئے اسلامی جمہوریہ کی اصطلاح استعمال کی۔
1956ء کے آئین میں باقاعدہ طور پر پاکستان کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' رکھا گیا۔ اِس کے بعد 1958ء میں موریطانیہ نے بھی اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دیدیا۔ 1979ء کے انقلابِ ایران کے بعد ایران بھی اسلامی جمہوریہ بن گیا اور 1992ء میں طالبان نے جب کابل کی زمام کار سنبھالی تو افغانستان کو بھی اسلامی جمہوریہ قراردیدیا گیا۔ اب گزشتہ دنوں افریقا کے ملک گیمبیا کے صدر یحییٰ جامح نے بھی مسلم اکثریت ہونے کے ناطے اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا کہ اس سے گیمبیا کی ''مذہبی شناخت اور اقدار'' کا اظہار ہوگا اور ریاست کو نوآبادیاتی ماضی سے چھٹکارا مل جائے گا۔ عالم اسلام کے بعض حلقوں میں اس حوالے سے بڑی مسرت دیکھی گئی کہ دنیا میں ایک اور اسلامی ملک کا اضافہ ہوگیا ہے حالانکہ 2010ء کی ایک تحقیق کے مطابق گیمبیا میں پہلے سے ہی 95 فیصد مسلمان آباد ہیں لہٰذا میری دانست میں محض نام کے تبدیل کرنے پر کسی قسم کی خوشی زیب نہیں دیتی۔
کیا دنیا میں مسلمانوں کی کمی ہے؟ اگرمحض نام کے مسلمانوں کو دیکھنا ہے تو دنیا میں ہر چوتھا شخص مسلمان ہے، یہ کیا کوئی کم ہے وہ دور گئے کہ؎
شور ہے کہ ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ کہیں تھے بھی مسلم موجود؟
اب تو دنیا میں اِس قدر مسلمان ہیں کہ ہمیں ذاتی کاوشوں سے دائرہ اسلام سے مسلمانوں کوبیدخل کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے تو دائرہ کی تعریف کرتے ہوئے ابن انشاء نے کیا خوب لکھا تھا کہ
''دائرہ: دائرے چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قریب قریب سبھی گول ہوتے ہیں۔ ایک اور عجیب بات ہے کہ ان میں قطر کی لمبائی ہمیشہ نصف قطر سے دگنی ہوتی ہے۔ جیومیٹری میں اس کی کوئی وجہ نہیں لکھی گئی۔ جو کسی نے پرانے زمانے میں فیصلہ کردیا، اب تک چلا آ رہا ہے۔ ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، آج کل داخلہ منع ہے، صرف خارج کرتے ہیں''۔
دنیا میں مسلمان تو بہت ہیں مگر اسلام غریب الوطن ہے۔ ممتاز مصری عالم محمد عبدہ نے اس لئے کہا تھا کہ
''میں جب مغربی ممالک میں گیا تو وہاں میں نے اسلام کا بول بالا دیکھا لیکن مجھے مسلمان کہیں نہیں نظر آئے اور جب میں واپس مشرق میں آیا تو مسلمان تو جا بجا نظر آئے لیکن اسلام کہیں نظر نہیں آیا''
محمد عبدہ کا یہ قول ہمیں کبھی مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ سے منسوب ملتا ہے تو کبھی اسے کسی اور سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ بات جامعہ الازھر کے فارغ التحصیل اور جمال الدین افغانی کے شاگرد، ممتاز مصری عالم دین ''محمد عبدہ'' نے ہی کہی تھی کہ 1882ء میں تاجِ برطانیہ نے جب تحریک آزادی میں حصہ لینے پر انہیں جلاوطن کیا گیا تو وہ بیروت میں جا کر مقیم ہوگئے۔ دو سال تک وہاں رہنے کے بعد انہوں نے فرانس کی راہ لی اور پیرس جا کر آباد ہوگئے جہاں انہوں نے اپنے استاد جمال الدین افغانی کے ساتھ مل کر مجاہدانہ صحافت کا آغاز کیا اور افکارِ آزادی کی تبلیغ کیلئے ایک رسالہ ''عروہ الوثقیٰ'' نکالا۔ اس کے بعد محمد عبدہ نے برطانیہ اور تیونس کے دورے کیے اور پھر 1888ء میں واپس اپنے وطن یعنی مصر چلے گئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے وکالت شروع کردی اور پھر 1891ء میں انہیں جج بنا دیا گیا اور 1899ء میں وہ مصر کے مفتی اعظم کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران ایک مجلس میں محمد عبدہ نے کہا کہ ''میں جب مغربی ممالک میں گیا تو وہاں میں نے اسلام کا بول بالا دیکھا لیکن مجھے مسلمان کہیں نہیں نظر آئے اور جب میں واپس مشرق میں آیا تو مسلمان تو جا بجا نظر آئے لیکن اسلام کہیں نظر نہیں آیا''۔
اس ایک تاریخی جملے میں محمد عبدہ نے اہل اسلام کے تمام امراض کی نشاندہی کردی کہ مسلمان محض صاحب القول ہیں، صاحب العمل نہیں ہیں اور یہ جملہ ہماری آج تک کی زبوں حالی کی درست عکاسی کرتا ہے کہ دینِ اسلام کے وہ آفاقی و زیریں اصول جو اخلاقیات سے متعلق تھے، ہم نے انہیں ترک کردیا اور ان کے مقابلے میں اپنے دین کو چند عبادات اور وظائف تک محدود کرکے اسے رہبان کے ایک مذہب کا سا درجہ دیدیا۔ ہم نے اسلام کی مذہبی تعلیمات تو پکڑلیں لیکن معاشرتی تعلیمات کو فراموش کردیا کہ اور بھول گئے کہ اگر وضو کے بغیر ہماری نماز نہیں ہوتی تو حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا کہ وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کے کھائے اور اس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ آج ہم میں سے کتنوں کو یہ فکر ستاتی ہے کہ جب تک کہ ہم اپنے پڑوس کی خبر گیری نہ کر لیں، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا؟
مسلمانوں سے زیادہ اسلامی تعلیمات پر وہ معاشرے عمل پیرا ہیں جنہیں ہم کافر و غیر مسلم قرار دیتے ہیں اور امریکا کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے وابستہ پاکستانی نژاد خاتون ڈاکٹر شہر زادہ رحمٰن اور ایرانی نژاد ڈاکٹر حسین عسکری کی اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے معاشروں کے حوالے سے تحقیق اس بات کو ثابت کرچکی ہے۔ اِن دونوں حضرات نے مل کر اسلامی تعلیمات کی پیروی کے حوالے سے ایک معیار ترتیب دیا تھا جسے اسلامی انڈیکس (Islamicity Index) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس میں معاشرے کے اہم ترین شعبہ جات مثلاً سیاست، معیشت، قانون، حقوق انسانی، ماحولیات اور امن و امان کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور ان پر عمل پیرا ممالک کی فہرست تیار کرنے کا بیڑہ اٹھایا گیا۔ 2008ء میں اسلامی انڈیکس کی پہلی رپورٹ جاری کی گئی اور حیران کن طور پر اس تحقیق کا نتیجہ وہی نکلا جو مسلمان دانشور ایک عرصے سے مسلم امہ کو باور کرواتے چلے آ رہے تھے کہ غیر مسلم معاشروں میں اسلامی تعلیمات پر زیادہ شد و مد سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان دونوں محققین نے محمد عبدہ کے مذکورہ قول کو ہی اپنی تحقیق کی بنیاد بنایا۔
اب بھی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی جانب سے ہر سال اس انڈیکس کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر حسین عسکری کے مطابق نیوزی لینڈ وہ ملک ہے جہاں اسلامی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے جبکہ معاشی لحاظ سے آئر لینڈ کا اکانومی ماڈل اسلامی معاشی تعلیمات کے سب سے زیادہ قریب تر پایا گیا (جبکہ آج ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ملک چلایا جا سکتا ہے کہ نہیں، جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے، وہ کام کر رہے ہیں) اس کے بعد ڈنمارک، لکسمبرگ، سویڈن اور پھر برطانیہ کا نمبر آتا ہے۔ جبکہ مجموعی حیثیت میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ممالک میں نیوزی لینڈ کے بعد لکسمبرگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ اور اس کے بعد ڈنمارک کا نمبر آتا ہے۔
حیران کن طور پر اِس فہرست میں پہلا مسلم ملک ملائیشیا ہے جو 38ویں نمبر پر ہے اور اِس کے بعد کویت ہے جو 48ویں نمبر پرکھڑا ہے۔ اِس طرح اسلامی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل پیرا ہونے والے پچاس ممالک کی فہرست میں صرف اور صرف 2 اسلامی ملک ہیں جبکہ 208 ریاستوں کی اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 145 ہے جو یقیناً ہم سب کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ 1947ء میں ہم نے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ملک تو حاصل کرلیا مگر افسوس کہ ایک مسلم معاشرہ نہ تشکیل دے سکے۔ شاعر مشرق ''شب بھر مسجد'' کے حوالے سے شکوہ پاکستان پر سب سے زیادہ چسپاں نظر آتا ہے کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی نہ بن سکا
آج جب مسلمان گیمبیا جیسے مسلمان ملک کا نام تبدیل ہونے پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں تو مجھ جیسے اس اسلامی سٹی انڈیکس کی رپورٹ دیکھ کر یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ
ہم یہ کہتے ہیں کہ کہیں تھے بھی مسلم موجود؟
[poll id="839"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
1956ء کے آئین میں باقاعدہ طور پر پاکستان کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' رکھا گیا۔ اِس کے بعد 1958ء میں موریطانیہ نے بھی اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دیدیا۔ 1979ء کے انقلابِ ایران کے بعد ایران بھی اسلامی جمہوریہ بن گیا اور 1992ء میں طالبان نے جب کابل کی زمام کار سنبھالی تو افغانستان کو بھی اسلامی جمہوریہ قراردیدیا گیا۔ اب گزشتہ دنوں افریقا کے ملک گیمبیا کے صدر یحییٰ جامح نے بھی مسلم اکثریت ہونے کے ناطے اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا کہ اس سے گیمبیا کی ''مذہبی شناخت اور اقدار'' کا اظہار ہوگا اور ریاست کو نوآبادیاتی ماضی سے چھٹکارا مل جائے گا۔ عالم اسلام کے بعض حلقوں میں اس حوالے سے بڑی مسرت دیکھی گئی کہ دنیا میں ایک اور اسلامی ملک کا اضافہ ہوگیا ہے حالانکہ 2010ء کی ایک تحقیق کے مطابق گیمبیا میں پہلے سے ہی 95 فیصد مسلمان آباد ہیں لہٰذا میری دانست میں محض نام کے تبدیل کرنے پر کسی قسم کی خوشی زیب نہیں دیتی۔
کیا دنیا میں مسلمانوں کی کمی ہے؟ اگرمحض نام کے مسلمانوں کو دیکھنا ہے تو دنیا میں ہر چوتھا شخص مسلمان ہے، یہ کیا کوئی کم ہے وہ دور گئے کہ؎
شور ہے کہ ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ کہیں تھے بھی مسلم موجود؟
اب تو دنیا میں اِس قدر مسلمان ہیں کہ ہمیں ذاتی کاوشوں سے دائرہ اسلام سے مسلمانوں کوبیدخل کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے تو دائرہ کی تعریف کرتے ہوئے ابن انشاء نے کیا خوب لکھا تھا کہ
''دائرہ: دائرے چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قریب قریب سبھی گول ہوتے ہیں۔ ایک اور عجیب بات ہے کہ ان میں قطر کی لمبائی ہمیشہ نصف قطر سے دگنی ہوتی ہے۔ جیومیٹری میں اس کی کوئی وجہ نہیں لکھی گئی۔ جو کسی نے پرانے زمانے میں فیصلہ کردیا، اب تک چلا آ رہا ہے۔ ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، آج کل داخلہ منع ہے، صرف خارج کرتے ہیں''۔
دنیا میں مسلمان تو بہت ہیں مگر اسلام غریب الوطن ہے۔ ممتاز مصری عالم محمد عبدہ نے اس لئے کہا تھا کہ
''میں جب مغربی ممالک میں گیا تو وہاں میں نے اسلام کا بول بالا دیکھا لیکن مجھے مسلمان کہیں نہیں نظر آئے اور جب میں واپس مشرق میں آیا تو مسلمان تو جا بجا نظر آئے لیکن اسلام کہیں نظر نہیں آیا''
محمد عبدہ کا یہ قول ہمیں کبھی مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ سے منسوب ملتا ہے تو کبھی اسے کسی اور سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ بات جامعہ الازھر کے فارغ التحصیل اور جمال الدین افغانی کے شاگرد، ممتاز مصری عالم دین ''محمد عبدہ'' نے ہی کہی تھی کہ 1882ء میں تاجِ برطانیہ نے جب تحریک آزادی میں حصہ لینے پر انہیں جلاوطن کیا گیا تو وہ بیروت میں جا کر مقیم ہوگئے۔ دو سال تک وہاں رہنے کے بعد انہوں نے فرانس کی راہ لی اور پیرس جا کر آباد ہوگئے جہاں انہوں نے اپنے استاد جمال الدین افغانی کے ساتھ مل کر مجاہدانہ صحافت کا آغاز کیا اور افکارِ آزادی کی تبلیغ کیلئے ایک رسالہ ''عروہ الوثقیٰ'' نکالا۔ اس کے بعد محمد عبدہ نے برطانیہ اور تیونس کے دورے کیے اور پھر 1888ء میں واپس اپنے وطن یعنی مصر چلے گئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے وکالت شروع کردی اور پھر 1891ء میں انہیں جج بنا دیا گیا اور 1899ء میں وہ مصر کے مفتی اعظم کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران ایک مجلس میں محمد عبدہ نے کہا کہ ''میں جب مغربی ممالک میں گیا تو وہاں میں نے اسلام کا بول بالا دیکھا لیکن مجھے مسلمان کہیں نہیں نظر آئے اور جب میں واپس مشرق میں آیا تو مسلمان تو جا بجا نظر آئے لیکن اسلام کہیں نظر نہیں آیا''۔
اس ایک تاریخی جملے میں محمد عبدہ نے اہل اسلام کے تمام امراض کی نشاندہی کردی کہ مسلمان محض صاحب القول ہیں، صاحب العمل نہیں ہیں اور یہ جملہ ہماری آج تک کی زبوں حالی کی درست عکاسی کرتا ہے کہ دینِ اسلام کے وہ آفاقی و زیریں اصول جو اخلاقیات سے متعلق تھے، ہم نے انہیں ترک کردیا اور ان کے مقابلے میں اپنے دین کو چند عبادات اور وظائف تک محدود کرکے اسے رہبان کے ایک مذہب کا سا درجہ دیدیا۔ ہم نے اسلام کی مذہبی تعلیمات تو پکڑلیں لیکن معاشرتی تعلیمات کو فراموش کردیا کہ اور بھول گئے کہ اگر وضو کے بغیر ہماری نماز نہیں ہوتی تو حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا کہ وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کے کھائے اور اس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ آج ہم میں سے کتنوں کو یہ فکر ستاتی ہے کہ جب تک کہ ہم اپنے پڑوس کی خبر گیری نہ کر لیں، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا؟
مسلمانوں سے زیادہ اسلامی تعلیمات پر وہ معاشرے عمل پیرا ہیں جنہیں ہم کافر و غیر مسلم قرار دیتے ہیں اور امریکا کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے وابستہ پاکستانی نژاد خاتون ڈاکٹر شہر زادہ رحمٰن اور ایرانی نژاد ڈاکٹر حسین عسکری کی اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے معاشروں کے حوالے سے تحقیق اس بات کو ثابت کرچکی ہے۔ اِن دونوں حضرات نے مل کر اسلامی تعلیمات کی پیروی کے حوالے سے ایک معیار ترتیب دیا تھا جسے اسلامی انڈیکس (Islamicity Index) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس میں معاشرے کے اہم ترین شعبہ جات مثلاً سیاست، معیشت، قانون، حقوق انسانی، ماحولیات اور امن و امان کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور ان پر عمل پیرا ممالک کی فہرست تیار کرنے کا بیڑہ اٹھایا گیا۔ 2008ء میں اسلامی انڈیکس کی پہلی رپورٹ جاری کی گئی اور حیران کن طور پر اس تحقیق کا نتیجہ وہی نکلا جو مسلمان دانشور ایک عرصے سے مسلم امہ کو باور کرواتے چلے آ رہے تھے کہ غیر مسلم معاشروں میں اسلامی تعلیمات پر زیادہ شد و مد سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان دونوں محققین نے محمد عبدہ کے مذکورہ قول کو ہی اپنی تحقیق کی بنیاد بنایا۔
اب بھی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی جانب سے ہر سال اس انڈیکس کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر حسین عسکری کے مطابق نیوزی لینڈ وہ ملک ہے جہاں اسلامی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے جبکہ معاشی لحاظ سے آئر لینڈ کا اکانومی ماڈل اسلامی معاشی تعلیمات کے سب سے زیادہ قریب تر پایا گیا (جبکہ آج ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ملک چلایا جا سکتا ہے کہ نہیں، جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے، وہ کام کر رہے ہیں) اس کے بعد ڈنمارک، لکسمبرگ، سویڈن اور پھر برطانیہ کا نمبر آتا ہے۔ جبکہ مجموعی حیثیت میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ممالک میں نیوزی لینڈ کے بعد لکسمبرگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ اور اس کے بعد ڈنمارک کا نمبر آتا ہے۔
حیران کن طور پر اِس فہرست میں پہلا مسلم ملک ملائیشیا ہے جو 38ویں نمبر پر ہے اور اِس کے بعد کویت ہے جو 48ویں نمبر پرکھڑا ہے۔ اِس طرح اسلامی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل پیرا ہونے والے پچاس ممالک کی فہرست میں صرف اور صرف 2 اسلامی ملک ہیں جبکہ 208 ریاستوں کی اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 145 ہے جو یقیناً ہم سب کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ 1947ء میں ہم نے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ملک تو حاصل کرلیا مگر افسوس کہ ایک مسلم معاشرہ نہ تشکیل دے سکے۔ شاعر مشرق ''شب بھر مسجد'' کے حوالے سے شکوہ پاکستان پر سب سے زیادہ چسپاں نظر آتا ہے کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی نہ بن سکا
آج جب مسلمان گیمبیا جیسے مسلمان ملک کا نام تبدیل ہونے پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں تو مجھ جیسے اس اسلامی سٹی انڈیکس کی رپورٹ دیکھ کر یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ
ہم یہ کہتے ہیں کہ کہیں تھے بھی مسلم موجود؟
[poll id="839"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔