رونق حیات کی نعت گوئی
ان نعتوں کی بڑی خوبی یہ کہ نعت گو نےاپنی عقیدت وارادت کو حدّ ادب سے باہر نہیں ہونے دیا ہے، نہ ہی غلو کا شکار ہوئے ہیں۔
KARACHI:
عام طور سے ان نعتوں کو پڑھتے ہوئے یہی احساس ابھرتا ہے کہ ہم شاعری نہیں بلکہ شاعری کے پردے میں خاک پائے محمد صل اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو آنکھوں کا سرمہ بنانے کی جستجو سے لبریز دل کے جذبے کے احساسات سے متعارف ہورہے ہیں۔ ان نعتوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ نعت گو نے اپنی عقیدت و ارادت کو حدّ ادب سے باہر نہیں ہونے دیا ہے، نہ ہی غلو کا شکار ہوئے ہیں۔
نعتیہ کلام پر مبنی مجموعہ چھپنا ایک سعادت ہے۔ اِس شرف سے بہرہ مند ہونے والے رونق حیات کے اس مجموعے کا عنوان ''پاؤں چھونے کی طلب'' بھی اپنی انفرادیت کے سبب متوجہ کرتا ہے۔ سادہ اور دل نشیں مصرعوں پر مشتمل یہ نعتیہ کلام یقیناً مطالعہ کرنا بھی ایک سعادت ہے۔ اس کے مضامین عمومی نعتیہ مضامین کے رجحان سے ممیز دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں بار بار دہرائے جانے کا رجحان بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے چند مضامین کو منتخب کرکے ان پر خوب طبع آزمائی کی ہے اور یوں تنوع کا احساس نہیں ہوتا۔ رونق حیات نہ صرف اچھے غزل گو ہیں بلکہ ان کی نظمیں بھی قابل ذکر ہیں۔ نعت گوئی کے میدان میں ان کے ہاں تخلیقی وفور کی جگہ عقیدت و ارادت کا سیدھا سادہ اظہار پایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں مروج نعتیہ مضامین کے برعکس بھرپور تازگی دیکھنے کو ملتی ہے۔
یہ شعر ملاحظہ کریں، رونق حیات کی نعتیہ شاعری اس ایک شعر کا مکرر اظہار معلوم ہوتی ہے۔
نعتیہ مجموعوں میں ''پاؤں چھونے کی طلب'' ایک اچھا اور منفرد اضافہ ہے۔ چند منتخب نعتیہ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو میں نے اس گل دستہ عقیدت سے چنے ہیں جن میں عقیدت شعور کی سطح پر اپنا اظہار کرتی ہے۔ یہی رونق حیات کی انفرادیت ہے۔
بلاوا جو آئے تو تم دیکھ لینا
چلا جائے گا پھر یہ شاعر مدینہ
ان کے قدموں کو چھو کے آئی ہے
یہ جو دستار ہے مرے سر کی
آپ آئے تو عقل انساں نے
آگہی اور شعور کو دیکھا
ہر زمانے پہ ہے کرم ان کا
ہر زمانہ مرے حضور کا ہے
بیمار محبت کے ہر غم کا مداوا ہے
پاتے ہیں شفا جاکر بیمار مدینے میں
یہ عشق محمدؐ ہے اس عشق محمدؐ میں
دن مکے میں گزرے گا اور رات مدینے میں
آپؐ کی گفتگو ہے فصاحت کی جاں
کوئی دیکھے تو حسنِ بیاں آپ کا
ان کے در کی غلامی نہ جن کو ملی
زندگی ان کی تصویر غم ہوگئی
در رسولؐ پہ پہنچا تو ہوگئی پوری
وہ آرزو جو سدا میری چشم تر میں رہی
آنسوؤں سے نام لکھوں آپؐ کا
روتے روتے آنکھ کو پانی کروں
نسبت مصطفیٰ سے آئی ہے
زندگی کے شعور کی خوشبو
وہ رات جس میں خدا سے ملے تھے اس کے حبیب
وہ رات اب بھی سر لامکان رقص میں ہے
ہم اپنا نام غلاموں میں ان کے لکھوا کر
خود اپنے نام کی قیمت بڑھا کے چلتے ہیں
ایک سو چہتر صفحات کی یہ کتاب' ناشر نیازمندان کراچی نے بہترین کاغذ اور لے آؤٹ پر چھاپی ہے۔ قیمت چارسو روپے رکھی گئی ہے اور 03002184867 پر حاصل کی جاسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
عام طور سے ان نعتوں کو پڑھتے ہوئے یہی احساس ابھرتا ہے کہ ہم شاعری نہیں بلکہ شاعری کے پردے میں خاک پائے محمد صل اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو آنکھوں کا سرمہ بنانے کی جستجو سے لبریز دل کے جذبے کے احساسات سے متعارف ہورہے ہیں۔ ان نعتوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ نعت گو نے اپنی عقیدت و ارادت کو حدّ ادب سے باہر نہیں ہونے دیا ہے، نہ ہی غلو کا شکار ہوئے ہیں۔
بس یہی حدّ ادب ہے آقاؐ
پاؤں چھونے کی طلب ہے آقاؐ
نعتیہ کلام پر مبنی مجموعہ چھپنا ایک سعادت ہے۔ اِس شرف سے بہرہ مند ہونے والے رونق حیات کے اس مجموعے کا عنوان ''پاؤں چھونے کی طلب'' بھی اپنی انفرادیت کے سبب متوجہ کرتا ہے۔ سادہ اور دل نشیں مصرعوں پر مشتمل یہ نعتیہ کلام یقیناً مطالعہ کرنا بھی ایک سعادت ہے۔ اس کے مضامین عمومی نعتیہ مضامین کے رجحان سے ممیز دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں بار بار دہرائے جانے کا رجحان بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے چند مضامین کو منتخب کرکے ان پر خوب طبع آزمائی کی ہے اور یوں تنوع کا احساس نہیں ہوتا۔ رونق حیات نہ صرف اچھے غزل گو ہیں بلکہ ان کی نظمیں بھی قابل ذکر ہیں۔ نعت گوئی کے میدان میں ان کے ہاں تخلیقی وفور کی جگہ عقیدت و ارادت کا سیدھا سادہ اظہار پایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں مروج نعتیہ مضامین کے برعکس بھرپور تازگی دیکھنے کو ملتی ہے۔
میرے آقاؐ نے بہت اس کی مسیحائی کی
جب میں لے کر دل بیمار مدینے پہنچا
یہ شعر ملاحظہ کریں، رونق حیات کی نعتیہ شاعری اس ایک شعر کا مکرر اظہار معلوم ہوتی ہے۔
پھر اس کے بعد مجھے کوئی جستجو نہ رہی
ہوئی ہے جب سے مدینے کی جستجو مجھ کو
نعتیہ مجموعوں میں ''پاؤں چھونے کی طلب'' ایک اچھا اور منفرد اضافہ ہے۔ چند منتخب نعتیہ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو میں نے اس گل دستہ عقیدت سے چنے ہیں جن میں عقیدت شعور کی سطح پر اپنا اظہار کرتی ہے۔ یہی رونق حیات کی انفرادیت ہے۔
بلاوا جو آئے تو تم دیکھ لینا
چلا جائے گا پھر یہ شاعر مدینہ
ان کے قدموں کو چھو کے آئی ہے
یہ جو دستار ہے مرے سر کی
آپ آئے تو عقل انساں نے
آگہی اور شعور کو دیکھا
ہر زمانے پہ ہے کرم ان کا
ہر زمانہ مرے حضور کا ہے
بیمار محبت کے ہر غم کا مداوا ہے
پاتے ہیں شفا جاکر بیمار مدینے میں
یہ عشق محمدؐ ہے اس عشق محمدؐ میں
دن مکے میں گزرے گا اور رات مدینے میں
آپؐ کی گفتگو ہے فصاحت کی جاں
کوئی دیکھے تو حسنِ بیاں آپ کا
ان کے در کی غلامی نہ جن کو ملی
زندگی ان کی تصویر غم ہوگئی
در رسولؐ پہ پہنچا تو ہوگئی پوری
وہ آرزو جو سدا میری چشم تر میں رہی
آنسوؤں سے نام لکھوں آپؐ کا
روتے روتے آنکھ کو پانی کروں
نسبت مصطفیٰ سے آئی ہے
زندگی کے شعور کی خوشبو
وہ رات جس میں خدا سے ملے تھے اس کے حبیب
وہ رات اب بھی سر لامکان رقص میں ہے
ہم اپنا نام غلاموں میں ان کے لکھوا کر
خود اپنے نام کی قیمت بڑھا کے چلتے ہیں
ایک سو چہتر صفحات کی یہ کتاب' ناشر نیازمندان کراچی نے بہترین کاغذ اور لے آؤٹ پر چھاپی ہے۔ قیمت چارسو روپے رکھی گئی ہے اور 03002184867 پر حاصل کی جاسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔