بانیء پاکستان اور ان کی 11اگست کی تقریر

اپنے عشرت کدوں کے اندرہی نہیںباہر بھی ہر جگہ موج مستی اور شراب و شباب سے بھرپور ایک بے



CHICAGO: اپنے عشرت کدوں کے اندرہی نہیںباہر بھی ہر جگہ موج مستی اور شراب و شباب سے بھرپور ایک بے مہار (unchecked) زندگی کے خواہشمند خواتین و حضرات اسلام کے چند قوانین سے خوفزدہ ہیں اس لیے دین سے بغض اور عناد رکھتے ہیں اور بانیء پاکستان کو بھی ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں مگر تاریخ ان کا ساتھ نہیں دیتی حقائق ان کی خواہشات کے برعکس ہیں۔

انگلستان سے پڑھے ہوئے جدید سوچ رکھنے والے، انگریزی وضع قطع کے صاف ستھرے قابل وکیل محمد علی جناح نے ہندو مسلم اتّحاد کی انتھک کوششیں کیں۔ انھی کوششوں کے دوران اسے ہندو ذہنیّت کو دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملاتواُسکی آنکھیں کھل گئیں اور وہ مایوس ہوکر لندن چلا گیا۔

اگر وہ سکیولر ہوتا تو علاّمہ اقبال ؒکے خطوط کے جواب میںصاف کہہ دیتاکہ "میں سیکولر ہوں ،سیکولر اور لبرل کے پیروکار پورے معاشرے کی بات کرتے ہیں، وہ ایک مذہبی کمیونیٹی کے ساتھ اپنے آپ کو identify نہیں کرتے"۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ وہ کسی مفاد اورمنافقت سے بہت بلند تھا اس لیے پوری طرح سوچ سمجھ کر اس نے مکمّل یکسوئی سے فیصلہ کیا اور ھندوستان واپس آکر اسلامی نظریہء حیات کے پیروکاروں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوگیا اور ان کی راہنمائی کا پرچم اٹھالیا۔

جواہر لال نہرو سوشلزم سے متاثر اور سیکولر زم کا پرچارک تھا۔ قائدِ اعظم نے اپنی پوری زندگی میں ایک بار بھی سیکولرزم کا لفظ نہیں بولا۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کررہا ہوں، میںپسے ہوئے طبقے کی راہنمائی کررہا ہوں یا میںHave Notsحقوق کے لیے نکلا ہوں ۔ بہت واضح اور غیر مبہم انداز میں وہ ایک مذہب کے پیروکاروں یعنی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوئے، Communal ہونے کے الزام کا سامنا کیا مگر آخر دم تک علی الاعلان صرف اور صرف مسلمانوں کی نمائیندگی کا دعویٰ کیا اور انھی کی راہنمائی کرتے رہے۔ کسی ڈر، خوف اور احساسِ کمتری کے بغیر، پورے اطمینانِ قلب اور خود اعتمادی کے ساتھ۔۔ ۔

ہمارے ملک کا دین بیزار طبقہ (جسکی تعدادپورے ملک میں بہت کم مگر برقی میڈیا پربہت زیادہ ہے اپنے کوٹے سے کہیں زیادہ ) اپنی سوچ کے حق میںقائد ؒکی کسی تقریریا بیان سے سند ڈھونڈتا رہا مگر ہزارہا تقریروں میں سے کچھ نہ ملا۔۔ بالآخر انھیں11اگست1947 کی تقریر سے دو یا تین فقرے نظر آگئے جنھیں سیاق و سبا ق کے بغیر اٹھالیا اور پروپیگنڈا شروع کردیا کہ بانیء پاکستان سیکولر تھے اور ان کے خیال میں مذہب کا ریاستی امور سے کسی قسم کا کوئی تعلّق نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ فقرے کس پس منظر میں کہے گئے قائدِ اعظمؒ کے ذہن میں کیا تھا ۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔

برِّصغیر کی تقسیم کا اعلان ہونے کے فوراً بعداگست سے پہلے ہی فسادات شروع ہوگئے تھے۔ اپنے خوابوں کی جنّت، پاکستان تک پہنچنے کے لیے لاکھوں لوگ ہندوستان سے پاکستان کی جانب چل پڑے تھے ۔ ان میں سے ہزاروں کو راستے میں شہید کردیا گیا ، اُ دھر سے لاشیں پاکستان پہنچیں تو یہاں بھی ھندؤں اور سکھوں پر حملے شروع ہوگئے۔

یہ خبریں سن کر قائدِ اعظم بہت افسردہ اور مضطرب تھے مس فاطمہ جناح کے بقول ہندوستان میں مسلمانوں اور پاکستان میں غیر مسلموں کی جان و مال کے بارے میں قائد بے حد پریشان تھے اور اس کے ذکر سے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ انھیں اس بات پر بجا طور پر بہت تشویش تھی کہ عدمِ تحفّظ کے باعث ھندو اور سکھ پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں۔

لہذا نئے ملک کے حکمران کی حیثیت سے وہ اپنا فرض سمجھتے تھے کہ مذہبی بنیاد پر پھوٹنے والے فسادات کو روکا جائے ، مسلمانوں اورھندؤں کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جائے اور پاکستان میں رہنے والے غیرمسلموں کو یہیں رہنے پر آمادہ کیا جائے انھیں یقین دلایا جائے کہ انھیں یہاں تحفّظ ملے گا اور وہ نئے ملک میں کمتر حیثّیت سے نہیں برابر کے شہریو ں کی طرح رہیں گے ۔

اس تقریر میں قائدِ اعظمؒ نے نئے ملک کے لیے اپنی ترجیحات کا ذکر کیا اور ان تمام برائیوں کے خاتمے پر زور دیا جن کے باعث بعد میں قومی ادارے برباد ہوئے۔ اُس وقت بھی قائدؒ نے سب سے پہلے امن و امان کی بحالی اور اس کے فوراً بعد رشوت خوری اور کرپشن کو زہر قرار دیکر اس کے خاتمے پر زور دیا، اس کے بعد بلیک مارکیٹنگ کو ایک سنگین جرم قرار دیا۔

قائد نے اقرباء پروری (Nepotism ) کو بھی لعنت قرار دیتے ہوئے اس سے اجتناب برتنے کی ہدایت کی اوراس کے بعدقائدؒ اقلیّتوں کے خدشات دور کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس مسئلے کا بڑے مَنطقی انداز میں تجزیہ کیا اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر باہمی تعاون اور رواداری پر زور دیا ھندو مسلم کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے برطانیہ میں کیتھولک اور پروٹسسنٹ عیسائیوں کے خونی جھگڑوں کی مثال دی اور بتایا کہ وہ کشیدگی قصئہ ماضی بن چکی ہے اور جس طرح برطانیہ کے شہری اب کیتھولک یا پروٹسنٹ نہیںمساوی حقوق رکھنے والے صرف برطانوی شہری ہیں اسی طرح یہاں بھی مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ صرف اور صرف پاکستانی شہری بن جائیں گے۔

اقلیتوں کو تحفظ کی یقین دہانی اور reassurance کے لیے قائدؒ نے انھیں یقین دلایاکہ آپ اپنی اپنی عبادتگاہوں میں عبادت کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہونگے۔ اِس وقت چونکہ کشیدگی کی فضاء ہے اس لیے ھندو مسلم کی تقسیم نمایاں ہے مگر یہ کشیدگی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی پھر آپ کی پہچان آپ کے عقیدے کی بناء پر نہیں بلکہ صرف پاکستان کے شہری کی حیثّیت سے ہوگی۔

قائدِ اعظمؒ کے واضح نظریات کے پیشِ نظر کئی لوگوں نے اس تقریر کو نظریات سے انخراف بھی کہا، ان کی آٹو بائیو گرافی لکھنے والے مورّخ سٹینلے وولپرٹ نے اسے Reversal قرار دیا۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

یہ تقریر وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ نئے ملک کے حکمران کو اقلیتوں کے خدشات دور کرنے کے لیے ایسی یقین دہانی ضرور کرانی چاہیے تھی ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس تقریر کو بجا طور پر میثاقِ مدینہ کی اسپرٹ کے مطابق قرار دیا ۔

قائدِ اعظمؒ پاکستان میں بلاشبہ تھیوکریسی نہیں چاہتے تھے، اسلام میں تو ویسے بھی انتہاپسندی نہیں، توازن ہے مگر قائدؒ نے سیکڑوں مرتبہ اس عزم کا اظہار کیا کہ ـ"پاکستان کا نظام اسلام کے سماجی انصاف کے نظرئیے کے مطابق تشکیل دیاجائیگا"۔ اور یہ تو ان کے دشمن بھی مانتے ہیں کہ وہ منافقت سے بہت بلند تھے اور وہی کہتے تھے جسے صحیح سمجھتے تھے۔ بانیء پاکستان ٹی وی پر بیٹھے ہوئے حضرات سے سو گنا زیادہ پروگریسو اور روشن خیال تھے، ھندؤں کی ایلیٹ کلاس سے ان کی دوستیاں بھی تھیں اس کے باوجود اُنکے بارے میں قائد ؒکے نظریات بہت واضح تھے۔ کہتے ہیں

"Hindu society and philosophy are the most exclusive in the world... How can you put 100 million of Muslims together with 250 millions whose way of life is so different. Unity of India was a myth'...... 'There is not one Indian nation... the Hindus and Muslims belong to two different religions, philosophies, social customs, and literatures. They neither intermarry nor Interdine together, In deed they belong to two different civilizations".

11اگست کے بعد 14اگست بھی آیا جب قانون ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں مغل بادشاہ اکبر کی رواداری کی تقلیدکا 'درس' دیا جس کے بعد قائدِ اعظمؒ نے کہا "اس رواداری کا آغاز مغلیہ دور سے نہیں آج سے تیرہ سو سال پہلے ہوا تھا جب ہمارے نبیﷺ نے زبانی نہیں عملی طور پر مفتوح یہودیوں اور عیسائیوں سے بے پناہ رواداری اور ان کے مذہب کے لیے احترام کا رویّہ اپنایا ۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ اقلیتوں کے ساتھ رواداری اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے بھری ہوئی ہے اس کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے " ۔

قائدؒ احساسِ کمتری سے بلند تھے اسی لیے وہ اپنے دین اپنی اقدار اور اپنے کلچر پر فخر کرتے تھے اور فخر کے ساتھ اس کا برملا اظہار کرتے تھے، ریاستی امور چلانے کے لیے نئے ملک کے حُکمران اسلام کے اصولوں سے راہنمائی نہیں لیں گے، ایسا نہ قائدِاعظمؒ سوچ سکتے تھے اور نہ پاکستان کے لیے جدّوجہد کرنے والے راہنما ۔ قائدؒ کے دستِ راست اور آکسفورڈ کے فارغ التحصیل لیاقت علی خان نے اسی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے بتایا کہ "پاکستان ایک جدید جمہوری ملک ہوگا جسکے امور اﷲ تعالیٰ (Who is the ultimate source of Authority and Power) کی قائم کردہ حدود کے اندر رہ کر چلائے جائیں گے"۔

قائدؒ کی سالگرہ کے موقع پر ان کے بارے میں سٹینلے وولپرٹ کی کتاب میں درج ھندوستان کے وائسرائے لارڈ دیول کے خیالات قارئین سے شیئر کررہا ہوں ۔"کیبنٹ مشن کے ارکان پیتھک لارنس، کرپس اور الیگزنڈر برطانیہ کے بہترین دماغ تھے مگر جناح کی قانونی بصیرت ان سے اعلیٰ نکلی اس لیے تینوں ملکر بھی اسے مات نہ دے سکے" ۔

پسِ تحریر:بنگلہ دیش کی تیسری بڑی پارٹی جماعتِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل اور بنگلہ دیش کے آئین کے تحت وزارت کا حلف اٹھا کر کئی سال وزیر رہنے والے علی احسن محمد کو بھی بنگلہ دیش پر بھارت کی مسلّط کردہ خونی قاتلہ نے 45سال پہلے پاکستان سے تعلق کے جرم میں پھانسی دے دی ہے۔علی احسن کی شہادت پر بانیانِ پاکستان کی روحیں پھر تڑپ اٹھی ہونگی !۔۔ کیا پوری دنیا میں اس خونی عورت کو روکنے والا کوئی نہیں ؟

نوٹ:عوام نے ایم کیو ایم کو مینڈیٹ دیا ہے اس لیے کراچی کا میئر بنانا ان کا حق ہے، مگر پارٹی کسی ایسے شخص کو نامزد کرے جس پر کوئی کیس نہ ہو جو سب کے لیے کسی حد تک قابلِ قبول ہو۔ سندھ کے سابق ہوم منسٹر پر سنگین نوعیّت کے الزامات ہیں اس لیے وہ اس عہدے کے لیے ہرگز مناسب نہیں۔ سب کا خیال تھا کہ فوج اور رینجرز نے اگر صحیح معنوں میں بااثر لوگوں پر ہاتھ ڈالا تو ڈاکٹر عاصم سے پہلے 12مئی کے قتلِ عام میں سابق ہوم منسٹر کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا جائے گا۔ شہرِ قائد کا میئر بے داغ ہونا چاہیے اس ضمن میں نیک نام کور کمانڈر ، عدلیہ اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں