دے گھما کے

اس کے تمام اخراجات وفاق ادا کرتا ہے، کراچی آپریشن تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے شروع کیا تھا


اللہ رکھیو سومرو December 23, 2015

کراچی میں جاری رینجرز آپریشن کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کو اختیارات دیے جانے کے عرصے میں توسیع کے حکم نامے کو مشروط کر کے ایک نئی بحث کا آغاز کیا گیا ہے۔

جب کہ اسمبلی سے باہر کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں سیاسی، سماجی، مذہبی، ادبی، ٹریڈ و لیبر یونینز، سول سوسائٹی کے نمایندوں اور عام شہر یو ں نے رینجرز کو حاصل اختیارات کی مدت میں توسیع کے کام کو تعطل میں ڈالنے پر سندھ حکومت کے خلاف اور رینجرز آپریشن کے حق میں ''سو فیصد ان کے مغربی جمہوری انداز میں'' اپنے احتجاجات نوٹ کروائے ہیں۔

ایسی صورتحال کے پیش نظر حالیہ دنوں میں سندھ کی صوبائی حکومت اور پاکستان کی وفاقی حکومت کے اہم عہدیداران میں تلخ کلامی ''دعوت مبارزت'' اور خاموش نہ رہنے کی صورت میں مبینہ طور پر ویڈیوز دکھانے کی دھمکیاں بھی دی جانے لگیں۔

وفاقی حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رینجرز آپریشن کے متعلق کہا کہ ''بہت آگے نکل آئے ہیں، واپسی ممکن نہیں، جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے سندھ حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے وضاحت کر دی ہے کہ ''کچھ لوگوں کو جمہوریت اچھی نہیں لگتی، ہماری رینجرز کو متنازعہ نہ بنایا جائے اسے پورے اختیارات دیں گے، وزیر داخلہ سیاسی کھیل نہ کھیلیں، آپشن استعمال کریں، پاکستان اور سندھ پر رحم کیا جائے، بات دور تک جائے گی، وفاق آپریشن کے لیے کچھ نہیں دے رہا۔'' جس کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ ''رینجرز وفاقی ادارہ ہے۔

اس کے تمام اخراجات وفاق ادا کرتا ہے، کراچی آپریشن تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے شروع کیا تھا جو آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جاری رہے گا۔'' ادھر پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہا کہ ''سندھ حکومت نے رینجرز کو اپنی مدد کے لیے بلایا تھا، ڈکٹیشن کے لیے نہیں بلایا۔'' اسی بحث کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ تو پیپلز پارٹی کے تیس سالہ پرانے جیالے بن کر گرجے کہ ''رینجرز کو دہشتگردی روکنے کے لیے بلایا، وہ کرپشن کے معاملات میں گھس گئی، اسے اختیارات دینے کی کوئی جلدی نہیں۔ وفاق سندھ پر حملہ آور ہے، تین چار وفاقی ایجنسیاں ہم سے لڑ رہی ہیں۔ ایف آئی اے اور نیب کے چھاپوں سے صوبائی مشینری کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔

بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اینٹی کرپشن کا محکمہ موجود ہے۔ ایف آئی اے اپنے دائرے میں رہے۔'' اس سارے منظرنامے میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ کراچی کا امن قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔اس تہلکہ خیز سیاق و سباق میں ملک کے دانشور اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ ''ڈاکٹر عاصم کیس سیاسی قیادت اور سیکیورٹی اداروں میں تلخیاں بڑھانے کا سبب بنتا جا رہا ہے، حالانکہ اس سے پہلے بھی سندھ حکومت کی جانب سے شہداء کے لیے زمینیں الاٹ کرنے کے مسئلے کو لے کر نئی بحث کو جنم دیا گیا تھا۔

جس کے دوران ماڈل ایان علی پر منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ضمانت اور پاسپورٹ کی حوالگی کے سوال تک پہنچنے سے لے کر موجودہ مرحلے تک ظاہر ہونے والی صورتحال کی روشنی میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور ان کے اقبال جرم کرنے سے لے کر صحت جرم سے انکار کرنے تک کے منظرنامے میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ سندھ حکومت سیکیورٹی اداروں سے اپنے ''جمہوری مطالبے'' منوانے میں اب تک کامیاب ہوتی آئی ہے۔

شاید اسی لیے ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کیس میں دن بدن نرمی برتے جانے کے پہلو کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ جس کا اظہار ڈاکٹر عاصم کے رینجرز کے متعلق دیے جانے والے بیان سے بھی ہوتا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ سندھ حکومت کسی طور پر بھی کراچی رینجرز آپریشن کے خلاف ہے یا اس کو مکمل ہونے سے پہلے روکنا چاہتی ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کراچی میں امن قائم کروانے کے لیے پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت نے اس وقت کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی قیادت میں لیاری آپریشن کروایا اور سردار عبدالرحمٰن بلوچ (رحمٰن ڈکیت) کو مبینہ طور پر پولیس مقابلہ میں قتل کرنے کے بعد نامکمل چھوڑ دیا گیا تو بدامنی پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی۔

لیاری کا علاقہ اور معصوم بلوچوں کی زندگی کا بڑا عرصہ گینگ وار کے گھیرے میں رہا۔ دیگر اسباب سے قطع نظر صوبائی حکومت کی کارکردگی پر رینجرز کے اثر انداز ہونے کی بات کا تعلق ہے تو کراچی کے علاوہ اندرون سندھ میں حالیہ رینجرز آپریشن سے پہلے امن و امان کی صورتحال یہ تھی کہ خود وزیر اعلیٰ سندھ کے حلقہ انتخاب خیرپور میں بیک وقت پندرہ پندرہ لوگ ڈیڑھ دو ماہ تک ڈاکوؤں کے پاس یرغمال بنے رہنے لگے تھے، جنھیں ورثا نے تاوان کے عوض بازیاب کرایا۔ جب کہ پورے سندھ میں پولیس سمیت تمام صوبائی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔

اس ساری صورتحال میں قابل ذکر واقعہ جیکب آباد میں نورالدین کھونہارو نامی ڈی ایس پی کا ہے، جس نے انعام یافتہ اشتہاری ملزم درویش جکھرانی کو مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں قتل کیا تو بعد میں قبائلی اثر و رسوخ اور رسم و رواج نے صوبائی محکمہ پولیس کے افسر کو اتنا مجبور کر دیا کہ بلوچستان میں ایک قبائلی جرگہ منعقد کر کے ملزم درویش جکھرانی کو قتل کرنے کے الزام میں ڈی ایس پی پر لاکھوں روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا اور ڈی ایس پی نورالدین کھونہارو نے وہ جرمانہ ادا کرنے کی حامی بھر کے قبائلی طور پر اپنی گلوخلاصی کروانے جیسا قدم اٹھایا۔

جب کہ مقابلے کے وقت ڈی ایس پی کے عملے میں موجود اہلکار ہیڈ کانسٹیبل کوڑو خان کٹو کو جرگہ نہ کروانے کی پاداش میں پولیس موبائل میں بیٹھے دوران ڈیوٹی شہر کے گنجان آباد علاقے جانی ڈیرو ناکہ پر دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔ شکارپور تا لاڑکانہ وایہ گڑھی یاسین روڈ تو جیسے نوگو ایریا بنا رہا۔ بدامنی کا یہ عالم تھا کہ اس روڈ پر شمالی سندھ کی قبائلی شخصیت سابق ایم این اے میر بابل خان جکھرانی کو بھی دن دہاڑے لوٹ لیا گیا۔ لیاری میں تو خیر گینگ وار اور کراچی کے دیگر حصوں میں بھتہ وار تھی لیکن سندھ میں ٹرائیبل وار کا دور دورا تھا۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج خان درانی کے حلقہ انتخاب گڑھی یاسین کے علاقہ لاکھاپل پر پیپلز پارٹی کے حامی مگسی اور قمبرانی قبائل کے مابین دوران تصادم تین گھنٹوں کی فائرنگ کے نتیجے میں فریقین کے ٹوٹل 21 افراد قتل کر دیے گئے۔

جب کہ کچھ ہلاک شدگان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔ اس سے قبل اسی علاقہ میں قمبرانی اور مارفانی قبائل کے مابین ہوئے جھگڑے میں فریقوں کے 105 افراد قتل کر دیے جانے کے واقعات رونما ہوتے رہے لیکن یہ تمام عرصہ صوبائی ادارے خواب خرگوش میں مست تھے۔ تاآنکہ اس ساری خونریزی کے ذمے داران کو رینجرز نے آ کر گرفتار کر کے ریاستی عدلیہ کے کٹہرے میں پیش نہ کر دیا، علاقہ جنگ کا میدان بنا رہا۔ ایسے واقعات سے سندھ کا ہر شہر گزر چکا ہے، جہاں مغرب سے پہلے رات ہو جایا کرتی تھی اور سڑکوں پر ڈاکو فیکٹر کا راج رہتا تھا۔

انھی ڈاکوؤں کے دم پر سندھ کے لوگوں کو یرغمال بنا کے رکھ دیا گیا ہے جس پر سندھ کے قوم پرستوں سمیت متحدہ جیسی جماعت بھی اکثر و بیشتر اپنا اخلاقی و نظریاتی موقف پیش کرتے آئے ہیں۔ کیونکہ یہ قبائلی دہشتگرد ان کے وہ گلوبٹ ہیں جو ''لاٹھی چلاؤ'' کا حکم سنتے ہی انسان اور گاڑی کا فرق بھول جاتے ہیں اور ان کے حرکت میں آتے ہی ووٹر حضرات سب نظریاتی باتیں بھلا بیٹھتے ہیں۔ رینجرز آپریشن کو نامکمل چھوڑنا یا اس کے ''جمہوری انداز'' میں آگے بڑھائے جانے کا عمل ان کو ''مولا جٹ'' بننے کا جواز فراہم کرنے جیسا ہی ہو گا اور یہ گلوبٹ ایک ہی بات جانتے اور مانتے ہیں ''دے گھما کے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں