داعش چند معروضات

آخر کار طویل ’’انکار‘‘ کے بعد ہمارے عظیم منتخب نمایندوں نے ’’داعش‘‘ کے پاکستان میں ہونے کا عندیہ دے ہی دیا۔


علی احمد ڈھلوں December 23, 2015

آخر کار طویل ''انکار'' کے بعد ہمارے عظیم منتخب نمایندوں نے ''داعش'' کے پاکستان میں ہونے کا عندیہ دے ہی دیا۔گزشتہ ہفتے سینیٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ یہ شدت پسند تنظیم ان 61 کالعدم تنظیموں میں شامل ہے جنھیں کالعدم قرار دیا گیا ہے اور اسے رواں برس 15 جولائی کو ان تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جو پاکستان میں کسی قسم کی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتیں۔

ہماری پالیسی دیکھیں کہ جس تنظیم کے بارے میں دنیا بھر میں شور مچا ہوا ہے ، ہم نے اس کو پندرہ جولائی کو کالعدم قرار دیا، ہمارے حکمران اور ادارے ریت میں گردن دبائے بیٹھے ہیں یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

خیر یہ ''حکم'' دینے والے حکمران ہیں، ان کو کون سمجھائے۔ یہ اپنی گتھیاں سلجھانے میں مگن ہیں، انھیں عوام کی کیا پروا ۔ ویسے پروا تو ہے، مرنے والوں کے لیے ''سیو دی نیشن فنڈ'' رکھا ہوا ہے ناں! جو دھماکے میں شہید ہو اسے 5لاکھ دے دو... ایک بم دھماکے میں 25 لوگ جاں بحق ہوں تو صرف ایک کروڑ 25لاکھ ہی تو بنتے ہیں جو مرنے والوں کے لواحقین کو دینے پڑیں گے، اتنی کرپشن تو روزانہ ہمارے سڑکیں بنانے والے ٹھیکیدار ہی کر جاتے ہیں ۔ خیر چھوڑیں نگار خانے میں توتی کی آواز کون سنتا ہے،،، بقول منیر نیازی

تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا

واپس اس نام نہاد تنظیم داعش کی طرف آتے ہیں جس نے بہت کم عرصے میں خاصا نام کمایا ہے، ہمارے علماء، دانشور، ایڈیٹر، کالم نگار، مضمون نویس، رپورٹرز اور حکومتی عہدیداروں کے لیے یہ ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ یہ تنظیم کیسے وجود میں آئی؟کب اور کہاںاس کی تشکیل ہوئی؟ عراق کے ایک بڑے حصہ پر اور شام کے متعدد علاقوں پر یہ کیسے قابض ہو گئی؟ جتنے منہ اتنی باتیں، جتنے قلم اتنی نگار شات۔ کہیں لکھا جاتا ہے کہ وہ ایران کے ایجنٹ ہیں، ایران پر حملہ نہیں کرتے، کہیں کہا گیا کہ بشار نے ان کو جہادی تنظیموں سے ٹکرانے کے لیے تیار کیا ہے، کہیں لکھا گیا کہ وہ بعث پارٹی کا دینی چہرہ ہیں، کہیں سنا گیا کہ وہ اسرا ئیل کی خفیہ سروسز کے پر وردہ ہیں، پھر ہمارے سوشل میڈیا ''ایڈیٹرز'' کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا نے ان کو جنم دیا ہے۔

ہمارے کچھ حلقے کہتے ہیں کہ سعودی حکومت نے اسے ایران کے خلاف کھڑا کیا تھا، لیکن وہ اس کے گلے کی ہڈی بن گئے، اور نہ معلوم کیا کیا کہا گیا، سچ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اندھیر ے میں تیر چلانے کے مترادف ہیں، تعجب تو اس وقت بہت زیادہ ہوتا ہے جب اسلامی تنظیموں اور اسلامی اداروں سے وابستہ افراد اسی طرح کی سنی سنائی، یا کسی جھوٹی سچی خبر کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں، خیر یہ تو گریٹ گیمز ہیں ۔ ''داعش'' نامی اس تنظیم کے لیے اقوام عالم اپنے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہیں۔

ویسے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ پوری دنیا کے انٹرنیٹ کا کنٹرول امریکا و یورپ کے پاس ہے اور ویب سائیٹس کو بلاک کرنے کے ایسے ایسے سسٹمز موجود ہیں جن کے بارے میں تیسری دنیا کے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے، ایسے میں یہ تنظیم کس طرح سے ہزاروں ویب سائیٹس اور سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے نوجوان نسل کو گمراہ کر رہی ہے؟ یا خود ساختہ گمراہ کروایا جا رہا ہے تاکہ اسلامی ملکوں پر حملوں کا دوبارہ جواز بنایا جائے اور رہے سہے تیل کے ذخائر پر قابو کیا جائے۔

داعش جس کی 43فیصد آمدنی ہے تیل سے ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ تنظیم ماہانہ بنیادوں پر 80 ملین ڈالر کما رہی ہے۔ آخر کار اس سے خریدتا کون ہے؟ حال ہی میں جب ترکی نے روسی طیارے کو مار گرایا تو روسی صدر نے وہ تمام راز فاش کر دیے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ داعش اور ترکی ماہانہ کروڑوں ڈالرز کی تجارت کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا 60بڑے ممالک اس تنظیم کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جب کہ ترکی رواں سال ستمبر سے اس جنگ کا حصہ ہے،،، اب اس معاملے میں یا تو روس جھوٹ بول رہا ہے یا ترکی جیسے دیگر ممالک ۔

پھر آپ دیکھیں کہ پورے یورپ نے شامی مسلمانوں کے لیے سرحدیں کھول دیں لیکن پیرس میں داعش کے 7خود کش بمباروں نے وہ دوبارہ بند کروا دیں اور وہاں موجود مسلمانوں کے لیے دوبارہ ''سکروٹنی'' کا عمل شروع کروا دیا۔ یورپی یونین میں اس وقت لگ بھگ ایک کروڑ 70 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ ان میں سے آدھے یورپ میں ہی پیدا ہوئے۔

اب وہ کیا کریں ؟ پہلے سے زیادہ کڑے امیگریشن قوانین، بے روزگاری ۔ ویسے اس تنظیم کے بارے میں میری اسٹڈی بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی یہ نئی نویلی تنظیم۔ 2013ء میں پہلی بار نام سنا گیا۔ عالم عرب میں 2011ء میں جو انقلاب تیونس سے شروع ہوا، مصر میں داخل ہوا، پھر لیبیا میں اس کی آگ لگی، پھر یمن میں اس کے شعلے بھڑکے، پھر شام میں اس کاشو ر مچا،اور حکومت کے خلاف انقلابی عناصر میدان میں آگئے، توعراقی تنظیم کے امیر ابوبکر البغدادی نے ابو محمد الجولانی کو شام میں اپنا نمایندہ بنا کربھیجا، جنہوں نے ''جبھۃ النصرۃ'' کے نام سے جہادی تنظیم قائم کرکے کارروائیاں شروع کیں، لیکن شام میں ان کی وابستگی عراقی تنظیم سے کٹ کر اصل مرکزی تنظیم القاعدہ کے ساتھ قائم ہوگئی، تو عراقی تنظیم نے اس کو بغاوت سے تعبیر کیا،اور مرکزی تنظیم کے دائرہ کو شام تک وسیع کر دیا اور 2013ء میں ''عراق وشام کی اسلامی حکومت ''کا اعلان کر دیا، اس کے بعد عالمی منافقین بھی میدان عمل میں آگئے ۔

حقیقت میں اسلام ایک پُرامن مذہب ہے، مسلمان اکثریت انتہا پسندی سے نفرت کرتی ہے، 95 فیصد مسلمان القاعدہ اور داعش سے متفق نہیں۔ یہ عالمی منافقت ہی ہے کہ پہلے کسی جماعت کو پھلنے پھولنے دو پھر اسے کاٹ ڈالو۔ یہ افغانستان سے افریقہ کے صحرائے اعظم تک کے طالبان اور شام تا یمن داعش، القاعدہ، بوکو حرام اور الشباب کے پاس سیکڑوں چمکتی جاپانی ٹیوٹا ڈبل کیبن گاڑیاں کیا کسی پاکستانی کمپنی کی جانب سے سپلائی ہوئی ہیں؟ جدید مغربی اسلحہ کیا افغانستان کے ڈیلروں نے شام تک پہنچایا ہے؟ اور منافقت تو یہ بھی ہے کہ دنیا کی کسی بڑی اسلامی جامعہ نے یا کسی بڑے مفتی نے یہ فتویٰ جاری نہیں کیا کہ اس تنظیم کے حواریوں کو خارج اسلام سمجھا یا گردانا جائے۔

مانا کہ داعش ایک دہشتگرد تنظیم ہے ،تشدد اور قتل و غارت گری ہی اس کا بنیادی اصول ہے۔ یہ تنظیم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسلام کو بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ لیکن معاشرہ ہمیشہ انصاف پر قائم ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ عراق میں جنگ ہو اور برطانیہ محفوظ رہے، شام کے 3لاکھ لوگ مار دیے جائیں اور دنیا میں امن کا خواب دیکھا جائے اور ایسا بھی ممکن نہیں کہ پاکستان میں کے ایک حصے میں ڈرون حملوں میں بے گناہ مارے جا رہے ہوں اور دوسرے حصوں میں امن قائم ہو۔
یعنی اس سارے معاملے میں میرے کہنے کا مقصد محض یہ ہے کہ پوری دنیا کو منافقت کا طرز عمل چھوڑ کر حقیقت میں اس سفاک تنظیم کو ختم کرنا ہو گا ورنہ ہماری آنے والی نسلیں تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہو جائیں گی ۔بقول شاعر ابراہیم ذوق

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں