سیاستدان اور طویل عمری

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں بے شمار لوگ اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنے کے خواب بھی دیکھتے ہیں


Sajid Ali Sajid December 23, 2015
[email protected]

ایک نئی ریسرچ خیر سے سامنے آئی ہے، جس کے مطابق کسی مملکت یا حکومت (پاکستان نہیں) کا انتظام چلانے سے آدمی کی عمر کم ہو جاتی ہے، اس کے بعد دنیا کے بہت سے سربراہان حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ وہ آیندہ کبھی صدر یا وزیر اعظم کا انتخاب نہیں لڑیں گے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں بے شمار لوگ اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنے کے خواب بھی دیکھتے ہیں اور آرزو بھی کرتے ہیں، کیونکہ ان عہدوں سے انھیں بے اندازہ دولت، شہرت اور لامحدود اختیارات مل جاتے ہیں، وہ ایک ایسی زندگی گزارتے ہیں جس کا محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے، وہ سرکاری خرچے پر دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں اور انھیں دنیا کی اہم شخصیتوں سے ملنے کا اعزاز بھی حاصل ہوتا ہے۔

مگر نئی اسٹڈی سامنے آنے کے بعد بہت سے امیدوار جو صدر یا وزیر اعظم کا الیکشن ہارنے کے بعد خود کو بدنصیب تصور کر رہے تھے اب چاہیں تو اپنی خوش نصیبی پر ناز کر سکتے ہیں۔

امریکا میں خاص طور پر اس سوال پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا سربراہان مملکت وقت سے پہلے موت کو دعوت دیتے ہیں اور اس سلسلے میں کی جانے والی ریسرچ کے نتائج بھی بڑے متنازع Conflicting اور کنفیوژن میں مبتلا کرنے والے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اب ایک اسٹڈی میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر مملکت جب عہدے پر ہوتے ہیں تو ایک عام امریکی باشندے کے مقابلے میں دگنی رفتار سے بوڑھے ہوتے ہیں۔ جب کہ اس سے پہلے ایک اور اسٹڈی میں اس کے بالکل برعکس یہ بتایا گیا تھا کہ کسی شخص کی فرض کیجیے امریکا کا صدر بن جانے کے بعد عمر نہ کم ہوتی ہے اور نہ زیادہ ہو جاتی ہے۔

اب ہم اعداد و شمار پر مبنی اپنی قسم کی یہ خاصی بڑی اسٹڈی من و عن نقل کر رہے ہیں۔ اس اسٹڈی کے دوران دنیا کے 17 ملکوں میں 1722 سے 2015ء تک ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیا گیا اور یہ نتیجہ نکالا گیا کہ شکست خوردہ امیدواروں کے مقابلے میں منتخب سربراہان مملکت دو اعشاریہ سات فیصد کم زندہ رہے اور انھیں وقت سے پہلے مرنے کے خطرات کا دوسروں کے مقابلے میں 23 فیصد زیادہ سامنا کرنا پڑا۔

چنانچہ اس تجزیے میں بھی اس Hypothesis کا جائزہ لیا گیا کہ منتخب صدر، وزیر اعظم، چانسلرز وغیرہ ''تیز رفتار عمر رسیدگی'' اور Premature انجام کے مرحلے سے گزرتے ہیں جس کا سبب سیاسی زندگی کا دباؤ اور ٹینشن ہوتا ہے۔ مقالے کے مصنفوں نے اس مقصد سے 279 سربراہان مملکت کا موازنہ 261 رنر اپ حضرات سے کیا جن کو انھوں نے ایسی شکست دی کہ ہارنے والوں کا یہ خواب پھر کبھی پورا نہیں ہو سکا۔ ریسرچ کرنے والوں نے اپنی تحقیق میں یہ پتہ چلایا کہ اپنے پچھلے الیکشن کے بعد مقابلہ کرنے والے کتنے سال زندہ رہے، پھر اس کے نتائج کا موازنہ اسی ملک کے اتنی ہی عمر اور اسی سیکس کے ایک فرد کی اوسط عمر سے کیا۔

تاہم تحقیقاتی ٹیم نے اپنے پیپر میں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ہارنے والے امیدواروں نے کس مرحلے میں شکست کھائی، آیا پرائمری مقابلے میں یا فائنل مقابلے میں۔ اسٹڈی کے سینئر مصنف ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر انوپام بی جینا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے نزدیک رنر اپ وہ امیدوار تھے جو بے شک پارلیمنٹ کے رکن یا دوسرے عہدوں پر فائز رہے ہوں مگر وہ کبھی صدر یا وزیر اعظم نہیں رہے۔

تاہم مقالے میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ آیا کانگریس یا پارلیمنٹ کا کوئی اہم عہدہ آدمی کی عمر کی طوالت کا متاثر کرتا ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر جینا کی ریسرچ ٹیم کا یہ موقف بھی تھا کہ اس سے پہلے کی جانے والی ایسی ہی ریسرچ میں یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اعلیٰ عہدوں کا عمر اور صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا، جو سیمپلز لیے گئے وہ سائز میں اتنے چھوٹے تھے کہ ان کا کوئی مصدقہ نتیجہ برآمد ہونا ممکن نہیں تھا۔

واضح رہے کہ شروع کی اسٹڈیز میں سے ایک میں عمر رسیدگی کے ماہر ایس جے اولشالنکی نے یہ رپورٹ دی تھی کہ امریکا کے زیادہ تر صدور اپنے جیسے امریکیوں کے مقابلے میں زیادہ عرصے زندہ رہے تھے، پھر بھی ڈاکٹر اولشالنکی نے ایک انٹرویو میں نئی اسٹڈی کا خیر مقدم کیا۔ بقول ان کے یہ زیادہ وسیع تر اور تفصیلی ہے اور اس میں ایسے سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے جو ان کی شروع کی اسٹڈی میں شامل نہیں تھے۔

مگر ڈاکٹر اولشا لنکی نے کہاکہ وہ دو اسباب سے نئی اسٹڈی سے مایوس ہوئے ہیں، مثلاً موت کے ایسے اسباب جن کا عمر رسیدگی سے کوئی تعلق نہیں، مثلاً کسی بندوق کا غلط رخ پر آ جانا، دوسرے نئی اسٹڈی کے مصنفوں نے تیز رفتار عمر رسیدگی کا کوئی مصدقہ پیمانہ فراہم نہیں کیا۔

زیادہ تر تبدیلیاں جو ہم سفید بالوں اور جھریوں کی صورت میں صدر صاحبان میں عہد صدارت کے دوران دیکھتے ہیں، وہی ہیں جن سے عام لوگوں کو گزرنا پڑتا ہے۔

نئی اسٹڈی کے لیے تحقیق کرنے والوں نے 17 ایسے ملکوں کا انتخاب کیا جو فرانس اور برطانیہ سے ملتے جلتے تھے اور جن کی انیسویں صدی تک قابل بھروسہ لائف ٹیلرز موجود تھیں۔ تاہم اسٹڈی کرنے والوں نے متنبہ کیا کہ ان کے جمع کردہ اعداد و شمار کو جنرلائز کر کے دوسرے ملکوں پر ان کا اطلاق نہ کر لیا جائے کیونکہ وہاں اس قسم کی اسٹڈیز کے نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔

ہمارے خیال میں سربراہان مملکت کے تیزی سے بوڑھے ہونے اور موت کے قبل از وقت قریب تر ہونے کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہو گا کہ وہ ملک کا انتظام و انصرام چلانے میں کس حد تک دلچسپی لیتے ہیں اور عوام کے دکھ درد کا کس حد تک احساس کرتے ہیں اور ملک و قوم کو درپیش مسائل کو کس حد تک دل پر لیتے ہیں۔ پھر تیسری دنیا کے ممالک میں حزب اقتدار کی اعلیٰ شخصیتوں کو ہی نہیں بلکہ قائد حزب اختلاف کو بھی غلط یا صحیح سزاؤں، مقدموں اور سرکار کی زیادتیوں کی وجہ سے اچھی خاصی ٹینشن سے گزرنا پڑتا ہے۔

اس کے برعکس بہت سے سربراہان مملکت اپنے اقتدار کو اپنے فائدے، یعنی امیر سے امیر تر بننے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور انھیں ایسے عیش و آرام کے لمحات نصیب ہوتے ہیں جن سے ان کی زندگیاں کم ہونے کے بجائے اور طویل ہو جاتی ہیں۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر واضح کریں کہ عمر رسیدگی کی مذکورہ بالا اسٹڈی مغربی ملکوں کے سربراہوں کے بارے میں کی گئی ہے اور اس سے ہمارے لوگوں کی مطابقت محض اتفاقی ہو گی۔

ہمارا خیال یہ بھی ہے کہ ایسے افراد جو ایک سیدھی سچی، سادہ اور پاک صاف زندگی گزارتے ہیں ان کی زندگیاں عام طور پر طویل ہو جاتی ہیں، اس سلسلے میں ہمیں اپنی کمزور یادداشت کی وجہ سے بھارت کے سابق صدر ابوالکلام کی مثال یاد آ رہی ہے جو (بی بی سی انٹرویو کے مطابق) ایوان صدر میں رہتے ہوئے بھی مہمانوں کی تواضع اپنی جیب خاص سے خریدے ہوئے بسکٹوں سے کرتے تھے اور ذاتی کاموں سے اپنی ذاتی گاڑی میں جایا کرتے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں