ماہی بے آب تڑپتی ابراہیم حیدری
پاکستان کا ماہی گیری کا شعبہ ملکی معیشت میں اہم مقام رکھتا ہے، زرمبادلہ کے حصول کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے،
پاکستان کا ماہی گیری کا شعبہ ملکی معیشت میں اہم مقام رکھتا ہے، زرمبادلہ کے حصول کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، ملکی زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں 22 فیصد حصہ ہے، جس میں ایک فیصد حصہ ماہی گیری ہے، پاکستان کی ساحلی پٹی 800 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان سمندری خوراک یورپی یونین اور خلیجی ریاستوں سمیت امریکا، جاپان، سری لنکا اور سنگاپور وغیرہ کو برآمد کرتا ہے۔ پاکستانی ماہی گیری کی صنعت سے 40 لاکھ سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہے، جن میں 25 لاکھ کا تعلق سندھ سے ہے۔
2007ء میں پاکستان کی سمندری خوراک پر بین الاقوامی معیار نہ ہونے کے سبب پابندی لگی تھی جو 2013ء میں ختم ہوئی۔ کراچی اپنے ساحل سے یومیہ لاکھوں روپے کا کاروبار کر رہا ہے، روزانہ لاکھوں ٹن مچھلیاں بیرون ملک اور فیڈز کے لیے علیحدہ مچھلیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ یعنی بیرون ملک کے ساتھ اندرون ملک کی بھی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ابراہیم حیدری کراچی میں واقع ایک انتہائی پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں کے اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔
یہاں پر بلوچ و سندھی قومیتوں کی اکثریت ہے، جو پاکستان کے قیام سے قبل یہاں آباد ہیں۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت کورنگی ٹاؤن سے ہٹا کر اس علاقے کو دیہہ کونسل کا درجہ دے دیا ہے، جس کے بعد یہاں چار یونین کونسل، یونین کونسل 26 ابراہیم جاموٹ، یونین کونسل 27 حیدر شاہ، یونین کونسل 28 مورلو اور یونین کونسل 29 علی اکبر۔ ابراہیم حیدری کی مجموعی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، جب کہ ووٹرز کی تعداد 43 ہزار کے قریب ہے۔
ابراہیم حیدری کی سرکاری زمینوں پر لینڈ مافیا کا قبضہ کوئی نئی بات نہیں ہے، سیکڑوں ایکڑ سرکاری زمین پر لینڈ مافیا کے کارندوں نے قبضہ شروع کیا، ان کے خلاف ابراہیم حیدری تھانے اور اینٹی انکروچمنٹ میں درخواستیں بھی جمع کرائی گئیں لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ لینڈ مافیا کے کارندے ابراہیم حیدری میں چارن محلہ، علی اکبر شاہ گوٹھ، جمعہ گوٹھ، الیاس جت گوٹھ سمیت متعدد مقامات پر سیکڑوں ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ کر چکے ہیں۔
غریب ماہی گیروں کی بے کسی و بے بسی کے ساتھ حیرانگی ہوئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سپورٹرز کے ساتھ ظلم و ستم پر خاموشی کیا معنی رکھتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ کسی برادری نے مخالف جماعت کو ووٹ دیے، اس لیے انھیں جیٹیاں خالی کرنے کو کہا جا رہا ہے، بلکہ حیرانگی یہ ہوئی کہ جو کچھ یہاں ہو رہا ہے اس سے حکومت نے چشم پوشی کیوں کر رکھی ہے۔
کراچی میں کل چھ جگہیں ایسی ہیں جہاں اربوں روپے کی مچھلیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ ان چھ جگہوں میں ابراہیم حیدری، فشری، ریڑھی گوٹھ، چشمہ گوٹھ، شمس پیر اور کاکا ولیج ہے۔ لیکن سرکاری طور پر 'مال' ایک ہی جگہ ہے، جسے ہم فشری کے نام سے جانتے ہیں۔ 'مال' اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں ماہی گیر سمندر میں موت سے لڑنے کے بعد مچھلیوں کا نیلام کرتے ہیں۔ فشری 84 ایکڑ پر پھیلی جگہ ہے، اس لیے یہاں واحد 'مال' ہے جسے سرکار نے مقرر کیا ہے، لیکن دیگر کاروبار کی طرح ماہی گیری میں بھی قبضہ راج ہے۔
ابراہیم حیدری میں ذرایع کے مطابق غیر قانونی 'مال' بنایا گیا ہے۔ حالانکہ سرکاری طور پر صرف فشری سوسائٹی ہی مال چلانے کی اجازت رکھتی ہے۔ ابراہیم حیدری میں ایک سرکاری 'جیٹی' ہے جو پہلے 25 فٹ چوڑی تھی لیکن 2003ء میں عبدالمجید نے کونسلر بن کر اسے 60 فٹ چوڑا کرا دیا۔ لیکن قبضہ مافیا 2001ء سے یہاں مختلف سیاسی حکومتوں میں وفاداریاں بدلتے ہوئے غیر قانونی طور پر جیٹیاں بنانا شروع کر چکے تھے اور ان کے خلاف تھانوں میں مسلسل درخواستیں بھی دی جاتی رہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔
سرکاری جیٹی کے علاوہ غیر قانونی جیٹیوں میں ابراہیم تیل والا جیٹی، جان عالم جاموٹ جیٹی، احسن قبول جیٹی، میر جاموٹ جیٹی، چارن جیٹی ہیں۔ ان جیٹیوں کو بنانے کے لیے قبضہ مافیا نے ایک طریقہ اختیار کیا ہوا ہے کہ شہر کا تمام کچرا ایک جگہ پر ڈال دیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ جگہ خشک ہو جاتی ہے اور جب سمندر اپنے مدوجزر کی وجہ سے چوبیس گھنٹوں میں دو بار نیچے اترتا ہے تو وہاں مٹی پتھر ڈال کر اسے زمینی شکل دے دی جاتی ہے۔ سمندر وفاق کی ملکیت ہے، جس پر صوبے یا پھر دیہہ کونسل کا اختیار نہیں، لیکن دیہہ کونسل میں گوٹھ کے نام پر جعلی پیپرز بنا کر اس سمندری پٹی کو زمین ظاہر کر کے قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ تک چلتا جا رہا ہے جو تقریباً 26 کلومیٹر کی ساحلی پٹی پر واقع ہے۔
ابراہیم حیدری گوٹھ میں ایک مکمل ریاستی نظام نافذ ہے، جس پر حکومت کی عملداری نظر نہیں آتی۔ ماہی گیر بتاتے ہیں کہ ان کو ان کی محنت سے کہیں کم قیمت پر مچھلیاں فروخت کرنی پڑتی ہیں۔ ابراہیم حیدری میں زیادہ کاروبار جھینگا اور چھوٹی گندی مچھلیوں کا ہوتا ہے، ان گندی مچھلیوں کو فیڈز کے لیے فروخت کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کے جیٹیاں بنانے والے قبضہ مافیا نے بلیک ملینگ کا عجیب و غریب کاروبار جاری رکھا ہوا ہے۔ ان جیٹیوں پر تمام مچھلیاں صرف قبضہ مافیا ہی خریدے گی، گندی مچھلیوں کا نرخ فشری میں 22 روپے کلو ہے لیکن ان سے 8 روپے کلو لے کر مہنگے داموں فیکٹریوں میں فروخت کی جاتی ہے۔
60 فٹ کی سرکاری جیٹی پر قبضہ کر کے دکانیں، ہوٹل بنا لیے گئے ہیں اور اب وہ 60 فٹ کی جگہ 30 فٹ رہ گئی ہے۔ یہی قبضہ مافیا ایک گاڑی سوزوکی کو جیٹی سے باہر جانے کے سات سو روپیہ بھتہ فی چکر وصول کرتا ہے اور کوئی سرکاری رسید بھی فراہم نہیں کرتا۔ بڑی گاڑی سے تین ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ سمندر میں جانے والے کریو لسٹ کی ذمے داری فشریز کوآپریٹو سوسائٹی کی ہے، لیکن فی خلاصی کی فیس 3000 روپے وصول کی جاتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کوسٹ گارڈ فشریز کوآپریٹو سوسائٹی کے بجائے قبضہ گروپ کی سادہ پرچی کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی پرچی کے بغیر کوئی کریو لسٹ قبول نہیں کی جاتی۔ تمام جیٹیوں پر کشتیاں کھڑی کرنے کی فیس بھی قبضہ مافیا وصول کرتے ہیں۔
فی چکر سات سو روپے فی کشتی اور لانچ کے تین ہزار وصول کیے جاتے ہیں۔ آف سیزن بیس ہزار کلو گندی مچھلی کا کاروبار ہوتا ہے جب کہ سیزن میں ایک لاکھ سے ایک کروڑ کلو تک مچھلیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 22 روپے کی جگہ 8 روپے میں مچھلیاں لینے والے کتنا کماتے ہیں۔ کشیتوں کے لیے ڈیزل بھی قبضہ مافیا فراہم کرتے ہیں، ان سے کمیشن لیتے ہیں، ریپئرنگ کرنے والے ان کے لوگ ہیں، ان سے بھی کمیشن لیتے ہیں اور افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ جب علاقے کی کسی خالی جگہ پر کوئی سرکاری ترقیاتی کام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو معروف قبضہ مافیا وہاں اپنے مسلح غنڈے بھیج دیتا ہے، سرکاری عملہ بھاگ جاتا ہے۔
دیہہ گوٹھ آباد کے نام جعلی کاغذات کی بنیاد پر عدالتوں میں کیس چلتے ہیں، جن کے فیصلے کبھی نہیں ہوتے۔ علاقے کو پینے کے پانی کی کافی ضرورت تھی۔ 2013ء میں انتخابات کے دوران ایک امیدوار نے وعدہ کیا کہ وہ ہارے یا جیتے، وہ اس علاقے میں پانی کی لائن ڈال دے گا۔ وہ الیکشن ہار گیا لیکن اس کے باوجود اس نے 50 سال بعد اس علاقے کو پانی فراہم کرنے کے لیے اپنی جیب سے ساڑھے چھ ہزار فٹ کی لائن ڈلوائی اور پھر یہیں سے سیاسی چپقلش کا آغاز بڑھتا چلا گیا اور گزشتہ دنوں دو گروپ آپس میں لڑ پڑے۔
وہاں جانے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ غریب ماہی گیر کس قدر تکلیف، کسمپرسی اور بلیک میلنگ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قبضہ مافیا اپنی طاقت و دولت کے زور پر غریبوں کے ساتھ کئی سال سے استحصال کر رہا ہے، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اپنے بچوں کی باسہولت زندگی کے متمنی سمندر میں موت سے لڑنے والے غریب ماہی گیر ہر سہولت سے محروم علاقے میں قبضہ گروپ کے غلام بنے ہوئے ہیں اور قانون اندھا ہے۔ نہ جانے کب ان پر آسمان گرجے گا۔ غریب کی آہ سے تو زمین بھی پھٹ جاتی ہے اور غریبوں کے حق پر کھلے عام ڈاکے مارنے والے کیوں نہیں سوچتے کہ انھیں سمندر نہیں نگلے گا بلکہ زمین میں ہی جانا ہو گا جس پر انھیں اتنا غرور ہے۔
2007ء میں پاکستان کی سمندری خوراک پر بین الاقوامی معیار نہ ہونے کے سبب پابندی لگی تھی جو 2013ء میں ختم ہوئی۔ کراچی اپنے ساحل سے یومیہ لاکھوں روپے کا کاروبار کر رہا ہے، روزانہ لاکھوں ٹن مچھلیاں بیرون ملک اور فیڈز کے لیے علیحدہ مچھلیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ یعنی بیرون ملک کے ساتھ اندرون ملک کی بھی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ابراہیم حیدری کراچی میں واقع ایک انتہائی پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں کے اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔
یہاں پر بلوچ و سندھی قومیتوں کی اکثریت ہے، جو پاکستان کے قیام سے قبل یہاں آباد ہیں۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت کورنگی ٹاؤن سے ہٹا کر اس علاقے کو دیہہ کونسل کا درجہ دے دیا ہے، جس کے بعد یہاں چار یونین کونسل، یونین کونسل 26 ابراہیم جاموٹ، یونین کونسل 27 حیدر شاہ، یونین کونسل 28 مورلو اور یونین کونسل 29 علی اکبر۔ ابراہیم حیدری کی مجموعی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، جب کہ ووٹرز کی تعداد 43 ہزار کے قریب ہے۔
ابراہیم حیدری کی سرکاری زمینوں پر لینڈ مافیا کا قبضہ کوئی نئی بات نہیں ہے، سیکڑوں ایکڑ سرکاری زمین پر لینڈ مافیا کے کارندوں نے قبضہ شروع کیا، ان کے خلاف ابراہیم حیدری تھانے اور اینٹی انکروچمنٹ میں درخواستیں بھی جمع کرائی گئیں لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ لینڈ مافیا کے کارندے ابراہیم حیدری میں چارن محلہ، علی اکبر شاہ گوٹھ، جمعہ گوٹھ، الیاس جت گوٹھ سمیت متعدد مقامات پر سیکڑوں ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ کر چکے ہیں۔
غریب ماہی گیروں کی بے کسی و بے بسی کے ساتھ حیرانگی ہوئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سپورٹرز کے ساتھ ظلم و ستم پر خاموشی کیا معنی رکھتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ کسی برادری نے مخالف جماعت کو ووٹ دیے، اس لیے انھیں جیٹیاں خالی کرنے کو کہا جا رہا ہے، بلکہ حیرانگی یہ ہوئی کہ جو کچھ یہاں ہو رہا ہے اس سے حکومت نے چشم پوشی کیوں کر رکھی ہے۔
کراچی میں کل چھ جگہیں ایسی ہیں جہاں اربوں روپے کی مچھلیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ ان چھ جگہوں میں ابراہیم حیدری، فشری، ریڑھی گوٹھ، چشمہ گوٹھ، شمس پیر اور کاکا ولیج ہے۔ لیکن سرکاری طور پر 'مال' ایک ہی جگہ ہے، جسے ہم فشری کے نام سے جانتے ہیں۔ 'مال' اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں ماہی گیر سمندر میں موت سے لڑنے کے بعد مچھلیوں کا نیلام کرتے ہیں۔ فشری 84 ایکڑ پر پھیلی جگہ ہے، اس لیے یہاں واحد 'مال' ہے جسے سرکار نے مقرر کیا ہے، لیکن دیگر کاروبار کی طرح ماہی گیری میں بھی قبضہ راج ہے۔
ابراہیم حیدری میں ذرایع کے مطابق غیر قانونی 'مال' بنایا گیا ہے۔ حالانکہ سرکاری طور پر صرف فشری سوسائٹی ہی مال چلانے کی اجازت رکھتی ہے۔ ابراہیم حیدری میں ایک سرکاری 'جیٹی' ہے جو پہلے 25 فٹ چوڑی تھی لیکن 2003ء میں عبدالمجید نے کونسلر بن کر اسے 60 فٹ چوڑا کرا دیا۔ لیکن قبضہ مافیا 2001ء سے یہاں مختلف سیاسی حکومتوں میں وفاداریاں بدلتے ہوئے غیر قانونی طور پر جیٹیاں بنانا شروع کر چکے تھے اور ان کے خلاف تھانوں میں مسلسل درخواستیں بھی دی جاتی رہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔
سرکاری جیٹی کے علاوہ غیر قانونی جیٹیوں میں ابراہیم تیل والا جیٹی، جان عالم جاموٹ جیٹی، احسن قبول جیٹی، میر جاموٹ جیٹی، چارن جیٹی ہیں۔ ان جیٹیوں کو بنانے کے لیے قبضہ مافیا نے ایک طریقہ اختیار کیا ہوا ہے کہ شہر کا تمام کچرا ایک جگہ پر ڈال دیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ جگہ خشک ہو جاتی ہے اور جب سمندر اپنے مدوجزر کی وجہ سے چوبیس گھنٹوں میں دو بار نیچے اترتا ہے تو وہاں مٹی پتھر ڈال کر اسے زمینی شکل دے دی جاتی ہے۔ سمندر وفاق کی ملکیت ہے، جس پر صوبے یا پھر دیہہ کونسل کا اختیار نہیں، لیکن دیہہ کونسل میں گوٹھ کے نام پر جعلی پیپرز بنا کر اس سمندری پٹی کو زمین ظاہر کر کے قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ تک چلتا جا رہا ہے جو تقریباً 26 کلومیٹر کی ساحلی پٹی پر واقع ہے۔
ابراہیم حیدری گوٹھ میں ایک مکمل ریاستی نظام نافذ ہے، جس پر حکومت کی عملداری نظر نہیں آتی۔ ماہی گیر بتاتے ہیں کہ ان کو ان کی محنت سے کہیں کم قیمت پر مچھلیاں فروخت کرنی پڑتی ہیں۔ ابراہیم حیدری میں زیادہ کاروبار جھینگا اور چھوٹی گندی مچھلیوں کا ہوتا ہے، ان گندی مچھلیوں کو فیڈز کے لیے فروخت کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کے جیٹیاں بنانے والے قبضہ مافیا نے بلیک ملینگ کا عجیب و غریب کاروبار جاری رکھا ہوا ہے۔ ان جیٹیوں پر تمام مچھلیاں صرف قبضہ مافیا ہی خریدے گی، گندی مچھلیوں کا نرخ فشری میں 22 روپے کلو ہے لیکن ان سے 8 روپے کلو لے کر مہنگے داموں فیکٹریوں میں فروخت کی جاتی ہے۔
60 فٹ کی سرکاری جیٹی پر قبضہ کر کے دکانیں، ہوٹل بنا لیے گئے ہیں اور اب وہ 60 فٹ کی جگہ 30 فٹ رہ گئی ہے۔ یہی قبضہ مافیا ایک گاڑی سوزوکی کو جیٹی سے باہر جانے کے سات سو روپیہ بھتہ فی چکر وصول کرتا ہے اور کوئی سرکاری رسید بھی فراہم نہیں کرتا۔ بڑی گاڑی سے تین ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ سمندر میں جانے والے کریو لسٹ کی ذمے داری فشریز کوآپریٹو سوسائٹی کی ہے، لیکن فی خلاصی کی فیس 3000 روپے وصول کی جاتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کوسٹ گارڈ فشریز کوآپریٹو سوسائٹی کے بجائے قبضہ گروپ کی سادہ پرچی کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی پرچی کے بغیر کوئی کریو لسٹ قبول نہیں کی جاتی۔ تمام جیٹیوں پر کشتیاں کھڑی کرنے کی فیس بھی قبضہ مافیا وصول کرتے ہیں۔
فی چکر سات سو روپے فی کشتی اور لانچ کے تین ہزار وصول کیے جاتے ہیں۔ آف سیزن بیس ہزار کلو گندی مچھلی کا کاروبار ہوتا ہے جب کہ سیزن میں ایک لاکھ سے ایک کروڑ کلو تک مچھلیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 22 روپے کی جگہ 8 روپے میں مچھلیاں لینے والے کتنا کماتے ہیں۔ کشیتوں کے لیے ڈیزل بھی قبضہ مافیا فراہم کرتے ہیں، ان سے کمیشن لیتے ہیں، ریپئرنگ کرنے والے ان کے لوگ ہیں، ان سے بھی کمیشن لیتے ہیں اور افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ جب علاقے کی کسی خالی جگہ پر کوئی سرکاری ترقیاتی کام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو معروف قبضہ مافیا وہاں اپنے مسلح غنڈے بھیج دیتا ہے، سرکاری عملہ بھاگ جاتا ہے۔
دیہہ گوٹھ آباد کے نام جعلی کاغذات کی بنیاد پر عدالتوں میں کیس چلتے ہیں، جن کے فیصلے کبھی نہیں ہوتے۔ علاقے کو پینے کے پانی کی کافی ضرورت تھی۔ 2013ء میں انتخابات کے دوران ایک امیدوار نے وعدہ کیا کہ وہ ہارے یا جیتے، وہ اس علاقے میں پانی کی لائن ڈال دے گا۔ وہ الیکشن ہار گیا لیکن اس کے باوجود اس نے 50 سال بعد اس علاقے کو پانی فراہم کرنے کے لیے اپنی جیب سے ساڑھے چھ ہزار فٹ کی لائن ڈلوائی اور پھر یہیں سے سیاسی چپقلش کا آغاز بڑھتا چلا گیا اور گزشتہ دنوں دو گروپ آپس میں لڑ پڑے۔
وہاں جانے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ غریب ماہی گیر کس قدر تکلیف، کسمپرسی اور بلیک میلنگ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قبضہ مافیا اپنی طاقت و دولت کے زور پر غریبوں کے ساتھ کئی سال سے استحصال کر رہا ہے، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اپنے بچوں کی باسہولت زندگی کے متمنی سمندر میں موت سے لڑنے والے غریب ماہی گیر ہر سہولت سے محروم علاقے میں قبضہ گروپ کے غلام بنے ہوئے ہیں اور قانون اندھا ہے۔ نہ جانے کب ان پر آسمان گرجے گا۔ غریب کی آہ سے تو زمین بھی پھٹ جاتی ہے اور غریبوں کے حق پر کھلے عام ڈاکے مارنے والے کیوں نہیں سوچتے کہ انھیں سمندر نہیں نگلے گا بلکہ زمین میں ہی جانا ہو گا جس پر انھیں اتنا غرور ہے۔