صحت کے مسائل غفلت کیوں برتی جا رہی ہے
ملک کے سرکاری اسپتالوں میں ویکسی نیشن دستیاب نہیں اور نجی اسپتالوں اور کلینکوں میں مہنگی ویکسین فراہم کی جارہی ہے
KARACHI:
سپریم کورٹ نے وبائی امراض سے بچوںکی ہلاکتوں کی تفصیل اور ہیپاٹائٹس کے علاج کی سہولیات کے بارے میں وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت میں بتایا گیا کہ اب تک وبائی امراض سے پچاس لاکھ بچے ہلاک ہوئے ہیں، ملک کا ہر تیسرا شخص ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں فل بینچ نے ہیپاٹائٹس سی کی ویکسین کی مقامی سطح پر تیاری اور اس مرض کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔ جناب جسٹس کا کہنا تھا کہ اس قدر رکاوٹیں کیوںکھڑی کی جا رہی ہیں، ہیپاٹائٹس کا علاج بہت مہنگا ہے، اگر کوئی مقامی کمپنی مہلک بیماریوں کے لیے ادویات مقامی سطح پر تیار کرسکتی ہے تو اسے رجسٹر کیوں نہیںکیا جاتا؟ عدالت نے کہا کہ ملک میں مجموعی ہلاکتوںکا صرف دو فیصد دہشتگردی کی وجہ سے ہے جب کہ باقی ہلاکتیں مہلک بیماریوںکی وجہ سے ہوتی ہیں۔
دوسری جانب سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 82 فیصد پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ ہے جب کہ منرل واٹر فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی آلودہ پانی فروخت کررہی ہیں۔ بلاشبہ حکومت نے کئی جعلی منرل واٹرکمپنیوں کے خلاف ایکشن لیا لیکن یہ کمپنیاں دوسرے ناموں سے نئی کمپنیاں رجسٹر کرا لیتی ہیں یا عدالت میںکیس کر دیتی ہیں۔ پانی کی کمی پاکستان کے لیے سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ توانائی بحران سے بڑا مسئلہ بنے گا۔ آلودہ پانی کی فراہمی بھی ملک میں وبائی امراض کو پھیلانے میں مہمیز کا کردار ادا کررہی ہے۔
شعبہ صحت کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محض فیصل آباد میں رواں سال کے دوران 22 بچے خناق جیسے خطرناک مرض کا شکار اور 11 جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ذرایع کے مطابق انکوائری کے دوران بچوں کا خناق کے مرض میں مبتلا ہونا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی غفلت و لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ انسداد خناق مہم کے دوران متاثرہ بچوں کی ویکسی نیشن نہ ہونے یا ویکسی نیشن کے بے اثر ہونے کا شبہ کیا جارہا ہے۔ مملکت خداداد میں پولیو مہم بھی کچھ شرپسندوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں سبوتاژ ہو رہی ہے۔
حکومت وقت ملک میں صحت کی جملہ سہولتیں فراہم کرنے میں ناکامی کا شکار ہے۔ ملک کے سرکاری اسپتالوں میں ویکسی نیشن دستیاب نہیں اور نجی اسپتالوں اور کلینکوں میں مہنگی ویکسین فراہم کی جارہی ہے، پیدائش کے فوری بعد لگنے والے بی سی جی ویکسین کے نایاب ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ مناسب ہوگا کہ حکومت دیگر امور کے ساتھ شعبہ صحت کو بھی فعال بنائے اور عوامی صحت کے ضمن میں موثر اقدامات کیے جائیں۔
سپریم کورٹ نے وبائی امراض سے بچوںکی ہلاکتوں کی تفصیل اور ہیپاٹائٹس کے علاج کی سہولیات کے بارے میں وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت میں بتایا گیا کہ اب تک وبائی امراض سے پچاس لاکھ بچے ہلاک ہوئے ہیں، ملک کا ہر تیسرا شخص ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں فل بینچ نے ہیپاٹائٹس سی کی ویکسین کی مقامی سطح پر تیاری اور اس مرض کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔ جناب جسٹس کا کہنا تھا کہ اس قدر رکاوٹیں کیوںکھڑی کی جا رہی ہیں، ہیپاٹائٹس کا علاج بہت مہنگا ہے، اگر کوئی مقامی کمپنی مہلک بیماریوں کے لیے ادویات مقامی سطح پر تیار کرسکتی ہے تو اسے رجسٹر کیوں نہیںکیا جاتا؟ عدالت نے کہا کہ ملک میں مجموعی ہلاکتوںکا صرف دو فیصد دہشتگردی کی وجہ سے ہے جب کہ باقی ہلاکتیں مہلک بیماریوںکی وجہ سے ہوتی ہیں۔
دوسری جانب سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 82 فیصد پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ ہے جب کہ منرل واٹر فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی آلودہ پانی فروخت کررہی ہیں۔ بلاشبہ حکومت نے کئی جعلی منرل واٹرکمپنیوں کے خلاف ایکشن لیا لیکن یہ کمپنیاں دوسرے ناموں سے نئی کمپنیاں رجسٹر کرا لیتی ہیں یا عدالت میںکیس کر دیتی ہیں۔ پانی کی کمی پاکستان کے لیے سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ توانائی بحران سے بڑا مسئلہ بنے گا۔ آلودہ پانی کی فراہمی بھی ملک میں وبائی امراض کو پھیلانے میں مہمیز کا کردار ادا کررہی ہے۔
شعبہ صحت کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محض فیصل آباد میں رواں سال کے دوران 22 بچے خناق جیسے خطرناک مرض کا شکار اور 11 جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ذرایع کے مطابق انکوائری کے دوران بچوں کا خناق کے مرض میں مبتلا ہونا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی غفلت و لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ انسداد خناق مہم کے دوران متاثرہ بچوں کی ویکسی نیشن نہ ہونے یا ویکسی نیشن کے بے اثر ہونے کا شبہ کیا جارہا ہے۔ مملکت خداداد میں پولیو مہم بھی کچھ شرپسندوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں سبوتاژ ہو رہی ہے۔
حکومت وقت ملک میں صحت کی جملہ سہولتیں فراہم کرنے میں ناکامی کا شکار ہے۔ ملک کے سرکاری اسپتالوں میں ویکسی نیشن دستیاب نہیں اور نجی اسپتالوں اور کلینکوں میں مہنگی ویکسین فراہم کی جارہی ہے، پیدائش کے فوری بعد لگنے والے بی سی جی ویکسین کے نایاب ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ مناسب ہوگا کہ حکومت دیگر امور کے ساتھ شعبہ صحت کو بھی فعال بنائے اور عوامی صحت کے ضمن میں موثر اقدامات کیے جائیں۔