جناح کا پاکستان
کل بانی پاکستان محمد علی جناح کا 137 واں یوم ولادت منایا جائے گا۔
کل بانی پاکستان محمد علی جناح کا 137 واں یوم ولادت منایا جائے گا۔ ان کی شان میں قصیدے ضرور پڑھے جائیں، مگر ساتھ ہی یہ دیکھنے کی بھی کوشش کی جائے کہ ان کے سیاسی نظریات و افکار کیا تھے؟ وہ کس قسم کا ہندوستان دیکھنا چاہتے تھے؟ برصغیر کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں ان کے کیا خیالات تھے؟
وہ تقسیم ہند پر کیوں مجبور ہوئے اور پاکستان بنانے کی کیوں ضرورت محسوس کی؟ اپنے تشکیل کردہ ملک پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے؟ ریاست کے بارے میں ان کے تصورات اور خیالات کو ان کے سیاسی وارثوں اور جانشینوں نے کس طرح ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا؟ آج پاکستان کو درپیش مسائل و مصائب کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیا ان مسائل کا سبب قائد کے افکار سے روگردانی تو نہیں ہے؟
بانی پاکستان کے بارے میں جتنے بھی مقالے اور تحقیقی مواد میسر ہے، اس کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے کسی بھی حصے میں بنیادپرست مسلمان نہیں رہے اور نہ ہی مسلکی جھگڑوں میں الجھنے کی کوشش کی۔ بلکہ انھوں نے حق و انصاف پر مبنی جمہوری معاشرے کی تشکیل کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں اکثریتی عقیدے و لسانی شناخت رکھنے والی کمیونٹیز کے ساتھ ان تمام مذہبی، لسانی اور قومیتی اقلیتوں کو بھی مساوی حقوق دیے جائیں، جو اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ 1916 کا میثاق لکھنو اور 1929 کے چودہ نکات ان کے انھی فکری رجحانات کا واضح اظہار ہیں۔
وہ اظہار آزادی کے زبردست علمبردار تھے۔ بمبئی کرانیکل پر لگنے والی پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا اور جب بحالی کی اجازت نہ ملی تو احتجاجاً اس کے بورڈ آف گورنرز سے الگ ہوگئے۔ اسی طرح وہ محنت کشوں کے حقوق کے بھی حامی تھے۔
1926 میں انھوں نے پی سی جوشی کے ساتھ مل کر ایک مزدور دوست لیبر پالیسی تشکیل دی، جس میں یونیفارم پہننے والے سرکاری اہلکاروں کو چھوڑ کر دیگر سبھی سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کو انجمن سازی کا حق دیا گیا تھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان کی تشکیل کردہ لیبر پالیسی جسے نوآبادیاتی حکمرانوں نے خوش دلی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے نافذ کیا تھا، انھی کے قائم کردہ ملک میں ایک فوجی آمر ایوب خان نے 1959 میں جو لیبر پالیسی دی، اس میں سے تمام مزدور دوست شقیں نکال دیں جو بابائے قوم نے نوآبادیاتی دور کی لیبر پالیسی میں شامل کرائی تھیں۔
جو لوگ محمد علی جناح کو ایک تنگ نظر مسلمان کے طور پر پیش کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ تاریخ کا ازسرنو مطالعہ کریں۔ بلبل ہند سروجنی نائیڈو نے بانی پاکستان کو ہندومسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا تھا۔ چند برس قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما اور ہندوتوا کے زبردست حامی مسٹر لال کشن ایڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا، تو انھوں نے بابائے قوم کے مزار پر حاضری بھی دی۔
انھوں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے انھیں کانگریس کی مرکزی قیادت سے بڑا سیکولر رہنما قرار دیا۔ اسی طرح BJP کے ایک اور رہنما اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب کا مرکزی خیال ہی مسٹر جناح کو بنایا اور ان کی سیاسی سوچ کو سیکولر قرار دیا۔ جسونت سنگھ نے لکھا ہے کہ نہرو اور دیگر کانگریسی رہنما محض دکھاوے کے سیکولر تھے جب کہ مسٹر جناح برصغیر کے حقیقی معنی میں ایک سیکولر رہنما تھے۔
قائداعظم کی 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی جانے والی تقریر ان کے پاکستان کے بارے میں تصورات کی حقیقی عکاس تھی۔ اس تقریر کو بیوروکریسی اور اس کے منظور نظر دانشوروں نے ہمیشہ متنازع بنانے کی کوشش کی اور آج بھی یہ عمل جاری ہے۔
خاص طور پر ملک کے نامزد سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کے حکم پر اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات و نشریات نے اس تقریر کو سنسر کردیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ بابائے قوم کے نظریات و افکار کو کس طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا اور پاکستان کو ان کی سوچ سے متضاد سمت میں چلانے کی سازش قیام پاکستان سے پہلے ہی تیار کرلی گئی تھی۔
اسی طرح یہ بات بھی آج تک سمجھ میں نہیں آسکی کہ ان کے ذاتی عقیدے اور مسلکی تعلق کو چھپانے کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ ہر شہری کی طرح سیاسی رہنماؤں کا بھی ایک عقیدہ اور مسلک ہوتا ہے، جو اس کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی لیڈر عوام میں مقبول ہے تو اس کی مقبولیت کا اس کی مسلکی یا فرقہ وارانہ وابستگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بشرطیکہ وہ اس بنیاد پر سیاست نہ کررہا ہو۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قائداعظم کا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس اسماعیلی گجراتی گھرانے سے تھا۔
جس کا سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے قصبے جھرک میں چھوٹا سا کاروبار تھا۔ وہیں جھرک میں محمد علی جناح پیدا ہوئے۔ محمدعلی جناح ابھی چند برس ہی کے تھے کہ یہ گھرانا کراچی منتقل ہوگیا۔ یہیں ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کے والد نے مالی مشکلات کے باوجود انھیں انگلستان بھجوانے کا بندوبست کیا، جہاں انھوں نے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ نہ جانے اس جھوٹ کے پیچھے کیا حکمت ہے کہ اندرون سندھ کے طلبا کو تو ان کی پیدائش کا صحیح مقام یعنی جھرک پڑھایا جاتا ہے، جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں ان کی جائے پیدائش کراچی کا ایک محلہ وزیر مینشن پڑھایا جاتا ہے۔
ان کے والدین کا ان کے انگلستان قیام کے دوران ہی انتقال ہوا اور ان کی قبریں آج بھی لیمارکیٹ کراچی کے اسماعیلی قبرستان میں موجود ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد نوجوان جناح نے بمبئی میں وکالت شروع کی اور اپنی بہنوں کو بھی وہیں بلوا لیا۔ 1898 میں محمد علی جناح نے اپنی بہنوں کے ساتھ اثنائے عشری عقیدہ اختیار کیا۔ عقیدہ تبدیلی کا Affidavit انسٹیٹیوٹ آف لوکل گورننس کے آرکائیو میں محفوظ ہے، جس پر علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط موجود ہیں۔
سابق بیوروکریٹ سید ہاشم رضا نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ ان کی میت کو غسل کھارادر کی امام بارگاہ کے ایک خدمت گار حاجی کلو نے دیا تھا۔ جب کہ گورنر ہاؤس کے بڑے ہال میں ان کی نماز جنازہ مولانا انیس الحسنین مرحوم نے پڑھائی، جس میں عزیزو اقارب کے علاوہ ایران سمیت کئی مسلم ممالک کے سفرا نے شرکت کی۔ البتہ سرکاری سطح پر نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔
یہی کچھ معاملہ مادر ملت کے ساتھ ہوا۔ ان کی میت کو غسل سابق طالب علم رہنما علی مختار رضوی مرحوم کی ہمشیرہ نے دیا۔ ان کی بھی دو نماز جنازہ ہوئی تھیں، ایک شیعہ عالم نے پڑھائی، جب کہ دوسری مولانا عبدالحامد بدایونی مرحوم نے پڑھائی۔
مگر ان حقائق کو نہ جانے کس مصلحت کے تحت چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے محمدعلی جناح کو کسی عقیدے یا مسلک سے تعلق کی بنیاد پر اپنا رہبر اور رہنما نہیں بنایا تھا۔ بلکہ ان کی اہلیت، دانشمندی، دوراندیشی اور دیانت داری کے وصف ان کی مقبولیت کا سبب بنے۔ یہ باتیں چھپانے کی نہیں بلکہ فخر کرنے کی ہیں کہ مسلمانان ہند نے ایک ایسا رہبر چنا جو اعلیٰ پائے کا وکیل تھا، جو کھرا اور ایماندار انسان تھا، جو انگریز حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ان ہی کی زبان اور لہجے میں گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، جو دیدہ زیب لباس پہننے کا شوقین اور عمدہ کھانوں اور مشروبات کا اعلیٰ ذوق رکھتا تھا۔
یہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کی اجتماعی دانش تھی کہ انھوں نے ہر فرقہ اور مسلک میں ایک سے بڑھ کر ایک جید عالموں کی موجودگی کے باوجود انھیں اپنا قائد تسلیم کیا۔ قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ پھولوں کا ایک ایسا گلدستہ بن گئی تھی جس میں ہر عقیدے، ہر مسلک اور ہر فقہ کا مسلمان شامل تھا۔ چنانچہ تاریخ کی سچائیوں پر پردہ ڈالنے سے حقائق نہیں چھپا کرتے، بلکہ لوگوں کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور وہ ملک کے منطقی جواز کے حوالے سے مسلسل کنفیوز رہتے ہیں۔
بابائے قوم کے تصورات اور خیالات سے روگردانی کی ہم نے بہت سزا بھگت لی۔ ملک کو قیام کے 23 ویں برس دولخت ہوتے دیکھ لیا۔ مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کا زہر پھیلنے کے بھیانک نتائج بھی دیکھ لیے۔ اس لیے وطن عزیز کو بچانے کا اب واحد راستہ یہی ہے کہ جناح کے اصل تصور مملکت پر مبنی ریاستی ڈھانچے کو بحال کیا جائے۔ 1913 سے 1948 میں اپنی وفات تک انھوں نے جن خیالات اور تصورات کا اظہار کیا، وہی اس قوم کا اصل اثاثہ ہیں۔ اس لیے ہمیں کسی یک مسلکی آمریت پر مبنی وحدانی ریاست نہیں بلکہ ایک ایسی وفاقی جمہوریہ قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جس میں اقتدار واختیار ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک صحیح معنی میں منتقل ہو۔
جہاں ہر چھوٹی بڑی مذہبی اور لسانی اکائیوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جاتا ہو۔ جہاں خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے اور عزت کے نام پر انھیں قتل کرنے کی کوئی روایت موجود نہ ہو۔ ان اہداف کی عکاس ریاست ہی جناح کا اصل پاکستان ہوسکتی ہے۔
وہ تقسیم ہند پر کیوں مجبور ہوئے اور پاکستان بنانے کی کیوں ضرورت محسوس کی؟ اپنے تشکیل کردہ ملک پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے؟ ریاست کے بارے میں ان کے تصورات اور خیالات کو ان کے سیاسی وارثوں اور جانشینوں نے کس طرح ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا؟ آج پاکستان کو درپیش مسائل و مصائب کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیا ان مسائل کا سبب قائد کے افکار سے روگردانی تو نہیں ہے؟
بانی پاکستان کے بارے میں جتنے بھی مقالے اور تحقیقی مواد میسر ہے، اس کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے کسی بھی حصے میں بنیادپرست مسلمان نہیں رہے اور نہ ہی مسلکی جھگڑوں میں الجھنے کی کوشش کی۔ بلکہ انھوں نے حق و انصاف پر مبنی جمہوری معاشرے کی تشکیل کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں اکثریتی عقیدے و لسانی شناخت رکھنے والی کمیونٹیز کے ساتھ ان تمام مذہبی، لسانی اور قومیتی اقلیتوں کو بھی مساوی حقوق دیے جائیں، جو اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ 1916 کا میثاق لکھنو اور 1929 کے چودہ نکات ان کے انھی فکری رجحانات کا واضح اظہار ہیں۔
وہ اظہار آزادی کے زبردست علمبردار تھے۔ بمبئی کرانیکل پر لگنے والی پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا اور جب بحالی کی اجازت نہ ملی تو احتجاجاً اس کے بورڈ آف گورنرز سے الگ ہوگئے۔ اسی طرح وہ محنت کشوں کے حقوق کے بھی حامی تھے۔
1926 میں انھوں نے پی سی جوشی کے ساتھ مل کر ایک مزدور دوست لیبر پالیسی تشکیل دی، جس میں یونیفارم پہننے والے سرکاری اہلکاروں کو چھوڑ کر دیگر سبھی سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کو انجمن سازی کا حق دیا گیا تھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان کی تشکیل کردہ لیبر پالیسی جسے نوآبادیاتی حکمرانوں نے خوش دلی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے نافذ کیا تھا، انھی کے قائم کردہ ملک میں ایک فوجی آمر ایوب خان نے 1959 میں جو لیبر پالیسی دی، اس میں سے تمام مزدور دوست شقیں نکال دیں جو بابائے قوم نے نوآبادیاتی دور کی لیبر پالیسی میں شامل کرائی تھیں۔
جو لوگ محمد علی جناح کو ایک تنگ نظر مسلمان کے طور پر پیش کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ تاریخ کا ازسرنو مطالعہ کریں۔ بلبل ہند سروجنی نائیڈو نے بانی پاکستان کو ہندومسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا تھا۔ چند برس قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما اور ہندوتوا کے زبردست حامی مسٹر لال کشن ایڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا، تو انھوں نے بابائے قوم کے مزار پر حاضری بھی دی۔
انھوں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے انھیں کانگریس کی مرکزی قیادت سے بڑا سیکولر رہنما قرار دیا۔ اسی طرح BJP کے ایک اور رہنما اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب کا مرکزی خیال ہی مسٹر جناح کو بنایا اور ان کی سیاسی سوچ کو سیکولر قرار دیا۔ جسونت سنگھ نے لکھا ہے کہ نہرو اور دیگر کانگریسی رہنما محض دکھاوے کے سیکولر تھے جب کہ مسٹر جناح برصغیر کے حقیقی معنی میں ایک سیکولر رہنما تھے۔
قائداعظم کی 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی جانے والی تقریر ان کے پاکستان کے بارے میں تصورات کی حقیقی عکاس تھی۔ اس تقریر کو بیوروکریسی اور اس کے منظور نظر دانشوروں نے ہمیشہ متنازع بنانے کی کوشش کی اور آج بھی یہ عمل جاری ہے۔
خاص طور پر ملک کے نامزد سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کے حکم پر اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات و نشریات نے اس تقریر کو سنسر کردیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ بابائے قوم کے نظریات و افکار کو کس طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا اور پاکستان کو ان کی سوچ سے متضاد سمت میں چلانے کی سازش قیام پاکستان سے پہلے ہی تیار کرلی گئی تھی۔
اسی طرح یہ بات بھی آج تک سمجھ میں نہیں آسکی کہ ان کے ذاتی عقیدے اور مسلکی تعلق کو چھپانے کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ ہر شہری کی طرح سیاسی رہنماؤں کا بھی ایک عقیدہ اور مسلک ہوتا ہے، جو اس کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی لیڈر عوام میں مقبول ہے تو اس کی مقبولیت کا اس کی مسلکی یا فرقہ وارانہ وابستگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بشرطیکہ وہ اس بنیاد پر سیاست نہ کررہا ہو۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قائداعظم کا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس اسماعیلی گجراتی گھرانے سے تھا۔
جس کا سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے قصبے جھرک میں چھوٹا سا کاروبار تھا۔ وہیں جھرک میں محمد علی جناح پیدا ہوئے۔ محمدعلی جناح ابھی چند برس ہی کے تھے کہ یہ گھرانا کراچی منتقل ہوگیا۔ یہیں ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کے والد نے مالی مشکلات کے باوجود انھیں انگلستان بھجوانے کا بندوبست کیا، جہاں انھوں نے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ نہ جانے اس جھوٹ کے پیچھے کیا حکمت ہے کہ اندرون سندھ کے طلبا کو تو ان کی پیدائش کا صحیح مقام یعنی جھرک پڑھایا جاتا ہے، جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں ان کی جائے پیدائش کراچی کا ایک محلہ وزیر مینشن پڑھایا جاتا ہے۔
ان کے والدین کا ان کے انگلستان قیام کے دوران ہی انتقال ہوا اور ان کی قبریں آج بھی لیمارکیٹ کراچی کے اسماعیلی قبرستان میں موجود ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد نوجوان جناح نے بمبئی میں وکالت شروع کی اور اپنی بہنوں کو بھی وہیں بلوا لیا۔ 1898 میں محمد علی جناح نے اپنی بہنوں کے ساتھ اثنائے عشری عقیدہ اختیار کیا۔ عقیدہ تبدیلی کا Affidavit انسٹیٹیوٹ آف لوکل گورننس کے آرکائیو میں محفوظ ہے، جس پر علامہ عباس نجفی مرحوم کے توثیقی دستخط موجود ہیں۔
سابق بیوروکریٹ سید ہاشم رضا نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ ان کی میت کو غسل کھارادر کی امام بارگاہ کے ایک خدمت گار حاجی کلو نے دیا تھا۔ جب کہ گورنر ہاؤس کے بڑے ہال میں ان کی نماز جنازہ مولانا انیس الحسنین مرحوم نے پڑھائی، جس میں عزیزو اقارب کے علاوہ ایران سمیت کئی مسلم ممالک کے سفرا نے شرکت کی۔ البتہ سرکاری سطح پر نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔
یہی کچھ معاملہ مادر ملت کے ساتھ ہوا۔ ان کی میت کو غسل سابق طالب علم رہنما علی مختار رضوی مرحوم کی ہمشیرہ نے دیا۔ ان کی بھی دو نماز جنازہ ہوئی تھیں، ایک شیعہ عالم نے پڑھائی، جب کہ دوسری مولانا عبدالحامد بدایونی مرحوم نے پڑھائی۔
مگر ان حقائق کو نہ جانے کس مصلحت کے تحت چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے محمدعلی جناح کو کسی عقیدے یا مسلک سے تعلق کی بنیاد پر اپنا رہبر اور رہنما نہیں بنایا تھا۔ بلکہ ان کی اہلیت، دانشمندی، دوراندیشی اور دیانت داری کے وصف ان کی مقبولیت کا سبب بنے۔ یہ باتیں چھپانے کی نہیں بلکہ فخر کرنے کی ہیں کہ مسلمانان ہند نے ایک ایسا رہبر چنا جو اعلیٰ پائے کا وکیل تھا، جو کھرا اور ایماندار انسان تھا، جو انگریز حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ان ہی کی زبان اور لہجے میں گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، جو دیدہ زیب لباس پہننے کا شوقین اور عمدہ کھانوں اور مشروبات کا اعلیٰ ذوق رکھتا تھا۔
یہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کی اجتماعی دانش تھی کہ انھوں نے ہر فرقہ اور مسلک میں ایک سے بڑھ کر ایک جید عالموں کی موجودگی کے باوجود انھیں اپنا قائد تسلیم کیا۔ قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ پھولوں کا ایک ایسا گلدستہ بن گئی تھی جس میں ہر عقیدے، ہر مسلک اور ہر فقہ کا مسلمان شامل تھا۔ چنانچہ تاریخ کی سچائیوں پر پردہ ڈالنے سے حقائق نہیں چھپا کرتے، بلکہ لوگوں کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور وہ ملک کے منطقی جواز کے حوالے سے مسلسل کنفیوز رہتے ہیں۔
بابائے قوم کے تصورات اور خیالات سے روگردانی کی ہم نے بہت سزا بھگت لی۔ ملک کو قیام کے 23 ویں برس دولخت ہوتے دیکھ لیا۔ مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کا زہر پھیلنے کے بھیانک نتائج بھی دیکھ لیے۔ اس لیے وطن عزیز کو بچانے کا اب واحد راستہ یہی ہے کہ جناح کے اصل تصور مملکت پر مبنی ریاستی ڈھانچے کو بحال کیا جائے۔ 1913 سے 1948 میں اپنی وفات تک انھوں نے جن خیالات اور تصورات کا اظہار کیا، وہی اس قوم کا اصل اثاثہ ہیں۔ اس لیے ہمیں کسی یک مسلکی آمریت پر مبنی وحدانی ریاست نہیں بلکہ ایک ایسی وفاقی جمہوریہ قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جس میں اقتدار واختیار ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک صحیح معنی میں منتقل ہو۔
جہاں ہر چھوٹی بڑی مذہبی اور لسانی اکائیوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جاتا ہو۔ جہاں خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے اور عزت کے نام پر انھیں قتل کرنے کی کوئی روایت موجود نہ ہو۔ ان اہداف کی عکاس ریاست ہی جناح کا اصل پاکستان ہوسکتی ہے۔