ظلمت دہر میں نور کا منبع ہیں حضورﷺ
ان سطور کی ابتدا ایک عاشق رسول ﷺ کے ایک خط کے چند الفاظ سے ہے،
ان سطور کی ابتدا ایک عاشق رسول ﷺ کے ایک خط کے چند الفاظ سے ہے، جو پچھلی صدی کی تیسری دہائی کے آغاز میں لکھا گیا۔ یہ بحری جہاز میں ہندوستان سے انگلستان جا رہے تھے۔
جب جہاز عدن کے قریب پہنچا اور بحیرہ عرب کی نرم موجوں پر تیرتی ہوئی ان کی نظر پہلی بار جزیرہ نمائے عرب کی زمین پر پڑی تو قلب میں طوفان بپا ہو گیا اور جس طرح صدف کے منہ میں قطرۂ آب ٹپک کر گہرِ آبدار بن جاتا ہے ان کے قلم سے یہ چند الفاظ یکے بعد دیگرے موتیوں کی مانند ٹپکے اور انمول ہو گئے۔
''اے عرب کی سرزمین! تو ایک پتھر تھی، جسے دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا، مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی''۔ یہ مختصر، سیدھے سادے، دل نشیں الفاظ نہ صرف عشق و عقیدت سے شرابور ہیں بلکہ تاریخ کی ایک لازوال حقیقت کے ترجمان بھی ہیں، ان لازوال الفاظ کے مرتب و معمار کا نام علامہ محمد اقبال ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے دور جاہلیت کے ایک منتشر ہجوم اور بے مقصد زندگی گزارنے والے انسانوں کے گروہ کو رسالت کے نور مبین سے کس طرح ہدایت کی راہ پر گامزن کیا؟ اس کا صحیح اندازہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب اس تاریک دور کے مذہبی و سماجی اور ذہنی آوارگی کے حالات ہمارے سامنے ہوں۔ ظہور قدسی سے پہلے پوری دنیا اور خصوصاً خطہ عرب میں آباد غیر مہذب قبائل کی سماجی اور اخلاقی حالت کا یہ عالم تھا کہ وہ فاسد اور بیہودہ نظریات میں الجھے ہوئے تھے۔
دین اور مذہب کے مثبت ضوابط، اصولوں پر مبنی عقائد و نظریات سے وہ یکسر ناآشنا تھے۔ آباؤ اجداد کی تقلید اور توہم پرستی کے نتیجے میں انھوں نے مذہب کے نام پر خرافات کو اپنایا ہوا تھا، جنھیں وہ سرمایہ حیات سمجھتے اور جان سے بھی زیادہ ان کی حفاظت کرتے تھے۔ اہل عرب راہِ ہدایت سے بھٹک کر مختلف گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ بغض اور انتشار نے ان کی جمعیت اور قوت کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔
ان کی زندگی اس اونٹ کے مشابہہ تھی جو بے مہار ہو اور منہ اٹھائے بے مقصد چلا جا رہا ہو۔ ان میں ایک ہی عقیدے اور نظریے کے لوگ آباد نہیں تھے بلکہ ہر خاندان اور قبیلہ اپنے اپنے صنم کدے سجائے بیٹھا تھا۔ ان میں خدا، حشر نشر اور رسولوں کے منکر بھی تھے جو کہتے تھے کہ خدا کوئی نہیں ہے، زمانہ ہی سب کچھ ہے، ہمیں زندگی بخشنے اور موت دینے والا زمانہ ہی ہے۔
عرب میں سب سے پہلے بت پرستی کی بنیاد عمرو بن لحی نے رکھی۔ یہ شخص بڑا شریر، خطرناک اور جاہ پرست تھا، ایک مرتبہ ملک شام گیا، وہاں شہر بلقاء میں اس نے لوگوں کو بت پرستی کرتے دیکھا، اسے یہ منظر بہت پسند آیا (ابن ہشام) اس نے کہا، کیا تم مجھے ایک بت دے سکتے ہو جسے میں اپنے ساتھ لے جاؤں تا کہ اہل عرب بھی تمہاری طرح اس کی پوجا کریں؟ انھوں نے ایک بہت بڑا بت جس کا نام ''ہبل'' تھا، اس کو دیا۔
اس نے وہ لا کر کعبہ معظمہ میں نصب کر دیا اور سب قبیلوں کو مشترکہ طور پر اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ اس نئے کام میں شریک ہونے کے لیے سب اکٹھے ہو گئے اور ہبل کے پجاری بن گئے۔ پھر آہستہ آہستہ ہر قبیلے نے الگ الگ بت گھڑ لیے اور انھیں پوجنا شروع کر دیا۔
بتوں کو پوجتے پوجتے نوبت یہاں تک آپہنچی تھی کہ انھوں نے معمولی معمولی پتھروں کو بھی خدا بنانا شروع کر دیا تھا، وہ جہاں قیام کرتے ان پتھروں کو سامنے رکھ کر پوجتے اور ان کا طواف کرتے۔ آہستہ آہستہ جب وہ اس حرکت کے اچھی طرح عادی ہو گئے تو ہر جگہ کے پتھروں کے ساتھ ایسا ہی کرنا شروع کر دیا۔ یعنی ہر روڑا اور کنکر ان کا معبود بن گیا، پھر انھوں نے زبان سے بھی شرکیہ کلمات ادا کرنا شروع کر دیے۔ گھر سے نکلتے وقت بت کو چومتے اور واپس آ کر سب سے پہلے اسی کے آگے جھکتے تھے۔
شرک و کفر کی اس گرم بازاری پر آسمان ہل گیا، زمین کانپ گئی، فرشتے دہل گئے، انسانوں اور جنوں کے سوا کائنات کا جگر خون ہو گیا، کعبہ معظمہ سراپا فریاد بن گیا اور ہر شے بارگاہ خداوندی میں دست بہ دعا ہو گئی کہ اے مولا کریم! اب بغاوت اور سرکشی حد سے بڑھ گئی ہے، انسان کی کم علمی اور نادانی نے اسے ذلت کے پست ترین گڑھے میں گرا دیا ہے، وہ اپنا مقام کھو بیٹھا ہے، اس کی ذلیل حرکتوں سے ساری مخلوق نالاں ہے، آسمان کو حکم دے وہ ان پر ٹوٹ پڑے یا زمین کو اجازت دے وہ اسے نگل لے، یا اس کی آبادیوں پر دنیا بھر کے پہاڑ الٹ دے۔
ہر طرف ظلمت چھائی ہوئی ہے، روشنی کی کرن کسی طرف دکھائی نہیں دے رہی، تشنگی حد سے بڑھ گئی ہے، بندہ بندے کو کھا رہا ہے، انسان، انسان کا دشمن ہے، اگر دنیا کی تباہی مقصود نہیں تو پھر انسان کی دست گیری فرما، اس کی حالت زار پر رحم کر، اسے اپنی عنایات اور مہربانیوں سے نواز۔
خشک دھرتی، تاریک فضا اور بے زبان مخلوق کی دعائیں قبول ہوئیں، رحمت کے سمندر میں جوش آیا، حق کی بجلی کوندی، کوہ فاران کی طرف سے رحمت کی گھٹا اٹھی، کہ آخر وہ ساعت سعید اور مبارک دن آ گیا جس کا زمانہ منتظر تھا، صحرائے عرب کی سرزمین، مکہ معظمہ کے مقدس شہر بیت اللہ کے امین حضرت عبدالمطلب کا عالی نسب گھر، واقعہ فیل کا پہلا سال، ربیع الاول کی مقدس تاریخ اور گھڑی دو شنبہ کی صبح سعادت تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی رحمت سید عرب و عجم، باعث تخلیق کائنات، صاحب لوح و قلم، نبی کریم احمد مجتبیٰ ﷺ کی صورت میں درخشاں آفتاب طلوع کیا۔
ہر طرف سے تاریکی کے بادل چھٹ گئے، زمین سیراب ہو گئی اور ہر جگہ بقعہ نور بن گئی۔ آپ ﷺ نے کائنات کو ایک نئی جہت، نیا موڑ اور فلاح و کامرانی کا جامع دستور (قرآن حکیم) عطا کیا۔ بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ و منزل مل گئی اور بنی نوع انسانی پر دنیوی و اخروی ترقی و کامیابیوں کے دروازے کھل گئے۔
سرور کونین ﷺ کی ذات عالی شان حسن اخلاق کے تمام انواع کی اجماع ہے، آج بھی اور قیامت تک آپ ﷺ کی عادات، اخلاق اور جامع کردار بطریق اسناد نہایت صحت کے ساتھ محفوظ ہیں تا کہ ہر زمانے میں ان کی اقتداء کی جائے ان ہی کو دستورالعمل بنایا جائے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی ایک ایسا خوبصورت باغ ہے جس کے پھولوں کی مہک (سنت) اور ہواؤں کی تازگی سے قیامت تک دنیا مسحور رہے گی۔ آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی بنی نوع انسان کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے انسانیت کو توحید کے نور سے منور کر کے حقوق و فرائض کا قابل عمل دستور اور حکمرانی کا مثالی نظام عطا فرمایا۔ ''ریاست مدینہ'' مثالی اسلامی فلاحی ریاست کا ''رول ماڈل'' ہے، محسن انسانیت کا طرز حکمرانی احترام انسانیت کی اساس ہے، آپ ﷺ نے ریاست کے تمام باشندوں کے لیے عدل و انصاف، امن و سلامتی، جان و مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی، آپ ﷺ کا اسوۂ حسنہ اور خلفائے راشدین کا عہد خلافت ''گڈ گورننس'' کی روشن مثالیں ہیں۔
ربیع الاول کا مہینہ اسی ہستی کا ہی تو جشن ولادت ہے کہ جو ہمارا ''شفیع'' روز قیامت ہو گا، آج ہم جلسے جلوسوں کے ذریعے اس عظیم ہستی کو جو ''بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر'' عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اب ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گے، ہم آج جس دہشتگردی اور مصائب و آلام کا شکار ہیں، اس سے نجات کا ذریعہ سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
جو چاہتا ہے کہ مجھے عزت، وجاہت، ہیبت، ناموری ملے تو اسے چاہیے کہ اپنی زندگی محسن انسانیت محمد مصطفی ﷺ کے طریقوں کے مطابق گزارے۔ آپ ﷺ کی ذات عالی شان کا ہر رنگ، ہر روپ، ہر عمل اعتدال اور توسط والا ہے، آپ ﷺ نے زندگی کے ہر شعبے میں خوبصورت اعمال سے اپنی امت کے لیے جامع مثالیں چھوڑی ہیں۔ مسلمانوں کی کامیابی کا انحصار انھی سنن مبارکہ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
جب جہاز عدن کے قریب پہنچا اور بحیرہ عرب کی نرم موجوں پر تیرتی ہوئی ان کی نظر پہلی بار جزیرہ نمائے عرب کی زمین پر پڑی تو قلب میں طوفان بپا ہو گیا اور جس طرح صدف کے منہ میں قطرۂ آب ٹپک کر گہرِ آبدار بن جاتا ہے ان کے قلم سے یہ چند الفاظ یکے بعد دیگرے موتیوں کی مانند ٹپکے اور انمول ہو گئے۔
''اے عرب کی سرزمین! تو ایک پتھر تھی، جسے دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا، مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی''۔ یہ مختصر، سیدھے سادے، دل نشیں الفاظ نہ صرف عشق و عقیدت سے شرابور ہیں بلکہ تاریخ کی ایک لازوال حقیقت کے ترجمان بھی ہیں، ان لازوال الفاظ کے مرتب و معمار کا نام علامہ محمد اقبال ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے دور جاہلیت کے ایک منتشر ہجوم اور بے مقصد زندگی گزارنے والے انسانوں کے گروہ کو رسالت کے نور مبین سے کس طرح ہدایت کی راہ پر گامزن کیا؟ اس کا صحیح اندازہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب اس تاریک دور کے مذہبی و سماجی اور ذہنی آوارگی کے حالات ہمارے سامنے ہوں۔ ظہور قدسی سے پہلے پوری دنیا اور خصوصاً خطہ عرب میں آباد غیر مہذب قبائل کی سماجی اور اخلاقی حالت کا یہ عالم تھا کہ وہ فاسد اور بیہودہ نظریات میں الجھے ہوئے تھے۔
دین اور مذہب کے مثبت ضوابط، اصولوں پر مبنی عقائد و نظریات سے وہ یکسر ناآشنا تھے۔ آباؤ اجداد کی تقلید اور توہم پرستی کے نتیجے میں انھوں نے مذہب کے نام پر خرافات کو اپنایا ہوا تھا، جنھیں وہ سرمایہ حیات سمجھتے اور جان سے بھی زیادہ ان کی حفاظت کرتے تھے۔ اہل عرب راہِ ہدایت سے بھٹک کر مختلف گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ بغض اور انتشار نے ان کی جمعیت اور قوت کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔
ان کی زندگی اس اونٹ کے مشابہہ تھی جو بے مہار ہو اور منہ اٹھائے بے مقصد چلا جا رہا ہو۔ ان میں ایک ہی عقیدے اور نظریے کے لوگ آباد نہیں تھے بلکہ ہر خاندان اور قبیلہ اپنے اپنے صنم کدے سجائے بیٹھا تھا۔ ان میں خدا، حشر نشر اور رسولوں کے منکر بھی تھے جو کہتے تھے کہ خدا کوئی نہیں ہے، زمانہ ہی سب کچھ ہے، ہمیں زندگی بخشنے اور موت دینے والا زمانہ ہی ہے۔
عرب میں سب سے پہلے بت پرستی کی بنیاد عمرو بن لحی نے رکھی۔ یہ شخص بڑا شریر، خطرناک اور جاہ پرست تھا، ایک مرتبہ ملک شام گیا، وہاں شہر بلقاء میں اس نے لوگوں کو بت پرستی کرتے دیکھا، اسے یہ منظر بہت پسند آیا (ابن ہشام) اس نے کہا، کیا تم مجھے ایک بت دے سکتے ہو جسے میں اپنے ساتھ لے جاؤں تا کہ اہل عرب بھی تمہاری طرح اس کی پوجا کریں؟ انھوں نے ایک بہت بڑا بت جس کا نام ''ہبل'' تھا، اس کو دیا۔
اس نے وہ لا کر کعبہ معظمہ میں نصب کر دیا اور سب قبیلوں کو مشترکہ طور پر اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ اس نئے کام میں شریک ہونے کے لیے سب اکٹھے ہو گئے اور ہبل کے پجاری بن گئے۔ پھر آہستہ آہستہ ہر قبیلے نے الگ الگ بت گھڑ لیے اور انھیں پوجنا شروع کر دیا۔
بتوں کو پوجتے پوجتے نوبت یہاں تک آپہنچی تھی کہ انھوں نے معمولی معمولی پتھروں کو بھی خدا بنانا شروع کر دیا تھا، وہ جہاں قیام کرتے ان پتھروں کو سامنے رکھ کر پوجتے اور ان کا طواف کرتے۔ آہستہ آہستہ جب وہ اس حرکت کے اچھی طرح عادی ہو گئے تو ہر جگہ کے پتھروں کے ساتھ ایسا ہی کرنا شروع کر دیا۔ یعنی ہر روڑا اور کنکر ان کا معبود بن گیا، پھر انھوں نے زبان سے بھی شرکیہ کلمات ادا کرنا شروع کر دیے۔ گھر سے نکلتے وقت بت کو چومتے اور واپس آ کر سب سے پہلے اسی کے آگے جھکتے تھے۔
شرک و کفر کی اس گرم بازاری پر آسمان ہل گیا، زمین کانپ گئی، فرشتے دہل گئے، انسانوں اور جنوں کے سوا کائنات کا جگر خون ہو گیا، کعبہ معظمہ سراپا فریاد بن گیا اور ہر شے بارگاہ خداوندی میں دست بہ دعا ہو گئی کہ اے مولا کریم! اب بغاوت اور سرکشی حد سے بڑھ گئی ہے، انسان کی کم علمی اور نادانی نے اسے ذلت کے پست ترین گڑھے میں گرا دیا ہے، وہ اپنا مقام کھو بیٹھا ہے، اس کی ذلیل حرکتوں سے ساری مخلوق نالاں ہے، آسمان کو حکم دے وہ ان پر ٹوٹ پڑے یا زمین کو اجازت دے وہ اسے نگل لے، یا اس کی آبادیوں پر دنیا بھر کے پہاڑ الٹ دے۔
ہر طرف ظلمت چھائی ہوئی ہے، روشنی کی کرن کسی طرف دکھائی نہیں دے رہی، تشنگی حد سے بڑھ گئی ہے، بندہ بندے کو کھا رہا ہے، انسان، انسان کا دشمن ہے، اگر دنیا کی تباہی مقصود نہیں تو پھر انسان کی دست گیری فرما، اس کی حالت زار پر رحم کر، اسے اپنی عنایات اور مہربانیوں سے نواز۔
خشک دھرتی، تاریک فضا اور بے زبان مخلوق کی دعائیں قبول ہوئیں، رحمت کے سمندر میں جوش آیا، حق کی بجلی کوندی، کوہ فاران کی طرف سے رحمت کی گھٹا اٹھی، کہ آخر وہ ساعت سعید اور مبارک دن آ گیا جس کا زمانہ منتظر تھا، صحرائے عرب کی سرزمین، مکہ معظمہ کے مقدس شہر بیت اللہ کے امین حضرت عبدالمطلب کا عالی نسب گھر، واقعہ فیل کا پہلا سال، ربیع الاول کی مقدس تاریخ اور گھڑی دو شنبہ کی صبح سعادت تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی رحمت سید عرب و عجم، باعث تخلیق کائنات، صاحب لوح و قلم، نبی کریم احمد مجتبیٰ ﷺ کی صورت میں درخشاں آفتاب طلوع کیا۔
ہر طرف سے تاریکی کے بادل چھٹ گئے، زمین سیراب ہو گئی اور ہر جگہ بقعہ نور بن گئی۔ آپ ﷺ نے کائنات کو ایک نئی جہت، نیا موڑ اور فلاح و کامرانی کا جامع دستور (قرآن حکیم) عطا کیا۔ بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ و منزل مل گئی اور بنی نوع انسانی پر دنیوی و اخروی ترقی و کامیابیوں کے دروازے کھل گئے۔
سرور کونین ﷺ کی ذات عالی شان حسن اخلاق کے تمام انواع کی اجماع ہے، آج بھی اور قیامت تک آپ ﷺ کی عادات، اخلاق اور جامع کردار بطریق اسناد نہایت صحت کے ساتھ محفوظ ہیں تا کہ ہر زمانے میں ان کی اقتداء کی جائے ان ہی کو دستورالعمل بنایا جائے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی ایک ایسا خوبصورت باغ ہے جس کے پھولوں کی مہک (سنت) اور ہواؤں کی تازگی سے قیامت تک دنیا مسحور رہے گی۔ آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی بنی نوع انسان کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے انسانیت کو توحید کے نور سے منور کر کے حقوق و فرائض کا قابل عمل دستور اور حکمرانی کا مثالی نظام عطا فرمایا۔ ''ریاست مدینہ'' مثالی اسلامی فلاحی ریاست کا ''رول ماڈل'' ہے، محسن انسانیت کا طرز حکمرانی احترام انسانیت کی اساس ہے، آپ ﷺ نے ریاست کے تمام باشندوں کے لیے عدل و انصاف، امن و سلامتی، جان و مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی، آپ ﷺ کا اسوۂ حسنہ اور خلفائے راشدین کا عہد خلافت ''گڈ گورننس'' کی روشن مثالیں ہیں۔
ربیع الاول کا مہینہ اسی ہستی کا ہی تو جشن ولادت ہے کہ جو ہمارا ''شفیع'' روز قیامت ہو گا، آج ہم جلسے جلوسوں کے ذریعے اس عظیم ہستی کو جو ''بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر'' عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اب ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہیں کریں گے، ہم آج جس دہشتگردی اور مصائب و آلام کا شکار ہیں، اس سے نجات کا ذریعہ سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
جو چاہتا ہے کہ مجھے عزت، وجاہت، ہیبت، ناموری ملے تو اسے چاہیے کہ اپنی زندگی محسن انسانیت محمد مصطفی ﷺ کے طریقوں کے مطابق گزارے۔ آپ ﷺ کی ذات عالی شان کا ہر رنگ، ہر روپ، ہر عمل اعتدال اور توسط والا ہے، آپ ﷺ نے زندگی کے ہر شعبے میں خوبصورت اعمال سے اپنی امت کے لیے جامع مثالیں چھوڑی ہیں۔ مسلمانوں کی کامیابی کا انحصار انھی سنن مبارکہ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔