پارلیمنٹ نمائشی کیوں
قومی اسمبلی اہمیت کے لحاظ سے سب سے اہم اور سپریم ادارہ ہے جو ملک کے وزیر اعظم کا انتخاب کرتا ہے
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت ایوان کو جوابدہ ہے اور ارکان پارلیمنٹ کو حکومت کی کارکردگی جاننے کا حق ہے اور اسی لیے میں محکمہ داخلہ کی ڈھائی سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کر رہا ہوں اور دیگر محکموں کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ یہ بات انھوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہی اور اپنی داخلہ جیسی اہم وزارت کی ڈھائی سالہ کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ پہلی بار ایوان میں پیش کی جس کا ایوان میں زبردست خیرمقدم کیا گیا اور ارکان نے اس توقع کا اظہار کیا کہ دوسرے محکموں کے وزیر بھی چوہدری نثار علی خان کی تقلید کرتے ہوئے انھیں اعتماد میں لیں گے۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار اور وزیراعظم نواز شریف کی تیسری حکومت میں محکمہ داخلہ کی کارکردگی ایوان کے ساتھ قوم کے سامنے آئی ہے جو واقعی قابل تقلید اور خوش آیند ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے وزیر بھی اپنے محکموں کی کارکردگی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں یا نہیں۔
اب تک موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح میڈیا میں نمائشی اشتہارات دے کر اپنی کارکردگی کے دعوے کرتی آئی ہے جب کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں، جس کا واضح ثبوت دو اہم محکموں کے وزیر اسحاق ڈار اور خواجہ آصف ہیں، جو یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ ملک میں مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کم ہوئی ہے اور حکومت کے سوا سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور مہنگائی اور لوڈشیڈنگ عملی طور پر کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہیں اور بجلی کا استعمال سردیوں میں کم ہونے کے باوجود گرمیوں والا ہی ہے، جس پر اب بھی ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔
قومی اسمبلی اہمیت کے لحاظ سے سب سے اہم اور سپریم ادارہ ہے جو ملک کے وزیر اعظم کا انتخاب کرتا ہے اور بجٹ منظور کرتا ہے اور پھر بے بس ہو کر نمائشی ہو کر رہ جاتا ہے، کیونکہ وہاں سے منتخب اور بعد میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیر اعظم اپنی حکومت قائم کرتا ہے اور من مانیاں شروع ہو جاتی ہیں اور پھر پارلیمنٹ کو بھلا دیا جاتا ہے اور حکومت کے نزدیک پارلیمنٹ کی حیثیت محض نمائشی ہو کر رہ جاتی ہے اور ایوان کو اہم فیصلوں میں بھی اعتماد لینے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں یہ خاص طور پر ہوتا آ رہا ہے جس کی وجہ سے قومی اسمبلی خاص طور پر اپنے ارکان سے خالی، بے بس اور نمائشی ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین سو ارکان کے ایوان میں صرف 27 ممبران اور صرف ایک وزیر نظر آتا ہے اور اپوزیشن لیڈر بھی سب کچھ دیکھتے ہوئے کورم نہ ہونے کی نشاندہی نہیں کرتے۔ ایسا صرف قومی اسمبلی ہی میں اکثر نظر آتا ہے جب کہ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بہت کم ہوتا ہے اور قومی اسمبلی کے ایوان جیسی ویرانی کسی اور ایوان میں نظر نہیں آتی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار خان نے کہا ہے کہ حکومت ایوان کو جواب دہ ہے۔ کہنے کو اور آئینی طور پر تو ایسا ہی ہے مگر ایوان کے باہر صرف حکومت اور وزیر اعظم ہی بااختیار نظر آتے ہیں اور ان کے من مانے فیصلوں سے تو لگتا ہے کہ سپریم پارلیمنٹ نہیں بلکہ وہ خود ہی سپریم ہیں اور حکومت وہ من مانے فیصلے کرتی ہے جس کی توثیق اکثر پارلیمنٹ سے نہیں کرائی جاتی اور اب تو قوم نے دیکھا کہ بااثر وزیر خزانہ نے چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس عوام پر تھوپ دیے جسے وہ منی بجٹ ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
یہ فیصلہ اگر قومی اسمبلی کے ذریعے کیا جاتا تو وہاں بھی یہی ہونا تھا کہ چالیس ارب روپے کے بوجھ کو قوم پر لادنے کی حکومتی ارکان مکمل تائید اور اپوزیشن اس کی مخالفت کرتی اور کامیاب حکومت ہی رہتی کیونکہ ہر بجٹ کے موقع پر یہی ہوتا آ رہا ہے۔ حکومت من مانا بجٹ ہمیشہ قومی اسمبلی سے منظور کرا لیتی ہے اور قوم پر احسان کے لیے معمولی ترمیم منظور کر کے اس خوشی میں اسپیکر کی دعوت تمام ارکان مل کر اڑاتے ہیں۔
حکومتی کارکردگی پیش کرنے کا حقیقی پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے جہاں تمام اہم حکومتی فیصلے ضرور بلکہ ہر حالت میں ہونے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ پارلیمنٹ کے جن دونوں ایوانوں میں خود وزیر اعظم نواز شریف اکثر آنا گوارا نہ کرتے ہوں وہاں کوئی وزیر اپنے محکمے کی کارکردگی کیوں پیش کرنا پسند کرے گا۔ ہر محکمے کا وزیر اپنے اور اپنے قائد کے فوٹو اور پیغام کے ساتھ سرکاری خرچ پر اپنے محکمے کی خود ساختہ کارکردگی میڈیا پر پیش کر کے جان چھڑا لیتا ہے تو اسے اور حکومت کو کیا پڑی کہ اپنی کارکردگی رپورٹ اپنے ایوان میں پیش کر کے تنقید کا نشانہ بنے اور خوشامد نہ ہونے پر موڈ خراب کرے۔
کروڑوں روپے کے اخراجات سے الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے ارکان کا انتخاب کراتا ہے اور کروڑوں روپے اپنی جیب سے خرچ کر کے یہ ارکان پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو کر آتے ہیں اور حلف اٹھانے کے بعد ارکان ہی کیا خود وزیر اعظم اور ان کے وزیر بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ اب اتنے خود مختار ہو گئے ہیں کہ اب انھیں پارلیمنٹ کی ضرورت باقی نہیں رہی اور اب انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام میں یہ جرأت نہیں کہ وہ اپنے نمایندوں سے کچھ پوچھ سکیں اور وزیر اعظم نواز شریف کو دوروں سے ہی فرصت نہیں کہ وہ اپنے وزیروں سے ان کے محکموں کی کارکردگی ہی پوچھ لیں۔ کبھی کبھی یا ضرورت پر ہی کابینہ کا اجلاس بلا کر مرضی کے فیصلے کابینہ کے نام پر کرا لیے جاتے ہیں۔
وزیر اعظم کے پاس ارکان پارلیمنٹ تو کیا اپنے وزیروں سے ملنے کا وقت نہیں ہے۔ کبھی کبھی اخباروں میں ٹیبل اسٹوری آ جاتی ہے کہ وزیر اعظم اپنے وزیروں سے ان کے محکموں کی کارکردگی معلوم کریں گے اور ناقص کارکردگی والے وزیروں کو تبدیل کریں گے مگر ڈھائی سال میں ایسا ہوا ہے نہ وزیر اعظم فارغ ہیں کہ اخبارات پڑھ کر ہی اپنے وزیروں سے ان کی کارکردگی ہی معلوم کر لیں اس لیے سب وفاقی وزیر مطمئن اور آرام سے ہیں اور وزیر اعظم کی پوچھ گچھ کی بھی فکر نہیں ہے۔
جب وزیر اعظم ہی سینیٹ تو کیا قومی اسمبلی میں اکثر اجلاسوں میں نہ آئیں تو وزیروں کو کیا پڑی کہ وہ پارلیمنٹ کی دکھاوے کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں جائیں۔ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین ان کے نہ آنے پر لاکھ برہم ہوں وزیروں کو کیا فکر انھیں فکر صرف وزیر اعظم کی ناراضی کی ہو گی مگر وزیر اعظم کے پاس ان سے اظہار برہمی کا وقت بھی اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بڑا مسئلہ پیش آ جائے۔
نمائشی پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ کا ڈھائی سالہ کارکردگی پیش کرنا خوش آیند ہے مگر کسی اور وزیر سے یہ توقع نہیں، اور رہے وزیر اعظم، ڈھائی سال بعد انھیں مجبوراً عوام کے پاس اپنی 5 سالہ کارکردگی لے کر جانا ہی پڑے گا اگر 5 سال مکمل ہوئے تو۔