کیفیات ذرا ہٹ کے
نومبر کا مہینہ اور سردیوں کی آمد تھی۔ فجر کے بعد سورج کی ٹھنڈی کرنیں نمودار ہونے کو تھیں۔
نومبر کا مہینہ اور سردیوں کی آمد تھی۔ فجر کے بعد سورج کی ٹھنڈی کرنیں نمودار ہونے کو تھیں۔ میں عبداللہ شاہ غازی کے نئے زیرِ تعمیر مزار کے سنسان، انسانوں سے خالی پارکنگ لاٹ میں پھیلے بہت سے کبوتروں کے درمیان تنہا کھڑا انھیں دیکھ رہا تھا۔ جو میرے قدموں کے چاروں طرف دور دور تک بکھرے دانہ چگ رہے تھے۔ اچانک ایک آہٹ ہوئی اور وہ سب یکدم، ایک ساتھ پھڑپھڑاتے ہوئے تیزی سے میرے اردگرد اڑنے لگے۔
ان بہت سے کبوتروں کے پروں سے پیدا ہوتی ہوا میرے چہرے پر پڑنے لگی، ان کی پھڑپھڑاہٹ کی آواز نے جیسے میری سماعت کو کسی مختلف پچ اور سٹنگ پر منتقل کردیا، مجھے سوائے اب ان پروں کے کوئی دوسری آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ ان کے میرے چہرے کے قریب سے گزرنے کے منظر کے علاوہ کوئی منظر دکھائی نہ دے رہا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں کوئی تھری ڈی فلم دیکھ رہا ہوں کیونکہ وہ بہت سے کبوتر میری ناک کی سیدھ میں آتے اور چہرے کے بالکل قریب پہنچ کر ذرا سے فاصلے سے مجھے بچاتے ہوئے دائیں بائیں نکل جاتے۔
ان میں سے کوئی ایک بھی مجھ سے یا ایک دوسرے سے نہ ٹکراتا۔ یقیناً ان کی تربیت کسی ماہر کوچ نے کی تھی، سب ایک رخ میں ایک ہی ترتیب سے پرواز کرتے۔ وہ دیگر پرندوں کے مقابلے میں زیادہ مہذب بھی تھے، ان درجنوں کبوتروں میں سے کسی ایک نے بھی میرے سر پر چونچ مار کر فرار ہونے کی کوشش نہ کی، جیسے کہ چیل، کوے اکثر کر گزرتے ہیں۔ میں نے اتنے قریب سے اپنے گرد بہت سے کبوتروں کو پرواز کرتے پہلی بار دیکھا تھا، میرے چاروں اطراف ان کی پرواز نے مجھے ایک روحانی احساس میں مبتلا کردیا۔ ایک لمحے پہلے کا عام سا دنیاوی ماحول جیسے یکدم روحانی منظر میں بدل گیا۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنے آس پاس اڑتے ان کبوتروں کے درمیان خود بھی آسمانوں میں کہیں پرواز کررہا ہوں، جیسے میں جسم سے زیادہ روح ہوں۔ ان کبوتروں کے زمین سے اٹھنے سے میرے پاس سے پرواز کرتے ہوئے گزرنے تک کے وہ تین چار لمحات مختصر مگر بہت متاثر کن اور روح پر اثر چھوڑ جانے والے تھے۔
مجھے مرحوم ڈاکٹر جاوید اقبال کی اپنے والد علامہ اقبال کے بارے میں تحریر کی گئی یادداشتوں میں سے وہ بات یاد آگئی کہ جہاں انھوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ علامہ اقبال کو کبوتروں سے بھی لگاؤ رہ چکا تھا۔ آخری عمر میں ان کی خواہش تھی کہ گھر کی چھت پر ایک وسیع پنجرہ بنوایا جائے جس میں لاتعداد کبوتر چھوڑ دیے جائیں اور ان کی چارپائی ہر وقت ان کبوتروں کے درمیان رہا کرے۔ انھیں یقین تھا کہ کبوتروں کے پروں کی ہوا جسم اور روح کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔
میں نے کچھ دور بیٹھے دانہ فروخت کرنے والے شخص سے ایک تھیلی باجرے کی لے کر انھیں ڈال دی۔ جوں ہی وہ دانے زمین پر گرتے تمام کبوتر اس کے گرد جلدی جلدی جمع ہو کر شوق سے انھیںکھانے لگتے۔ جب وہ ایسا کرتے تو میرے چہرے پر بے ساختہ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل جاتی، مجھے گہرا سکون محسوس ہوتا، جس کا دانہ ڈالنے سے پہلے مجھے اندازہ نہ تھا۔ میں سوچنے لگتا نجانے ان کبوتروں کا اللہ کے ولیوں سے کیا تعلق ہے، جہاں اللہ کے بندوں کا مدفن ہو یہ وہاں ضرور موجود ہوتے ہیں۔
چاہے وہاںچڑیا، کوے، طوطے کوئی موجود ہوں نہ ہوں، یہ ضرور ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ صرف اپنی روزی کی خاطر یہاں نہیں آتے، ضرور اس کے پیچھے کوئی غیر دریافت شدہ روحانی اثرات بھی موجود ہیں جن کا ہمیں ابھی علم نہیں۔
میں نے مختلف اوقات میں مختلف مزاروں پر حاضری دی اور یہ محسوس کیا کہ جس وقت وہاں کبوتر موجود ہوں ماحول میں روحانیت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
اس روز بھی جب کبوتر میرے آس پاس پرواز کررہے تھے تو میری روحانی کیفیت میں اضافہ ہوگیا تھا، جس کے اثرات شاید میری روح سے ہوتے ہوئے چہرے پر بھی عیاں ہونے لگے تھے، جس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں اسی کیفیت میں پارکنگ لاٹ سے مزار میں داخل ہونے کے لیے گیٹ پر گارڈ کو تلاشی دینے کے لیے رکا تو اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بغیر تلاشی لیے ہی اندر جانے کا اشارہ کردیا، میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا تو وہ بولا ''جس نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ اس طرح مسکراتا ہوا نہیں آتا''۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میرے چہرے پر ایک غیر محسوس سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ چنانچہ میں خاموش، سوچتی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا مزار کے احاطے میں داخل ہوگیا۔
اللہ کے ولیوں کی آرام گاہوں کی حدود میں بھی عجیب و غریب، روٹین سے ہٹ کر واقعات وکیفیات جنم لیتے ہیں۔ ایک جمعرات کی شام میں اسی مزار کے باہر سڑک کے اس پار کھڑا دور سے مزار کے نئے تعمیر ہوتے در و دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ مغرب کی اذان ہونے کو تھی۔ مزار کی جانب چڑھتی چڑھائی پر زائرین کی آمدورفت جاری تھی۔ دائیں بائیں بیٹھے گداگر کچھ معذور، کچھ ضعیف اور کچھ پیشہ ور گزرنے والوں کے سامنے دست سوال پھیلا رہے تھے۔
میں اس ڈھلتی شام میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا کہ میری نظر ایک تیس پینتیس سالہ سیاہ رنگت کے حامل بکھرے، قدرے لمبے، مٹی سے اٹے بالوں اور داڑھی والے ملنگ ٹائپ شخص پر پڑی، جس نے صرف میلی سی شلوار پہن رکھی تھی، اس کے اوپر کا بدن ننگا تھا کیونکہ قمیض اس نے اتار کر بغل میں دبا رکھی تھی۔ وہ سر سے پاؤں تک دھول سے اٹا ایک طرف بیٹھا دنیا سے بے خبر بڑے شوق و رغبت سے لنگر کے بے مزہ چاول کھارہا تھا۔
اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے اس پر رحم آنے لگا۔ چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد میں نے سوچا اسے کچھ پیسے دے دوں تاکہ وہ غسل کرلے، شاید وہ اس سے کچھ بہتر محسوس کرے، اس کے حواس کچھ بحال ہوجائیں۔ چنانچہ جب وہ کھا چکا تو میں اس کے پاس پہنچا اور ہاتھ میں پچاس کا نوٹ لیے اس کی طرف بڑھایا، اس نے آہستہ سے نظر اٹھا تے ہوئے پہلے میرے ہاتھ، پھر چہرے کی جانب لمحے بھر کو دیکھا اور بڑی بے نیازی سے میرا ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے دوبارہ دوسری سمت دیکھنے لگا۔
مجھے اس سے اس ردعمل کی امید نہ تھی، میں کچھ شرمندہ سا ہو کر اپنے آس پاس دیکھنے لگا اور ساتھ ہی ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں یہ سوچنے لگا کہ اس نے یہ پیسے قبول کیوں نہ کیے۔ یقیناً پچاس روپے کی رقم اس جیسے فقیر کے لیے کوئی اتنی کم بھی نہ تھی، عموماً فقیر دس بیس روپے لے کر ہی خوش ہوجاتے ہیں۔
جس انداز سے اس نے پیسوں کو رد کیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ اسے اس کی کوئی حاجت نہ تھی، جب کہ میرے خیال میں اسے ان کی شدید ضرورت تھی۔ ایک عجیب بات میں نے اس شخص میں محسوس کی کہ جب میری اور اس کی نگاہیں ملیں تو مجھے توقع کے برخلاف ان میں کوئی پاگل پن یا حواس باختگی نظر نہ آئی، بلکہ ٹھہراؤ، خوداعتمادی اور سکون دکھائی دیا۔ اس کی آنکھوں، اس کی باڈی لینگویج میں کوئی بے چارگی یا محتاجی نہ تھی۔
جیسے وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کررہا ہو، جیسے وہ اختیاراً اس روپ، اس راستے کو اپنائے ہوئے ہو۔ جیسے اس کی پراعتماد نگاہیں مجھ سے یہ کہہ رہی ہوں کہ اسے اس دولت کی نہیں بلکہ مجھے زیادہ ضرورت ہو۔ نجانے کیوں مجھے وہ خود سے کہیں آگے محسوس ہوا، ہم دنیا کے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے لوگوں سے آگے کی کسی منزل، کسی مقام پر جہاں لباس، خوراک، چھت اور سواری اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا میں اپنا پچاس کا وہ نوٹ ہاتھ میں دبائے، سر جھکائے آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے واپس اپنی دنیا کی جانب لوٹ گیا۔
ان بہت سے کبوتروں کے پروں سے پیدا ہوتی ہوا میرے چہرے پر پڑنے لگی، ان کی پھڑپھڑاہٹ کی آواز نے جیسے میری سماعت کو کسی مختلف پچ اور سٹنگ پر منتقل کردیا، مجھے سوائے اب ان پروں کے کوئی دوسری آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ ان کے میرے چہرے کے قریب سے گزرنے کے منظر کے علاوہ کوئی منظر دکھائی نہ دے رہا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں کوئی تھری ڈی فلم دیکھ رہا ہوں کیونکہ وہ بہت سے کبوتر میری ناک کی سیدھ میں آتے اور چہرے کے بالکل قریب پہنچ کر ذرا سے فاصلے سے مجھے بچاتے ہوئے دائیں بائیں نکل جاتے۔
ان میں سے کوئی ایک بھی مجھ سے یا ایک دوسرے سے نہ ٹکراتا۔ یقیناً ان کی تربیت کسی ماہر کوچ نے کی تھی، سب ایک رخ میں ایک ہی ترتیب سے پرواز کرتے۔ وہ دیگر پرندوں کے مقابلے میں زیادہ مہذب بھی تھے، ان درجنوں کبوتروں میں سے کسی ایک نے بھی میرے سر پر چونچ مار کر فرار ہونے کی کوشش نہ کی، جیسے کہ چیل، کوے اکثر کر گزرتے ہیں۔ میں نے اتنے قریب سے اپنے گرد بہت سے کبوتروں کو پرواز کرتے پہلی بار دیکھا تھا، میرے چاروں اطراف ان کی پرواز نے مجھے ایک روحانی احساس میں مبتلا کردیا۔ ایک لمحے پہلے کا عام سا دنیاوی ماحول جیسے یکدم روحانی منظر میں بدل گیا۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنے آس پاس اڑتے ان کبوتروں کے درمیان خود بھی آسمانوں میں کہیں پرواز کررہا ہوں، جیسے میں جسم سے زیادہ روح ہوں۔ ان کبوتروں کے زمین سے اٹھنے سے میرے پاس سے پرواز کرتے ہوئے گزرنے تک کے وہ تین چار لمحات مختصر مگر بہت متاثر کن اور روح پر اثر چھوڑ جانے والے تھے۔
مجھے مرحوم ڈاکٹر جاوید اقبال کی اپنے والد علامہ اقبال کے بارے میں تحریر کی گئی یادداشتوں میں سے وہ بات یاد آگئی کہ جہاں انھوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ علامہ اقبال کو کبوتروں سے بھی لگاؤ رہ چکا تھا۔ آخری عمر میں ان کی خواہش تھی کہ گھر کی چھت پر ایک وسیع پنجرہ بنوایا جائے جس میں لاتعداد کبوتر چھوڑ دیے جائیں اور ان کی چارپائی ہر وقت ان کبوتروں کے درمیان رہا کرے۔ انھیں یقین تھا کہ کبوتروں کے پروں کی ہوا جسم اور روح کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔
میں نے کچھ دور بیٹھے دانہ فروخت کرنے والے شخص سے ایک تھیلی باجرے کی لے کر انھیں ڈال دی۔ جوں ہی وہ دانے زمین پر گرتے تمام کبوتر اس کے گرد جلدی جلدی جمع ہو کر شوق سے انھیںکھانے لگتے۔ جب وہ ایسا کرتے تو میرے چہرے پر بے ساختہ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل جاتی، مجھے گہرا سکون محسوس ہوتا، جس کا دانہ ڈالنے سے پہلے مجھے اندازہ نہ تھا۔ میں سوچنے لگتا نجانے ان کبوتروں کا اللہ کے ولیوں سے کیا تعلق ہے، جہاں اللہ کے بندوں کا مدفن ہو یہ وہاں ضرور موجود ہوتے ہیں۔
چاہے وہاںچڑیا، کوے، طوطے کوئی موجود ہوں نہ ہوں، یہ ضرور ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ صرف اپنی روزی کی خاطر یہاں نہیں آتے، ضرور اس کے پیچھے کوئی غیر دریافت شدہ روحانی اثرات بھی موجود ہیں جن کا ہمیں ابھی علم نہیں۔
میں نے مختلف اوقات میں مختلف مزاروں پر حاضری دی اور یہ محسوس کیا کہ جس وقت وہاں کبوتر موجود ہوں ماحول میں روحانیت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
اس روز بھی جب کبوتر میرے آس پاس پرواز کررہے تھے تو میری روحانی کیفیت میں اضافہ ہوگیا تھا، جس کے اثرات شاید میری روح سے ہوتے ہوئے چہرے پر بھی عیاں ہونے لگے تھے، جس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں اسی کیفیت میں پارکنگ لاٹ سے مزار میں داخل ہونے کے لیے گیٹ پر گارڈ کو تلاشی دینے کے لیے رکا تو اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بغیر تلاشی لیے ہی اندر جانے کا اشارہ کردیا، میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا تو وہ بولا ''جس نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ اس طرح مسکراتا ہوا نہیں آتا''۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میرے چہرے پر ایک غیر محسوس سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ چنانچہ میں خاموش، سوچتی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا مزار کے احاطے میں داخل ہوگیا۔
اللہ کے ولیوں کی آرام گاہوں کی حدود میں بھی عجیب و غریب، روٹین سے ہٹ کر واقعات وکیفیات جنم لیتے ہیں۔ ایک جمعرات کی شام میں اسی مزار کے باہر سڑک کے اس پار کھڑا دور سے مزار کے نئے تعمیر ہوتے در و دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ مغرب کی اذان ہونے کو تھی۔ مزار کی جانب چڑھتی چڑھائی پر زائرین کی آمدورفت جاری تھی۔ دائیں بائیں بیٹھے گداگر کچھ معذور، کچھ ضعیف اور کچھ پیشہ ور گزرنے والوں کے سامنے دست سوال پھیلا رہے تھے۔
میں اس ڈھلتی شام میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا کہ میری نظر ایک تیس پینتیس سالہ سیاہ رنگت کے حامل بکھرے، قدرے لمبے، مٹی سے اٹے بالوں اور داڑھی والے ملنگ ٹائپ شخص پر پڑی، جس نے صرف میلی سی شلوار پہن رکھی تھی، اس کے اوپر کا بدن ننگا تھا کیونکہ قمیض اس نے اتار کر بغل میں دبا رکھی تھی۔ وہ سر سے پاؤں تک دھول سے اٹا ایک طرف بیٹھا دنیا سے بے خبر بڑے شوق و رغبت سے لنگر کے بے مزہ چاول کھارہا تھا۔
اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے اس پر رحم آنے لگا۔ چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد میں نے سوچا اسے کچھ پیسے دے دوں تاکہ وہ غسل کرلے، شاید وہ اس سے کچھ بہتر محسوس کرے، اس کے حواس کچھ بحال ہوجائیں۔ چنانچہ جب وہ کھا چکا تو میں اس کے پاس پہنچا اور ہاتھ میں پچاس کا نوٹ لیے اس کی طرف بڑھایا، اس نے آہستہ سے نظر اٹھا تے ہوئے پہلے میرے ہاتھ، پھر چہرے کی جانب لمحے بھر کو دیکھا اور بڑی بے نیازی سے میرا ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے دوبارہ دوسری سمت دیکھنے لگا۔
مجھے اس سے اس ردعمل کی امید نہ تھی، میں کچھ شرمندہ سا ہو کر اپنے آس پاس دیکھنے لگا اور ساتھ ہی ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں یہ سوچنے لگا کہ اس نے یہ پیسے قبول کیوں نہ کیے۔ یقیناً پچاس روپے کی رقم اس جیسے فقیر کے لیے کوئی اتنی کم بھی نہ تھی، عموماً فقیر دس بیس روپے لے کر ہی خوش ہوجاتے ہیں۔
جس انداز سے اس نے پیسوں کو رد کیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ اسے اس کی کوئی حاجت نہ تھی، جب کہ میرے خیال میں اسے ان کی شدید ضرورت تھی۔ ایک عجیب بات میں نے اس شخص میں محسوس کی کہ جب میری اور اس کی نگاہیں ملیں تو مجھے توقع کے برخلاف ان میں کوئی پاگل پن یا حواس باختگی نظر نہ آئی، بلکہ ٹھہراؤ، خوداعتمادی اور سکون دکھائی دیا۔ اس کی آنکھوں، اس کی باڈی لینگویج میں کوئی بے چارگی یا محتاجی نہ تھی۔
جیسے وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کررہا ہو، جیسے وہ اختیاراً اس روپ، اس راستے کو اپنائے ہوئے ہو۔ جیسے اس کی پراعتماد نگاہیں مجھ سے یہ کہہ رہی ہوں کہ اسے اس دولت کی نہیں بلکہ مجھے زیادہ ضرورت ہو۔ نجانے کیوں مجھے وہ خود سے کہیں آگے محسوس ہوا، ہم دنیا کے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے لوگوں سے آگے کی کسی منزل، کسی مقام پر جہاں لباس، خوراک، چھت اور سواری اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا میں اپنا پچاس کا وہ نوٹ ہاتھ میں دبائے، سر جھکائے آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے واپس اپنی دنیا کی جانب لوٹ گیا۔