بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت
مجھے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اور ان کی پارٹی بی جے پی کی خاموشی پر حیرت ہو رہی ہے
مجھے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اور ان کی پارٹی بی جے پی کی خاموشی پر حیرت ہو رہی ہے جو انھوں نے قومی اعزازات کے واپس کرنے پر اختیار کر رکھی ہے۔ وہ گھٹیا سیاست کے پیچ و خم میں اسقدر کھوئے ہوئے ہیں کہ انھیں ان ادبی' سائنسی اور دیگر شعبوں کو دیے جانے والے ایوارڈز کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ کسی شعبے میں عروج حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں اور جن لوگوں کو کسی امتیاز کی بنا پر ایوارڈ دیے جاتے ہیں وہ معمولی لوگ نہیں ہوتے لیکن انھوں نے ملک میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے ماحول کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنے اعزاز واپس کر دیے ہیں۔
وزیراعظم مودی جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیان جاری کرتے ہیں لیکن ان کا اتنے اہم معاملے پر چپ سادھ لینا معنی خیز ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت کا الزام کسی ایک فرد نے عاید نہیں کیا۔ تقریباً 500 ممتاز دانشور' سائنسدان اور ملک بھر کے فنکار شامل ہیں جنہوں نے اپنے ایوارڈ واپس کر دیے ہیں۔ انھوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کر کے ایسا نہیں کیا بلکہ عدم برداشت کے ماحول کے خلاف ان کا مشترکہ ردعمل تھا۔ جب ان سب لوگوں نے جن کا تعلق مختلف شعبوں سے تھا یہ محسوس کیا کہ وہ اس گھٹن کے ماحول میں اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکتے تو انھوں نے اپنے ایوارڈ واپس کر دیے۔ مودی حکومت کو بیٹھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آخر اس قسم کے جذبات کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟
اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ایک بڑی وجہ انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کی مرکزی حکومت کے معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت ہے۔ دوسری طرف وزیر ماحولیات ارون جیٹلے نے عدم برداشت کے جذبات کی تردید کی ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ حقیقت کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لی جائیں۔ جب تک بی جے پی کو یہ احساس ہو گا کہ ان کی توجہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی اختلافات پر لگی ہوئی ہے اس وقت تک ملک میں تقسیم در تقسیم بڑھتی چلی جائے گی اور مختلف برادریوں کے مابین فاصلوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
ایک مصنف نے جس نے کہ اپنا ایوارڈ واپس کر دیا ہے ایوارڈ دینے والی اکیڈمی کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ ''اظہار خیال پر پابندی کے بڑھتے ہوئے اقدامات نے انھیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے'' اس نے نریندرا ڈبہولکر Dabholkar' گووند پنساری اور ایم ایم کلبرجیKalburgi جیسے دانش وروں کے قتل کی مثال دی ہے جنھیں ان کی تحریروں کی وجہ سے ہلاک کر دیا گیا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ایوارڈ حاصل کرنیوالوں کو 26 جنوری 2016ء کو ایک احتجاجی جلوس نکال کر دہلی کی سڑکوں پر مارچ کرنا چاہیے۔ ایک متحمل مزاج قوم کے ساتھ یہ کیا ہو گیا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں نے برطانوی حکومت کے خلاف بڑی شدید لڑائی لڑی تھی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے تحریک آزادی چلائی تھی۔
اس دور میں مسلمانوں کے لیڈروں میں ابو الکلام آزاد اور عبدالغفار خان جیسے رہنما، جنھیں سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا، شامل تھے۔ اس وقت تو بی جے پی ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ دیکھنا بڑے دکھ کی بات ہے کہ جن لوگوں کا تحریک آزادی میں رتی برابر بھی حصہ نہیں تھا وہ آج ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ آج جو ہو رہا ہے وہ بہت ہی غلط ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ انتشار پیدا کیا جا رہا ہے۔ نفرت کے جرائم منظر عام پر آتے ہیں۔ عدم تحفظ اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو لوگ آئینی مناصب پر براجمان ہیں وہ نفرت کی تحریک کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اسے فروغ دے رہے ہیں۔
اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت آزادانہ طور پر کام نہیں کر رہی۔ اصل انچارج آر ایس ایس ہے اور حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ سرکاری انتظام میں چلنے والا ریڈیو' آکاش وانی' آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کے خیالات کا پرچار کر رہا ہے۔ اگرچہ اپنی تقریر میں وہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں کرتے لیکن سارا ملک جانتا ہے کہ ہندوتوا کے بارے میں ان کے اعتقادات کس قدر مضبوط ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں نے حکومت پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔
اس طرف سے جو باتیں کی جا رہی ہیں ان کو عوام کی آواز کہہ کر پیش کیا جاتا ہے گویا خود ہی قتل بھی کرے اور خود ہی لے ثواب الٹا والی کیفیت ہے۔ جہاں تک ہندوؤں میں آزاد خیال عناصر کا تعلق ہے تو اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی میں بھی آزاد خیالوں کو برداشت نہیں کیا جاتا لیکن ان میں سے کسی کو آکاش وانی پر اپنے خیالات کے پرچار کی اجازت حاصل نہیں کیونکہ اگر انھیں اجازت دیدی گئی تو وہ بھی آر ایس ایس کے سربراہ سے کم انتہا پسندی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔
اس کے باوجود ہم اجتماعیت کی بات کرتے ہیں لیکن اجتماعیت میں وزن اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب اقلیتوں کو مساویانہ حقوق حاصل ہوں کیونکہ ہمارا آئین یہی کہتا ہے لیکن اس آئینی حق کے نفاذ کا کوئی اہتمام نہیں کیونکہ جن کے ہاتھ میں طاقت ہے ان کا ایجنڈا تقسیم در تقسیم والا ہے۔
ملک میں ہندوؤں کی تعداد تقریباً 80 فیصد ہو گی، اس حوالے سے ہم پہلے ہی ہندو راشٹریہ بن چکے ہیں اور یہی آر ایس ایس کی منزل مقصود بھی ہے۔ البتہ چونکہ ہم تقسیم کی پیداوار ہیں لہٰذا ہم نے بھارت میں سیکولر ازم کو ترجیح دی اور مذہب کو سیاست میں ملوث کرنے سے گریز کیا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا لیکن بانی پاکستان محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اعلان کیا تھا کہ اب برصغیر کے عوام ہندوستانی ہونگے یا پاکستانی مگر مسلمان یا ہندو ہونے پر زور نہیں دیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں مذہبی عناصر کا غلبہ ہو گیا اور لوگوں کو بڑی مشکل سے تھوڑی سی آزادی کا موقع ملا جب کہ بھارت میں ہندو نوازی کے جذبات غالب آ گئے جن کی مودی حکومت میں اور زیادہ پذیرائی ہو گئی اگرچہ اس کا مطلب سیکولر ازم کی نفی ہے جو کہ ہمارے آئین کے دیباچے میں درج ہے۔ تقسیم سے قبل مسلم لیگ کا موقف تھا کہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ہونی چاہیے اور اسی اصول کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں آیا لیکن میرے خیال میں مسلمانوں کے لیے اس کا کچھ زیادہ اچھا نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ ان کی اکثریت 3 حصوں میں تقسیم ہو گی یعنی بھارت' پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔ اندازہ کریں اگر مسلمان اکٹھے ہوتے تو وہ مجموعی آبادی کا 35 فیصد سے زیادہ ہوتے جو کہ ایک جمہوری ریاست میں یہ خاصی بھاری اکثریت ہوتی۔
اس حوالے سے خوفزدہ کرنے والی یہ چیز ہے جو گزشتہ 70 سال کے تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جو لکیر مذہب کی بنیاد کھینچی گئی اس نے ہندوؤں مسلمانوں کے مابین ایک ادارہ جاتی نفرت اور عداوت کی شکل اختیار کر لی ہے جو بھارت اور پاکستان کی صورت میں نظر آتی ہے اور ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں اس دشمنی نے خطے کی تعمیر و ترقی میں کس قدر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور اس پر بس نہیں بلکہ دونوں ہمہ وقت ایک دوسرے کی گردن دبوچنے کے در پے رہتے ہیں۔ ان میں دو باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں اور ایک کارگل کی مہم جوئی بھی۔ اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہہ دیا ہے کہ جنگ کوئی آپشن (یعنی متبادل) نہیں ہے مگر اس کے باوجود دونوں ملکوں میں مستقل امن کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
پاکستان کہتا چلا جا رہا ہے کہ کشمیر بنیادی مسئلہ ہے یہ جب بھی حل ہو گیا پرامن دوستی کی راہ ہموار ہو جائے گی لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ کشمیر ایک علامت تو ہو سکتا ہے اصل بیماری نہیں ہے۔ اصل مرض عدم اعتماد ہے۔ جب تک اس کو دور نہیں کیا جاتا کوئی معاہدہ یا سمجھوتہ امن لانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
وزیراعظم مودی جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیان جاری کرتے ہیں لیکن ان کا اتنے اہم معاملے پر چپ سادھ لینا معنی خیز ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت کا الزام کسی ایک فرد نے عاید نہیں کیا۔ تقریباً 500 ممتاز دانشور' سائنسدان اور ملک بھر کے فنکار شامل ہیں جنہوں نے اپنے ایوارڈ واپس کر دیے ہیں۔ انھوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کر کے ایسا نہیں کیا بلکہ عدم برداشت کے ماحول کے خلاف ان کا مشترکہ ردعمل تھا۔ جب ان سب لوگوں نے جن کا تعلق مختلف شعبوں سے تھا یہ محسوس کیا کہ وہ اس گھٹن کے ماحول میں اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکتے تو انھوں نے اپنے ایوارڈ واپس کر دیے۔ مودی حکومت کو بیٹھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آخر اس قسم کے جذبات کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟
اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ایک بڑی وجہ انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کی مرکزی حکومت کے معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت ہے۔ دوسری طرف وزیر ماحولیات ارون جیٹلے نے عدم برداشت کے جذبات کی تردید کی ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ حقیقت کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لی جائیں۔ جب تک بی جے پی کو یہ احساس ہو گا کہ ان کی توجہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی اختلافات پر لگی ہوئی ہے اس وقت تک ملک میں تقسیم در تقسیم بڑھتی چلی جائے گی اور مختلف برادریوں کے مابین فاصلوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
ایک مصنف نے جس نے کہ اپنا ایوارڈ واپس کر دیا ہے ایوارڈ دینے والی اکیڈمی کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ ''اظہار خیال پر پابندی کے بڑھتے ہوئے اقدامات نے انھیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے'' اس نے نریندرا ڈبہولکر Dabholkar' گووند پنساری اور ایم ایم کلبرجیKalburgi جیسے دانش وروں کے قتل کی مثال دی ہے جنھیں ان کی تحریروں کی وجہ سے ہلاک کر دیا گیا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ایوارڈ حاصل کرنیوالوں کو 26 جنوری 2016ء کو ایک احتجاجی جلوس نکال کر دہلی کی سڑکوں پر مارچ کرنا چاہیے۔ ایک متحمل مزاج قوم کے ساتھ یہ کیا ہو گیا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں نے برطانوی حکومت کے خلاف بڑی شدید لڑائی لڑی تھی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے تحریک آزادی چلائی تھی۔
اس دور میں مسلمانوں کے لیڈروں میں ابو الکلام آزاد اور عبدالغفار خان جیسے رہنما، جنھیں سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا، شامل تھے۔ اس وقت تو بی جے پی ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ دیکھنا بڑے دکھ کی بات ہے کہ جن لوگوں کا تحریک آزادی میں رتی برابر بھی حصہ نہیں تھا وہ آج ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ آج جو ہو رہا ہے وہ بہت ہی غلط ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ انتشار پیدا کیا جا رہا ہے۔ نفرت کے جرائم منظر عام پر آتے ہیں۔ عدم تحفظ اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو لوگ آئینی مناصب پر براجمان ہیں وہ نفرت کی تحریک کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اسے فروغ دے رہے ہیں۔
اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت آزادانہ طور پر کام نہیں کر رہی۔ اصل انچارج آر ایس ایس ہے اور حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ سرکاری انتظام میں چلنے والا ریڈیو' آکاش وانی' آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کے خیالات کا پرچار کر رہا ہے۔ اگرچہ اپنی تقریر میں وہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں کرتے لیکن سارا ملک جانتا ہے کہ ہندوتوا کے بارے میں ان کے اعتقادات کس قدر مضبوط ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں نے حکومت پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔
اس طرف سے جو باتیں کی جا رہی ہیں ان کو عوام کی آواز کہہ کر پیش کیا جاتا ہے گویا خود ہی قتل بھی کرے اور خود ہی لے ثواب الٹا والی کیفیت ہے۔ جہاں تک ہندوؤں میں آزاد خیال عناصر کا تعلق ہے تو اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی میں بھی آزاد خیالوں کو برداشت نہیں کیا جاتا لیکن ان میں سے کسی کو آکاش وانی پر اپنے خیالات کے پرچار کی اجازت حاصل نہیں کیونکہ اگر انھیں اجازت دیدی گئی تو وہ بھی آر ایس ایس کے سربراہ سے کم انتہا پسندی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔
اس کے باوجود ہم اجتماعیت کی بات کرتے ہیں لیکن اجتماعیت میں وزن اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب اقلیتوں کو مساویانہ حقوق حاصل ہوں کیونکہ ہمارا آئین یہی کہتا ہے لیکن اس آئینی حق کے نفاذ کا کوئی اہتمام نہیں کیونکہ جن کے ہاتھ میں طاقت ہے ان کا ایجنڈا تقسیم در تقسیم والا ہے۔
ملک میں ہندوؤں کی تعداد تقریباً 80 فیصد ہو گی، اس حوالے سے ہم پہلے ہی ہندو راشٹریہ بن چکے ہیں اور یہی آر ایس ایس کی منزل مقصود بھی ہے۔ البتہ چونکہ ہم تقسیم کی پیداوار ہیں لہٰذا ہم نے بھارت میں سیکولر ازم کو ترجیح دی اور مذہب کو سیاست میں ملوث کرنے سے گریز کیا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا لیکن بانی پاکستان محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اعلان کیا تھا کہ اب برصغیر کے عوام ہندوستانی ہونگے یا پاکستانی مگر مسلمان یا ہندو ہونے پر زور نہیں دیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں مذہبی عناصر کا غلبہ ہو گیا اور لوگوں کو بڑی مشکل سے تھوڑی سی آزادی کا موقع ملا جب کہ بھارت میں ہندو نوازی کے جذبات غالب آ گئے جن کی مودی حکومت میں اور زیادہ پذیرائی ہو گئی اگرچہ اس کا مطلب سیکولر ازم کی نفی ہے جو کہ ہمارے آئین کے دیباچے میں درج ہے۔ تقسیم سے قبل مسلم لیگ کا موقف تھا کہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ہونی چاہیے اور اسی اصول کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں آیا لیکن میرے خیال میں مسلمانوں کے لیے اس کا کچھ زیادہ اچھا نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ ان کی اکثریت 3 حصوں میں تقسیم ہو گی یعنی بھارت' پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔ اندازہ کریں اگر مسلمان اکٹھے ہوتے تو وہ مجموعی آبادی کا 35 فیصد سے زیادہ ہوتے جو کہ ایک جمہوری ریاست میں یہ خاصی بھاری اکثریت ہوتی۔
اس حوالے سے خوفزدہ کرنے والی یہ چیز ہے جو گزشتہ 70 سال کے تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جو لکیر مذہب کی بنیاد کھینچی گئی اس نے ہندوؤں مسلمانوں کے مابین ایک ادارہ جاتی نفرت اور عداوت کی شکل اختیار کر لی ہے جو بھارت اور پاکستان کی صورت میں نظر آتی ہے اور ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں اس دشمنی نے خطے کی تعمیر و ترقی میں کس قدر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور اس پر بس نہیں بلکہ دونوں ہمہ وقت ایک دوسرے کی گردن دبوچنے کے در پے رہتے ہیں۔ ان میں دو باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں اور ایک کارگل کی مہم جوئی بھی۔ اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہہ دیا ہے کہ جنگ کوئی آپشن (یعنی متبادل) نہیں ہے مگر اس کے باوجود دونوں ملکوں میں مستقل امن کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
پاکستان کہتا چلا جا رہا ہے کہ کشمیر بنیادی مسئلہ ہے یہ جب بھی حل ہو گیا پرامن دوستی کی راہ ہموار ہو جائے گی لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ کشمیر ایک علامت تو ہو سکتا ہے اصل بیماری نہیں ہے۔ اصل مرض عدم اعتماد ہے۔ جب تک اس کو دور نہیں کیا جاتا کوئی معاہدہ یا سمجھوتہ امن لانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)