دوسری ممتاز شیریں کے انتظار میں
کیا اردو تنقید میں کسی دوسری ممتاز شیریں کے نمودار ہونے کے آثار ہیں
کیا اردو تنقید میں کسی دوسری ممتاز شیریں کے نمودار ہونے کے آثار ہیں یا ہم یہ سوچ کر صبر کر لیں کہ اردو میں یہ شعبہ مردوں کے لیے وقف ہے۔
اصل میں ایک نئی اشاعت کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہ خیال آیا۔ ورنہ کسی نہ کسی وقت یہ سوال اٹھنا ہی تھا۔ اس لیے کہ اردو ادب کی تاریخ میں فکشن کی نئی دو اصناف ناول اور مختصر افسانے کی آمد کے بعد بہت جلدی ان اصناف میں عورت کی آواز سنائی دینے لگی۔ شاعری میں البتہ عورت کی آواز دیر سے سنائی دی۔
مگر اب ہم دیکھتے ہیں کہ اردو شاعری میں بالخصوص نئی شاعری میں اب اچھی خاصی نسوانی چہل پہل ہے۔ مگر تنقید کے میدان میں ایک لمبے عرصے کے بعد ایک نسوانی آواز سنائی دی ہے۔ ویسے تو ممتاز شیریں افسانہ نگار ہی کی حیثیت سے شروع ہوئی تھیں۔ لیکن بہت جلدی وہ تنقید کی راہ پر چل پڑیں۔ اور ایسا ہوا کہ ان کا افسانہ تو پیچھے رہ گیا، نقاد کی حیثیت سے انھوں نے بہت جلدی شہرت اور مقبولیت حاصل کر لی۔ مگر ان کی عمر نے وفا نہیں کی۔ جلدی ہی وہ دنیا سے گزر گئیں۔ سو اب ہماری اردو تنقید میں وہ اکیلی خاتون نقاد ہیں۔ اس کے بعد تنقیدی مضامین تو وقتاً فوقتاً نسوانی قلم سے برآمد ہوئے لیکن کوئی ایسی لکھنے والی ادبی منظر پر نمودار نہیں ہوئی جس نے نقاد کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا ہو۔
جس کتاب کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہ خیال آیا وہ پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ ہے جو ابھی حال ہی میں سنگ میل کی طرف سے شایع ہوا ہے۔ اس کا عنوان ہے 'اردو کے نمایندہ ناول نگاروں کا تاریخی شعور'۔ مصنفہ کا نام ہے' شیبا عالم۔ اور اب اس تحقیقی مقالہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے کے بعد وہ ہیں ڈاکٹر شیبا عالم۔
پی ایچ ڈی کے سلسلے تو یونیورسٹیوں میں جاری ہیں۔ ڈگریاں ملتی ہیں۔ ڈگری پانے والے اگر درسیاست کے پیشہ سے وابستہ ہیں تو وہ ڈاکٹریٹ لے کر اپنے پیشہ میں ترقی پاتے ہیں اور اس ترقی پر قانع ہو جاتے ہیں جیسے یہ ترقی ہی ان کا مقصود تھی۔
مگر اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہ احساس ہوا کہ درسیاست سے ہٹ کر یہ مقالہ کسی نقاد کی آمد کی خبر دے رہا ہے۔ یہاں اردو ناول کا مذکورہ زاویے سے اتنا بھرپور تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے کہ ہم اسے اردو تنقید میں ایک اضافہ کا درجہ دے سکتے ہیں۔
عنوان سے یہ گمان ہوتا ہے کہ اردو میں جو تاریخی ناولوں کی ایک روایت چلی آ رہی ہے اور جس میں اسلامی تاریخی ناول پیش پیش ہیں شاید یہ اس کا مطالعہ ہے مگر ناولوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے اس نے یہ وضاحت کی ہے کہ جس ناول کو تاریخی شعور کا حامل سمجھا جا سکتا ہے وہ چیزے دگر است۔ اور مروجہ تاریخی ناول کس ذیل میں آتا ہے اس کے سلسلہ میں مصنفہ نے مغربی نقادوں کے کچھ محاکمے نقل کیے ہیں۔ سر فرانسس پال گربو کا قول ''تاریخی ناول' ناول کے کٹر دشمن ہوتے ہیں''۔ اسٹیفنز اسمتھ نے ''تاریخی ناولوں کو گھٹیا قسم کی تاریخ اور خراب قسم کا ناول'' قرار دیا ہے۔
ان بیانات کی روشنی میں شیبا عالم اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ جسے ہم تاریخی ناول کہتے ہیں اس کی تاریخی اہمیت تو ہو سکتی ہے مگر ناول تاریخ کے واقعات کی بنیاد پر ناول قرار پائے یہ بات محل نظر ہے۔ مثالیں دے کر انھوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے۔ کہتی ہیں کہ ''یہ بالکل وہی فرق ہے جو شرر کے تاریخی ناول اور قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں ہے۔ یا نسیم حجازی کے ناولوں اور مرزا رسوا کے ناول 'امراؤ جان ادا' میں ہے۔ اس لیے کہ قرۃ العین اور رسوا کے ناول اپنی اپنی تاریخ کے بطن سے طلوع ہوتے ہیں۔ مگر خود وہ تاریخی ناول نہیں ہیں''۔
شیبا عالم کا استدلال یہ ہے کہ ناول کی صنف خود ایک تاریخی عمل کا ثمر ہے۔ اردو میں بھی ناول ایک معجزے کے طور پر رونما نہیں ہوا ہے بلکہ جب برصغیر میں ایک تاریخی دور نے دم توڑا اور انگریزوں کی آمد کے ساتھ ایک نیا تاریخی عمل شروع ہوا، اس عمل میں ہمارے فکشن نے داستان سے رشتہ توڑا اور ایک نئی فارم کی نشوونما ہوتی دکھائی دی۔ مثلاً میر امن کا 'قصہ چہار درویش' داستان کی روایت سے انحراف کر کے ایک نئی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے جو ناول سے قریب ہے۔ جلد ہی غالب کی نثری نگارشات نمودار ہوتی ہیں۔ بالخصوص دوستوں کو اس کے خطوط جن میں ایک ناول کا خاکہ ابھرتا نظر آتا ہے۔ اسی قسم کی تحریریں ایک نئے تاریخی عمل سے گزرتے گزرتے باقاعدہ ناول کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
صحیح معنوں میں ناول نگار وہ ہے جس نے اس تاریخی عمل کو جانا اور اپنی ذات میں جذب کیا ہے اور اب وہ ایک نئے شعور کے ساتھ کہانی لکھ رہا ہے۔ وہ تاریخی واقعہ یا واقعات نہیں لکھ رہا۔ لیکن بدلتا ہوا تاریخی عمل اس کے شعور میں رچ بس گیا ہے۔ اس سے اس کے بیان میں ایک نئی افسانوی معنویت اجاگر ہوتی ہے۔
کچھ اس قسم کی تشریح کے بعد مصنفہ نے اردو کے مختلف نمایندہ ناول نگاروں سے رجوع کیا ہے۔ ان کے منتخب ناولوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ یہ مطالعہ اتنی دقت نظر سے کیا گیا ہے کہ اسے ایک ماہر نقاد کے تجزیے کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ ویسے لازم نہیں کہ ہم اس کی ہر رائے سے اتفاق کریں۔ ان مقامات کو اس محدود تحریر میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ مجموعی طور پر یہ اردو ناول کا ایک بامعنی تنقیدی مطالعہ ہے۔ خود لکھنے والی اس مطالعہ کو اپنی درسیاست کا حصہ سمجھ کر قانع ہو جائے تو وہ الگ بات ہے۔ ورنہ یہ تحریر اس کی انتقادی صلاحیتوں کی خبر دیتی ہے اور ایک نئے نقاد کا حرف آغاز بننے کا وصف رکھتی ہے۔
اصل میں ایک نئی اشاعت کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہ خیال آیا۔ ورنہ کسی نہ کسی وقت یہ سوال اٹھنا ہی تھا۔ اس لیے کہ اردو ادب کی تاریخ میں فکشن کی نئی دو اصناف ناول اور مختصر افسانے کی آمد کے بعد بہت جلدی ان اصناف میں عورت کی آواز سنائی دینے لگی۔ شاعری میں البتہ عورت کی آواز دیر سے سنائی دی۔
مگر اب ہم دیکھتے ہیں کہ اردو شاعری میں بالخصوص نئی شاعری میں اب اچھی خاصی نسوانی چہل پہل ہے۔ مگر تنقید کے میدان میں ایک لمبے عرصے کے بعد ایک نسوانی آواز سنائی دی ہے۔ ویسے تو ممتاز شیریں افسانہ نگار ہی کی حیثیت سے شروع ہوئی تھیں۔ لیکن بہت جلدی وہ تنقید کی راہ پر چل پڑیں۔ اور ایسا ہوا کہ ان کا افسانہ تو پیچھے رہ گیا، نقاد کی حیثیت سے انھوں نے بہت جلدی شہرت اور مقبولیت حاصل کر لی۔ مگر ان کی عمر نے وفا نہیں کی۔ جلدی ہی وہ دنیا سے گزر گئیں۔ سو اب ہماری اردو تنقید میں وہ اکیلی خاتون نقاد ہیں۔ اس کے بعد تنقیدی مضامین تو وقتاً فوقتاً نسوانی قلم سے برآمد ہوئے لیکن کوئی ایسی لکھنے والی ادبی منظر پر نمودار نہیں ہوئی جس نے نقاد کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا ہو۔
جس کتاب کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہ خیال آیا وہ پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ ہے جو ابھی حال ہی میں سنگ میل کی طرف سے شایع ہوا ہے۔ اس کا عنوان ہے 'اردو کے نمایندہ ناول نگاروں کا تاریخی شعور'۔ مصنفہ کا نام ہے' شیبا عالم۔ اور اب اس تحقیقی مقالہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے کے بعد وہ ہیں ڈاکٹر شیبا عالم۔
پی ایچ ڈی کے سلسلے تو یونیورسٹیوں میں جاری ہیں۔ ڈگریاں ملتی ہیں۔ ڈگری پانے والے اگر درسیاست کے پیشہ سے وابستہ ہیں تو وہ ڈاکٹریٹ لے کر اپنے پیشہ میں ترقی پاتے ہیں اور اس ترقی پر قانع ہو جاتے ہیں جیسے یہ ترقی ہی ان کا مقصود تھی۔
مگر اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہ احساس ہوا کہ درسیاست سے ہٹ کر یہ مقالہ کسی نقاد کی آمد کی خبر دے رہا ہے۔ یہاں اردو ناول کا مذکورہ زاویے سے اتنا بھرپور تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے کہ ہم اسے اردو تنقید میں ایک اضافہ کا درجہ دے سکتے ہیں۔
عنوان سے یہ گمان ہوتا ہے کہ اردو میں جو تاریخی ناولوں کی ایک روایت چلی آ رہی ہے اور جس میں اسلامی تاریخی ناول پیش پیش ہیں شاید یہ اس کا مطالعہ ہے مگر ناولوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے اس نے یہ وضاحت کی ہے کہ جس ناول کو تاریخی شعور کا حامل سمجھا جا سکتا ہے وہ چیزے دگر است۔ اور مروجہ تاریخی ناول کس ذیل میں آتا ہے اس کے سلسلہ میں مصنفہ نے مغربی نقادوں کے کچھ محاکمے نقل کیے ہیں۔ سر فرانسس پال گربو کا قول ''تاریخی ناول' ناول کے کٹر دشمن ہوتے ہیں''۔ اسٹیفنز اسمتھ نے ''تاریخی ناولوں کو گھٹیا قسم کی تاریخ اور خراب قسم کا ناول'' قرار دیا ہے۔
ان بیانات کی روشنی میں شیبا عالم اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ جسے ہم تاریخی ناول کہتے ہیں اس کی تاریخی اہمیت تو ہو سکتی ہے مگر ناول تاریخ کے واقعات کی بنیاد پر ناول قرار پائے یہ بات محل نظر ہے۔ مثالیں دے کر انھوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے۔ کہتی ہیں کہ ''یہ بالکل وہی فرق ہے جو شرر کے تاریخی ناول اور قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں ہے۔ یا نسیم حجازی کے ناولوں اور مرزا رسوا کے ناول 'امراؤ جان ادا' میں ہے۔ اس لیے کہ قرۃ العین اور رسوا کے ناول اپنی اپنی تاریخ کے بطن سے طلوع ہوتے ہیں۔ مگر خود وہ تاریخی ناول نہیں ہیں''۔
شیبا عالم کا استدلال یہ ہے کہ ناول کی صنف خود ایک تاریخی عمل کا ثمر ہے۔ اردو میں بھی ناول ایک معجزے کے طور پر رونما نہیں ہوا ہے بلکہ جب برصغیر میں ایک تاریخی دور نے دم توڑا اور انگریزوں کی آمد کے ساتھ ایک نیا تاریخی عمل شروع ہوا، اس عمل میں ہمارے فکشن نے داستان سے رشتہ توڑا اور ایک نئی فارم کی نشوونما ہوتی دکھائی دی۔ مثلاً میر امن کا 'قصہ چہار درویش' داستان کی روایت سے انحراف کر کے ایک نئی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے جو ناول سے قریب ہے۔ جلد ہی غالب کی نثری نگارشات نمودار ہوتی ہیں۔ بالخصوص دوستوں کو اس کے خطوط جن میں ایک ناول کا خاکہ ابھرتا نظر آتا ہے۔ اسی قسم کی تحریریں ایک نئے تاریخی عمل سے گزرتے گزرتے باقاعدہ ناول کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
صحیح معنوں میں ناول نگار وہ ہے جس نے اس تاریخی عمل کو جانا اور اپنی ذات میں جذب کیا ہے اور اب وہ ایک نئے شعور کے ساتھ کہانی لکھ رہا ہے۔ وہ تاریخی واقعہ یا واقعات نہیں لکھ رہا۔ لیکن بدلتا ہوا تاریخی عمل اس کے شعور میں رچ بس گیا ہے۔ اس سے اس کے بیان میں ایک نئی افسانوی معنویت اجاگر ہوتی ہے۔
کچھ اس قسم کی تشریح کے بعد مصنفہ نے اردو کے مختلف نمایندہ ناول نگاروں سے رجوع کیا ہے۔ ان کے منتخب ناولوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ یہ مطالعہ اتنی دقت نظر سے کیا گیا ہے کہ اسے ایک ماہر نقاد کے تجزیے کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ ویسے لازم نہیں کہ ہم اس کی ہر رائے سے اتفاق کریں۔ ان مقامات کو اس محدود تحریر میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ مجموعی طور پر یہ اردو ناول کا ایک بامعنی تنقیدی مطالعہ ہے۔ خود لکھنے والی اس مطالعہ کو اپنی درسیاست کا حصہ سمجھ کر قانع ہو جائے تو وہ الگ بات ہے۔ ورنہ یہ تحریر اس کی انتقادی صلاحیتوں کی خبر دیتی ہے اور ایک نئے نقاد کا حرف آغاز بننے کا وصف رکھتی ہے۔