تبصرے تنزلی کا شکار
گزرتے وقت کے ساتھ عوام میں شعور، معلومات اور ان کے علم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ISLAMABAD:
گزرتے وقت کے ساتھ عوام میں شعور، معلومات اور ان کے علم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر ملٹی میڈیا پر براجمان لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ لوگ براہ راست ان کے اجلاس کو درہم برہم نہیں کر سکتے، وہ بند کمروں میں بیٹھ کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور وہی عقل کل ہیں، کیونکہ وہ مختلف ایجنسیوں اور مختلف غیر ملکی چینلوں کی زبان بول رہے ہیں اور عوام کو وہی معلوم ہے جو وہ بول رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سی خبروں کا وہ تبادلہ ہو رہا ہے جس سے عام الیکٹرانک میڈیا بھی واقف نہیں، بلکہ سیاسی لیڈروں کے روز و شب، ان کی نجی زندگی تک کے حالات موجود ہیں۔ شعر و سخن کی باقاعدہ محفلیں ہوتی ہیں اور ان کی ایک منظم دنیا ہے۔ لہٰذا سوشل میڈیا ایک متواتر ترقی کی منزلوں کا سفر طے کر رہا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی اہل قلم اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ترازو سے بچ کے نکل جائے گا اور اس کا وزن نہ تولا جائے گا تو یہ غلط ہے۔
جب صرف پرنٹ میڈیا تھا، الیکٹرانک میڈیا نہ تھا تو اوزان اور اتنے قسم کے ترازو نہ تھے۔ مگر تبصرہ نگار اور تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی محفلیں زاویہ تنقید پر پرکھی اور تولی نہیں جا رہی ہیں۔
زبان اور بیان کے معیار پر تو الیکٹرانک میڈیا کی پستی کے احوال کا ذکر گزشتہ دنوں عالمی اردو کانفرنس میں ہوا۔ میڈیا پر جو گفتگو آرٹس کونسل کی محفل میں اکابرین نے کی وہ بھی قابل ذکر تھی۔ اردو ادب کے زباں دانوں نے جو گفتگو کی اس کا نچوڑ یہ تھا کہ الیکٹرانک میڈیا اردو زبان میں گفتگو کرتے وقت اردو زبان میں گفتگو کا اہل نہیں۔ تلفظ کی ادائیگی اور آہنگ سے ناواقف ہے اور واقعی اس میں کوئی شک نہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ٹیلی ویژن کے سامعین کی تعداد کم ہوتی جائے گی اور رفتہ رفتہ سوشل میڈیا مزید مقبول ہوتا چلا جائے گا اور خودبخود سوشل میڈیا پر زیرک اور پڑھے لکھے لوگ مقبول ہوتے جائیں گے۔
ٹی وی چینل پر گفتگو اور مباحثوں کا ماحول تو جاتا رہا، ادب، سائنس اور فکشن تو رخصت ہو گئے، البتہ شاعر و ادیب جب رخصت ہوتے ہیں تو دنیا والوں کو اس دیار فانی سے گزرنے کی خبر دے دیتے ہیں۔
عالی صاحب طویل علالت کے بعد پھر کمال احمد رضوی رخصت ہوئے تو دو تین منٹ ان کا تبصرہ ہوا مگر سوسائٹی میں ان کا کیا عمل دخل تھا، وہ تشنہ ہی رہا۔ رہ گیا سیاسی تذکروں کا معاملہ تو وہ تذکرہ بھی نہایت غیر جامع اور یک طرفہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک الیکٹرانک میڈیا کو یہ علم نہیں کہ دنیا یونی پولر نہیں رہی بلکہ باقاعدگی سے بائی پولر یعنی دو قطبی ہو چکی ہے۔
افغان جنگ کے بعد جو سوویت یونین کی شکست و ریخت ہوئی تھی اس پر روس نے بڑی تیزی سے نہ صرف یہ کہ قابو پایا بلکہ بڑی تیزی سے ازالہ کیا۔ آلات حربی، دنیا میں اپنے پرانے دوستوں سے تجدید وفا، خصوصاً عوامی جمہوریہ چین اور شمالی کوریا کے علاوہ اسلامی جمہوریہ ایران سے اتحاد۔ سیاسی خبروں اور خصوصاً مقامی خبر تک تو الیکٹرانک میڈیا کسی حد تک کامل ہے۔ رہ گیا عالمی افق پر گفتگو، تو یہاں پر اس کا چہرہ زرد ہے اس کی وجہ ہے تقریباً آدھی دنیا کی خبروں سے ہم محروم ہیں۔
روس، چین اور ان کے اتحادی ممالک کی خبروں سے ہم بے خبر ہیں، کیونکہ سی سی ٹی وی، آر ٹی وی، پریس ٹی وی کی خبریں اور ان کے تبصرے سے ہمارے مبصرین محروم ہیں، صرف بی بی سی اور سی این این کے ذرایع سے جو خبریں موصول ہوتی ہیں، پاکستانی مبصرین انھی پر زبان دانی کرتے ہیں۔ اور جن ممالک کو یہ چینل اپنی نظر میں رکھتے ہیں ان پر ہی تبصرہ ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ لوگ انٹرنیٹ، فیس بک سے استفادہ کرنے لگے ہیں اور اس طرح مبصرین اپنا درجہ خود کم کرتے جا رہے ہیں۔
ان کو متوازی خبریں سننی چاہئیں، خصوصاً چینی خبر رساں ایجنسی اور روسی ذرایع ابلاغ کے بغیر حالات کا تجزیہ کیسے ہو سکتا ہے، خود نیٹو میں دراڑ پڑنے کو ہے۔ اور داعش کے مسئلے پر امریکی دانشوروں میں یہ خبر عام ہے کہ یہ گروپ خود امریکا کا تیار کردہ ہے، جس کے ذریعے بالکل کم قیمت پر ترکی اور نیٹو کے اتحادیوں کو تیل کی فراہمی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح پوتن امریکا کی مقبول ترین شخصیت بن بیٹھے ہیں اور امریکی صدارتی امیدوار پوتن کی حکمت عملی کی تائید کرتے ہیں۔
لہٰذا ایک کلیہ کے طور پر اگر شام کی کوئی خبر لینی ہے تو اس کے پڑوسی ملک ترکی کے ذرایع ابلاغ کے ساتھ خود شام کی خبر رساں سیرین ٹی وی کی بھی روداد سن کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر پاکستان چونکہ امریکی ذرایع ابلاغ پر یقین کرتا ہے اس لیے پاکستان سفارتکاری محاذ پر کمزور ہے۔ اسی لیے وہ اب تک یہ فیصلہ نہ کر پایا کہ وہ سعودی عرب کا 34 ممالک کے اتحاد کا ساتھی بنے یا نہیں۔ جب کہ روسی وزارت خارجہ نے کئی بار یہ بیان دہرایا ہے کہ پرتگال سے لے کر پاکستان تک جہاں بھی دہشت گردی ہو گی روس اس کا پیچھا کرے گا۔
دنیا بڑی تیزی سے تقسیم ہو رہی ہے، ایسی تقسیم جاری ہے جیسی کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل، مگر جنگ عظیم کی شکل اس لیے نہیں ہو پا رہی ہے کہ ایٹمی جنگ کی شکل میں دنیا اجڑ جائے گی نہ کوئی فاتح رہے گا اور نہ مفتوح ہو گا۔ پاکستان کو ایسی صورت میں ایک مشکل دور کا سامنا ہے کیونکہ کوئی وزارت خارجہ ہی نہیں ہے ہاں 2 عدد سفارتی مشیر ہیں سرتاج عزیز صاحب اور فاطمی صاحب۔ اسی لیے پاکستانی عوام کنفیوژ ہیں ہر عالمی مسئلے پر عجب تذبذب کا عالم ہے ذرا غور فرمائیے چین ہماری راہداری کا نگہبان اور سرمایہ کار ہے۔
جب کہ چین روس کا اتحادی شام کا اتحادی جب کہ سعودی عرب شام کے مخالف کیمپ کا سالار، ایسی صورت میں ہم کیا کر سکتے ہیں ہماری سیاست کی بساط کیا ہو گی۔ یہی کچھ ادب کا عالم ہے اچھے بھلے ادبی معلموں کا ہے جب تقریب پذیرائی یا کتاب کی رونمائی ہوتی ہے تو عام طور پر تقریب جاری ہوتی ہے اور تقریب کے درمیان کتاب چھپ کر آتی ہے پھر بھی بغیر کتاب پڑھے تبصرے جاری رہتے ہیں اور مبالغہ کا یہ عالم ہوتا ہے کہ سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے، بن پڑھے گفتگو جاری اور محفل ادب پہ رات بھاری ہے، زوال اور کج روی جب آتی ہے تو پھر کھیل سے لے کر رقص تک آتی ہے مزید کیا کہا جائے بقول میر تقی میر:
آندھیوں سے سیاہ ہو گا چراغ
دل کا تب کچھ غبار نکلے گا