خواندگی کی کم ہوتی ہوئی شرح
جب کہ اس صوبے میں خواتین کی شرح خواندگی 54 فیصد سے کم ہوکر 52 فیصد رہ گئی۔
حالیہ اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں خواندگی (Literacy) کی شرح پچھلے سروے کے مقابلے میں کم ہوکر 60 فیصد سے 58 فیصد رہ گئی ہے۔ مردوں میں خواندگی کی شرح 71 فیصد سے کم ہوکر 70 فیصد جب کہ خواتین میں 48 فیصد سے کم ہوکر 47 فیصد رہ گئی ہے۔ اگر صوبوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں مردوں کی خواندگی 71 فیصد رہی جو پچھلے سروے کے اعداد و شمار سے مطابقت رکھتی ہے۔
جب کہ اس صوبے میں خواتین کی شرح خواندگی 54 فیصد سے کم ہوکر 52 فیصد رہ گئی۔ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں مردوں کی خواندگی 72 فیصد سے کم ہوکر 67 فیصد جب کہ خواتین کی شرح خواندگی 47 فیصد سے کم ہوکر 43 فیصد رہ گئی جوکہ یقیناً ایک المیے سے کم نہیں۔ صوبہ کے پی کے میں مردوں کی شرح خواندگی 72 فیصد برقرار رہی جب کہ خواتین کی شرح 35 فیصد سے بڑھ کر 36 فیصد ہوگئی۔ جوکہ ایک خوش آیند امر ہے۔ بلوچستان کی اگر بات کریں تو یہاں پر مردوں کی شرح خواندگی 62 فیصد سے کم ہوکر 59 فیصد جب کہ خواتین کی شرح خواندگی 23 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہوگئی۔
اگرچہ یہ تمام اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ تمام ہی صوبوں میں خواندگی مطلوبہ معیار سے بہت نیچے ہے لیکن صوبہ سندھ میں تیزی سے گرتی ہوئی خواندگی ایک تشویشناک امر ہے۔ حکومت پاکستان مجموعی طور پر قومی آمدنی کا صرف 2.1 فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے جب کہ 2018 تک یہ تناسب 4 فیصد تک لے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
خواندگی کی شرح کو بڑھانے اور قومی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے یقیناً ایک طویل المدتی اور مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس وقت بھی موجودہ حکومت کی ساری توجہ انفرااسٹرکچر منصوبوں اور میٹروبس اور ٹرین پر مرکوز ہے۔ جن کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ملک کی افرادی قوت اور سماجی ترقی کے منصوبوں کو یکسر نظرانداز کردینا قابل ستائش امر بالکل نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک جو آج ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہیں ۔
ان کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی افرادی قوت کو تعلیم اور ہنر کے زیور سے آراستہ کرکے اپنا سب سے قیمتی اثاثہ بنایا ہے اور اسی کے سہارے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ لیکن آج ہمارے ملک کا بالخصوص اور امت مسلمہ کا بالعموم ایک المیہ ہے کہ ہم نے تعلیم کی اس میراث کو جو کبھی مسلمانوں کا خاصا ہوا کرتی تھی آج بالکل نظرانداز کردیا ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج حال یہ ہے کہ صرف امریکا میں موجود یونیورسٹیوں کی تعداد پوری امت مسلمہ کی یونیورسٹیوں سے زیادہ ہے، جوکہ ایک حیرت ناک امر ہونے کے ساتھ ساتھ پوری امت کے لیے ایک انتہائی باعث فکر امر ہے۔
ملک میں قائم سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار حکمرانوں کی بے حس کا منہ بولتا ثبوت ہے، ایک زمانے میں اپنی مقبولیت کا لوہا منوانے والے یہ تعلیمی ادارے اپنی افادیت کھوتے جا رہے ہیں۔
سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت کا اگر بغور جائزہ لیں تو یہ درس گاہوں سے زیادہ اجڑے ہوئے مکانات اور جانوروں کے اصطبل کا منظر پیش کرتے ہیں، خاص طور سے سندھ اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کا تو بہت ہی برا حال ہے۔ آئے دن میڈیا میں ہونے والی رپورٹنگ بھی بے حس حکمرانوں کے لیے نوشتہ دیوار ثابت نہیں ہوتی۔ حد تو یہ کہ اس قدر کم بجٹ (جو تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے) کو بھی کسی ترقی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ یہ بھی بدعنوانی، گھوسٹ ٹیچرز کی تعیناتی اور آپس کی بندربانٹ کی نذر ہوجاتا ہے۔
میٹرک اور انٹر کے نصاب کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پچھلے 10 سے 15 سال کے بعد بھی کوئی نمایاں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اور نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی، جب کہ پیپر بنانے کا طریقہ وہی فرسودہ ہے جس کے تحت طالب علم پچھلے چند سال کے امتحانی پرچوں کو پڑھ کر اپنا امتحان باآسانی پاس کرسکتے ہیں، اور ان کو پورا نصاب پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں جب کہ سمجھنے کے بجائے طالب علموں کی اکثریت نوٹس لے کر ان کو یاد کرکے امتحان پاس کرنے میں مصروف ہے، جب کہ امتحانات کے دنوں میں کھلے عام نقل کے رجحان نے بھی طلبا کو تھوڑا بہت مطالعہ کرنے کی حجت سے بھی فارغ کردیا ہے۔
اور بیشتر طلبا کو کتابوں کے صفحے پھاڑ کر کھلے عام نقل کرتے بار بار میڈیا پر دکھایا جاتا ہے اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ ٹیچروں کی موجودگی کے باوجود یہ طلبا اس مکروہ فعل سے باز نہیں آئے۔ نقل کرکے پاس ہونے والوں کی تعلیمی قابلیت چونکہ صفر ہوتی ہے لہٰذا عملی زندگی میں آگے جانے کے راستے بھی مسدود ہوجاتے ہیں اور یوں معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کراچی کے میٹرک اور انٹربورڈ میں ایک اسکینڈل کا انکشاف ہوا جس میں مبینہ طور پر ناظم امتحانات اور بورڈ چیئرمین کے نام سامنے آئے کہ انھوں نے مبینہ طور پر رشوت لے کر طلبا میں پوزیشنیں تقسیم کیں۔
انتہائی اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افسران کی اس طرح کے معاملات میں ملوث ہونے کی خبروں نے ہمارے سرکاری تعلیمی نظام پر قائم بھروسے کو چکنا چور کردیا اور اب کسی بھی طالب علم کو محنت کرکے اچھے مارکس لانے کی ترغیب دینا ایک لاحاصل مشق معلوم ہوتی ہے۔ سلیبس ڈیزائن کرنے اور کتابوں کی تصنیف کے لیے قابل اور ماہر اساتذہ کی ضرورت ہے جو سرکاری شعبے میں اب بہت کم رہ گئے ہیں، جس کی وجہ سے بوسیدہ ہوتے ہوئے اس نظام میں کوئی نئی روح پھونکنے کے امکانات بھی مفقود نظر آتے ہیں۔
لہٰذا معاشرے کا خوشحال طبقہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں بھیجنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے اور ملک میں ''O'' اور ''A'' لیول اسکولوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے، جوکہ ہمارے امتحانی نظام پر والدین کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کا مظہر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان ان کیمبرج امتحانات کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز ہے۔ اور بے چارے والدین پرائیویٹ اسکولوں کے ہاتھوں (جن کا مطمع نظر صرف منافع ہے) اپنی کھال اتروانے پر مجبور ہیں۔
ملک میں تیزی سے زبوں حالی کی طرف گامزن اس تعلیمی نظام کو بچانے کے لیے ایک جہاد کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بہت ساری این جی اوز اس سلسلے میں کوشش کرتی نظر آتی ہیں لیکن یہ ناکافی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہوتا ہے جہاں نوجوان آبادی کا تناسب کافی زیادہ ہے لیکن اگر ہم اپنے اس قیمتی اثاثے کو مفید اور کارآمد بنانے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر یہی اثاثہ ایک بوجھ کی صورت میں پوری قوم کے کندھے پر سوار ہوجائے گا۔ اس حوالے سے مجموعی شعور کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے، اور ہمارے حکمرانوں کو اس صورتحال میں خواب غفلت سے جگانے کے لیے ایک مہم کی ضرورت ہے تاکہ وہ تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور اپنی آیندہ آنیوالی نسل کو بچا کر اس کا مستقبل سنوار سکیں۔
اس کے لیے ابھی سے طویل المدتی منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے، ورنہ گرتی ہوئی خواندگی کی یہ شرح ہماری ترقی کے مواقعوں کو محدود کردے گی۔ ہم سب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے سماجی ترقی کے اس سب سے اہم پہلو یعنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی ناگزیر ہے، ورنہ حقیقی ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔