خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری

پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے ایک عرصے سے خسارے میں چل رہے ہیں۔


Dr Mansoor Norani December 25, 2015
[email protected]

GILGIT: پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے ایک عرصے سے خسارے میں چل رہے ہیں۔ اِن کی آمدنی کے مقابلے میں اخراجات بہت ہی زیادہ ہیں ۔دنیا کی کوئی بھی اچھی سے اچھی حکومت اِنہیں جوں کا توں چلانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہ دونوں ادارے ہمارے قومی بجٹ پرایک زبردست بوجھ ہیں۔اِنہیں اِس حال میں کس نے پہنچایا یہ کوئی ڈھکا چھپا راز بھی نہیں ہے۔

ہماری سیاسی حکومتوں کی نااہلی اور ناقص کارکردگی ہی کی بدولت یہ ادارے آج اِس حال پر پہنچے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ ملازمین کی بھرتی اور سیاسی بنیاد پر نااہل افرادکا اعلیٰ عہدوں پر تقرراِن کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔اسٹیل ملز اور پی آئی اے کبھی منافع بخش ادارے سمجھے جاتے تھے اور پی آئی اے کی سروس کا معیار کسی بھی عالمی فلائی ادارے سے کم نہ تھا بلکہ وہ دنیا کی چند ایک اچھی ایئرلائنوں میں شمارہوا کرتی تھی۔

ہماری قومی ائیر لائینز کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اُس میں سفر کرنے کو ہمارے اپنے لوگوں کے علاوہ غیر ملکی بھی ترجیح دیا کرتے تھے۔اِسی طرح پاکستان اسٹیل ملز بھی کبھی ایک ایسا ادارہ تھی جس کی افادیت اوراہمیت کے سبھی ہی قائل تھے مگر اب یہ دونوں ادارے قوم کی ترقی وخوشحالی میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے اُس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اِنہیں جوں کا توں رکھنے کے لیے ہمیں اپنے قومی خزانے میں سے ہر ماہ اربوں روپے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔

اِن کے حالات اتنے بگڑچکے ہیں کہ اِنہیں منافع بخش بنانے کی کوئی صائب اور مناسب تدبیر ہم میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ایسے میں ہمارے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ اِسے مکمل طور پر پرائیویٹائز کردیا جائے یا پھر اِس کے کچھ شیئرز بیچ دیے جائیں۔دوسرے آپشن کوایک بہتر آپشن سمجھتے ہوئے اور اُسے قابل عمل بنانے کے لیے جب ہماری موجودہ حکومت نے پی آئی اے کے چھبیس فیصد شیئرز بیچنے کا فیصلہ کیا تو مخالفوں کی جانب سے ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔

کسی بھی ادارے کو نجی تحویل میں دینے کے یہ سیاسی مخالفین جن کا ہمیشہ ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ ادارے خواہ کتنے ہی تباہ و برباد ہوجائیں لیکن اُنہیں پرائیویٹائز نہ کیا جائے۔ پرائیویٹائزیشن کی سب سے زیادہ مخالفت وہی لوگ کر رہے ہیں جن کی غلط پالیسیوں اور حکمت ِ عملی کی بدولت یہ ادارے زبوں حالی کی اِس نہج پر پہنچے ہیں۔ سرکاری اداروں میں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بے حساب بھرتیاں اور وہاں اُن کی بے لگام لوٹ مار اورکرپشن ہی وہ وجوہات ہیں جس نے اداروں کو اِس قابل ہی نہیں چھوڑا ہوتا ہے کہ وہ اپنی مکمل صلاحیت اور استطاعت کیمطابق اپنے اخراجات پورے کر پائیں۔

اُن کے پاس اِس مسئلے کا کوئی دوسرا حل بھی نہیں ہوتا سوائے اِس کے کہ قوم اپنے پیسوں سے زندگی بھر اِن اداروں کو پالتی رہے۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن نے اسٹیل ملزکے لیے یہاں تک آفر دے ڈالی کہ اگر صوبہ سندھ اِسے اپنے طور پر چلا سکتا ہے تو وہ اِسے لے لے۔اپنی دانست میں وہ اگر سمجھتے ہیں کہ کچھ اہم انتظامی اور ٹیکنیکی تبدیلیوں کے بعد اسٹیل ملز ایک بار پھر پہلے کی طرح فعال اور منافع بخش ادارہ بن سکتی ہے توبے شک آزمالیں۔ لیکن پھر کیا ہوا پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت خود ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار ہو کرپیچھے ہٹ گئی۔اُنہیں معلوم ہے کہ وہ اگر اِسے چلانا جانتے ہوتے تو اپنے سابقہ دور حکومت ہی میں بہتر طریقے سے چلاسکتے تھے۔ ہمارے ملک میں سرکاری انتظام میں چلنے والے بیشتر ادارے اِسی طرح تباہی کے دہانے پرکھڑے نظر آتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سوشلسٹ خیالات اور نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جن، جن اداروں کو اپنے دورِ حکومت میں قومی تحویل میں لیا تھا وہ سب کے سب آہستہ آہستہ زوال پذیری کی جانب بڑھتے گئے۔ اُنہوں نے جب راتوں رات بڑے بڑے کارخانوں ، فیکٹریوں، بینکوں اور اسکولوں تک کو نیشنلائزڈ کرلیا تو اُس وقت کی اپوزیشن میں سے کسی نے اُن کا ہاتھ نہیں روکا اورکسی نے اُن کی مخالفت نہیں کی۔وہ اُس وقت سقوطِ ڈھاکا کے بعد بچے کچے پاکستان میں ایک ایسا سرخ انقلاب برپا کرنے جا رہے تھے جس کے تباہ کن نتائج کا شاید خود اُنہیں بھی احساس اور ادراک نہ تھا ۔

دیکھا جائے تو اداروں اور محکموں میں کام نہ کرنے اور گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کا رواج اُنہی کے دور سے شروع ہوا ۔ بینکوں ، مالیاتی اداروں اور دفتروں میں کام کرنے کا انداز یکسر بدل گیا۔ کرپشن اور لوٹ مارکو فروغ ملتا گیا ۔ یہی حال اسکولوں اور کالجوں کا بھی ہو گیا۔ ٹیچروں میںجاب سے نکالے جانے کا خوف ختم ہوگیا اور اُنکی تنخواہوں میں بھی غیر متوقع طور پر خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔ پھر وہ لگن اور جانفشانی سے کام کریں تو کیوں کریں۔

اُنہوں نے بچوں کو پڑھانے کی بجائے آرام کرنا شروع کردیا۔ نتیجتاً معیار تعلیم گرتا چلا گیا۔ حتٰی کہ محترمہ بے نظیر صاحبہ نے بھی مجبور ہوکر اپنے والد کی پالیسیوں سے اختلاف کرکے اُن تمام اداروں کو واپس نجی تحویل میں دینے کا فیصلہ کرلیا جنھیں اُن کے والدِ محترم نے قومی تحویل میں لے لیا تھا مگر افسوس کہ آج اُنہی کی سیاسی پارٹی کی موجودہ قیادت اپنی پوری قوت اور مزاحمت کے ساتھ اِس آپشن کی پھر مخالفت کررہی ہے۔ اب تک جن جن اداروں، بینکوں اور اسکولوں کو نجی تحویل میںواپس دیا گیا ہے.

اُن کی کارکردگی پہلے کی نسبت بہت بہتر ہوئی ہے۔ویسے بھی سرکاری انتظام میں چلنے والے اداروں اور پرائیویٹ اداروں میں ایک بنیادی فرق یہی ہے پرائیویٹ مالکان کی پہلی ترجیح ادارے کو درست اور صحیح انداز میں چلاکر جلد سے جلد منافع کمانا ہوتا ہے۔ اِسی لیے وہاں ملازمین بھی ایسے بھرتی کیے جاتے ہیں جو صحیح معنوں میںکام کرناجانتے ہوں جب کہ سرکاری اداروں میں ملازمین میں کام کرنے کا رجحان نسبتاً کم ہوتا ہے وہ صرف گھر بیٹھ کر ہر ماہ بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نہ خود کچھ کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔ ہم ہر اچھے کام کی صرف مخالفت کرنا جانتے ہیں۔

ملک میں اگر کوئی ڈیم بنانا ہو یا کوئی میگا پروجیکٹ شروع کرنا ہو ۔ ہر طرف سے اُس کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے۔ علاقائیت اور صوبائیت کا نعرہ بلند کرکے اُس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ایسا ہی کچھ سلوک اکنامک کوریڈور اور نیشنل ایکشن پلان کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اِس کا روٹ تبدیل کردیا گیا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ کراچی آپریشن کے نام پر سندھ دھرتی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ اسٹیل ملز بھی نہ خود چلانی ہے اور نہ کسی کو بیچنے دینی ہے۔

پی آئی اے کو بھی نجی تحویل میں نہ دینے دینا ہے اور نہ اِس کے حالات بہتر بنانے کی کوئی جستجو اورتدبیر کرنی ہے۔ہر معاملے میں لسانی و علاقائی تفریق ڈال کر اُسے اتنا اُلجھا دیا جاتا ہے کہ پھر وہ کام ادھورا اور نامکمل ہی رہ جاتا ہے۔موجودہ حکومت خسارے میں چلنے والے اداروں کو اگر نجی تحویل میں دے کر قومی خزانے پر پڑے والے غیر ضروری بوجھ کوکم کرنا چاہتی ہے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔ وہ اگر کسی منافع بخش ادارے کا سودا کرنے جا رہی تو اپوزیشن کا احتجاج برحق ہے لیکن وہ اگر مسلسل خسارے والے اداروں کے کچھ شئیربیچنا چاہتی تو اُن کا یہ اعتراض قطعاً نامناسب اورناقابلِ فہم ہے۔

ہمیں زور اِس بات پر دینا چاہیے کہ ادارے اونے پونے نہ بیچے جائیں۔ ساری کارروائی شفاف طریقے سے کی جائے۔ اداروں میں کام کرنیوالے مخلص اور محنتی کارکنوں کو مکمل تحفظ دیا جائے۔ اُنہیں نوکریوں سے بلاوجہ بے دخل نہ کیا جائے۔ حکومت اِن تمام باتوںکا خیال رکھتے ہوئے اگر کوئی گارنٹی دینے کو تیار ہو تو پھراُسے اپنے منشور اور ترجیحات کیمطابق کام کرنے دیا جائے۔ بلاوجہ درست اور صحیح کاموں کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔