100 لفظوں کی کہانی

مبشر علی زیدی کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی خوبی یہ ہے کہ کوئی کہانی سو لفظوں سے نہ کم ہوتی ہے،


Rafiuzzaman Zuberi December 25, 2015

مبشر علی زیدی کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی خوبی یہ ہے کہ کوئی کہانی سو لفظوں سے نہ کم ہوتی ہے، نہ زیادہ۔ ایک واقعہ، ایک یا دو کردار اور کہانی نویس کا حسن بیان۔ ہر کہانی کا ایک عنوان بھی ہوتا ہے۔ یہ سب مل کر ایک ایسی کہانی بن جاتی ہے جس کا اثر دیر تک رہتا ہے۔ ان کی ایک کہانی کا عنوان ہے ''دامن''۔ وہ یوں ہے:

میں رنگ ساز ہوں، کپڑوں اور جھنڈوں کے رنگ بدل دیتا ہوں۔چند دن پہلے ایک صاحب آئے۔
کہنے لگے ''میری قمیص رنگ دو گے بھائی؟''
میں نے کہا ''کیوں نہیں۔ کون سے رنگ میں رنگوانی ہے؟''

بولے ''پہلے میں گلابی پارٹی میں تھا۔ اب آسمانی پارٹی میں چلا گیا ہوں۔ بس نئی پارٹی کے رنگ میں رنگ دو۔''
میں نے دو دن بعد بلالیا۔وہ آئے تو قمیص دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے خفا ہوگئے۔
''اس پر دھبے تو ویسے ہی لگے ہوئے ہیں۔''
میں نے کہا ''بھائی میاں! رنگ بدلنے سے دامن پر لگے دھبے صاف نہیں ہوتے۔''

مبشر زیدی کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ''100 لفظوں کی کہانی'' کے عنوان سے ابھی شایع ہوا ہے۔ اپنی کہانیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ''یہ اتنی مختصر نہیں ہوتیں کہ تشنگی سے تڑپتا چھوڑ دیں، اتنی طویل بھی نہیں ہوتیں کہ سیراب کردیں۔ صرف ایک گھونٹ پانی ملتا ہے، کچھ پیاس رہ جاتی ہے۔'' وہ بتاتے ہیں کہ سو لفظوں کی کہانیاں لکھنے کا آغاز 80 کی دہائی میں برطانیہ میں ہوا۔ یہ کام کھیل کھیل میں شروع ہوا۔ اب نہایت سنجیدگی سے کیا جارہا ہے اور مغرب میں مقبول ہوتا جارہا ہے۔

مقبول ہونے کی وجہ سب جانتے ہیں۔ اس عہد میں لوگوں کے پاس فرصت کم ہے۔ کچھ فرصت ہے تو وہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی نذر ہوجاتی ہے۔ ناول اور طویل کہانیوں کے قاری کم ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں سو پچاس لفظوں کی کہانیاں بہت کشش رکھتی ہیں۔ آپ سفر کر رہے ہوں، کہیں کسی کا انتظار کر رہے ہوں، فلم کا انٹرویل ہو، ٹی وی کے ڈرامے کا وقفہ ہو، کرکٹ میچ میں بارش ہوجائے، کہیں بھی آپ کو چند منٹ مل جائیں۔ ایک کہانی شروع کریں اور وہ آپ کی کولڈڈرنک ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجائے۔ ان کہانیوں کے لکھنے کا جواز یہ ہے کہ ان کی وجہ سے قاری کے پاس کہانی نہ پڑھنے کا جواز کوئی نہیں۔
مبشر زیدی کی ایک کہانی ہے ''رزق''۔
''اگر آپ کو جلدی نہ ہو تو دو منٹ کے لیے رک جاؤں؟''
رکشا ڈرائیور نے اجازت مانگی۔مجھے جلدی نہیں تھی۔
اس نے ایک ریسٹورنٹ کے سامنے رکشا روکا۔

ریسٹورنٹ کے باہر بہت سے غریب لوگ انتظار میں بیٹھے تھے۔رکشا والا کاؤنٹر پر گیا اور کچھ پیسے ادا کیے۔
قطار میں بیٹھے ایک شخص کو بریانی مل گئی۔
رکشا دوبارہ چلا تو میں نے کہا۔''تم تو خود غریب آدمی ہو۔ یہاں کیوں پیسے دیے؟''
اس نے کہا ''رکشا چلانے سے پہلے میں مزدوری کرتا تھا۔ جس دن دہاڑی نہیں لگتی تھی، یہاں بیٹھنے سے رزق ملتا تھا۔''

اسی سال اکتوبر میں علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کا انتقال ہوا۔مبشر زیدی نے اس دن ایک کہانی لکھی عنوان تھا ''جاوید نامہ''۔

''یہ برسوں پہلے ان دنوں کا ذکر ہے۔ جب میں علامہ اقبال کا مجسمہ بنا رہا تھا۔ ابھی میں کام مکمل نہیں کرسکا تھا کہ نہ جانے کس نے علامہ اقبال کے صاحبزادے کو خبر کردی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال میرے اسٹوڈیو میں تشریف لائے۔ مجھے لگا کہ وہ مجسمے کو دیکھ کر خوش نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا ''آپ ماہر سنگ تراش سہی لیکن میرے والد ایسے نہیں تھے۔ وہ کچھ مختلف شخصیت تھے۔'' میں نے نہایت سنجیدگی سے کہا '' ڈاکٹر صاحب! میں آپ کے والد کا مجسمہ نہیں بنا رہا۔ میں وہ بت بنا رہا ہوں جس کی مجھے پرستش کرنی ہے۔''مبشر زیدی لکھتے ہیں ''سو لفظوں کی کہانی زندگی کا کوئی ایک پہلو ہی دکھا سکتی ہے۔ یہ بہترین پہلو بھی ہوسکتا ہے اور بدترین بھی۔ اس کا اختتام ڈراؤنا بھی ہوسکتا ہے اور خوش گوار بھی۔ آخری سطر چونکا دینے والی ہو تو کہانی اچھی سمجھی جاتی ہے لیکن سوچنے پر مجبور کردے تو بہت اچھی۔'' دیکھیے: ان کی ایک کہانی ہے ''گدھپن''

''میرے خالو کا گدھا روزانہ اخبار پڑھتا تھا۔ ایک دن میں نے اسے اپنے ٹی وی ٹاک شو میں مدعو کرلیا۔ پہلا سوال کیا، آج کل فوج اور حکومت کے تعلقات کیسے لگتے ہیں؟ اس نے کہا ''ڈھینچوں ڈھینچوں۔دوسرا سوال کیا، کیا ملک میں مارشل لا کا خطرہ ہے؟

کچھ سوچ کر بولا، ڈھینچوں ڈھینچوں۔
تیسرا سوال کیا، کون سی قوتیں ملک میں انقلاب لانا چاہتی ہیں؟
مسکرا کر جواب دیا، ڈھینچوں ڈھینچوں۔
تنگ آکر میں نے کہا، ہمارے ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے۔تم کھل کر رائے کیوں نہیں دیتے؟
کہنے لگا، میں اتنا بھی گدھا نہیں ہوں۔''

مبشر علی زیدی لکھتے ہیں ''کچھ لوگ نہ کہانی کا مزہ لیتے ہیں نہ اس میں چھپے پیغام پر غور کرتے ہیں۔ ایسے قاری بس لفظ گنتے ہیں اور میرے فارمولے سے ناواقف ہونے کی وجہ سے مطلع کرتے ہیں کہ کہانی میں الفاظ کم یا زیادہ ہیں۔ بہرحال یہ شکایت قابل برداشت ہے کہ کہانی میں سو لفظ پورے نہیں بہ نسبت اس الزام کے کہ میں سو لفظوں کی کہانی نہیں کہہ سکا۔ کم لفظوں میں پورا قصہ سنانا زیادہ مشکل کام ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں