قائداعظم کا پاکستان

آج وطن عزیز کی حالت زار پر قائداعظمؒ کی روح جس کرب سے گزر رہی ہے


[email protected]

آج وطن عزیز کی حالت زار پر قائداعظمؒ کی روح جس کرب سے گزر رہی ہے، شاید ہی کسی اور تحریک پاکستان کے رہنما کی روح اس عذاب میں مبتلا ہو، کیونکہ بابائے قوم ہی تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان کے وہ عظیم رہنما تھے جنھوں نے پاکستان کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے اپنا تن، من، دھن داؤ پر لگا دیا تھا، جن کی زندگی کا مقصد اور جدوجہد کا تمام تر مرکز یہی تھا کہ بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو اسلامی وقار و تشخص اور قومی غیرت و حمیت کے ساتھ جینے کا مکمل حق ملنا چاہیے اور اس فرض کی تکمیل کی خاطر محمد علی جناح نے اپنی زندگی کی ہر سانس پاکستان کی آزادی کے لیے وقف کردی تھی۔

آج وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 68 برس ہوگئے ہیں مگر خود غرض حکمرانوں، سیاستدانوں، وڈیروں و جاگیرداروں اور دیگر بااثر قوتوں نے پاکستان کو اس حال میں پہنچادیا ہے کہ آج یہ قوم بے یقینی کے بھنور میں طوفان حوادث کے تھپیڑے کھا رہی ہے۔ یہ پاک سرزمین ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی، جس کا مرکزی نقطہ اسلام ہے، مگر پاکستان کے دشمنوں اور نادان دوستوں نے اس نظریے ہی کو متنازعہ بنادیا اور یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ قیام پاکستان کی بنیاد اسلام نہیں اور یہ کہ بانی پاکستان محمد علی جناح ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔

تاہم جہاں تک برخور غلط لوگوں کے اس خودساختہ دعویٰ کا تعلق ہے تو خود بانی پاکستان کی تقاریر سے اس غلط پروپیگنڈے کی یکسر نفی ہوجاتی ہے۔ اگرچہ بانی پاکستان کی تعلیم مغربی بنیادوں پر ہوئی تھی مگر انھوں نے قرآن حکیم اور اسلام کا جتنا بھی مطالعہ کیا تھا، اس سے ان پر یہ روز روشن کی طرح واضح ہوگیا ہے کہ اسلام ہی مسلمان قوم کی اصل شناخت ہے اور ہر مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پابند ہے۔ حصول پاکستان سے بھی ان کا مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کے لیے برصغیر میں ایک ایسا خطہ حاصل کیا جائے۔

جہاں وہ اسلامی قوانین (شریعت) اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں کیونکہ متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت کے غلبے کے باعث اس امر کا کوئی امکان نہیں تھا کہ یہاں اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں لہٰذا بانی پاکستان اسلام کو قومی وجود کا بنیادی سرچشمہ گردانتے تھے۔ انھوں نے 13 جنوری 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور میں اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ ''اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔''

26 مارچ 1948 کو چٹاگانگ (مشرقی پاکستان) کے جلسہ عام میں فرمایا ''ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا، اس کی خاطر اس لیے جدوجہد کی اور اسے اس لیے حاصل کیا کہ ہم اپنی روایات کے مطابق اپنے معاملات کو حل کرنے میں جسمانی اور روحانی طور پر قطعاً آزاد ہوں۔ اخوت، مساوات اور رواداری، یہ ہمارے مذہب، تہذیب اور تمدن کے بنیادی نکات ہیں۔''

اسی جلسے میں انھوں نے مزید کہا ''اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ اقدار ایک طرف ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کی ذمے دار ہیں۔''

آگے دیکھیے بانی پاکستان آل انڈیا کونسل کے ایک اجلاس منعقدہ 1939 میں کیا کہتے ہیں! اس اجلاس میں انھوں نے فرمایا ''مسلمانو! میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں تمہیں آزاد اور سربلند دیکھوں، میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا کردار ادا کردیا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا اپنا ایمان، میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح! تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کردیا۔ جناح! تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔'' (روزنامہ انقلاب،22 اکتوبر 1939 جلد 14 شمارہ 198)

بانی پاکستان کے یہ ایمان افروز الفاظ ان حکمرانوں، سیاستدانوں، وڈیروں، جاگیرداروں اور دیگر بااثر قوتوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہیں جنھوں نے اسلام ہی سے خیانت اور غداری نہیں کی بلکہ ماضی میں ملکی مفادات اپنے بیرونی آقاؤں کے پاس گروی رکھتے ہوئے عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کا علم تک سرنگوں کرنے پر آمادہ ہوئے۔

افسوس کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اسلام کے اصول کو آزمانے کے بجائے یہود و نصاریٰ اور ہنود کے اصولوں کو آزمانے کا وتیرہ اختیار کیے رکھا، جس سے ملک میں امن و اصلاح کی بجائے فساد، بدامنی اور تشدد و افتراق کو ہوا ملتی رہی۔ یہ بانی پاکستان کے نظریات سے صریح انحراف کے برگ و بار میں جن سے وطن عزیز اسلامی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران میں مبتلا ہے۔ آج ہم جسمانی طور پر تو رہا ہوچکے ہیں لیکن روحانی اور ذہنی طور پر بدترین غلامی کا شکار ہیں۔

نہ تو ہمیں ایسی لیڈر شپ نصیب ہوئی جو عوام کے قریب رہنے والی ہو اور نہ ہی ہمیں حقیقی آزادی کے ثمرات و برکات سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ یہ آزادی ہمیں کسی بھاؤ تاؤ میں حاصل ہوئی؟ بہت طویل غمناک اور خونچکاں داستان ہے۔ پاکستان کی بنیادوں میں تحریک آزادی کے ہزاروں پروانوں کا خون شامل ہے لیکن آج تحریک پاکستان کے رہنماؤں کی ارواح جس کرب سے دوچار ہے اس کا اندازہ ہمارے ملکی حالات اور حکومتوں کے طرز حکمرانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے 68 سالہ ملکی تاریخ کے آئینے میں تمام عکس بخوبی محفوظ ہیں، فیض نے کیا خوب کہا:

ارض پاک تحفے میں نہیں ملی ہم کو

ہزاروں دیپ بجھے ہیں تو اک چراغ جلا

مملکت خداداد جو ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ'' کے نعروں کی گونج میں حاصل کی گئی تھی آج سیکولرازم کے نعروں سے گونج رہی ہے۔ کفر کی طاقتیں جانتی ہیں کہ اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں اسلامی نظام اپنی اصل شکل میں نافذ ہوجائے تو دولت کی خدائی کی بنیاد پر قائم سرمایہ دارانہ نظام کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی۔ تہذیبوں کے تصادم کا جو نظریہ اس دور میں مغرب کے بعض مفکرین نے پیش کیا، اس کے پیچھے یہی فکر کارفرما رہی مغربی تہذیب کو بچانے کے لیے اسلامی تہذیب اور نظریے کا خاتمہ ضروری قرار دیا گیا۔ مغربی تہذیب اور اس کے سیاسی و معاشی نظام کے لیے اسلام مہلک خطرہ گردانا گیا اس لیے اس کا راستہ روکنا لازمی قرار دیا گیا۔

پاکستان دستوری طور پر ایک مکمل اسلامی ریاست ہے، اگر پاکستان پر حقیقتاً اس کے آئین کی حکمرانی ہو تو اس پاک سرزمین پر اسلامی نظام کی برکات دیکھتے ہی دیکھتے رونما ہوسکتی ہیں، پس ہمیں پوری دلجمعی کے ساتھ اس ملک کی تعمیر و ترقی اور تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور خامیوں اور کوتاہیوں کے ازالے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اگر وطن عزیز میں ہمیشہ کے لیے حقیقی معنوں میں آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوجائے تو انشا اللہ اس کے بعد پاکستان کی تعمیر و ترقی کا ایسا سفر شروع ہوگا جو پچھلے 68 برسوں کی تمام خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کردے گا، فیصلہ ہمارا ہمارے ہاتھوں میں ہے پس خلوص دل کے ساتھ عزم اور عمل کی ضرورت ہے بقول اقبال:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں