فوجی حکومتوں نے ملکی ادارے تباہ کیے محمد صدیق الفاروق
نیب میں سارے فرشتے نہیں: سینئر رہنما مسلم لیگ (ن) و چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ محمد صدیق الفاروق سے انٹرویو
سینئر سیاست دان و چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ محمد صدیق الفاروق راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ والدہ اور والد دونوں ٹیچر تھے۔ انہوں نے تعلیم راولپنڈی سے حاصل کی، جہاں 1977-78ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کی طلباء یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف راولپنڈی میں نکلنے والے پہلے جلوس کی قیادت بھی انہی نے کی۔ 1987ء میںکچھ عرصہ دشت ِصحافت میں بھی گزارا۔ پھر میاں نواز شریف کی دعوت پر مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود پارٹی کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کی بدولت قیادت سے بھرپور اعتماد حاصل کیا۔ وہ میاں نواز شریف کے سابق دورِ حکومت میں پریس سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔اس کے بعد وہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اکتوبر 2014ء میں چئیرمین متروکہ وقف املاک بورڈ بننے سے قبل وہ مسلم لیگ نواز کے ترجمان کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔سیاسی حلقوں میں صدیق الفاروق کو دوٹوک موقف کا حامل شخص مانا جاتا ہے۔
وہ ماضی میں مختلف فورمز پر منعقد ہونے والے مباحثوں میں کافی سرگرم شرکت کرتے رہے ہیں، جن میں انہوں نے اپنی جماعت کا بھرپور دفاع کیا۔ طبیعت کے اعتبار سے نہایت بردبار اور حلیم صدیق الفاروق اپنی ذاتی زندگی میں نظم وضبط کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔گفتگو میں ٹھہراؤ اور الفاظ کا نپا تلا استعمال ان کی خوبی ہے۔ قلم سے بھی ان کا رشتہ ہے۔انہوں نے پرویز مشرف کی کتاب کے جواب میں ''سرخرو کون'' لکھی جبکہ دوسری کتاب کارگل واقعے کے بارے میں ہے۔
اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس نے صدیق الفاروق کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں ان کی حالیہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی خدمات کے بارے میں سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ قارئین کے لیے اس نشست کا احوال پیش کیا جا رہا ہے۔
ایکسپریس:متروکہ وقف املاک بورڈ کے بارے میں عام تاثرکچھ اچھا نہیں ہے، بحیثیت چیئرمین آپ نے اس منفی تاثرکو زائل کرنے کے لیے کیا اقدامات کئے ہیں؟
صدیق الفاروق: یہ تاثر درست نہیں تھا اور اب بھی جن لوگوں تک میرے اقدامات نہیں پہنچے ان کا تاثر وہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ متروکہ وقف املاک کوئی بہت well known ادارہ نہیں رہا، لوگ اسے مسلم اوقاف ہی کا حصہ سمجھتے ہیں، کئی لوگ اب بھی میرے پاس آتے ہیں، جن کے کام مسلم اوقاف کے ہوتے ہیں، میں انہیں بتاتا ہوں کہ یہ میرے پاس نہیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کرپشن کی وجہ سے بدنام ہے۔
اگر کوئی کہے کہ کرپشن نہیں ہوتی تو وہ غلط کہتا ہے کیونکہ زمین و جائیداد کے معاملات میں پٹواری اور محکمہ مال وغیرہ دیلے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت ملک میں ساڑھے چودہ ہزار عمارتیں ہیں، ان کے آگے چالیس ہزار سے زائد ذیلی یونٹس ہیں۔ اسی طرح ایک لاکھ بارہ ہزار کے قریب ایکڑ زمین ہے، لیکن پوشیدہ اراضی بہت زیادہ ہے۔
پانچ کالج و سکول، ہسپتال، دیال سنگھ لائبریری ہے۔ سکھوں کے مقدس ترین مقامات بھی پاکستان میں ہیں یعنی سری ننکانہ صاحب، سری ڈیرہ صاحب اور سری پنجہ صاحب، نارووال تحصیل میں سری کرتار پور صاحب۔ بابا گرو نانک، ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات کرتار پور صاحب میں ہوئی، جہاں انہوں نے عمر کے آخری 19 سال گزارے۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کے دنیا میں جو پانچ بڑے تیرتھ اور استان ہیں، ان میں سے تین پاکستان میں ہیں، ایک سری کٹھاس راج ہے، جہاں ان کے بہت بڑے مذہبی رہنماؤں کے مندر بنے ہوئے ہیں، بلوچستان میں ماتا جی مندر اور ملتان میں پرلات پری مندر ہے، جہاں سے ہولی کی رسم شروع ہوئی۔
پاکستان میں ہر سال چار پانچ بار سکھ اور دو تین بار ہندو آتے ہیں۔ وطن عزیز میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے اور میری خدمات کے باعث اس بار بھارت سے آنے والے سکھوں کی تعداد آٹھ سو سے زائد تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کسی کو کام نہیں کرتے، میرے پیشرو نے ایک ایک سیٹ پر تین تین افراد بھرتی کر رکھے تھے، جن کی انکوائری ہونا باقی ہے۔ لوگ وقت پر دفتر نہیں پہنچتے تھے۔ پھر ہر جگہ پر کرپشن، کرایہ داری تبدیل ہونی ہو یا نیلامی، ہر جگہ پیسہ ملوث رہا، نیلامی مل ملا کر ہوتی رہی ہیں۔ میں نے آتے ہی ایک تو وقت کی پابندی اور نظم لازمی کیا۔ میں خود ان لوگوں سے پہلے دفتر پہنچتا ہوں۔
یہاں گریڈ سولہ کا آدمی گریڈ انیس پر کام کر رہا تھا، میں نے آکر گریڈ انیس کا آدمی بھرتی کیا۔ یہاں لوگوں کو کام آتا نہیں، اگر آتا ہے تو پیسے کے بغیر کرتے نہیں، الحمداللہ میں نے یہ کلچر بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے۔
پہلے سرعام سودے ہوتے تھے، جواب بند ہو گئے ہیں۔ مجھے اس عہدے پر پندرہ ماہ ہو چکے ہیں لیکن اس عرصہ میں کسی قسم کا کوئی اسکینڈل نہیں بنا۔ ہم نے کچھ کیسز بنا کر نیب اور ایف آئی اے کو بھی دیئے ہیں۔ مختصر یہ کہ ایک تو میں نے کرپٹ لوگوں کو ہٹایا، انکوائریاں شروع کیں، نظم قائم کیا اور کیپسٹی بلڈنگ کی اور اب ہم آڈٹ کے لئے اپنا ریکارڈ پیش کر رہے ہیں۔کچھ فائلیں گم کر دی گئیں تھیں تو میں نے کہا کہ جو ریکارڈ کا نگران ہے اور جن لوگوں کو متوقع طور پران فائلوں کے گم ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہے، ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ 8 فائلیں برآمد ہو گئیں، امید ہے باقی بھی جلد آ جائیں گی۔
اسی طرح کاموں کو غیرضروری طور پر طول دینے کا یہاں بہت رجحان تھا لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ میری میز پر کوئی چیز زیادہ دیر تک نہیں رکتی۔ اگر میں یہاں موجود نہ بھی ہوں تو بھی فوری نوعیت کی فائلیں مجھے فیکس کے ذریعے پہنچتی ہیں، جن پر فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ لوگوں کو میں نے خود سے باسہولت رابطے کا اختیار دیا۔ جو بھی میرے پاس آجائے یا فون پر بات کرنا چاہے تو میں کرتا ہوں بلکہ میں نے تو اپنا فون نمبر بھی عام کر دیا ہے، جسے میں ہمیشہ خود سنتا ہوں۔
مجھے کسی بھی جگہ سے کوئی شکایت ملتی ہے تو میں خود وہاں پہنچتا ہوں۔ الحمدللہ اب تک میں 8 ارب سے زائد کی زمین قبضہ مافیا سے واگزار کروا چکا ہوں، زمینوں پر قبضے کا معاملہ چاروں صوبوں تک پھیلا ہوا ہے لیکن زیادہ زمین پنجاب اور سندھ میں ہے، جسے واگزار کروایا جائے گا۔ اس کے لئے میں پہلے نوٹس دوں گا پھر یہ فائلز نیب کو بھیجی جائیں گی۔ اب آپ سندھ میں دیکھ لیں کہ چار ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ ہے، جس پر میں نے کارروائی کرتے ہوئے نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔
میں نے وزیراعلی اور آئی جی پولیس سندھ کو بھی لیٹر لکھا ہے۔ سندھ میں اب قبضہ مافیا کے خلاف اچھا ماحول بن گیا ہے اور ہم نے اڑھائی ایکڑ زمین واگزار بھی کروالی ہے۔ پنجاب میں بھی بااثر افراد نے قبضہ کر رکھا ہے اور یہ لوگ نیلامی تک نہیں ہونے دیتے، یہ کرائے (زرپٹہ) دیتے ہیں نہ کسی کو وہاں گھسنے دیتے ہیں۔ اب ان کو بھی میں نوٹس دینے والا ہوں۔
ایک چیز اور عرض کروں کہ میرے پاس (بحیثیت چیئرمین بورڈ) عدالتی (سیشن جج) اختیارات بھی ہیں۔ زمین کے سٹیٹس کے فیصلے( آیا یہ متروکہ وقف املاک ہے یا نہیں) کا اختیار صرف چیئرمین بورڈ کے پاس ہے، سپریم کورٹ بھی یہ اختیار نہیں رکھتی۔ اب میں ملک کے مختلف حصوں میں عدالتیں بھی لگا رہا ہوں۔ الحمدللہ روزانہ 12 سے 16گھنٹے کام کرتا ہوں، جس میں اتوار بھی شامل ہے۔ میں اپنے فیصلوں میں بڑا سخت ہوں اگر ایک بار کوئی فیصلہ کر لیا تو پھر کوئی دباؤ مجھ سے تبدیلی نہیں کرا سکتا۔ ان تمام اقدامات اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ادارہ جلد بہت آگے نکل جائے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک انسان اور شیطان دنیا میں ہیں، کرپشن اور گناہ بالکل ختم نہیں ہوگا مگر اسے کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
ایکسپریس: ملک بھر میں بورڈ کی کل کتنی اراضی ہے اور اس میں سے کتنی پر قبضہ ہے؟
صدیق الفاروق: بلاشبہ بورڈ کی زمینوں پر قبضہ ہے، لیکن میں یہ کر رہا ہوں کہ صرف قبضے چھڑوانے میں ہی نہ الجھ جاؤں بلکہ جو خالی اراضی ہے، ان پر ترقیاتی کام بھی کرواؤں تاکہ کہیںان پر بھی کوئی قبضہ نہ کر لے۔ ایک بات عرض کروں کہ یہاں کام نہ کرنے والے کی کوئی پوچھ نہیں۔ جن کے دور میں قبضے ہوئے انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
جنہوں نے خالی پلاٹوں پر قبضے کئے انہیں کسی نے نہیں پوچھا لیکن جب کوئی کام کرنے والا آتا ہے تو پھر ایف آئی اے بھی دوڑتا ہے، نیب بھی آتا ہے اور عدالتوں میں بھی معاملات چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے کچھ کام حسن ابدال پنجہ صاحب میں کیا، کچھ اسلام آباد میں کیا لیکن اب وہاں شکایتیں شروع ہو گئیں، جن میں سے ایک درخواست نیب کے پاس بھی گئی، کچھ معاملات نیب میں بھی ہیں۔ نیب میں سارے فرشتے نہیں ہیں۔ وہ تو خود بھی ٹیسٹ اور ٹرائل کے مرحلے میں ہے۔
ہم نے بہت سے معاملات مکمل کرکے انہیں دے دیئے ہیں۔ نیب والوں نے دس دس سال پرانی شکایتوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن اب شکایت گئی تو انہوں نے ہم سے پوچھ لیا کہ آپ کے دور میں جو کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں ان کا ریکارڈ دیں۔ ہم نے انہیں ریکارڈ بھیج دیا ہے، جو دو کمپنیاں میرے دور میں رجسٹرڈ ہوئیں ان میں تمام قواعد کی پاسداری کی گئی ہے، یعنی آپ دیکھ لیں کہ چار پانچ ماہ پہلے ہونے والے کام کا احتساب شروع ہو گیا ہے لیکن دس سال پہلے کی شکایات ویسے پڑی تھیں اور اب نوٹس لینے پر ان پر کام شروع ہوا ہے۔
ایکسپریس:سابق چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ سید آصف ہاشمی کے دور میں ہونے والی بدعنوانیوں کے قصے زبان زد عام ہیں۔ غیرقانونی بھرتیوں اور الاٹمنٹس کی ایک لمبی فہرست ہے (جس میں موضع لدھڑ، موٹا سنگھ والا ڈیرہ چہل کی اراضی، پاکستان ماڈل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز فاؤنڈیشن، سابق سیکرٹری بورڈ کو پلاٹ کی غیر قانونی الاٹمنٹ، کراچی میں 2300 کے لگ بھگ ایکڑ اراضی پر لوگوں کے قبضے پر خاموشی، اسلام آباد پلازہ، بی وی او ویسٹ، عائشہ ڈگری کالج، مصری شاہ پلازہ ، کارپاکنگ پلازہ، لاہور اور راولپنڈی کے رہائشی فلیٹس کو خلاف ضابطہ کرائے پر دینا وغیرہ شامل ہے) تو میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ یہ معاملات اور انکوائریاں کب تک فائلوں میں پڑی قانون کا منہ چڑاتی رہیں گی؟ آپ نے گیارہ اپریل کو سابق چیئرمین کی جلد گرفتاری کا بھی عندیہ دیا لیکن آج تک کچھ نہیں ہو سکا۔
صدیق الفاروق: میرا خیال ہے کہ میں نے جو بات کی تھی اس پر ویسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن اس پر میرا اختیار نہیں ہے۔ ڈی جی نیب سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ کیس بنانے میں ہمیں چھ ماہ لگ جاتے ہیں، ہم نے ان کی مطلوبہ چیزیں دے دیں ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ میں اس حوالے سے جلد ایک پریس کانفرنس بھی کروں گا، جس میں ان تمام چیزوں سے قوم کو آگاہ کیا جائے گا، جو ہم نے نیب کو فراہم کی ہیں۔
ایکسپریس: متروکہ وقف املاک بورڈ کی بہتری کے لئے جو منصوبے آپ نے شروع کئے، وہ کس سطح تک پہنچ چکے ہیں؟
صدیق الفاروق: دیکھیں جی! ایک تو پلاٹوں کی نیلامی کا منصوبہ ہے، ہمارے بجٹ کا ٹارگٹ تھا کہ ہم ناقابل واپسی زرضمانت کی مد میں 20 کروڑ روپے سالانہ حاصل کریں گے۔
اب تک جو نیلامی ہم کر چکے ہیں اس کے ذریعے 25کروڑ ہمیں موصول ہونے والے ہیں۔ باقی نیلامیاں شروع ہیں، تو کوئی بعید نہیں کہ 30 جون سے قبل ہم ایک ارب روپے حاصل کر لیں جوٹارگٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ صرف یہی ایک کام نہیں، ہمارے ترقیاتی کاموں میں گُردوارے اور مندر بھی آتے ہیں، جن کے لئے تیزی سے کام جاری ہے۔
دیکھیں! جب تک سرکاری کام کو اپنے ذاتی کام پر فوقیت نہ دی جائے تب تک کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ میں ہمیشہ ایک بات کہتا ہوں کہ پاکستان میں جتنی کرپشن، جتنی خرابی اور ادارے تباہ ہوئے، اس کی وجہ چار بار کا مارشل لاء اور 33 سال کی فوجی حکمرانی رہی، جس میں عدالتوں، احتسابی نظام اور اداروں کو برباد کیا گیا۔ ڈنڈا، ذاتی خواہش اور رعونت قانون بن گیااور انصاف کا قتل ہوا۔ اگر یہاں جمہوری نظام چلتا رہتا تو یہ ملک کایہ حال نہ ہوتا۔
ایکسپریس: ننکانہ صاحب میں 40 سال سے بیٹھے لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو گرا دیا گیا، گو کہ یہ اراضی بورڈ کی ہے لیکن کیا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں کیا جائے گا؟ دوسرا یہ کہ اطلاعات کے مطابق وہاں موجود چند افسران لوگوں سے پیسے لے کر اسی اراضی پر دوبارہ قبضے بھی کروا رہے ہیں۔ کیا آپ کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے؟
صدیق الفاروق: یہ خدا کا کرم ہے کہ ننکانہ صاحب سے میرے پاس کچھ ایسے افراد ہیں، جو فیلڈ میں جہاں کہیں تھوڑی سے بھی گڑبڑ ہوتی ہے، مجھے فوری اطلاع کرتے ہیں۔
ہم نے وہاں ضمنی الیکشن کے دوران 250 کنال اراضی پر موجود تجاوزات کو گرایا اور میں خود وہاں موقع پر موجود تھا۔ وہاںجو جگہ ہے، وہ صرف بورڈ کی ہے، تو پھر جو رہنے کا مسئلہ ہے، اس کے لئے ہم ایک سکیم بنا رہے ہیں کہ جو لوگ قبضہ کرکے بیٹھے ہیں، ان کو کرائے دار بنا لیں۔ پھر جو اراضی وہاں سے واگزار کروائی جائے گی اس پر ایک یونیورسٹی، ہوسٹلز، کھیل کے میدان، ہسپتال، فلیٹس، پولیس لائن اور ضلعی دفاتر بننے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں! کہ یہ کام اتنے آسان نہیں، ان میں تھوڑا وقت لگے گا۔
ایکسپریس: ایک انٹرویو میں آپ نے کہا تھا کہ آپ نے متروکہ وقف املاک بورڈ کی چیئرمین شپ سے معذرت کر لی لیکن بعدازاں وزیراعظم نے باقاعدہ حکم دیا تو آپ کو مجبوراً یہ ذمہ داری سنبھالنا پڑی۔ اس معذرت کی وجہ کیا تھی؟
صدیق الفاروق: یہی زمینوں و جائیدادوں کے معاملات انکار کی وجہ بنے۔ اب دیکھیں ناں یہاں جو کوئی بھی آتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ قاعدے و قانون کے بغیر اسے کچھ دے دیا جائے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ جی ہاشمی صاحب نے یہ کیا تھا تو میں کہتا ہوں کہ مجھے آپ ہاشمی سمجھتے ہیں۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ لوگ مجھ سے بہت ناراض ہوں گے، اس لئے میں معذرت ہی کرلیتا ہوں۔ لیکن پھر جب وزیراعظم کا حکم آ گیا تو میں نے چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا۔دیکھیں! یہاں ایک ا ہم نقطہ یہ ہے کہ ہم ان دواقلیتوں(ہندو،سکھ) کی خدمت کرکے دنیا میں اپنا امیج بہتر بنائیں اور الحمدللہ اب یہ ہو رہا ہے۔
یاتری ہماری خدمات کی وجہ سے بھارت جا کر بھی ہماری تعریف کر رہے ہیں۔ میں یاتریوں اور ان کے مذہبی مقامات کی خدمت اپنا دینی، اخلاقی اور آئینی فریضہ سمجھ کر رہا ہوں۔ آپ دیکھ لیں کہ باہر کے ممالک میں رہنے والے غیرمسلموں کا اعتماد بھی بڑھا ہے اور وہ یہاں اپنے مذہبی مقامات پر پیسہ خرچ کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم خود بھی کروڑوں روپے سے گردواروں اور مندروں میں ترقیاتی کام کروا رہے ہیں۔
ایکسپریس:جس گھر میں ہم اس وقت بیٹھے ہیں اس کے بارے میں سنا گیا تھا کہ آپ نے اسے لینے سے انکار کیا، بعد میں آپ نے فیصلہ بدل لیا تو اس کی وجہ کیا تھی؟
صدیق الفاروق: میں نے نہیں بدلا، میں اسے کرائے پر دینا چاہتا تھا لیکن ہمارے بورڈ نے انکار کر دیا، انہوں نے کہا کہ جس طرح گورنر یا سی ایم ہاؤس ہوتا ہے،اسی طرح یہ چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کا ہاؤس ہے، جسے ہم کرائے پر نہیں دے سکتے۔ پھر میں نے اس کو کیمپ آفس میں تبدیل کر دیا، جہاں دن رات کام ہو رہا ہے۔ میرے بچے یہاں نہیں رہتے، میں بھی صرف ایک کمرے میں رہتا ہوں۔اوپر والے کمروں کو گیسٹ ہاؤس بنا دیا تاکہ ہمیں بورڈ کے سرکاری دوروں پر آئے لوگوں کو ہوٹلوں میں نہ ٹھہرانا پڑے۔
ایکسپریس:پارٹی کے لئے آپ کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن عام تاثر یہ ہے کہ پارٹی میں آپ کی اس طرح سے پذیرائی نہیں ہوئی جو آپ کا حق بنتا تھا، راولپنڈی سے آپ کو خواہش کے باوجود ٹکٹ نہیں دیا گیا، جس کی وجہ پارٹی کے ہی کچھ لوگوں کی مخالفت بتائی جاتی ہے۔ اس میں کس قدر سچائی ہے؟
صدیق الفاروق: دیکھیں! ہم سب انسان ہیں، فرشتے نہیں۔ مجھ سے بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں ۔پارٹی کے لوگوں سے بھی ہوتی ہیں، سب کی اپنی پسند نہ پسند ہوتی ہے۔ میری لیڈرشپ نے یہ سمجھا کہ مجھے ٹکٹ نہ دیا جائے تو میں نے ان کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کیا۔ میں سمجھتا ہو شایداللہ رب العزت مجھ سے رکن پارلیمنٹ سے کہیں زیادہ بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ میں نے اسمبلی الیکشن کے لئے اپلائی کیا، سینیٹ کے لئے بھی کیا،کیوں کہ مجھے کہا گیا تھا لیکن بعد میں مجھے ٹکٹ نہیں ملا۔ دیکھیں! میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعت ماں ہے اور یہ ملک سے بھی بڑا ادارہ ہے اس لئے کہ پارٹیاں ملک بناتی ہیں۔
پارٹیاں آزادی کی تحریکیں چلاتی ہیں۔ یہ برصغیر پاک و ہند غلام تھا، پھر اُدھر کانگرس اور اِدھر مسلم لیگ نے تحریک چلائی ۔ ایک نے بھارت بنا دیا تو دوسری نے پاکستان بنا دیا۔ مسلم لیگ سے ہماری وابستگی تیسری نسل تک پہنچ چکی ہے۔ میرے دادا اور والد نے پاکستان کی تحریک میں کردار ادا کیا۔ میرے والد صاحب تین سال جیل رہے، اس لئے میری پارٹی صرف مسلم لیگ ہی ہے، اونچ نیچ توہوہی جاتی ہے، لیکن قیادت کے فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔
ایکسپریس:توانائی بحران کے خاتمے کا نعرے لگانے والی حکومت اب اپنے وعدوں سے مکرتی جا رہی ہے، جیسے پہلے دو سال کا نعرہ لگا، پھر وہ پانچ سال میں بدل گیا تو اب خواجہ آصف صاحب نے اس ڈیڈلائن میں توسیع کا بھی اشارہ دے دیا ہے۔ تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ان وعدوں پر عملدرآمد نہ ہوا تو ن لیگ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا؟
صدیق الفاروق: جو پارٹی کا منشور ہے، اس میں لکھا گیا تھا کہ تین سال میں توانائی کے بحران پر قابو پا لیا جائے گا، لیکن جب وزیراعظم نے پریس کانفرنس کی تو اس میں انہوں نے چار سے پانچ سال کا وقت دیا تھا، جو آن دی ریکارڈ ہے۔
دیکھیں! بحران تو ایک سال میں ختم ہو سکتا ہے، کیوں کہ فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے جو کارخانے ہمارے ہاں لگے ہیں، ان کی اندر 18سے 21ہزار بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے، لیکن پھر یہ بجلی 40 روپے فی یونٹ سے اوپر چلی جائے گا، جو کوئی خرید نہیں سکے گا اور حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اتنی زیادہ سبسڈی دے سکے۔ حکومت تیزی سے بجلی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے، جس سے امید ہے کہ 2018ء سے قبل بجلی بحران پر کافی حد تک قابو پا لیا جائے گا۔ میرے خیال میں سخت گرمی کے مہینوں میں اگر دو سے تین گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو تو یہ زیادہ محسوس نہیں کی جائے گی۔ 2018ء کے بعد اگر لوڈشیڈنگ رہی بھی تو وہ لوگوں کو پریشان نہیں کرے گی۔
''کھانے میں سری پائے اور ہریسے کو میاں صاحب کے ساتھ جوڑنا پروپیگنڈا ہے''
کھانے پینے کے حوالے سے سری پائے اور ہریسہ وغیرہ کو جو میاں صاحب کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، یہ پروپیگنڈا ہے، یہ درست ہے انہیں دیسی کھانے، دیسی مرغی اور دریا کی مچھلی پسند ہے، جو طلب کے مطابق کھاتے ہیں۔ دوسرا وہ وسیع الظرف آدمی ہیں ۔اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اپنے نائب قاصد سے بھی معذرت کر لیتے ہیں۔
ایک موقع پر میں ان کے ساتھ سندھ گیا تو انہوں نے مجھے ایک کام بھجوا دیا۔واپسی پر انہوں نے تاخیر سے پہنچنے پر تھوڑا غصہ کیا تو میں نے انہیں بتایاکہ میں تو آپ کے حکم پر گیا تھا اور کام مکمل کر کے ابھی پہنچا ہوں تو انہوں نے کہا کہ میں معافی چاہتا ہوں۔ میں بھول گیا تھا میرے پاس توان کی تحریری معافی موجود ہے۔ ایک مرتبہ کھلی کچہری کے دوران میں نے ان سے قبل کسی بات کا جواب دے دیا تو انہیں تھوڑا غصہ آ گیا، انہوں نے مجھے وہاں جھڑک دیا لیکن بعد میں جب ہم جہاز میںپہنچے تو انہیں احساس ہوا۔ انہوں نے پھر مجھ سے معافی مانگی اور یہ بہت بڑی بات ہے۔
وزیراعظم چاہتے ہیں کہ یہاں امن و امان قائم ہو اور پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن جائے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کوئی ایسا نسخہ آ جائے کہ وہ صبح اٹھیں تو پاکستان جنت بنا ہو ۔ اس جدوجہد میں وہ لگے ہوئے ہیں جس کا واضح ثبوت اکنامک زونز اور غیرملکی سرمایہ کاری ہے۔ پہلے ادوار میں اگر ان کے خلاف سازشیں نہ کی جاتیں تو آج پاکستان میں بیروزگاری ہوتی نہ توانائی کا کوئی بحران ہوتا۔ اب یہ جو ہم اکنامک کوریڈور بنا رہے ہیں، یہ کب کا بن گیا ہوتا۔اکنامک کوریڈور پر ہونے والی نقل و حمل سے ہمیں ڈیوٹی کی صورت میں 7 ارب ڈالر سالانہ حاصل ہوں گے، جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے جائیں گے۔
یہ صرف ڈیوٹیز سے حاصل ہوں گے، اس کے ساتھ جو ہماری اپنی برآمدات بڑھیں گی، وہ الگ ہیں۔ میں یہ کہوں گا وہ لوگ قومی مجرم ہیں، جنہوں نے 93ء، 99ء میں سازش کی، وہ نواز شریف کے نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے مجرم ہیں، انہوں نے اس ملک کے ساتھ غداری کی۔ اور اب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو لوگ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، وہ تو نواز شریف کے اقتصادی پروگرام کو اپنی سیاسی موت سمجھ رہے ہیں۔ نواز شریف کے اقتصادی پروگرام اگر کامیاب ہو جائیں تو یہ اس ملک کے لئے آب حیات ،لیکن کچھ لوگوں کو ملک کی ترقی عزیز نہیں کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ دھرنے نہ دیتے۔
''والدہ نے بل میں گھسا چھ فٹ لمبا سانپ ہاتھ سے کھینچ کر مار دیا ''
میری والدہ بہت بہادر اور سخت جان خاتون تھی۔ میں نے کم ہی اتنی بہادر خواتین دیکھی ہیں۔ ایک بار یوں ہوا کہ میری اور والد کی عدم موجودگی میں ایک سانپ گھر میں گھس آیا۔ چھ فٹ لمبا یہ سانپ گھر کے ایک بل میں گھس گیا لیکن اس کی دُم تھوڑی سی باہر رہ گئی۔
میری والدہ نے اپنی بیٹی کو کہا کہ مرچیں پیسنے والا ڈنڈا لے آؤ، پھرانہوں نے سانپ کو دُم سے پکڑا اور اسے آہستگی سے باہر کھینچنے لگیں اور جب انہیں احساس ہوا کہ اب سانپ کا سر قریب ہے تو انہوں نے زور سے ڈنڈا مار کر اس کو کچل دیا۔ وہ اتنی بہادر خاتون تھیں کہ جب گھر میں مرد نہیں ہوتے تھے تو وہ اپنے سرہانے مٹی کا تیل اور ماچس کی ڈبیا رکھتی تھیں کہ اگر کوئی خطرناک شخص آئے تو اس پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا دوں گی۔
کیا پسند ہے......؟
کھیل میں مجھے زیادہ ہاکی، فٹبال اور ُکشتیاں پسند ہیں۔ ہر وہ موسیقی سن لیتا ہوں، جو تیز نہ ہو، چاہے وہ پاکستانی ہو یا بھارت کی، پھر غزلیں اور لوک گیت تو مجھے بہت ہی بھاتے ہیں۔ زندگی میں صرف تین فلمیں دیکھی ہیں، لیکن پاکستانی ڈرامے زیادہ شوق سے دیکھتا ہوں اور ان میں میرا پسندیدہ ڈرامہ وارث ہے۔
یہاں میں ایک بات بتاؤں کہ پاکستان ادب، شاعری اور ڈراموں میں بھارت سے بہت آگے ہے۔ پسندیدہ کتب میں سب سے پہلے قرآن مجید، احادیث نبویؐ اور خلفاء راشدین کی حیات مبارکہ پر لکھی گئی کتب پسند ہیں۔ آئیڈل شخصیت حضرت محمدؐ کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ ہیں، پھر دنیا داروں میں امیر تیمور اور برصغیر میں شیر شاہ سوری سے متاثر ہوں۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود پارٹی کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کی بدولت قیادت سے بھرپور اعتماد حاصل کیا۔ وہ میاں نواز شریف کے سابق دورِ حکومت میں پریس سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔اس کے بعد وہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اکتوبر 2014ء میں چئیرمین متروکہ وقف املاک بورڈ بننے سے قبل وہ مسلم لیگ نواز کے ترجمان کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔سیاسی حلقوں میں صدیق الفاروق کو دوٹوک موقف کا حامل شخص مانا جاتا ہے۔
وہ ماضی میں مختلف فورمز پر منعقد ہونے والے مباحثوں میں کافی سرگرم شرکت کرتے رہے ہیں، جن میں انہوں نے اپنی جماعت کا بھرپور دفاع کیا۔ طبیعت کے اعتبار سے نہایت بردبار اور حلیم صدیق الفاروق اپنی ذاتی زندگی میں نظم وضبط کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔گفتگو میں ٹھہراؤ اور الفاظ کا نپا تلا استعمال ان کی خوبی ہے۔ قلم سے بھی ان کا رشتہ ہے۔انہوں نے پرویز مشرف کی کتاب کے جواب میں ''سرخرو کون'' لکھی جبکہ دوسری کتاب کارگل واقعے کے بارے میں ہے۔
اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس نے صدیق الفاروق کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں ان کی حالیہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی خدمات کے بارے میں سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ قارئین کے لیے اس نشست کا احوال پیش کیا جا رہا ہے۔
ایکسپریس:متروکہ وقف املاک بورڈ کے بارے میں عام تاثرکچھ اچھا نہیں ہے، بحیثیت چیئرمین آپ نے اس منفی تاثرکو زائل کرنے کے لیے کیا اقدامات کئے ہیں؟
صدیق الفاروق: یہ تاثر درست نہیں تھا اور اب بھی جن لوگوں تک میرے اقدامات نہیں پہنچے ان کا تاثر وہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ متروکہ وقف املاک کوئی بہت well known ادارہ نہیں رہا، لوگ اسے مسلم اوقاف ہی کا حصہ سمجھتے ہیں، کئی لوگ اب بھی میرے پاس آتے ہیں، جن کے کام مسلم اوقاف کے ہوتے ہیں، میں انہیں بتاتا ہوں کہ یہ میرے پاس نہیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کرپشن کی وجہ سے بدنام ہے۔
اگر کوئی کہے کہ کرپشن نہیں ہوتی تو وہ غلط کہتا ہے کیونکہ زمین و جائیداد کے معاملات میں پٹواری اور محکمہ مال وغیرہ دیلے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت ملک میں ساڑھے چودہ ہزار عمارتیں ہیں، ان کے آگے چالیس ہزار سے زائد ذیلی یونٹس ہیں۔ اسی طرح ایک لاکھ بارہ ہزار کے قریب ایکڑ زمین ہے، لیکن پوشیدہ اراضی بہت زیادہ ہے۔
پانچ کالج و سکول، ہسپتال، دیال سنگھ لائبریری ہے۔ سکھوں کے مقدس ترین مقامات بھی پاکستان میں ہیں یعنی سری ننکانہ صاحب، سری ڈیرہ صاحب اور سری پنجہ صاحب، نارووال تحصیل میں سری کرتار پور صاحب۔ بابا گرو نانک، ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات کرتار پور صاحب میں ہوئی، جہاں انہوں نے عمر کے آخری 19 سال گزارے۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کے دنیا میں جو پانچ بڑے تیرتھ اور استان ہیں، ان میں سے تین پاکستان میں ہیں، ایک سری کٹھاس راج ہے، جہاں ان کے بہت بڑے مذہبی رہنماؤں کے مندر بنے ہوئے ہیں، بلوچستان میں ماتا جی مندر اور ملتان میں پرلات پری مندر ہے، جہاں سے ہولی کی رسم شروع ہوئی۔
پاکستان میں ہر سال چار پانچ بار سکھ اور دو تین بار ہندو آتے ہیں۔ وطن عزیز میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے اور میری خدمات کے باعث اس بار بھارت سے آنے والے سکھوں کی تعداد آٹھ سو سے زائد تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کسی کو کام نہیں کرتے، میرے پیشرو نے ایک ایک سیٹ پر تین تین افراد بھرتی کر رکھے تھے، جن کی انکوائری ہونا باقی ہے۔ لوگ وقت پر دفتر نہیں پہنچتے تھے۔ پھر ہر جگہ پر کرپشن، کرایہ داری تبدیل ہونی ہو یا نیلامی، ہر جگہ پیسہ ملوث رہا، نیلامی مل ملا کر ہوتی رہی ہیں۔ میں نے آتے ہی ایک تو وقت کی پابندی اور نظم لازمی کیا۔ میں خود ان لوگوں سے پہلے دفتر پہنچتا ہوں۔
یہاں گریڈ سولہ کا آدمی گریڈ انیس پر کام کر رہا تھا، میں نے آکر گریڈ انیس کا آدمی بھرتی کیا۔ یہاں لوگوں کو کام آتا نہیں، اگر آتا ہے تو پیسے کے بغیر کرتے نہیں، الحمداللہ میں نے یہ کلچر بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے۔
پہلے سرعام سودے ہوتے تھے، جواب بند ہو گئے ہیں۔ مجھے اس عہدے پر پندرہ ماہ ہو چکے ہیں لیکن اس عرصہ میں کسی قسم کا کوئی اسکینڈل نہیں بنا۔ ہم نے کچھ کیسز بنا کر نیب اور ایف آئی اے کو بھی دیئے ہیں۔ مختصر یہ کہ ایک تو میں نے کرپٹ لوگوں کو ہٹایا، انکوائریاں شروع کیں، نظم قائم کیا اور کیپسٹی بلڈنگ کی اور اب ہم آڈٹ کے لئے اپنا ریکارڈ پیش کر رہے ہیں۔کچھ فائلیں گم کر دی گئیں تھیں تو میں نے کہا کہ جو ریکارڈ کا نگران ہے اور جن لوگوں کو متوقع طور پران فائلوں کے گم ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہے، ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ 8 فائلیں برآمد ہو گئیں، امید ہے باقی بھی جلد آ جائیں گی۔
اسی طرح کاموں کو غیرضروری طور پر طول دینے کا یہاں بہت رجحان تھا لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ میری میز پر کوئی چیز زیادہ دیر تک نہیں رکتی۔ اگر میں یہاں موجود نہ بھی ہوں تو بھی فوری نوعیت کی فائلیں مجھے فیکس کے ذریعے پہنچتی ہیں، جن پر فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ لوگوں کو میں نے خود سے باسہولت رابطے کا اختیار دیا۔ جو بھی میرے پاس آجائے یا فون پر بات کرنا چاہے تو میں کرتا ہوں بلکہ میں نے تو اپنا فون نمبر بھی عام کر دیا ہے، جسے میں ہمیشہ خود سنتا ہوں۔
مجھے کسی بھی جگہ سے کوئی شکایت ملتی ہے تو میں خود وہاں پہنچتا ہوں۔ الحمدللہ اب تک میں 8 ارب سے زائد کی زمین قبضہ مافیا سے واگزار کروا چکا ہوں، زمینوں پر قبضے کا معاملہ چاروں صوبوں تک پھیلا ہوا ہے لیکن زیادہ زمین پنجاب اور سندھ میں ہے، جسے واگزار کروایا جائے گا۔ اس کے لئے میں پہلے نوٹس دوں گا پھر یہ فائلز نیب کو بھیجی جائیں گی۔ اب آپ سندھ میں دیکھ لیں کہ چار ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ ہے، جس پر میں نے کارروائی کرتے ہوئے نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔
میں نے وزیراعلی اور آئی جی پولیس سندھ کو بھی لیٹر لکھا ہے۔ سندھ میں اب قبضہ مافیا کے خلاف اچھا ماحول بن گیا ہے اور ہم نے اڑھائی ایکڑ زمین واگزار بھی کروالی ہے۔ پنجاب میں بھی بااثر افراد نے قبضہ کر رکھا ہے اور یہ لوگ نیلامی تک نہیں ہونے دیتے، یہ کرائے (زرپٹہ) دیتے ہیں نہ کسی کو وہاں گھسنے دیتے ہیں۔ اب ان کو بھی میں نوٹس دینے والا ہوں۔
ایک چیز اور عرض کروں کہ میرے پاس (بحیثیت چیئرمین بورڈ) عدالتی (سیشن جج) اختیارات بھی ہیں۔ زمین کے سٹیٹس کے فیصلے( آیا یہ متروکہ وقف املاک ہے یا نہیں) کا اختیار صرف چیئرمین بورڈ کے پاس ہے، سپریم کورٹ بھی یہ اختیار نہیں رکھتی۔ اب میں ملک کے مختلف حصوں میں عدالتیں بھی لگا رہا ہوں۔ الحمدللہ روزانہ 12 سے 16گھنٹے کام کرتا ہوں، جس میں اتوار بھی شامل ہے۔ میں اپنے فیصلوں میں بڑا سخت ہوں اگر ایک بار کوئی فیصلہ کر لیا تو پھر کوئی دباؤ مجھ سے تبدیلی نہیں کرا سکتا۔ ان تمام اقدامات اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ادارہ جلد بہت آگے نکل جائے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک انسان اور شیطان دنیا میں ہیں، کرپشن اور گناہ بالکل ختم نہیں ہوگا مگر اسے کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
ایکسپریس: ملک بھر میں بورڈ کی کل کتنی اراضی ہے اور اس میں سے کتنی پر قبضہ ہے؟
صدیق الفاروق: بلاشبہ بورڈ کی زمینوں پر قبضہ ہے، لیکن میں یہ کر رہا ہوں کہ صرف قبضے چھڑوانے میں ہی نہ الجھ جاؤں بلکہ جو خالی اراضی ہے، ان پر ترقیاتی کام بھی کرواؤں تاکہ کہیںان پر بھی کوئی قبضہ نہ کر لے۔ ایک بات عرض کروں کہ یہاں کام نہ کرنے والے کی کوئی پوچھ نہیں۔ جن کے دور میں قبضے ہوئے انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
جنہوں نے خالی پلاٹوں پر قبضے کئے انہیں کسی نے نہیں پوچھا لیکن جب کوئی کام کرنے والا آتا ہے تو پھر ایف آئی اے بھی دوڑتا ہے، نیب بھی آتا ہے اور عدالتوں میں بھی معاملات چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے کچھ کام حسن ابدال پنجہ صاحب میں کیا، کچھ اسلام آباد میں کیا لیکن اب وہاں شکایتیں شروع ہو گئیں، جن میں سے ایک درخواست نیب کے پاس بھی گئی، کچھ معاملات نیب میں بھی ہیں۔ نیب میں سارے فرشتے نہیں ہیں۔ وہ تو خود بھی ٹیسٹ اور ٹرائل کے مرحلے میں ہے۔
ہم نے بہت سے معاملات مکمل کرکے انہیں دے دیئے ہیں۔ نیب والوں نے دس دس سال پرانی شکایتوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن اب شکایت گئی تو انہوں نے ہم سے پوچھ لیا کہ آپ کے دور میں جو کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں ان کا ریکارڈ دیں۔ ہم نے انہیں ریکارڈ بھیج دیا ہے، جو دو کمپنیاں میرے دور میں رجسٹرڈ ہوئیں ان میں تمام قواعد کی پاسداری کی گئی ہے، یعنی آپ دیکھ لیں کہ چار پانچ ماہ پہلے ہونے والے کام کا احتساب شروع ہو گیا ہے لیکن دس سال پہلے کی شکایات ویسے پڑی تھیں اور اب نوٹس لینے پر ان پر کام شروع ہوا ہے۔
ایکسپریس:سابق چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ سید آصف ہاشمی کے دور میں ہونے والی بدعنوانیوں کے قصے زبان زد عام ہیں۔ غیرقانونی بھرتیوں اور الاٹمنٹس کی ایک لمبی فہرست ہے (جس میں موضع لدھڑ، موٹا سنگھ والا ڈیرہ چہل کی اراضی، پاکستان ماڈل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز فاؤنڈیشن، سابق سیکرٹری بورڈ کو پلاٹ کی غیر قانونی الاٹمنٹ، کراچی میں 2300 کے لگ بھگ ایکڑ اراضی پر لوگوں کے قبضے پر خاموشی، اسلام آباد پلازہ، بی وی او ویسٹ، عائشہ ڈگری کالج، مصری شاہ پلازہ ، کارپاکنگ پلازہ، لاہور اور راولپنڈی کے رہائشی فلیٹس کو خلاف ضابطہ کرائے پر دینا وغیرہ شامل ہے) تو میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ یہ معاملات اور انکوائریاں کب تک فائلوں میں پڑی قانون کا منہ چڑاتی رہیں گی؟ آپ نے گیارہ اپریل کو سابق چیئرمین کی جلد گرفتاری کا بھی عندیہ دیا لیکن آج تک کچھ نہیں ہو سکا۔
صدیق الفاروق: میرا خیال ہے کہ میں نے جو بات کی تھی اس پر ویسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن اس پر میرا اختیار نہیں ہے۔ ڈی جی نیب سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ کیس بنانے میں ہمیں چھ ماہ لگ جاتے ہیں، ہم نے ان کی مطلوبہ چیزیں دے دیں ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ میں اس حوالے سے جلد ایک پریس کانفرنس بھی کروں گا، جس میں ان تمام چیزوں سے قوم کو آگاہ کیا جائے گا، جو ہم نے نیب کو فراہم کی ہیں۔
ایکسپریس: متروکہ وقف املاک بورڈ کی بہتری کے لئے جو منصوبے آپ نے شروع کئے، وہ کس سطح تک پہنچ چکے ہیں؟
صدیق الفاروق: دیکھیں جی! ایک تو پلاٹوں کی نیلامی کا منصوبہ ہے، ہمارے بجٹ کا ٹارگٹ تھا کہ ہم ناقابل واپسی زرضمانت کی مد میں 20 کروڑ روپے سالانہ حاصل کریں گے۔
اب تک جو نیلامی ہم کر چکے ہیں اس کے ذریعے 25کروڑ ہمیں موصول ہونے والے ہیں۔ باقی نیلامیاں شروع ہیں، تو کوئی بعید نہیں کہ 30 جون سے قبل ہم ایک ارب روپے حاصل کر لیں جوٹارگٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ صرف یہی ایک کام نہیں، ہمارے ترقیاتی کاموں میں گُردوارے اور مندر بھی آتے ہیں، جن کے لئے تیزی سے کام جاری ہے۔
دیکھیں! جب تک سرکاری کام کو اپنے ذاتی کام پر فوقیت نہ دی جائے تب تک کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ میں ہمیشہ ایک بات کہتا ہوں کہ پاکستان میں جتنی کرپشن، جتنی خرابی اور ادارے تباہ ہوئے، اس کی وجہ چار بار کا مارشل لاء اور 33 سال کی فوجی حکمرانی رہی، جس میں عدالتوں، احتسابی نظام اور اداروں کو برباد کیا گیا۔ ڈنڈا، ذاتی خواہش اور رعونت قانون بن گیااور انصاف کا قتل ہوا۔ اگر یہاں جمہوری نظام چلتا رہتا تو یہ ملک کایہ حال نہ ہوتا۔
ایکسپریس: ننکانہ صاحب میں 40 سال سے بیٹھے لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو گرا دیا گیا، گو کہ یہ اراضی بورڈ کی ہے لیکن کیا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیں کیا جائے گا؟ دوسرا یہ کہ اطلاعات کے مطابق وہاں موجود چند افسران لوگوں سے پیسے لے کر اسی اراضی پر دوبارہ قبضے بھی کروا رہے ہیں۔ کیا آپ کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے؟
صدیق الفاروق: یہ خدا کا کرم ہے کہ ننکانہ صاحب سے میرے پاس کچھ ایسے افراد ہیں، جو فیلڈ میں جہاں کہیں تھوڑی سے بھی گڑبڑ ہوتی ہے، مجھے فوری اطلاع کرتے ہیں۔
ہم نے وہاں ضمنی الیکشن کے دوران 250 کنال اراضی پر موجود تجاوزات کو گرایا اور میں خود وہاں موقع پر موجود تھا۔ وہاںجو جگہ ہے، وہ صرف بورڈ کی ہے، تو پھر جو رہنے کا مسئلہ ہے، اس کے لئے ہم ایک سکیم بنا رہے ہیں کہ جو لوگ قبضہ کرکے بیٹھے ہیں، ان کو کرائے دار بنا لیں۔ پھر جو اراضی وہاں سے واگزار کروائی جائے گی اس پر ایک یونیورسٹی، ہوسٹلز، کھیل کے میدان، ہسپتال، فلیٹس، پولیس لائن اور ضلعی دفاتر بننے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں! کہ یہ کام اتنے آسان نہیں، ان میں تھوڑا وقت لگے گا۔
ایکسپریس: ایک انٹرویو میں آپ نے کہا تھا کہ آپ نے متروکہ وقف املاک بورڈ کی چیئرمین شپ سے معذرت کر لی لیکن بعدازاں وزیراعظم نے باقاعدہ حکم دیا تو آپ کو مجبوراً یہ ذمہ داری سنبھالنا پڑی۔ اس معذرت کی وجہ کیا تھی؟
صدیق الفاروق: یہی زمینوں و جائیدادوں کے معاملات انکار کی وجہ بنے۔ اب دیکھیں ناں یہاں جو کوئی بھی آتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ قاعدے و قانون کے بغیر اسے کچھ دے دیا جائے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ جی ہاشمی صاحب نے یہ کیا تھا تو میں کہتا ہوں کہ مجھے آپ ہاشمی سمجھتے ہیں۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ لوگ مجھ سے بہت ناراض ہوں گے، اس لئے میں معذرت ہی کرلیتا ہوں۔ لیکن پھر جب وزیراعظم کا حکم آ گیا تو میں نے چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا۔دیکھیں! یہاں ایک ا ہم نقطہ یہ ہے کہ ہم ان دواقلیتوں(ہندو،سکھ) کی خدمت کرکے دنیا میں اپنا امیج بہتر بنائیں اور الحمدللہ اب یہ ہو رہا ہے۔
یاتری ہماری خدمات کی وجہ سے بھارت جا کر بھی ہماری تعریف کر رہے ہیں۔ میں یاتریوں اور ان کے مذہبی مقامات کی خدمت اپنا دینی، اخلاقی اور آئینی فریضہ سمجھ کر رہا ہوں۔ آپ دیکھ لیں کہ باہر کے ممالک میں رہنے والے غیرمسلموں کا اعتماد بھی بڑھا ہے اور وہ یہاں اپنے مذہبی مقامات پر پیسہ خرچ کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم خود بھی کروڑوں روپے سے گردواروں اور مندروں میں ترقیاتی کام کروا رہے ہیں۔
ایکسپریس:جس گھر میں ہم اس وقت بیٹھے ہیں اس کے بارے میں سنا گیا تھا کہ آپ نے اسے لینے سے انکار کیا، بعد میں آپ نے فیصلہ بدل لیا تو اس کی وجہ کیا تھی؟
صدیق الفاروق: میں نے نہیں بدلا، میں اسے کرائے پر دینا چاہتا تھا لیکن ہمارے بورڈ نے انکار کر دیا، انہوں نے کہا کہ جس طرح گورنر یا سی ایم ہاؤس ہوتا ہے،اسی طرح یہ چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کا ہاؤس ہے، جسے ہم کرائے پر نہیں دے سکتے۔ پھر میں نے اس کو کیمپ آفس میں تبدیل کر دیا، جہاں دن رات کام ہو رہا ہے۔ میرے بچے یہاں نہیں رہتے، میں بھی صرف ایک کمرے میں رہتا ہوں۔اوپر والے کمروں کو گیسٹ ہاؤس بنا دیا تاکہ ہمیں بورڈ کے سرکاری دوروں پر آئے لوگوں کو ہوٹلوں میں نہ ٹھہرانا پڑے۔
ایکسپریس:پارٹی کے لئے آپ کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن عام تاثر یہ ہے کہ پارٹی میں آپ کی اس طرح سے پذیرائی نہیں ہوئی جو آپ کا حق بنتا تھا، راولپنڈی سے آپ کو خواہش کے باوجود ٹکٹ نہیں دیا گیا، جس کی وجہ پارٹی کے ہی کچھ لوگوں کی مخالفت بتائی جاتی ہے۔ اس میں کس قدر سچائی ہے؟
صدیق الفاروق: دیکھیں! ہم سب انسان ہیں، فرشتے نہیں۔ مجھ سے بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں ۔پارٹی کے لوگوں سے بھی ہوتی ہیں، سب کی اپنی پسند نہ پسند ہوتی ہے۔ میری لیڈرشپ نے یہ سمجھا کہ مجھے ٹکٹ نہ دیا جائے تو میں نے ان کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کیا۔ میں سمجھتا ہو شایداللہ رب العزت مجھ سے رکن پارلیمنٹ سے کہیں زیادہ بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ میں نے اسمبلی الیکشن کے لئے اپلائی کیا، سینیٹ کے لئے بھی کیا،کیوں کہ مجھے کہا گیا تھا لیکن بعد میں مجھے ٹکٹ نہیں ملا۔ دیکھیں! میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعت ماں ہے اور یہ ملک سے بھی بڑا ادارہ ہے اس لئے کہ پارٹیاں ملک بناتی ہیں۔
پارٹیاں آزادی کی تحریکیں چلاتی ہیں۔ یہ برصغیر پاک و ہند غلام تھا، پھر اُدھر کانگرس اور اِدھر مسلم لیگ نے تحریک چلائی ۔ ایک نے بھارت بنا دیا تو دوسری نے پاکستان بنا دیا۔ مسلم لیگ سے ہماری وابستگی تیسری نسل تک پہنچ چکی ہے۔ میرے دادا اور والد نے پاکستان کی تحریک میں کردار ادا کیا۔ میرے والد صاحب تین سال جیل رہے، اس لئے میری پارٹی صرف مسلم لیگ ہی ہے، اونچ نیچ توہوہی جاتی ہے، لیکن قیادت کے فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔
ایکسپریس:توانائی بحران کے خاتمے کا نعرے لگانے والی حکومت اب اپنے وعدوں سے مکرتی جا رہی ہے، جیسے پہلے دو سال کا نعرہ لگا، پھر وہ پانچ سال میں بدل گیا تو اب خواجہ آصف صاحب نے اس ڈیڈلائن میں توسیع کا بھی اشارہ دے دیا ہے۔ تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ان وعدوں پر عملدرآمد نہ ہوا تو ن لیگ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا؟
صدیق الفاروق: جو پارٹی کا منشور ہے، اس میں لکھا گیا تھا کہ تین سال میں توانائی کے بحران پر قابو پا لیا جائے گا، لیکن جب وزیراعظم نے پریس کانفرنس کی تو اس میں انہوں نے چار سے پانچ سال کا وقت دیا تھا، جو آن دی ریکارڈ ہے۔
دیکھیں! بحران تو ایک سال میں ختم ہو سکتا ہے، کیوں کہ فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے جو کارخانے ہمارے ہاں لگے ہیں، ان کی اندر 18سے 21ہزار بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے، لیکن پھر یہ بجلی 40 روپے فی یونٹ سے اوپر چلی جائے گا، جو کوئی خرید نہیں سکے گا اور حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اتنی زیادہ سبسڈی دے سکے۔ حکومت تیزی سے بجلی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے، جس سے امید ہے کہ 2018ء سے قبل بجلی بحران پر کافی حد تک قابو پا لیا جائے گا۔ میرے خیال میں سخت گرمی کے مہینوں میں اگر دو سے تین گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو تو یہ زیادہ محسوس نہیں کی جائے گی۔ 2018ء کے بعد اگر لوڈشیڈنگ رہی بھی تو وہ لوگوں کو پریشان نہیں کرے گی۔
''کھانے میں سری پائے اور ہریسے کو میاں صاحب کے ساتھ جوڑنا پروپیگنڈا ہے''
کھانے پینے کے حوالے سے سری پائے اور ہریسہ وغیرہ کو جو میاں صاحب کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، یہ پروپیگنڈا ہے، یہ درست ہے انہیں دیسی کھانے، دیسی مرغی اور دریا کی مچھلی پسند ہے، جو طلب کے مطابق کھاتے ہیں۔ دوسرا وہ وسیع الظرف آدمی ہیں ۔اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اپنے نائب قاصد سے بھی معذرت کر لیتے ہیں۔
ایک موقع پر میں ان کے ساتھ سندھ گیا تو انہوں نے مجھے ایک کام بھجوا دیا۔واپسی پر انہوں نے تاخیر سے پہنچنے پر تھوڑا غصہ کیا تو میں نے انہیں بتایاکہ میں تو آپ کے حکم پر گیا تھا اور کام مکمل کر کے ابھی پہنچا ہوں تو انہوں نے کہا کہ میں معافی چاہتا ہوں۔ میں بھول گیا تھا میرے پاس توان کی تحریری معافی موجود ہے۔ ایک مرتبہ کھلی کچہری کے دوران میں نے ان سے قبل کسی بات کا جواب دے دیا تو انہیں تھوڑا غصہ آ گیا، انہوں نے مجھے وہاں جھڑک دیا لیکن بعد میں جب ہم جہاز میںپہنچے تو انہیں احساس ہوا۔ انہوں نے پھر مجھ سے معافی مانگی اور یہ بہت بڑی بات ہے۔
وزیراعظم چاہتے ہیں کہ یہاں امن و امان قائم ہو اور پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن جائے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کوئی ایسا نسخہ آ جائے کہ وہ صبح اٹھیں تو پاکستان جنت بنا ہو ۔ اس جدوجہد میں وہ لگے ہوئے ہیں جس کا واضح ثبوت اکنامک زونز اور غیرملکی سرمایہ کاری ہے۔ پہلے ادوار میں اگر ان کے خلاف سازشیں نہ کی جاتیں تو آج پاکستان میں بیروزگاری ہوتی نہ توانائی کا کوئی بحران ہوتا۔ اب یہ جو ہم اکنامک کوریڈور بنا رہے ہیں، یہ کب کا بن گیا ہوتا۔اکنامک کوریڈور پر ہونے والی نقل و حمل سے ہمیں ڈیوٹی کی صورت میں 7 ارب ڈالر سالانہ حاصل ہوں گے، جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے جائیں گے۔
یہ صرف ڈیوٹیز سے حاصل ہوں گے، اس کے ساتھ جو ہماری اپنی برآمدات بڑھیں گی، وہ الگ ہیں۔ میں یہ کہوں گا وہ لوگ قومی مجرم ہیں، جنہوں نے 93ء، 99ء میں سازش کی، وہ نواز شریف کے نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے مجرم ہیں، انہوں نے اس ملک کے ساتھ غداری کی۔ اور اب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو لوگ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، وہ تو نواز شریف کے اقتصادی پروگرام کو اپنی سیاسی موت سمجھ رہے ہیں۔ نواز شریف کے اقتصادی پروگرام اگر کامیاب ہو جائیں تو یہ اس ملک کے لئے آب حیات ،لیکن کچھ لوگوں کو ملک کی ترقی عزیز نہیں کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ دھرنے نہ دیتے۔
''والدہ نے بل میں گھسا چھ فٹ لمبا سانپ ہاتھ سے کھینچ کر مار دیا ''
میری والدہ بہت بہادر اور سخت جان خاتون تھی۔ میں نے کم ہی اتنی بہادر خواتین دیکھی ہیں۔ ایک بار یوں ہوا کہ میری اور والد کی عدم موجودگی میں ایک سانپ گھر میں گھس آیا۔ چھ فٹ لمبا یہ سانپ گھر کے ایک بل میں گھس گیا لیکن اس کی دُم تھوڑی سی باہر رہ گئی۔
میری والدہ نے اپنی بیٹی کو کہا کہ مرچیں پیسنے والا ڈنڈا لے آؤ، پھرانہوں نے سانپ کو دُم سے پکڑا اور اسے آہستگی سے باہر کھینچنے لگیں اور جب انہیں احساس ہوا کہ اب سانپ کا سر قریب ہے تو انہوں نے زور سے ڈنڈا مار کر اس کو کچل دیا۔ وہ اتنی بہادر خاتون تھیں کہ جب گھر میں مرد نہیں ہوتے تھے تو وہ اپنے سرہانے مٹی کا تیل اور ماچس کی ڈبیا رکھتی تھیں کہ اگر کوئی خطرناک شخص آئے تو اس پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا دوں گی۔
کیا پسند ہے......؟
کھیل میں مجھے زیادہ ہاکی، فٹبال اور ُکشتیاں پسند ہیں۔ ہر وہ موسیقی سن لیتا ہوں، جو تیز نہ ہو، چاہے وہ پاکستانی ہو یا بھارت کی، پھر غزلیں اور لوک گیت تو مجھے بہت ہی بھاتے ہیں۔ زندگی میں صرف تین فلمیں دیکھی ہیں، لیکن پاکستانی ڈرامے زیادہ شوق سے دیکھتا ہوں اور ان میں میرا پسندیدہ ڈرامہ وارث ہے۔
یہاں میں ایک بات بتاؤں کہ پاکستان ادب، شاعری اور ڈراموں میں بھارت سے بہت آگے ہے۔ پسندیدہ کتب میں سب سے پہلے قرآن مجید، احادیث نبویؐ اور خلفاء راشدین کی حیات مبارکہ پر لکھی گئی کتب پسند ہیں۔ آئیڈل شخصیت حضرت محمدؐ کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ ہیں، پھر دنیا داروں میں امیر تیمور اور برصغیر میں شیر شاہ سوری سے متاثر ہوں۔