سرکاری مسیحا اور سرکاری اسپتال

کیایہ معمولی بات ہےکہ آپکی ماں کی جان پربنی ہو اورعلاج کرنیوالا ساتھ والے کو بتارہا ہو کہ اسے فلم پسند کیوں نہیں آئی۔

کچھ ایسے لوگ ’’ڈاکٹر‘‘ کے روپ میں موجود ہیں جن کو ڈاکٹر کہنا اس پیشے کی توہین کے مترادف ہے۔ فوٹو:فائل

پوری دنیا میں جان بچانے کے شعبے کو قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس پیشے سے منسلک افراد کو خاص مرتبہ اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ ایسا کام کرتے ہیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور اپنی مہارت سے تڑپتے ہوئے مریض کو سکون اور آرام پہنچانے کے لئے اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔


جہاں ایک طرف اس شعبے کو یہ مقام حاصل ہے وہاں ہر دوسرے محکمے کی طرح یہاں بھی کچھ ایسے لوگ ''ڈاکٹر'' کے روپ میں موجود ہیں جن کو ڈاکٹر کہنا اس پیشے کی صرف توہین کے مترادف نہیں بلکہ مریضوں کو ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے جو ان کے درد سے لاتعلق ہوتے ہیں اور ان کے لئے یہ بھی کسی دوسری نوکری کی طرح محض ایک نوکری ہے۔ یوں تو اخبارات کے صفحات سرکاری اسپتالوں کے مسیحاؤں کے کارناموں سے بھرے ہوتے ہیں مگر حقیقت میں ایسے ہی چند نام نہاد مسیحاؤں سے واسطہ 24 دسمبر کی صبح پڑا۔ صبح 6 بجے میری والدہ کے گردے میں اچانک سے درد ہوا جو اتنا شدید تھا کہ ان کے لئے ایک لمحہ بھی برداشت کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ ان کو جلدی میں گھر کے ساتھ ہی واقع سروسز اسپتال کی ایمرجنسی لے گئے جہاں کاؤنٹر سے ایمرجنسی کی پرچی بنوانے کے بعد ہمیں انتظار کا کہا گیا۔


یہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی صبح تھی اور شاید اسی وجہ سے سرجیکل ایمرجنسی میں رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس وقت ڈیوٹی پر 4 ینگ لیڈی ڈاکٹرز موجود تھیں جن میں سے ایک کو فائل دی اور بتایا کہ والدہ کو سامنے والے بیڈ پر لٹایا ہے۔ لیڈی ڈاکٹر نے آکر چیک کیا اور کہا کہ انتظار کریں میں آپ کو دوائیاں بتاتی ہوں جو لانی ہیں۔ اس دوران درد کسی بھی طرح کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بیڈ، ڈیوٹی ڈاکٹرز کے کاؤنٹر سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ میں والدہ کے پاس کھڑا انتظار کر رہا تھا کہ کب ڈاکٹر آ کے کہے کہ آپ یہ دوائی لے آئیں۔


مجھے وہاں کھڑے کوئی 10 منٹ ہوگئے مگر ڈاکٹر کے کان پر جوں کیا رینگنی کانوں میں درد سے چلانے کی آواز تک نہ سنائی دی۔ چاروں ڈاکٹرز آرام سے محوِ گفتگو تھیں کہ جیسے ان کے لئے یہ کوئی معمولی سا سر درد کا مریض تھا۔ جسے نارمل روٹین میں ٹریٹ کرنا ہی بہتر تھا۔ جب مجھ میں مزید برداشت کی قوت نہ رہی تو میں ٹیبل کی طرف گیا اور ڈاکٹر سے پوچھا کہ اور کتنے گھنٹے لگیں گے آپ کو دوائی لکھنے میں؟ میرا اتنا کہنا تھا کہ ڈاکٹر آگ بگولا ہوگئیں کہ ایک مریض کے ساتھ آئے شخص کی اتنی ہمت کیسے کہ وہ ڈاکٹر سے آ کے پوچھے اور کہے کہ باتیں بعد میں کرلیں۔

ڈاکٹر آپ کو اور کتنے گھنٹے لگیں گے دوا لکھنے میں؟ میری ماں کی حالت آپ خود دیکھ کے آئی ہیں۔ تو میں یہاں کیا کر رہی ہوں؟ آپ کا پین نیچے پڑا ہے اور آپ ان کو بتا رہی ہیں کہ کل میں نے ''دل والے'' فلم دیکھی۔ کیا یہ وقت مریض کو دیکھنے کا ہے یا باتیں کرنے کا؟

دوسری ڈاکٹر یکدم کہنے لگیں تو آپ کسی اور اسپتال سے جا کر علاج کروالیں۔ کسی اور سے کیوں؟ یہ سرکاری اسپتال نہیں ہے؟ کیا یہ آپ کا پرائیویٹ کلینک ہے جہاں آپ جیسے اور جس کا چاہیں علاج کریں گے؟

پہلی ڈاکٹر نے فائل میری طرف پھینکتے ہوئے کہا، یہ دوائی لو اور دفع ہوجاؤ یہاں سے! یہ تمیز ہے آپ کی مریضوں سے بات کرنے کی؟ آپ کا انچارج کون ہے یہاں؟ مجھے اس سے بات کرنی ہے۔ میں اب آپ سے بات نہیں کرنے والا۔ اتنی دیر میں وہاں موجود نرسز اور سیکورٹی گارڈز بھی آ گئے اور الٹا مجھے تحَمل سے کام لینے کا مشورہ دیا کہ سرکاری اسپتال میں ایسی باتیں معمولی ہوتی ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ آپ کی ماں کی جان پر بنی ہو اور علاج کرنے والا لاپرواہی سے ساتھ والے کو بتا رہا ہو کہ اسے فلم پسند کیوں نہیں آئی تو مریض کے لواحقین کا کیا حال ہوگا؟ اور اگر اس پر احتجاج کیا جائے تو جواب ملے کہ دفع ہو جاؤ نہیں کرنا علاج۔


ایسی حالت میں جب عام انسان بھی درد سے تڑپتے شخص کی مدد کے لئے تیار ہوجائے باوجود اس کے کہ اسے کچھ پتا بھی نہ ہو تب ایک ڈاکٹر اس طرح کی غفلت دکھائے اور پوچھنے پر دفع ہوجانے اور کسی اور اسپتال سے علاج کرانے کا مشورہ دے تو انسان کیا کر سکتا ہے؟

مجھے یقین ہے کہ میں پہلا یا آخری شخص نہیں جس کے ساتھ سرکاری اسپتال میں اس طرح کا سلوک ہوا۔ یہ ہر دوسرے شخص کی کہانی ہے اور ہر مریض کو تقریباً اسی طرح سے تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہمیشہ ہوتا رہے گا؟ کیا سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والوں کو تنخواہ اور مراعات نہیں ملتیں؟ اگر ملتیں ہیں تو پھر مریضوں کو وہ سلوک اور حقوق کیوں نہیں ملتے جن کا تذکرہ اور چرچا کرتے اور دوسرے ممالک کی مثال دیتے نہیں تھکتے مگر جب یہاں پہ وہ نظام اپنے اوپر لاگو کرنے کا وقت آتا ہے تو یکسر مختلف صورتِ حال نظر آتی ہے۔

ادارے اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ریاست ان کے ذریعے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکے۔ اور ان میں ایسے ''قابل'' افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ جو معیار پر پورا اتریں اور اس معیار کو چیک کرنے کے لئے ان کے اوپر نگران مقرّر کئے جاتے ہیں۔ مگر وہ نگران کیا کریں گے جب انکو معلوم ہو کے ہمارے ''خادم'' کی ساری توانائی اور صوبے کا سرمایہ خدمت کے ''میگا پروجیکٹ'' پر لگ رہا ہے. ایسی صورتِ حال میں صحت، تعلیم، اور حفاظت کو شعبوں کا نظر انداز ہوجانا اور ان میں موجود قلیل سہولتوں کا بھی عوام تک نہ پہنچنا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔

ایک ڈاکٹر کو یہ فکر تو ہے کہ وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے کسی کی جان گئی اور اگر سیاستدان ٹھیک ہوجائیں تو کتنی زندگیاں بچ سکتی ہیں، مگر یہ پتا نہیں ہے کہ اگر وہ ٹھیک ہوجائیں تو ساتھ والے بستر پہ پڑے مریض بچ سکتے ہیں۔ ہم سیاستدانوں کو ٹھیک کرنے کے چکر میں خود کو ٹھیک کرنا بھول گئے ہیں۔

[poll id="847"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story