معروف شاعرمنیرنیازی کومداحوں سے بچھڑے 9 برس بیت گئے

منیرنیازی کا بلند پایہ کلام کبھی کسی نظرئیے کے زیر اثر نہیں رہا

منیر نیازی بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے:فوٹو:فائل

اردو اورپنجابی ادب کونیا اسلوب عطا کرنے والے بے باک شاعر منیر نیازی کے انتقال کو 9 برس بیت گئے لیکن آج بھی منیر نیازی اپنے مداحوں میں زندہ ہیں۔

منیرنیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیارپورکے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہوگئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑکربرصغیر کی آزادی کے بعد لاہورآگئے۔ منیر نیازی بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے، انکا بلند پایہ کلام کبھی کسی نظرئیے کے زیر اثر نہیں رہا، اس کے علاوہ منیر نیازی نے اپنی غزلوں سے سلور سکرین پر بھی ہجر و وصال کے جذبات کی ترجمانی باکمال انداز میں کی۔


منیر نیازی نے جنگل، ہوا، شام اور دھند جیسی علامات سے انسانی جذبات کی ترجمانی کی، تخلیق کا منفرد اسلوب اور انداز بیان کی بے نیازی اردو ادب میں صرف منیرنیازی کا خاصہ ہے، منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ منیر نیازی نے انسان کے خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لئے نفاست سے اپنے کلام کی زینت بنایا کہ ان کی شاعری منفرد اور پر اثر بنتی چلی گئی۔منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔

ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔


Load Next Story