امریکا کے حراستی مراکز میں کیا ہوتا رہا
قیدیوں سے غیرانسانی سلوک کی کہانی سناتی رپورٹ
KARACHI:
دنیا بھر میں اپنے غلبے کے لیے بے سروپا الزمات گھڑ کے کارروائیاں کرنے والی امریکی حکومت کے کارندے کس طرح اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں بے نقاب ہوتے ہیں۔ اس کا ثبوت نو دسمبر دو ہزار چودہ کو شائع ہونے والے اس رپورٹ سے ہوتا ہے جسے امریکی حکام نے ''انتہائی خفیہ'' کے عنوان سے محفوظ کررکھا تھا۔
امریکا کی جانب سے دو ہزار ایک میں ''دہشت گردی کے خلاف'' جنگ کے دوران پکڑے جانے والے قیدیوں کے لیے علیحدہ قوانین تشکیل دیے گئے تھے۔ ان قوانین کا سب سے زیادہ غلط استعمال امریکا کے جاسوسی کے محکمے ''سی آئی اے'' کے ہاتھوں ہوا۔
سی آئی اے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران قیدیوں کو پکڑنے اور انہیں عقوبت خانوں میں رکھنے کے پروگرام کا نگراں ادارہ ہے، اس کے اعلیٰ حکام نے نہ صرف ان قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں بل کہ بے گناہوں کو پکڑ کر شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
ظلم و ستم اور ان بہیمانہ کارروایوں کے بارے میں جیسے جیسے خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں تو امریکا ہی کی سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی نے محترمہ ''ڈاین فینسٹان'' کی سربراہی میں رپورٹ مرتب کرنے کی ٹھانی، جس نے سی آئی اے کے چہرے پر پڑا پردہ اٹھا دیا۔
اس حوالے سے ڈاین فینسٹان کا کہنا ہے کہ انہیں جب یہ اطلاع ملی کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ''جوز روڈری گیوز'' نے عقوبت خانوں میں قیدیوں کی ایسی فلمیں یا ویڈیوز بنائی تھیں جن کی فلم بندی کے دوران نہ صرف قیدیوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا بل کہ انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں بھی ریکارڈ کی گئی تھیں، تو انہوں نے سی آئی اے کی ان مکروہ سرگرمیوں پر ضرب لگانے کی ٹھانی، لیکن جیسے ہی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جوزروڈری گیوز کو علم ہوا کہ ان کی ریکارڈ کی ہوئی ویڈیوز لیک ہونے کا خدشہ ہے انہوں نے ان ویڈیوز کو تلف کردیا، جن کی تعداد سو کے قریب تھی۔
پانچ مارچ دو ہزار نو کو سینیٹ کی ا نٹیلی جینس کمیٹی نے ایک کے مقابلے میں چودہ ووٹوں سے اس بات کی اجازت دی کہ سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں پر تشدد کے حوالے سے کی جانے والی نامناسب حرکتوں کی تحقیق کی جائے سن دو ہزار ایک سے دو ہزار چھے کے عرصے پر محیط یہ تحقیقاتی رپورٹ تقریباً چھے ہزار صفحات پر مشتمل ہے، جو ''یونائیٹڈ اسٹیٹ سینیٹ سلیکٹ کمیٹی آف انٹیلی جنس'' جسے ''ایس ایس سی آئی'' بھی کہا جاتا ہے کی انتہائی سخت محنت اور شبانہ روز کوششوں کی آئینہ دار ہے۔
واضح رہے کہ چھے ہزار صفحات پر مشتمل اس تحقیقاتی رپورٹ کے ابھی تک ان پانچ سو پچیس صفحات پر مشتمل خلاصے کو عوام کے سامنے لایا گیا ہے، جس میں سی آئی اے کے اہل کاروں کی جانب سے ہونے والی قانون شکنی سے متعلق بیشتر حقائق موجود ہیں۔ یاد رہے کہ پانچ سال کے عرصے پر مشتمل اس انکوائری رپورٹ پر مجموعی طور پر چالیس ملین ڈالر کے اخراجات آئے تھے۔
تلخ حقائق کو منظر عام پر لانے والی اس رپورٹ سے علم ہوتا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں سے تفتیش کر نے کے لیے انہیں عقوبت خانوں میں ڈالنے والا یہ پروگرام نہ صرف امریکا کے لیے بین الااقوامی سطح پر بدنامی کا باعث بنا بل کہ امریکا کے جاسوسی کے نظام پر بھی کئی سوالیہ نشان چھوڑ گیا، جو آج بھی حل طلب ہیں۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ نو مارچ دو ہزار نو کو یہ فیصلہ ہوا کہ سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ غیرقانونی سزاؤں اور بہیمانہ تشدد پر انکوائری کی جائے گی اور اگست کے مہینے میں اٹارنی جنرل ایرک ہولڈ نے بھی ایسی ہی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا، تاہم سابق بش انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے بیشتر سینیٹرز نے اس تحقیق سے خود کو علیحدہ کرلیا۔
واضح رہے کہ سی آئی اے کی جانب سے بہیمانہ ظلم و ستم کی کارروائیاں جارج ڈبلیو بش کے دور حکومت میں شروع کی گئی تھیں اور جیسے ہی جارج بش کا دور حکومت بیس جنوری دو ہزار نو کو ختم ہوا، ان کی جماعت ری پبلیکن سے تعلق رکھنے والے سیا ست دانوں نے انکوائری کمیٹی سے خود کو لاتعلق کرلیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سی آئی اے کے حکام کو قیدیوں پر ظلم وستم کرنے کی کھلی چُھٹی دینے کی ذمے دار بش انتظامیہ ہی تھی۔
امریکی کے محکمۂ جاسوسی کی جانب سے منظرعام پر لائے جانے والی اس رپورٹ کی تیاری میں ''ایس ایس سی آئی'' کے اراکین نے ساٹھ لاکھ سے زاید صفحات کو کھنگالا جب کہ سی آئی اے کے استعمال میں آنے والی ای میلز، ٹیلیفون کالز، کیبل کال وغیرہ پر بھی تحقیقات کا جال بچھایا گیا تھا۔
اس کے علاوہ نو ہزار چارسو ایسی دستاویزات بھی تھیں جن پر ''ایس ایس سی آئی'' کی جانب سے امریکی حکومت کو متعدد بار کہا گیا کہ ان دستاویزات تک انکوائری کمیٹی کو رسائی دی جائے، مگر وائٹ ہاؤس نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کمیٹی کو ان دستاویزات تک رسائی نہیں دی، جسے بین الااقوامی سیاسی حلقوں میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ رپورٹ کی اشاعت کے لیے سب سے پہلے دسمبر دوہزار بارہ میں امریکی سینیٹ میں ووٹنگ ہوئی جس میں رپورٹ کی اشاعت کے حق میں فیصلہ آیا۔
تاہم تحقیقاتی کمیٹی نے اس دوران مزید انکشافات جمع کیے تو انہوں نے اس رپورٹ پر نظرثانی کی اور پھر اسے شائع کرنے کی درخواست کی، جس کے نتیجے میں اپریل دو ہزار چودہ کو دوبارہ سینیٹ میں ووٹنگ ہوئی اور دوبارہ اشاعت کے حق میں فیصلہ آیا۔ چوں کہ رپورٹ میں سی آئی اے کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پکڑے گئے بے گناہ قیدیوں پر تشدد اور ظلم و ستم کے ایسے واقعات موجود تھے۔
جن کی اشاعت سے سی آئی اے کا محکمہ امریکی جمہوریت پر سیاہ دھبے کی مانند نظر آتا، اس صورت حال سے بچنے کے لیے لگ بھگ آٹھ مہینے تک اعلیٰ سطح پر بحث و مباحثہ جاری رہا، جس کے بعد رپورٹ کی قطع وبرید کی گئی اور پھر خلاصے کی شکل میں اشاعت کی اجازت دی گئی، جب کہ باقی رہ جانے والی انکوائری رپورٹ اس وقت بھی صیغہ راز میں ہے۔
رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سی آئی اے کے حکام کی جانب سے حراستی مراکز میں قیدیوں پر تشدد سے جہاں امریکی تشخص کو عالمی سطح پر بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہیں یہ سوال بھی سر اٹھانے لگا کہ کیا سی آئی کا محکمہ اتنا طاقت ور ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ کو علم میں لائے بغیر اپنے فیصلے خود صادر کرسکتا ہے؟
اس حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ سینیٹر ڈاین فینسٹان کا کہنا ہے کہ جب سی آئی اے حکام نے یہ الزام لگایا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے سی آئی اے کے دفاتر سے اہم دستاویزات ان کی اجازت کے بغیر لے کر انہیں اپنے پاس محفوظ کرلیا ہے تو مجھے اپنے اس عمل کی وضاحت میں کہنا پڑا کہ جب سی آئی اے خود کو آئین اور قانون سے بالا تر سمجھتے ہوئے اپنی مرضی سے حکام کو علم میں لائے بغیر ان ویڈیو ٹیپ کو تلف کرسکتی ہے ۔
جن میں ظلم و تشدد کے ثبوت موجود تھے تو پھر انکوائری کمیٹی اہم دستاویزات کو اپنے قبضے میں رکھنے میں خو د کو حق بہ جانب سمجھتی ہے دوسری جانب انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سی آئی اے کے بہت سے افسران نے تحقیقاتی کمیٹی کے کمپیوٹر تک غیرقانونی طریقے سے رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
تاکہ کسی بھی طرح تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں رخنے ڈالے جاسکیں بل کہ سی آئی اے کے ایک عہدے دار رابرٹ ایٹنگر نے تو ایف بی آئی سے درخواست کی کہ انکوائری کمیٹی کے اسٹاف پر غلط رویے سے پیش آنے پر کیس کردیا جائے اور وہ ایسا اس لیے چاہتے تھے کہ انکوائری کمیٹی خوف میں مبتلا ہوکر اپنے کام سے توجہ ہٹالے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کام یاب نہ ہوسکے۔ واضح رہے کہ رابرٹ ایٹنگر سی آئی اے کے ڈائریکٹر جوزروڈری گیوز سمیت ان دو افراد میں شامل تھا جنہوں نے قیدیوں پر ظلم وستم پر مبنی ویڈیوز کو تلف کیا تھا۔
رابرٹ ایٹنگر ظلم وستم کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس نے حراستی مرکز میں قیدیوں پر وہ مظالم ڈھائے ہیں جن کو سن کر شیطان بھی شرمندہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹر ڈاین فینسٹان کی مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں رابرٹ ایٹنگر کا نام سولہ سو مرتبہ سے زاید آیا ہے۔
دل چسپ بات یہ کہ سی آئی اے کی جانب سے مستقل اس بات کی نفی کی جاتی رہی کہ اس کے کارندوں نے تحقیقاتی کمیٹی '' ایس ایس سی آئی'' کے کمپیوٹر ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اکتیس جولائی دو ہزار چودہ کو سی آئی اے کے ترجمان نے ڈائریکٹر جان او برینان کے توسط سے اقرار کیا کہ ان کے محکمے نے تحقیقاتی کمیٹی ''ایس ایس سی آئی'' کے کمپیوٹر ڈیٹا سے فائلیں پڑھنے کی کوشش کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ، پورٹر گوز اور مائیکل ہیڈن نے مجرموں کی تعداد اور پروگرام کی افادیت کے حوالے سے امریکی کانگریس، قومی سلامتی کے ڈائریکٹر اور وائٹ ہاؤس سے بیشتر مواقع پر غلط بیانی سے کام لیا، بل کہ اس حوالے سے میڈیا میں بھی ایسی جھوٹی خبریں نشر کروائیں، جس سے بظاہر پروگرام کی افادیت نظر آنے لگی۔
واضح رہے کہ سی آئی اے نے تشدد کے نت نئے طریقے آزمانے کے لیے ''میچل جینسن اینڈ ایسوسی ایٹ'' کمپنی سے معاہدہ کیا تھا، جسے ان ظالمانہ خدمات کے عوض اکیاسی ملین ڈالر کی ادائیگی کی گئی تھی، جب کہ بجٹ میں یہ اخراجات ایک سو اسی ملین ڈالر ظاہر کیے گئے۔
نودسمبر دو ہزار چودہ کو شائع ہونے والی اس تحقیقاتی رپورٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدر باراک اوباما نے اس خفیہ رکھی جانے والی رپورٹ کے اجراء کے وقت اسے امریکا کے مستقبل کے حوالے سے اہم قرار دیتے ہوئے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے پر زور دیا۔
اس کے علاوہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے رپورٹ پر اظہارخیال کرتے ہوئے اس انتہائی صدمے والی رپورٹ قرار دیا اور ان سزاؤں کو بھی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ لیتھونیا کے وزیراعظم الگیرداس یوتوکیوس نے تبصرہ کیا کہ اس رپورٹ سے ایسا لگتا ہے، جیسے سی آئی اے نے قیدیوں سے تفتیش کے لیے امریکا کو استعمال کیا ہے۔
پولینڈ کے سابق صدر الیگزنڈر کاویسنکی کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ دو ہزار تین میں امریکا کے حکام نے انہیں پولینڈ میں سی آئی اے کے زیرنگرانی چلنے والے ایسے خفیہ عقوبت خانے ختم کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد انہوں نے یہ عقوبت خانے ختم کردیے تھے۔
ایران کے وزارت داخلہ کے محکمے کی ترجمان مرضیہ افخام نے رپورٹ کے مطالعے کے بعد اسے ایک ایسی رپورٹ قرار دیا تھا، جس سے علم ہوتا ہے کہ امریکا کے حفاظتی نظام میں ظلم وجبر، تشدد اور انتہاپسندی جیسے غیرانسانی افعال ایک مُنظّم ادارے کی شکل میں روبہ عمل ہیں، جب کہ شمالی کوریا کے حکام نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ قرون وسطی کے عہد کے انداز میں کی جانے والی اس تفتیش کے بارے میں مزید حقائق کو نہ صرف سامنے لایا جائے بل کہ دنیا بھر میں سی آئی اے کے زیرنگرانی چلنے والے ایسے خفیہ عقوبت خانوں پر سے بھی پردہ اٹھایا جائے جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکے ہیں۔
٭وہ 20 حقائق جو رپورٹ میں سامنے لائے گئے
نو دسمبر دو ہزار چودہ کو امریکا کے محکمۂ دفاع کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ حقائق کچھ اس طرح ہیں:
سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں پر ''تفتیش کے انتہائی پُرتشدد'' طریقے استعمال کیے گئے جو کسی بھی صورت نہ تو قیدیوں سے معلومات حاصل کرنے میں اور نہ ہی ان سے تعاون میں معاون ثابت ہوسکے۔
سی آئی اے نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے تفتیش کے انتہائی پُرتشدد طریقوں کو پُراثر اور بہتر قرار دیا۔
قیدیوں سے تفتیش کے بیشتر طریقے سی آئی اے کے بنائے گئے مروجہ قوانین اور پالیسیوں سے مکمل تضاد رکھتے تھے۔
حراستی مراکز کا ماحول سی آئی اے کے قوانین اور پالیسیوں کے برعکس خوف اور دہشت کا عکاس تھا۔
رپورٹ کے مطابق جب کبھی امریکا کے محکمۂ انصاف نے حراستی مراکز اور تفتیشی طریقۂ کار کے بارے میں سوال وجواب کیے تو سی آئی اے کی جانب سے امریکا کے محکمۂ انصاف کو ہمیشہ غلط معلومات فراہم کی گئیں۔
سی آئی اے نے کانگریس کی جانب سے پوچھ گچھ کو ہمیشہ نظرانداز کیا یا تاخیری حربے استعمال کیے۔
اسی طرح سی آئی اے نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے نگرانی اور تفتیش کے حوالے سے قوانین کو قابل عمل بنانے میں تاخیری حربے استعمال کیے۔
حراستی مراکز اور قیدیوں سے تفتیش کے بارے میں سی آئی اے نے بعض مواقع پر امریکا کے قومی سلامتی کے اداروں اور دیگر اہم خفیہ ایجنسیوں کو بھی اپنی سرگرمیوں سے لاعلم رکھا۔
محکمۂ دفاع کے زیرانتظام چلنے والا اہم ادارہ ''آفس آف انسپکٹر جنرل'' کو بھی اپنی سرگرمیوں سے لاعلم رکھا۔
تحقیقاتی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے حراستی مراکز اور ان میں ہونے والے تفتیشی سرگرمیوں کے بارے میں میڈیا کو ہمیشہ غلط معلومات فراہم کی گئیں۔
ابتدائی چھے ماہ تک سی آئی اے کے حکام کو حراستی مراکز اور قیدیوں سے تفتیش کے پروگرام کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تیاری نہیں کرائی گئی تھی۔
سن دو ہزار دو سے دو ہزار تین تک کے عرصے میں سی آئی اے کے حکام اور اس کا آپریشن ونگ تفتیشی پروگرام کی تفصیلات سے مکمل لاعلم تھا، جس کے باعث اس عرصے میں تفتیشی پروگرام میں سب سے زیادہ بدعنوانیاں دیکھنے میں آئیں۔
سی آئی اے کے حکام نے قیدیوں پر نفسیاتی تشدد کے حربے استعمال کرنے کے لیے دو ماہرنفسیات کی خدمات بھی حاصل کیں بالخصوص سن دو ہزار پانچ میں محکمے کے باہر سے ایسی خدمات کثرت سے حاصل کی گئیں۔
سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں پر تفتیش کے دوران تشدد کے ایسے طریقے بکثرت استعمال کیے گئے جن کی اجازت نہ تو محکمۂ انصاف سے لی گئی اور نہ ہی سی آئی اے ہیڈکوارٹر سے منظوری حاصل کی گئی۔
حراستی مراکز میں موجود قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے سی آئی اے نے ہمیشہ غلط بیانی سے کام لیا، جب کہ حراست میں رکھے گئے قیدیوں کو کبھی بھی جیل قوانین کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔
سی آئی اے کا محکمہ حراستی مراکز اور تفتیشی پروگرام میں استعمال ہونے والی تیکنیکوں کی افادیت کے حوالے سے عوام کو مطمئن کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا۔
سی آئی اے کی جانب سے حراستی مراکز میں تفتیش کے دوران کبھی بھی کسی سی آئی اے کے کارندے کو کسی بھی غلط فعل کا مورد الزام نہیں ٹھیرایا گیا چاہے یہ فعل بے جا ظلم یا غیرقانونی عمل ہی کیوں نہ ہو حتٰی کہ کسی انتظامی مسئلے میں بھی سی آئی اے کا کارندہ قصور وار نظر نہیں آیا۔
عوام الناس اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے حراستی مراکز میں ہونے والی تفتیشی سرگرمیوں کے پروگرام پر تنقید کی جاتی رہی، لیکن سی آئی اے نے انہیں ہمیشہ نظر انداز کیا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حراستی مراکز اور تفتیشی پروگرام اپنی روح میں ظلم پر مبنی ایک غیرانسانی پروگرام تھا، جو بالآخر دو ہزار چھے میں اپنی موت آپ مرگیا ذرائع ابلاغ میں آنے والی ظلم پر مبنی رپورٹوں اور دیگر اقوام کی جانب سے ان حراستی مراکز اور تفتیشی پروگرام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے قانون سے متصادم ایک ظالمانہ اور انتہائی شرم ناک پروگرام قرار دیا جاتا رہا۔
سی آئی اے کی جانب سے حراستی مراکز میں کی جانے والی غیرانسانی تفتیشی سرگرمیوں نے امریکا کا امیج تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جسے کسی بھی قیمت پر بحال کرنا اب ناممکن ہے۔
رپورٹ میں منظر عام پر لائے جانے والے مظالم
امریکا کی سینیٹ کی ''یونائیٹڈ اسٹیٹ سینیٹ سلیکٹ کمیٹی آف انٹیلی جنس'' جسے ''ایس ایس سی آئی '' بھی کہا جاتا ہے کی جانب سے مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حراستی مراکز میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاتی تھیں، جن میں تشدد کے خلاف بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کو شرم ناک اور پوشیدہ جگہوں سے کھانا کھلانے کی کوشش کی جاتی تھی۔
اس کے علاوہ جنسی تشدد کیا جاتا تھا۔ قیدیوں کے اہل خانہ اور بچوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ نومبر دو ہزار دو میں ایک قیدی کو برف کی سل پر لٹا یا گیا جس کے باعث سردی سے وہ جان کی بازی ہار گیا، مگر کسی سے باز پرس نہیں ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق چار ایسے قیدیوں کے بارے میں دستاویزی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن میں سے دو کے پاؤں توڑ دیے گئے۔
ایک کا ٹخنا توڑا گیا جب کہ ایک قیدی کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور اس کے باوجود انہیں حکم دیا گیا کہ وہ کھڑے رہیں دستاویزات کے مطابق تشدد کے باعث بہت سے قیدی سی آئی اے کے کارندوں سے خود کو جان سے مارنے کی التجا بھی کرتے تھے۔ قیدیوں کو نفسیاتی طور پر ہراساں کرنے کے لیے انہیں ایک پستول دیا جاتا، جس کے چیمبر میں ایک گولی ہوتی اور پھر قیدی سے کہا جاتا کہ وہ اسے اپنے سر پر رکھ کر چلائے، اگر زندگی ہوئی تو وہ بچ جائے گا، ورنہ موت اس کا مقدر ہوگی۔
اسی طرح بہت سے قیدیوں کو تختے پر لٹاکر پانی بہاتے ہوئے ڈوبنے کی کیفیت میں مبتلا کرکے تشدد کیا گیا۔ بہت سے قیدیوں کو ایک ایک ہفتے تک نیند سے محروم رکھا گیا۔ ٹوائلٹ میں موجود غلاظت کی صفائی ہاتھوں سے کرائی گئی۔ کئی قیدیوں کو لکڑی کے ایک ایسے ڈبے میں لٹادیا جاتا تھا، جس میں وہ خود کو مردہ سمجھنے لگتے تھے۔ اسی طرح دو سے تین دن تک ہاتھ سر کے اوپر رکھنے کی سزا دی جاتی ایک قیدی کو چھیاسٹھ گھنٹے تک ٹھنڈے پانی میں کھڑا رکھا گیا۔ بعد میں اسے یہ کہہ کر سی آئی اے نے رہا کردیا گیا کہ وہ غلطی سے پکڑا گیا تھا۔
اس کے علاوہ عام طور پر قیدیوں کو ، بجلی کے جھٹکے دینا، سر کو کپڑے سے ڈھانپ کر رکھا جانا، سر کو پانی میں غوطے دینا، گلے میں پٹا ڈال کر گھسیٹنا، گرم ریت پر برہنہ لٹانا اور بہت سے ایسے مظالم جنہیں ضبط تحریر میں لانا مشکل ہے۔ حراستی مراکز برائے تفتیشی پروگرام میں امریکی اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سی آئی اے کا محکمہ انجام دیتا رہا۔
معصوم اور نہتے افراد
اخلاقی اقدار اور امن پسندی کے اصولوں کے منافی عمل میں لایا جانے والا ''حراستی مراکز اور تفتیشی پروگرام'' امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر کے دستخط سے جاری ہوا تھا۔ اس حکم نامے میں لکھا تھا کہ ہر وہ شخص جو امریکی شہری کو دھمکی دے یا دہشت گردی کی سرگرمی میں ملوث ہو اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سی آئی اے نے جارج بش کی ہدایات کی روشنی میں ہر اس شخص کو گرفتار کرنا شروع کردیا جس پر انہیں اس حوالے سے ذرہ برابر بھی شک ہوتا۔
گذشتہ برس آشکار ہونے والی پورٹ کے مطابق تمام حراستی مراکز میں زیرحراست قیدیوں میں سے بائیس فی صد قیدی بے گناہ ثابت ہوئے، لیکن جب تک وہ بے گناہ ثابت ہوئے اس وقت تک ان پر وہ مظالم ڈھائے گئے جن کو سُن کر شیطان بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگالے اور ذہنی و جسمانی طور پر شکست وریخت کا شکار ہونے والے یہ افراد آج بھی خود کو زندگی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے تگ ودو میں مصروف ہیں۔
دنیا بھر میں اپنے غلبے کے لیے بے سروپا الزمات گھڑ کے کارروائیاں کرنے والی امریکی حکومت کے کارندے کس طرح اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں بے نقاب ہوتے ہیں۔ اس کا ثبوت نو دسمبر دو ہزار چودہ کو شائع ہونے والے اس رپورٹ سے ہوتا ہے جسے امریکی حکام نے ''انتہائی خفیہ'' کے عنوان سے محفوظ کررکھا تھا۔
امریکا کی جانب سے دو ہزار ایک میں ''دہشت گردی کے خلاف'' جنگ کے دوران پکڑے جانے والے قیدیوں کے لیے علیحدہ قوانین تشکیل دیے گئے تھے۔ ان قوانین کا سب سے زیادہ غلط استعمال امریکا کے جاسوسی کے محکمے ''سی آئی اے'' کے ہاتھوں ہوا۔
سی آئی اے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران قیدیوں کو پکڑنے اور انہیں عقوبت خانوں میں رکھنے کے پروگرام کا نگراں ادارہ ہے، اس کے اعلیٰ حکام نے نہ صرف ان قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں بل کہ بے گناہوں کو پکڑ کر شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
ظلم و ستم اور ان بہیمانہ کارروایوں کے بارے میں جیسے جیسے خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں تو امریکا ہی کی سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی نے محترمہ ''ڈاین فینسٹان'' کی سربراہی میں رپورٹ مرتب کرنے کی ٹھانی، جس نے سی آئی اے کے چہرے پر پڑا پردہ اٹھا دیا۔
اس حوالے سے ڈاین فینسٹان کا کہنا ہے کہ انہیں جب یہ اطلاع ملی کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ''جوز روڈری گیوز'' نے عقوبت خانوں میں قیدیوں کی ایسی فلمیں یا ویڈیوز بنائی تھیں جن کی فلم بندی کے دوران نہ صرف قیدیوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا بل کہ انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں بھی ریکارڈ کی گئی تھیں، تو انہوں نے سی آئی اے کی ان مکروہ سرگرمیوں پر ضرب لگانے کی ٹھانی، لیکن جیسے ہی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جوزروڈری گیوز کو علم ہوا کہ ان کی ریکارڈ کی ہوئی ویڈیوز لیک ہونے کا خدشہ ہے انہوں نے ان ویڈیوز کو تلف کردیا، جن کی تعداد سو کے قریب تھی۔
پانچ مارچ دو ہزار نو کو سینیٹ کی ا نٹیلی جینس کمیٹی نے ایک کے مقابلے میں چودہ ووٹوں سے اس بات کی اجازت دی کہ سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں پر تشدد کے حوالے سے کی جانے والی نامناسب حرکتوں کی تحقیق کی جائے سن دو ہزار ایک سے دو ہزار چھے کے عرصے پر محیط یہ تحقیقاتی رپورٹ تقریباً چھے ہزار صفحات پر مشتمل ہے، جو ''یونائیٹڈ اسٹیٹ سینیٹ سلیکٹ کمیٹی آف انٹیلی جنس'' جسے ''ایس ایس سی آئی'' بھی کہا جاتا ہے کی انتہائی سخت محنت اور شبانہ روز کوششوں کی آئینہ دار ہے۔
واضح رہے کہ چھے ہزار صفحات پر مشتمل اس تحقیقاتی رپورٹ کے ابھی تک ان پانچ سو پچیس صفحات پر مشتمل خلاصے کو عوام کے سامنے لایا گیا ہے، جس میں سی آئی اے کے اہل کاروں کی جانب سے ہونے والی قانون شکنی سے متعلق بیشتر حقائق موجود ہیں۔ یاد رہے کہ پانچ سال کے عرصے پر مشتمل اس انکوائری رپورٹ پر مجموعی طور پر چالیس ملین ڈالر کے اخراجات آئے تھے۔
تلخ حقائق کو منظر عام پر لانے والی اس رپورٹ سے علم ہوتا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں سے تفتیش کر نے کے لیے انہیں عقوبت خانوں میں ڈالنے والا یہ پروگرام نہ صرف امریکا کے لیے بین الااقوامی سطح پر بدنامی کا باعث بنا بل کہ امریکا کے جاسوسی کے نظام پر بھی کئی سوالیہ نشان چھوڑ گیا، جو آج بھی حل طلب ہیں۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ نو مارچ دو ہزار نو کو یہ فیصلہ ہوا کہ سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ غیرقانونی سزاؤں اور بہیمانہ تشدد پر انکوائری کی جائے گی اور اگست کے مہینے میں اٹارنی جنرل ایرک ہولڈ نے بھی ایسی ہی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا، تاہم سابق بش انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے بیشتر سینیٹرز نے اس تحقیق سے خود کو علیحدہ کرلیا۔
واضح رہے کہ سی آئی اے کی جانب سے بہیمانہ ظلم و ستم کی کارروائیاں جارج ڈبلیو بش کے دور حکومت میں شروع کی گئی تھیں اور جیسے ہی جارج بش کا دور حکومت بیس جنوری دو ہزار نو کو ختم ہوا، ان کی جماعت ری پبلیکن سے تعلق رکھنے والے سیا ست دانوں نے انکوائری کمیٹی سے خود کو لاتعلق کرلیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سی آئی اے کے حکام کو قیدیوں پر ظلم وستم کرنے کی کھلی چُھٹی دینے کی ذمے دار بش انتظامیہ ہی تھی۔
امریکی کے محکمۂ جاسوسی کی جانب سے منظرعام پر لائے جانے والی اس رپورٹ کی تیاری میں ''ایس ایس سی آئی'' کے اراکین نے ساٹھ لاکھ سے زاید صفحات کو کھنگالا جب کہ سی آئی اے کے استعمال میں آنے والی ای میلز، ٹیلیفون کالز، کیبل کال وغیرہ پر بھی تحقیقات کا جال بچھایا گیا تھا۔
اس کے علاوہ نو ہزار چارسو ایسی دستاویزات بھی تھیں جن پر ''ایس ایس سی آئی'' کی جانب سے امریکی حکومت کو متعدد بار کہا گیا کہ ان دستاویزات تک انکوائری کمیٹی کو رسائی دی جائے، مگر وائٹ ہاؤس نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کمیٹی کو ان دستاویزات تک رسائی نہیں دی، جسے بین الااقوامی سیاسی حلقوں میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ رپورٹ کی اشاعت کے لیے سب سے پہلے دسمبر دوہزار بارہ میں امریکی سینیٹ میں ووٹنگ ہوئی جس میں رپورٹ کی اشاعت کے حق میں فیصلہ آیا۔
تاہم تحقیقاتی کمیٹی نے اس دوران مزید انکشافات جمع کیے تو انہوں نے اس رپورٹ پر نظرثانی کی اور پھر اسے شائع کرنے کی درخواست کی، جس کے نتیجے میں اپریل دو ہزار چودہ کو دوبارہ سینیٹ میں ووٹنگ ہوئی اور دوبارہ اشاعت کے حق میں فیصلہ آیا۔ چوں کہ رپورٹ میں سی آئی اے کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پکڑے گئے بے گناہ قیدیوں پر تشدد اور ظلم و ستم کے ایسے واقعات موجود تھے۔
جن کی اشاعت سے سی آئی اے کا محکمہ امریکی جمہوریت پر سیاہ دھبے کی مانند نظر آتا، اس صورت حال سے بچنے کے لیے لگ بھگ آٹھ مہینے تک اعلیٰ سطح پر بحث و مباحثہ جاری رہا، جس کے بعد رپورٹ کی قطع وبرید کی گئی اور پھر خلاصے کی شکل میں اشاعت کی اجازت دی گئی، جب کہ باقی رہ جانے والی انکوائری رپورٹ اس وقت بھی صیغہ راز میں ہے۔
رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سی آئی اے کے حکام کی جانب سے حراستی مراکز میں قیدیوں پر تشدد سے جہاں امریکی تشخص کو عالمی سطح پر بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہیں یہ سوال بھی سر اٹھانے لگا کہ کیا سی آئی کا محکمہ اتنا طاقت ور ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ کو علم میں لائے بغیر اپنے فیصلے خود صادر کرسکتا ہے؟
اس حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ سینیٹر ڈاین فینسٹان کا کہنا ہے کہ جب سی آئی اے حکام نے یہ الزام لگایا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے سی آئی اے کے دفاتر سے اہم دستاویزات ان کی اجازت کے بغیر لے کر انہیں اپنے پاس محفوظ کرلیا ہے تو مجھے اپنے اس عمل کی وضاحت میں کہنا پڑا کہ جب سی آئی اے خود کو آئین اور قانون سے بالا تر سمجھتے ہوئے اپنی مرضی سے حکام کو علم میں لائے بغیر ان ویڈیو ٹیپ کو تلف کرسکتی ہے ۔
جن میں ظلم و تشدد کے ثبوت موجود تھے تو پھر انکوائری کمیٹی اہم دستاویزات کو اپنے قبضے میں رکھنے میں خو د کو حق بہ جانب سمجھتی ہے دوسری جانب انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سی آئی اے کے بہت سے افسران نے تحقیقاتی کمیٹی کے کمپیوٹر تک غیرقانونی طریقے سے رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
تاکہ کسی بھی طرح تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں رخنے ڈالے جاسکیں بل کہ سی آئی اے کے ایک عہدے دار رابرٹ ایٹنگر نے تو ایف بی آئی سے درخواست کی کہ انکوائری کمیٹی کے اسٹاف پر غلط رویے سے پیش آنے پر کیس کردیا جائے اور وہ ایسا اس لیے چاہتے تھے کہ انکوائری کمیٹی خوف میں مبتلا ہوکر اپنے کام سے توجہ ہٹالے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کام یاب نہ ہوسکے۔ واضح رہے کہ رابرٹ ایٹنگر سی آئی اے کے ڈائریکٹر جوزروڈری گیوز سمیت ان دو افراد میں شامل تھا جنہوں نے قیدیوں پر ظلم وستم پر مبنی ویڈیوز کو تلف کیا تھا۔
رابرٹ ایٹنگر ظلم وستم کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس نے حراستی مرکز میں قیدیوں پر وہ مظالم ڈھائے ہیں جن کو سن کر شیطان بھی شرمندہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹر ڈاین فینسٹان کی مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں رابرٹ ایٹنگر کا نام سولہ سو مرتبہ سے زاید آیا ہے۔
دل چسپ بات یہ کہ سی آئی اے کی جانب سے مستقل اس بات کی نفی کی جاتی رہی کہ اس کے کارندوں نے تحقیقاتی کمیٹی '' ایس ایس سی آئی'' کے کمپیوٹر ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اکتیس جولائی دو ہزار چودہ کو سی آئی اے کے ترجمان نے ڈائریکٹر جان او برینان کے توسط سے اقرار کیا کہ ان کے محکمے نے تحقیقاتی کمیٹی ''ایس ایس سی آئی'' کے کمپیوٹر ڈیٹا سے فائلیں پڑھنے کی کوشش کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ، پورٹر گوز اور مائیکل ہیڈن نے مجرموں کی تعداد اور پروگرام کی افادیت کے حوالے سے امریکی کانگریس، قومی سلامتی کے ڈائریکٹر اور وائٹ ہاؤس سے بیشتر مواقع پر غلط بیانی سے کام لیا، بل کہ اس حوالے سے میڈیا میں بھی ایسی جھوٹی خبریں نشر کروائیں، جس سے بظاہر پروگرام کی افادیت نظر آنے لگی۔
واضح رہے کہ سی آئی اے نے تشدد کے نت نئے طریقے آزمانے کے لیے ''میچل جینسن اینڈ ایسوسی ایٹ'' کمپنی سے معاہدہ کیا تھا، جسے ان ظالمانہ خدمات کے عوض اکیاسی ملین ڈالر کی ادائیگی کی گئی تھی، جب کہ بجٹ میں یہ اخراجات ایک سو اسی ملین ڈالر ظاہر کیے گئے۔
نودسمبر دو ہزار چودہ کو شائع ہونے والی اس تحقیقاتی رپورٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدر باراک اوباما نے اس خفیہ رکھی جانے والی رپورٹ کے اجراء کے وقت اسے امریکا کے مستقبل کے حوالے سے اہم قرار دیتے ہوئے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے پر زور دیا۔
اس کے علاوہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے رپورٹ پر اظہارخیال کرتے ہوئے اس انتہائی صدمے والی رپورٹ قرار دیا اور ان سزاؤں کو بھی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ لیتھونیا کے وزیراعظم الگیرداس یوتوکیوس نے تبصرہ کیا کہ اس رپورٹ سے ایسا لگتا ہے، جیسے سی آئی اے نے قیدیوں سے تفتیش کے لیے امریکا کو استعمال کیا ہے۔
پولینڈ کے سابق صدر الیگزنڈر کاویسنکی کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ دو ہزار تین میں امریکا کے حکام نے انہیں پولینڈ میں سی آئی اے کے زیرنگرانی چلنے والے ایسے خفیہ عقوبت خانے ختم کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد انہوں نے یہ عقوبت خانے ختم کردیے تھے۔
ایران کے وزارت داخلہ کے محکمے کی ترجمان مرضیہ افخام نے رپورٹ کے مطالعے کے بعد اسے ایک ایسی رپورٹ قرار دیا تھا، جس سے علم ہوتا ہے کہ امریکا کے حفاظتی نظام میں ظلم وجبر، تشدد اور انتہاپسندی جیسے غیرانسانی افعال ایک مُنظّم ادارے کی شکل میں روبہ عمل ہیں، جب کہ شمالی کوریا کے حکام نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ قرون وسطی کے عہد کے انداز میں کی جانے والی اس تفتیش کے بارے میں مزید حقائق کو نہ صرف سامنے لایا جائے بل کہ دنیا بھر میں سی آئی اے کے زیرنگرانی چلنے والے ایسے خفیہ عقوبت خانوں پر سے بھی پردہ اٹھایا جائے جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکے ہیں۔
٭وہ 20 حقائق جو رپورٹ میں سامنے لائے گئے
نو دسمبر دو ہزار چودہ کو امریکا کے محکمۂ دفاع کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ حقائق کچھ اس طرح ہیں:
سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں پر ''تفتیش کے انتہائی پُرتشدد'' طریقے استعمال کیے گئے جو کسی بھی صورت نہ تو قیدیوں سے معلومات حاصل کرنے میں اور نہ ہی ان سے تعاون میں معاون ثابت ہوسکے۔
سی آئی اے نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے تفتیش کے انتہائی پُرتشدد طریقوں کو پُراثر اور بہتر قرار دیا۔
قیدیوں سے تفتیش کے بیشتر طریقے سی آئی اے کے بنائے گئے مروجہ قوانین اور پالیسیوں سے مکمل تضاد رکھتے تھے۔
حراستی مراکز کا ماحول سی آئی اے کے قوانین اور پالیسیوں کے برعکس خوف اور دہشت کا عکاس تھا۔
رپورٹ کے مطابق جب کبھی امریکا کے محکمۂ انصاف نے حراستی مراکز اور تفتیشی طریقۂ کار کے بارے میں سوال وجواب کیے تو سی آئی اے کی جانب سے امریکا کے محکمۂ انصاف کو ہمیشہ غلط معلومات فراہم کی گئیں۔
سی آئی اے نے کانگریس کی جانب سے پوچھ گچھ کو ہمیشہ نظرانداز کیا یا تاخیری حربے استعمال کیے۔
اسی طرح سی آئی اے نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے نگرانی اور تفتیش کے حوالے سے قوانین کو قابل عمل بنانے میں تاخیری حربے استعمال کیے۔
حراستی مراکز اور قیدیوں سے تفتیش کے بارے میں سی آئی اے نے بعض مواقع پر امریکا کے قومی سلامتی کے اداروں اور دیگر اہم خفیہ ایجنسیوں کو بھی اپنی سرگرمیوں سے لاعلم رکھا۔
محکمۂ دفاع کے زیرانتظام چلنے والا اہم ادارہ ''آفس آف انسپکٹر جنرل'' کو بھی اپنی سرگرمیوں سے لاعلم رکھا۔
تحقیقاتی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے حراستی مراکز اور ان میں ہونے والے تفتیشی سرگرمیوں کے بارے میں میڈیا کو ہمیشہ غلط معلومات فراہم کی گئیں۔
ابتدائی چھے ماہ تک سی آئی اے کے حکام کو حراستی مراکز اور قیدیوں سے تفتیش کے پروگرام کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تیاری نہیں کرائی گئی تھی۔
سن دو ہزار دو سے دو ہزار تین تک کے عرصے میں سی آئی اے کے حکام اور اس کا آپریشن ونگ تفتیشی پروگرام کی تفصیلات سے مکمل لاعلم تھا، جس کے باعث اس عرصے میں تفتیشی پروگرام میں سب سے زیادہ بدعنوانیاں دیکھنے میں آئیں۔
سی آئی اے کے حکام نے قیدیوں پر نفسیاتی تشدد کے حربے استعمال کرنے کے لیے دو ماہرنفسیات کی خدمات بھی حاصل کیں بالخصوص سن دو ہزار پانچ میں محکمے کے باہر سے ایسی خدمات کثرت سے حاصل کی گئیں۔
سی آئی اے کی جانب سے قیدیوں پر تفتیش کے دوران تشدد کے ایسے طریقے بکثرت استعمال کیے گئے جن کی اجازت نہ تو محکمۂ انصاف سے لی گئی اور نہ ہی سی آئی اے ہیڈکوارٹر سے منظوری حاصل کی گئی۔
حراستی مراکز میں موجود قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے سی آئی اے نے ہمیشہ غلط بیانی سے کام لیا، جب کہ حراست میں رکھے گئے قیدیوں کو کبھی بھی جیل قوانین کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔
سی آئی اے کا محکمہ حراستی مراکز اور تفتیشی پروگرام میں استعمال ہونے والی تیکنیکوں کی افادیت کے حوالے سے عوام کو مطمئن کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا۔
سی آئی اے کی جانب سے حراستی مراکز میں تفتیش کے دوران کبھی بھی کسی سی آئی اے کے کارندے کو کسی بھی غلط فعل کا مورد الزام نہیں ٹھیرایا گیا چاہے یہ فعل بے جا ظلم یا غیرقانونی عمل ہی کیوں نہ ہو حتٰی کہ کسی انتظامی مسئلے میں بھی سی آئی اے کا کارندہ قصور وار نظر نہیں آیا۔
عوام الناس اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے حراستی مراکز میں ہونے والی تفتیشی سرگرمیوں کے پروگرام پر تنقید کی جاتی رہی، لیکن سی آئی اے نے انہیں ہمیشہ نظر انداز کیا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حراستی مراکز اور تفتیشی پروگرام اپنی روح میں ظلم پر مبنی ایک غیرانسانی پروگرام تھا، جو بالآخر دو ہزار چھے میں اپنی موت آپ مرگیا ذرائع ابلاغ میں آنے والی ظلم پر مبنی رپورٹوں اور دیگر اقوام کی جانب سے ان حراستی مراکز اور تفتیشی پروگرام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے قانون سے متصادم ایک ظالمانہ اور انتہائی شرم ناک پروگرام قرار دیا جاتا رہا۔
سی آئی اے کی جانب سے حراستی مراکز میں کی جانے والی غیرانسانی تفتیشی سرگرمیوں نے امریکا کا امیج تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جسے کسی بھی قیمت پر بحال کرنا اب ناممکن ہے۔
رپورٹ میں منظر عام پر لائے جانے والے مظالم
امریکا کی سینیٹ کی ''یونائیٹڈ اسٹیٹ سینیٹ سلیکٹ کمیٹی آف انٹیلی جنس'' جسے ''ایس ایس سی آئی '' بھی کہا جاتا ہے کی جانب سے مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حراستی مراکز میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاتی تھیں، جن میں تشدد کے خلاف بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کو شرم ناک اور پوشیدہ جگہوں سے کھانا کھلانے کی کوشش کی جاتی تھی۔
اس کے علاوہ جنسی تشدد کیا جاتا تھا۔ قیدیوں کے اہل خانہ اور بچوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ نومبر دو ہزار دو میں ایک قیدی کو برف کی سل پر لٹا یا گیا جس کے باعث سردی سے وہ جان کی بازی ہار گیا، مگر کسی سے باز پرس نہیں ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق چار ایسے قیدیوں کے بارے میں دستاویزی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن میں سے دو کے پاؤں توڑ دیے گئے۔
ایک کا ٹخنا توڑا گیا جب کہ ایک قیدی کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور اس کے باوجود انہیں حکم دیا گیا کہ وہ کھڑے رہیں دستاویزات کے مطابق تشدد کے باعث بہت سے قیدی سی آئی اے کے کارندوں سے خود کو جان سے مارنے کی التجا بھی کرتے تھے۔ قیدیوں کو نفسیاتی طور پر ہراساں کرنے کے لیے انہیں ایک پستول دیا جاتا، جس کے چیمبر میں ایک گولی ہوتی اور پھر قیدی سے کہا جاتا کہ وہ اسے اپنے سر پر رکھ کر چلائے، اگر زندگی ہوئی تو وہ بچ جائے گا، ورنہ موت اس کا مقدر ہوگی۔
اسی طرح بہت سے قیدیوں کو تختے پر لٹاکر پانی بہاتے ہوئے ڈوبنے کی کیفیت میں مبتلا کرکے تشدد کیا گیا۔ بہت سے قیدیوں کو ایک ایک ہفتے تک نیند سے محروم رکھا گیا۔ ٹوائلٹ میں موجود غلاظت کی صفائی ہاتھوں سے کرائی گئی۔ کئی قیدیوں کو لکڑی کے ایک ایسے ڈبے میں لٹادیا جاتا تھا، جس میں وہ خود کو مردہ سمجھنے لگتے تھے۔ اسی طرح دو سے تین دن تک ہاتھ سر کے اوپر رکھنے کی سزا دی جاتی ایک قیدی کو چھیاسٹھ گھنٹے تک ٹھنڈے پانی میں کھڑا رکھا گیا۔ بعد میں اسے یہ کہہ کر سی آئی اے نے رہا کردیا گیا کہ وہ غلطی سے پکڑا گیا تھا۔
اس کے علاوہ عام طور پر قیدیوں کو ، بجلی کے جھٹکے دینا، سر کو کپڑے سے ڈھانپ کر رکھا جانا، سر کو پانی میں غوطے دینا، گلے میں پٹا ڈال کر گھسیٹنا، گرم ریت پر برہنہ لٹانا اور بہت سے ایسے مظالم جنہیں ضبط تحریر میں لانا مشکل ہے۔ حراستی مراکز برائے تفتیشی پروگرام میں امریکی اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سی آئی اے کا محکمہ انجام دیتا رہا۔
معصوم اور نہتے افراد
اخلاقی اقدار اور امن پسندی کے اصولوں کے منافی عمل میں لایا جانے والا ''حراستی مراکز اور تفتیشی پروگرام'' امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر کے دستخط سے جاری ہوا تھا۔ اس حکم نامے میں لکھا تھا کہ ہر وہ شخص جو امریکی شہری کو دھمکی دے یا دہشت گردی کی سرگرمی میں ملوث ہو اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سی آئی اے نے جارج بش کی ہدایات کی روشنی میں ہر اس شخص کو گرفتار کرنا شروع کردیا جس پر انہیں اس حوالے سے ذرہ برابر بھی شک ہوتا۔
گذشتہ برس آشکار ہونے والی پورٹ کے مطابق تمام حراستی مراکز میں زیرحراست قیدیوں میں سے بائیس فی صد قیدی بے گناہ ثابت ہوئے، لیکن جب تک وہ بے گناہ ثابت ہوئے اس وقت تک ان پر وہ مظالم ڈھائے گئے جن کو سُن کر شیطان بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگالے اور ذہنی و جسمانی طور پر شکست وریخت کا شکار ہونے والے یہ افراد آج بھی خود کو زندگی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے تگ ودو میں مصروف ہیں۔