پلاسٹک کے مکان
بے گھر لوگوں کو چھت دینے کے لیے یہ آئیڈیا کام یابی سے ہم کنار ہوا
ایک عام اور سادہ سی رہائش سے محروم افراد بے گھر کہلاتے ہیں۔ ایسے افراد کے پاس نہ تو کوئی گھر ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی حفاظت کا کوئی انتظام ہوتا ہے، ایسے لوگ ہر طرح کے موسم جیسے گرمی، سردی اور برسات سے بھی محفوظ نہیں ہوتے۔ بعض ماہرین ایسے لوگوں کو بے گھر قرار دیتے ہیں جن کے پاس خاص طور سے رات کے اوقات میں رہنے کا کوئی بندوبست نہ ہو۔
اکثر ملکوں میں بعض بے گھر افراد تو لکڑی یا گتے کے ڈبوں میں رہتے ہیں اور بعض لوگ سیمینٹ کے بڑے بڑے پائپوں کو اپنی رہائش گاہ بنائے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ترپال یا موٹے کپڑے کی چھت تان کر اس میں رہتے ہیں اور کچھ خیموں یا شامیانوں میں رہتے ہیں۔
عام طور سے وہ لوگ بے گھر قرار دیے جاتے ہیں جو عوامی مقامات (پبلک پلیسز) پر رہتے ہوں اور ان کے پاس گھر نام کی کوئی جگہ نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا کے سبھی لوگوں ان بے گھروں سے ناواقف ہیں، ایسی بے شمار انسانی فلاح و بہبود کی تنظیمیں موجود ہیں جو بے گھر افراد کی مدد کرتی ہیں اور انہیں بے گھری سے بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بے گھر لوگوں کو گھر دینے کے لیے کیا کیا جائے اور انہیں کس طرح سے چھت فراہم کی جائے۔
پلاسٹک کی بوتلیں بے کار نہیں ہیں، ان سے بہت سے مفید کام لیے جاسکتے ہیں۔ اب تو ان ناکارہ بوتلوں سے ایسے گھر تیار کیے جارہے ہیں جن میں دنیا بھر کے ملکوں میں ڈھیروں بے گھر افراد رہ سکتے ہیں، بل کہ اب تو پابندی سے رہ بھی رہے ہیں۔ یہ آئیڈیا اتنا پسند کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ملکوں میں گھروں سے محروم بے شمار افراد کے لیے پلاسٹک کی یہ ناکارہ بوتلیں چھت فراہم کررہی ہیں۔
صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ہر سال پلاسٹک کی 47 ارب بوتلیں پھینکی یا ضائع کی جاتی ہیں۔ اگر ہم پوری دنیا میں ایک سال میں استعمال ہونے کے بعد بے کار سمجھ کر پھینک دی جانے والی پلاسٹک کی بوتلوں کی مجموعی مقدار کا حساب لگائیں تو ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں پورے کرۂ ارض کے گرد چار مرتبہ لپیٹا جاسکتا ہے۔ ماہرین اور خاص طور سے ماحولیات کے ماہرین بہت عرصے سے اس فکر میں تھے کہ کسی طرح پلاسٹک کی اتنی بڑی تعداد کو اس طرح تعمیری انداز سے کام میں لایا جائے کہ ان سے متعدد لوگوں کا بھلا ہوسکے۔
چناں چہ انہوں نے ان ناکارہ بوتلوں کو اس طرح کام میں لینے کا فیصلہ کیا کہ ان سے دنیا بھر کے بے گھر افراد کے لیے گھر تعمیر کرنے شروع کیے، تاکہ ان بے گھروں کو سر چھپانے کے لیے چھت مل جائے اور ماحولیاتی آلودگی کے ایک اہم مسئلے پر بھی قابو پایا جاسکے۔ ان خاص قسم کے مکانوں کی تعمیر کا یہ سلسلہ پورے افریقا اور لاطینی امریکا میں بڑے انوکھے اور منفرد انداز سے استعمال کیا جارہا ہے۔
پلاسٹک کی ان ناکارہ بوتلوں کا یہ مفید استعمال ایک طرف تو انہیں ضائع ہونے سے بچارہا ہے اور دوسری جانب ماہرین پلاسٹک کی بوتلوں کی قدرتی پائے داری کو بھی کام میں لارہے ہیں۔ یہ بوتلیں بے گھروں کو بہت عمدہ پناہ گاہ فراہم کررہے ہیں جہاں یہ لوگ ہر طرح کے شدید موسم سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے گھر تعمیر کرنے میں ایک خاص تیکنیک استعمال کی جاتی ہے جسے ''بوٹل وال ٹیکنیک'' کہتے ہیں۔ یہ خاص قسم کی ٹیکنیک ایک جرمن فرم ''ایکوٹیک انوائرمینٹل سالوشنز'' نے تیار کی تھی اور اب مذکورہ فرم نائیجیریا میں بے شمار افراد کو پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے اس طرح کے مکان تعمیر کرنے کی تربیت بھی دے رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس افریقی ملک میں 16ملین سے بھی زیادہ لوگ بے گھر ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی بے گھری سے نجات حاصل کرلیں اور اپنے لیے خود ہی گھر بنالیں۔
پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے اپنے لیے ''آشیانے'' تعمیر کرنے کا طریقہ بہت سادہ اور آسان ہے۔ اس کے لیے پہلے تو پلاسٹک کی وہ ناکارہ بوتلیں جمع کی جاتی ہیں جنہیں لوگ بے کار یا فالتو سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ پھر ان میں ریت بھری جاتی ہے اور ایک قطار یا ڈھیر کی صورت میں اس جگہ رکھ دیا جاتا ہے جہاں گھر تیار کرنا ہوتا ہے۔
اس کے بعد ریت سے بھری ہوئی ان بوتلوں کو مٹی یا سیمنٹ کے مکسچر کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت ٹھوس اور مضبوط دیوار تیار ہوجاتی ہے۔
ان مکانوں کا ڈھانچہ اس طرح کا ہوتا ہے جو اندر رہنے والوں کو گرمی، سردی اور شور سب سے بچاتا ہے۔ یہ گھر خاصے مضبوط ہوتے ہیں، بل کہ ماہرین کا تو یہ تک دعویٰ ہے کہ پلاسٹک کی نارکاہ بوتلوں سے تیار کیے ہوئے یہ گھر اینٹوں کے گھروں کے مقابلے میں بیس گنا تک زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ گھر آگ سے محفوظ یعنی فائر پروف بھی ہوتے ہیں اور بلٹ پروف بھی۔
ایک عام سا دو بیڈ روم والا گھر جس میں ایک ٹوائلٹ، ایک کچن اور ایک ڈرائنگ روم بھی شامل ہوتا ہے، اس کی تعمیر کے لیے پلاسٹک کی 14,000 بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ گھر عام طور سے روایتی گھر کے مقابلے میں چوتھائی لاگت پر تیار ہوجاتا ہے۔
دنیا بھر میں بے گھر افراد کا کوئی شمار نہیں اور ایسے لوگ اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاکر اپنے لیے یہ خاص گھر تیار کررہے ہیں۔ ہونڈوراس میں اس ٹیکنالوجی سے تیار کیے ہوئے ایک گھر میں حیرت انگیز طور پر پلاسٹک کی صرف 8,000ناکارہ بوتلیں استعمال ہوئی تھیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں سیمینٹ بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس کی چھت گرین تھی اور گیلی ہونے پر اس کا وزن 30 ٹن تھا۔
اس وقت دنیا بھر میں پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے تیار کردہ گھروں کا آئیڈیا اس قدر مقبول ہوا ہے کہ اب تو آفس کے پارٹیشنز، شیڈز، بنچیں، دیواریں اور کمیونٹی سینٹرز تک پلاسٹک کی انہی بے کار بوتلوں سے تیار کیے جارہے ہیں۔ خاص طور سے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں، ریاست ہائے متحدہ امریکا کی مختلف ریاستوں کے مختلف شہروں میں، اسی طرح یورپ اور جنوبی امریکا میں بھی یہ انوکھے''پلاسٹک گھر'' زمین پر تیزی سے وجود میں آرہے ہیں۔
ان مکانوں کا ڈیزائن بھی بڑا انوکھا ہے جس میں بوتلوں کے رنگین کیپ یا ڈھکن دیواروں سے باہر کی طرف نکلے ہوئے ہوتے ہیں جن سے ایک رنگ برنگا تاثر ابھرتا ہے جو دیکھنے میں بڑا بھلا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح پلاسٹک کی رنگ برنگی بوتلوں کی قطاروں سے اور مکانوں کے ڈھانچوں سے روشنی چھن چھن کر باہر نکلتی ہے تو یہ منظر بہت ہی خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔
ایکو ٹیک نامی فرم نے ہونڈوراس میں پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے دنیا کی پہلی گنبد والی چھت بھی تیار کی ہے جو بلاشبہہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔
پلاسٹک کی بوتلوں سے تیار کردہ یہ تعمیراتی ٹیکنیک ماحولیات دوست ہے جسے مزید کامیاب بنانے کے لیے لوگوں کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اگر لوگ اسے پسند کریں اور عام لوگوں میں متعارف کرائیں تو اس سے دنیا کے ایک اہم مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ پلاسٹک کی ناکارہ بوتلیں جمع کرنے کے لیے ایک بہت بڑی اور زبردست صفائی مہم چلائی جائے اور سنجیدگی سے کوششیں کی جائیں۔
اس کے ساتھ ان بوتلوں کو صاف ستھرا بھی کیا جائے اور انہیں بڑے پیمانے پر ریت سے بھرا جائے۔ یہ کام کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں ہے، بل کہ بوتلوں میں ریت بھرنے کے لیے ڈھیروں ہاتھوں کی ضرورت ہوگی جو مل جل کر اور اجتماعی طور پر یہ کام کریں گے تو یہ کام آسان بھی ہوجائے گا اور تیز بھی، پھر اس طرح کے مکان کی تیاری میں دیر نہیں لگے گی اور اپنی چھت کے انتظار میں بے گھر لوگوں کو جلد اپنا گھر مل جائے گا۔
٭اس طرح کے ماحول دوست گھروں کی تیاری اور تعمیراتی ٹیکنیک
دنیا بھر کے ترقی پذیر ملکوں میں بہت مقبول ہورہی ہے۔ بعض افراد اور ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس ٹیکنیک کے تحت دنیا کے سبھی ملکوں میں ایسے گھر تیار کیے جائیں تو بے شمار بے گھر افراد اپنے گھروں میں آباد ہوسکتے ہیں۔
اکثر ملکوں میں بعض بے گھر افراد تو لکڑی یا گتے کے ڈبوں میں رہتے ہیں اور بعض لوگ سیمینٹ کے بڑے بڑے پائپوں کو اپنی رہائش گاہ بنائے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ترپال یا موٹے کپڑے کی چھت تان کر اس میں رہتے ہیں اور کچھ خیموں یا شامیانوں میں رہتے ہیں۔
عام طور سے وہ لوگ بے گھر قرار دیے جاتے ہیں جو عوامی مقامات (پبلک پلیسز) پر رہتے ہوں اور ان کے پاس گھر نام کی کوئی جگہ نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا کے سبھی لوگوں ان بے گھروں سے ناواقف ہیں، ایسی بے شمار انسانی فلاح و بہبود کی تنظیمیں موجود ہیں جو بے گھر افراد کی مدد کرتی ہیں اور انہیں بے گھری سے بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بے گھر لوگوں کو گھر دینے کے لیے کیا کیا جائے اور انہیں کس طرح سے چھت فراہم کی جائے۔
پلاسٹک کی بوتلیں بے کار نہیں ہیں، ان سے بہت سے مفید کام لیے جاسکتے ہیں۔ اب تو ان ناکارہ بوتلوں سے ایسے گھر تیار کیے جارہے ہیں جن میں دنیا بھر کے ملکوں میں ڈھیروں بے گھر افراد رہ سکتے ہیں، بل کہ اب تو پابندی سے رہ بھی رہے ہیں۔ یہ آئیڈیا اتنا پسند کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ملکوں میں گھروں سے محروم بے شمار افراد کے لیے پلاسٹک کی یہ ناکارہ بوتلیں چھت فراہم کررہی ہیں۔
صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ہر سال پلاسٹک کی 47 ارب بوتلیں پھینکی یا ضائع کی جاتی ہیں۔ اگر ہم پوری دنیا میں ایک سال میں استعمال ہونے کے بعد بے کار سمجھ کر پھینک دی جانے والی پلاسٹک کی بوتلوں کی مجموعی مقدار کا حساب لگائیں تو ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں پورے کرۂ ارض کے گرد چار مرتبہ لپیٹا جاسکتا ہے۔ ماہرین اور خاص طور سے ماحولیات کے ماہرین بہت عرصے سے اس فکر میں تھے کہ کسی طرح پلاسٹک کی اتنی بڑی تعداد کو اس طرح تعمیری انداز سے کام میں لایا جائے کہ ان سے متعدد لوگوں کا بھلا ہوسکے۔
چناں چہ انہوں نے ان ناکارہ بوتلوں کو اس طرح کام میں لینے کا فیصلہ کیا کہ ان سے دنیا بھر کے بے گھر افراد کے لیے گھر تعمیر کرنے شروع کیے، تاکہ ان بے گھروں کو سر چھپانے کے لیے چھت مل جائے اور ماحولیاتی آلودگی کے ایک اہم مسئلے پر بھی قابو پایا جاسکے۔ ان خاص قسم کے مکانوں کی تعمیر کا یہ سلسلہ پورے افریقا اور لاطینی امریکا میں بڑے انوکھے اور منفرد انداز سے استعمال کیا جارہا ہے۔
پلاسٹک کی ان ناکارہ بوتلوں کا یہ مفید استعمال ایک طرف تو انہیں ضائع ہونے سے بچارہا ہے اور دوسری جانب ماہرین پلاسٹک کی بوتلوں کی قدرتی پائے داری کو بھی کام میں لارہے ہیں۔ یہ بوتلیں بے گھروں کو بہت عمدہ پناہ گاہ فراہم کررہے ہیں جہاں یہ لوگ ہر طرح کے شدید موسم سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے گھر تعمیر کرنے میں ایک خاص تیکنیک استعمال کی جاتی ہے جسے ''بوٹل وال ٹیکنیک'' کہتے ہیں۔ یہ خاص قسم کی ٹیکنیک ایک جرمن فرم ''ایکوٹیک انوائرمینٹل سالوشنز'' نے تیار کی تھی اور اب مذکورہ فرم نائیجیریا میں بے شمار افراد کو پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے اس طرح کے مکان تعمیر کرنے کی تربیت بھی دے رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس افریقی ملک میں 16ملین سے بھی زیادہ لوگ بے گھر ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی بے گھری سے نجات حاصل کرلیں اور اپنے لیے خود ہی گھر بنالیں۔
پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے اپنے لیے ''آشیانے'' تعمیر کرنے کا طریقہ بہت سادہ اور آسان ہے۔ اس کے لیے پہلے تو پلاسٹک کی وہ ناکارہ بوتلیں جمع کی جاتی ہیں جنہیں لوگ بے کار یا فالتو سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ پھر ان میں ریت بھری جاتی ہے اور ایک قطار یا ڈھیر کی صورت میں اس جگہ رکھ دیا جاتا ہے جہاں گھر تیار کرنا ہوتا ہے۔
اس کے بعد ریت سے بھری ہوئی ان بوتلوں کو مٹی یا سیمنٹ کے مکسچر کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت ٹھوس اور مضبوط دیوار تیار ہوجاتی ہے۔
ان مکانوں کا ڈھانچہ اس طرح کا ہوتا ہے جو اندر رہنے والوں کو گرمی، سردی اور شور سب سے بچاتا ہے۔ یہ گھر خاصے مضبوط ہوتے ہیں، بل کہ ماہرین کا تو یہ تک دعویٰ ہے کہ پلاسٹک کی نارکاہ بوتلوں سے تیار کیے ہوئے یہ گھر اینٹوں کے گھروں کے مقابلے میں بیس گنا تک زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ گھر آگ سے محفوظ یعنی فائر پروف بھی ہوتے ہیں اور بلٹ پروف بھی۔
ایک عام سا دو بیڈ روم والا گھر جس میں ایک ٹوائلٹ، ایک کچن اور ایک ڈرائنگ روم بھی شامل ہوتا ہے، اس کی تعمیر کے لیے پلاسٹک کی 14,000 بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ گھر عام طور سے روایتی گھر کے مقابلے میں چوتھائی لاگت پر تیار ہوجاتا ہے۔
دنیا بھر میں بے گھر افراد کا کوئی شمار نہیں اور ایسے لوگ اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاکر اپنے لیے یہ خاص گھر تیار کررہے ہیں۔ ہونڈوراس میں اس ٹیکنالوجی سے تیار کیے ہوئے ایک گھر میں حیرت انگیز طور پر پلاسٹک کی صرف 8,000ناکارہ بوتلیں استعمال ہوئی تھیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں سیمینٹ بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس کی چھت گرین تھی اور گیلی ہونے پر اس کا وزن 30 ٹن تھا۔
اس وقت دنیا بھر میں پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے تیار کردہ گھروں کا آئیڈیا اس قدر مقبول ہوا ہے کہ اب تو آفس کے پارٹیشنز، شیڈز، بنچیں، دیواریں اور کمیونٹی سینٹرز تک پلاسٹک کی انہی بے کار بوتلوں سے تیار کیے جارہے ہیں۔ خاص طور سے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں، ریاست ہائے متحدہ امریکا کی مختلف ریاستوں کے مختلف شہروں میں، اسی طرح یورپ اور جنوبی امریکا میں بھی یہ انوکھے''پلاسٹک گھر'' زمین پر تیزی سے وجود میں آرہے ہیں۔
ان مکانوں کا ڈیزائن بھی بڑا انوکھا ہے جس میں بوتلوں کے رنگین کیپ یا ڈھکن دیواروں سے باہر کی طرف نکلے ہوئے ہوتے ہیں جن سے ایک رنگ برنگا تاثر ابھرتا ہے جو دیکھنے میں بڑا بھلا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح پلاسٹک کی رنگ برنگی بوتلوں کی قطاروں سے اور مکانوں کے ڈھانچوں سے روشنی چھن چھن کر باہر نکلتی ہے تو یہ منظر بہت ہی خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔
ایکو ٹیک نامی فرم نے ہونڈوراس میں پلاسٹک کی ناکارہ بوتلوں سے دنیا کی پہلی گنبد والی چھت بھی تیار کی ہے جو بلاشبہہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔
پلاسٹک کی بوتلوں سے تیار کردہ یہ تعمیراتی ٹیکنیک ماحولیات دوست ہے جسے مزید کامیاب بنانے کے لیے لوگوں کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اگر لوگ اسے پسند کریں اور عام لوگوں میں متعارف کرائیں تو اس سے دنیا کے ایک اہم مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ پلاسٹک کی ناکارہ بوتلیں جمع کرنے کے لیے ایک بہت بڑی اور زبردست صفائی مہم چلائی جائے اور سنجیدگی سے کوششیں کی جائیں۔
اس کے ساتھ ان بوتلوں کو صاف ستھرا بھی کیا جائے اور انہیں بڑے پیمانے پر ریت سے بھرا جائے۔ یہ کام کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں ہے، بل کہ بوتلوں میں ریت بھرنے کے لیے ڈھیروں ہاتھوں کی ضرورت ہوگی جو مل جل کر اور اجتماعی طور پر یہ کام کریں گے تو یہ کام آسان بھی ہوجائے گا اور تیز بھی، پھر اس طرح کے مکان کی تیاری میں دیر نہیں لگے گی اور اپنی چھت کے انتظار میں بے گھر لوگوں کو جلد اپنا گھر مل جائے گا۔
٭اس طرح کے ماحول دوست گھروں کی تیاری اور تعمیراتی ٹیکنیک
دنیا بھر کے ترقی پذیر ملکوں میں بہت مقبول ہورہی ہے۔ بعض افراد اور ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس ٹیکنیک کے تحت دنیا کے سبھی ملکوں میں ایسے گھر تیار کیے جائیں تو بے شمار بے گھر افراد اپنے گھروں میں آباد ہوسکتے ہیں۔