سمادھی گرو ارجن دیوجی
سکھ مت کے پانچویں گرو کی سمادھی تاریخ کا اہم باب
سوانح حیات:
گرو ارجن سنگھ مذہب یا سکھ مت کے پانچویں گرو ہیں۔ ان کا جنم 18 وساکھ (بیساکھ) بروز منگل 1610بکرمی بمطابق 1563ء کوگوبند وال کے مقام پر ہوا۔ ان کے والد کا نام گرو رام داس جی تھا اور ان کی والدہ کا نام ماتا بھانی تھا جو کہ تیسرے گرو، گرو امر داس کی صاحبزادی تھیں۔
جب ان کے شوہر گرو رام داس جی انتقال کر گئے تو ان کی جگہ پر ارجن دیو جی کو 1571ء میں گرو کی مسند پر بٹھایا گیا۔ گرو ارجن کی شادی 1644 بیساکھ بکرمی کو چندن سنگھ سوڈی کی صاحبزادی ماتا گنگا کے ساتھ ہوئی اور ان ہی کے بطن سے چھٹے گرو، گرو ہرگوبند جی نے جنم لیا۔ گرو ارجن نے مغل شہنشاہ اکبر اور شہنشاہ جہانگیر دونوں کا عہد دیکھا تھا۔ اکبر نے ہندوستان میں ایک خاص قسم کی مذہبی آزادی اور رواداری روا رکھی تھی۔
اکبر نے سکھ مت کے گرووں کو ایک سہولت یہ بھی دی تھی کہ کچھ زرعی علاقے جو ان سکھوں کی دسترس میں تھے ان کو لیز، لگان یا ٹیکس فری علاقہ قرار دیا ہوا تھا۔ اکبر کے بعد جہانگیر نے بھی یہی حکمت عملی اپنائے رکھی۔ گرو ارجن نے مسند سنبھالتے ہی کچھ ایسے کام کئے جن کی بنیادوں پر سکھ مت کی مضبوط عمارت تعمیر ہوئی۔
ان میں سب سے اہم کام گرووں کے کلام کو اکٹھا کرنا تھا۔ گرو نانک سے شروع ہوئے اشلوک سکھ مذہب میں ''گرُبانی'' کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے بعد دوسرے گرو، گرو انگدیو جی، تیسرے گرو، گرو امر داس جی، چوتھے گرو، گو رام داس جی کا کلام بھی گرُبانی کے نام ہی سے جانا جاتا ہے۔ گرو ارجن نے ان اشلوکوں کو مختلف راگوں اور تالوں کی تقسیم کے ساتھ ترتیب دیا اور اس مجموعہ کلام کو ''آدگرنتھ'' کا نام دیا جاتا ہے۔
گرو ارجن دیو جی نے دوسرا اہم کام یہ کیا کہ انہوں نے سکھوں کی جانب سے دیئے گئے نذرانوں کو ایک خاص طریقہ کار میں پرویا۔ گرو ارجن نے اکٹھی ہونے والی رقم سے دو کام کئے۔ پہلا کام تو یہ کیا کہ انہوں نے سکھ نوجوانوں کی ایک خاص قسم کی فوجی تربیت شروع کی اوراس مقصد کے لئے گھوڑوں اور تلواروں کی خریداری بھی کی جاتی تھی جس سے مختصر عرصہ میں ہزاروں سکھ ایک طاقت کی شکل اختیار کر گئے۔
دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اپنے والد گرو رام داس کے ادھورے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اسی عہد میں گرو ارجن نے امرتسر کے مشہور تاریخی گردوارے (گولڈن ٹیمپل) کی بنیاد رکھی۔ گرو ارجن نے اس بات کی نیت کی تھی کہ وہ اس گردوارے کی بنیاد اس دور کی سب سے نیک اور انسانیت پرست شخصیت سے رکھوائیں گے۔ پورے ہندوستان میں ان کی نگاہ حضرت میاں میرؒ پر پڑی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس گردوارے کا سنگ بنیاد رکھیں۔ حضرت میاں میرؒ نے ان کی درخواست قبول کی اور انہوں نے اس گردوارے کا سنگ بنیاد 1589ء میں رکھا۔
انہی ایام میں جہانگیر اور خسرو کے جھگڑے بڑھتے گئے۔ شہر لاہور کا دیوان جو اس عہد میں وزیر خزانہ بھی تھا اور دیوان نانک چندو کے نام سے جانا جاتا تھا' اس کا گرو جی کے ساتھ اپنی بیٹی کے رشتے پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔ نانک اور پرتھی کی ریشہ دوانیوں کے باعث گرو ارجن تمام عمر مشکل میں رہے۔
دوسری جانب باغی خسرو پکڑا گیا تو جہانگیر نے تیموری روایات اور جہانگیری قانون کے مطابق فیصلے کئے اور باغی کا ساتھ دینے والوں کو کڑی سزائیں دی گئیں۔ دیوان چندو کی سازش اور گرو ارجن کا خسرو سے پیار گرو ارجن کو مغل سرکار کے زیرعتاب لے آیا۔ پروفیسر محمد شجاع الدین نے نقوش لاہور نمبر (ص 60 ) پر اس واقعے کو دکھ بھرے الفاظ میں تحریر کیا ہے۔
''بدقسمتی سے سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو بھی اس لپیٹ میں آ گئے۔ جب باپ کا باغی خسرو لاہور کی جانب آتا ہوا گوبند وال کے پاس ٹھہرا تو گرو جی نے نہ صرف اس کی مالی مدد کی بلکہ اس کے ماتھے پر زعفران کا ٹیکا لگاتے ہوئے اسے آشیرباد دی۔ ظاہر ہے کہ اس سے گرو جی کے تمام معتقد خسرو کے ہواخواہ بن گئے۔ بادشاہ نے خسرو کے بعد ان کی تمام جائیداد ضبط کر لی اور انہیں قتل کرا دیا۔''
گرو ارجن کی وفات کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں۔ سید لطیف نے مرگی کے باعث تحریر کیا ہے۔ مفتی غلام سرور قریشی نے زہر خورانی وجہ بتلائی ہے جبکہ کنہیا لال ہندی اور نور احمد چشتی نے گرو جی کا دریائے راوی میں اشنان کے واقعے کو درست مانا ہے۔ ان کے دریائے راوی میں غوطے کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے تاریخ پنجاب (ص 31) پر اس طرح لکھا ہے۔
''غرض گرو ارجن اس حراست کے ساتھ چندو کے مکان سے دریائے راوی کو روانہ ہوا۔ آخر گرو دریا پر پہنچا اور کپڑے اتار کر صافہ باندھا اور دریا میں کود پڑا۔ پہلے ہی غوطے میں ایسا گم ہوا کہ پھر اس کا نشان کسی نے نہ دیکھا۔ ساعت بھر محافظ منتظر رہے مگر جب پھر بھی گرو پانی سے نہ نکلا تو سب کے سب پانی میں کودے اور پانی میں بہت تلاش کیا، کہیں سراغ نہ ملا۔ گرو ارجن نے چوبیس سال مسند نشینی کی۔ آخر 1663 بکرمی مطابق سنہ 1606 عیسوی و سنہ 1024 ہجری اس جہان فانی سے کوچ کیا۔''
ان کی موت کے بعد جہانگیر کے سامنے شاید اصل حالات آئے یا کوئی سیاسی مصلحت تھی کہ اس نے گرو ارجن کے بیٹے گرو ہرگوبند رائے جو کہ چھٹے گرو تھے، دیوان چندو کو ان کے حوالے کر دیا۔ اس سارے معاملے کا احوال مولوی نور احمد چشتی نے طبقات چشتی (ص 132) پر اس طرح بیان کیا ہے۔
''اس بات سے اس پر قہر سلطانی ہوا، گرو صاحب نے قصاص کا دعویٰ اس پرکیا۔ بادشاہ نے چندو لعل کو قید کر کے حوالہ گرو ہرگوبند صاحب کر دیا کہ جس طرح آپ کی مرضی ہو۔ اس سے اپنے باپ کا بدلہ لیں۔ ہم اس سے بری ہوئے۔''
گرو ارجن نے تمام عمر انسانیت کا درس دیا۔ وہ بادشاہی اور جاگیردارانہ نظام کی ایک خاص سمجھ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ مسلمان صوفیاء کرام کے ساتھ بھی خاص تعلقات تھے۔ ان کے کلام کا یہ نمونہ ان کی سوچ کی غمازی کرتا ہے:
کوئی بولے رام رام کوئی بولے خدا
کوئی سیوے گوسیاں کوئی اللہ
کارن کریم کرپا دھار رحیم
کوئی نہاوے تیرتھ کوئی حج نوں جا
سکھ روایات میں بدھو کا آواسے منسوب کرامات گرو جی ہی کی مانی جاتی ہیں۔ چونا منڈی میں دیوان خانہ اور سنہری مسجد کے ساتھ گردوارہ باؤلی صاحب کی عمارات بھی گرو ارجن ہی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ روایات میں یہ بھی ہے کہ انہیں ایک مرتبہ دیوان چندو کے اصرار پر موچی دروازے کے اندر موجود ''لال کھوہ'' (سرخ کنواں) میں نہانا بھی پڑا۔ اسی اشنان کے باعث سکھ اس جگہ کو بھی گرو ارجن کا گردوارہ مانتے ہیں۔
احوال عمارت سمادھ:
گرو ارجن کی نعش سرکاری اہلکار بازیاب نہ کر سکے۔ سکھ مذہب میں ان کی اس شہادت کو کرامت کے طور پر مانا گیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے اور جانشین گرو ہرگوبند جی جو کہ سکھ مذہب کے چھٹے گرو بھی تھے۔
ان کی ہدایت پر قلعے کے ساتھ بہتے دریائے راوی کے اسی مقام پر ایک چھوٹی سی سمادھ بطور یادگار تعمیر کر دی گئی اور اس کو انتہائی متبرک مانا گیا۔ اس کے بعد برسہابرس سکھ مذہب کے ماننے والے یہاں آ کر ماتھا ٹیکتے رہے۔ جب رنجیت سنگھ کی سرکار آئی تو اس نے پرانی سمادھ کا احاطہ بڑھاتے ہوئے ایک قابل دید سمادھی تعمیر کروائی۔ اس کی تفصیل کنہیا لال ہندی نے تاریخ لاہور (ص 217) پر اس طرح بیان کی ہے۔
''پہلے یہ مکان مختصر تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت یہ عالی شان مکان بنایا گیا۔ احاطہ مکان کا پختہ چونہ گچ منڈیر کا تھا، تین دروازے ہیں۔ دو بند رہتے ہیں اور مشرقی دروازہ کلاں سے آمد ورفت ہوتی ہے۔ اس کی پیشانی پر بہ خط گرمکھی حروف لکھے ہوئے ہیں۔ تصویر بھی گرو ارجن کی تحریر ہے۔
جب دروازے سے اندر جائیں تو بہ طرفِ جنوب ایک مکان چونہ گچ بنا ہے۔ ایک دروازہ اس کا غرب کو اور ایک شمال کو ہے۔ اس مکان کو سکھوں کی دیگ کہتے ہیں۔ اس باعث سے کہ اس میں ایک دروازہ پتھر کا زمین کے اندر گاڑا ہوا ہے اور ایک لکڑی موٹی جس کو ڈنڈا کہتے ہیں، بھنگ گھوٹنے کے واسطے پاس رکھی ہے۔ سکھ آ کر اس دورے میں سکہہ یعنی بھنگ گھوٹتے اور پیتے ہیں۔
اس کے جنوب کی طرف متصل دیوار شرق کے ایک سہ درہ دالان ہے۔ اس کے باہر گوشہ نیرت میں چاہ کلاں باؤلی یعنی چاہ پختہ وار بنا ہوا ہے۔ اس کی باؤلی کا زینہ شمال سے چل کر جنوب کی طرف چاہ میں جا ملتا ہے۔ گیارہ سیڑھیاں نیچے اتریں تو زمین پر ایک سل سنگ سرخ کی لگی ہوئی ہے۔ وہاں کھڑا ہو کر آدمی چاہ سے پانی لے سکتا ہے۔ گوشہ ایساں میں قد آدم چار سماد ھیں بنی ہیں۔ ایک سمادھ ان میں سے زوجہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی والدہ کی ہے۔
شمال کی طرف بھی چند کوٹھڑیاں سکھوں کے آرام کے واسطے بنی ہیں۔ جنوب کی سمت کو چار دیواری کے اندر گنبد عالی شان سمادھ کا پختہ چونہ گچ بنا ہوا ہے۔ شمال کی طرف مکان سمادھ کے ایک عالی شان بلکہ ایک دالان کے تین دالان ہیں۔ اس میں گرنتھ صاحب، بہ آدابِ تمام رکھا رہتا ہے۔ سمادھ کا چبوترہ پختہ چونہ گچ ہے۔ چبوترے کے گوشہ ایساں میں ایک اور چھوٹا چبوترہ ہے۔
اس پر جھنڈا نصب ہے۔ خاص سمادھ کا مکان مربع پختہ عمارت کا اور دروازہ شمالی سمت کو ہے۔ مندر کے اندر میانہ میں خاص سمادھ کا چبوترہ سنگ مرمر کا ہے۔ کٹہرے اس کو سنگ مرمر کے لگے ہیں۔ یہ مقام نہایت عجیب وغریب عمارت کا تعمیر ہوا ہے۔ تمام مکان نقشوں اور تصویروں سے سجایا گیا ہے۔ چھت مطلاً آئینہ دار ہے۔ آئینے کے بیل بوٹے نہایت خوبی کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔
سمادھ کے اوپر جانے کے لئے زینہ پختہ بنا ہوا ہے۔ جب اوپر جائیں تو درمیانی گنبد بلند کے اردگرد انسان پھر سکتا ہے اور چاروں دیواروں کے گوشوں کے اوپر چار گنبدیاں کلاں اور دیواروں کی منڈیروں پر انیس انیس گنبدیاں خرد کلس دار چار طرف بنی ہیں اور بیچ میں اونچا گنبد سمادھ کا نہایت مقطع معلوم دیتا ہے۔
گنبد کی صورت پہاڑی دار مدور ہے اور کلس طلائی بڑے گنبد پر اور چاروں گوشوں کی گنبدیوں اور سات سات گنبدیوں منڈیروں پر لگائے گئے ہیں۔ گرنتھ رکھنے کا دالان بھی نہایت مکلف بنا ہے۔ اس میں ایک آوہ گرنتھ اور دوسرا گرو گوبند سنگھ کا گرنتھ رکھا رہتا ہے اور طاقچوں میں سکھوں کے دس گرووں کی تصویریں مطلاً لکھی ہوئی ہیں۔''
عہد حاضر میں قلعہ لاہور تک رسائی بھی آئے روز بدلتی رہتی ہے۔ ترقی کے نام پر لاہور کی قدامت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کی خواہش تو یہی دکھائی دیتی ہے کہ لاہور کو دبئی کی شکل دے دی جائے۔ قلعہ لاہور کے منٹو پارک کی جانب سے آتے ہوئے راستے کے آغاز ہی میں مغربی سیدھ میں سکھوں کی مذہبی اور تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ اس گردوارہ کی شمالی سیدھ میں کرکٹ کا ایک چھوٹا سا سٹیڈیم، عتیق سٹیڈیم کے نام سے موجود تھا۔
اس کو اس کی بنیادوں سے اکھاڑ کر ختم کر دیا گیا۔ سکھوں کی یہ عمارت گردوارہ ڈیرہ صاحب بھی کہلاتی ہیں۔ داخلی دروازے کی جنوبی سیدھ میں سب سے پہلے سمادھ گرو ارجن دیو ہی آتی ہے۔ اس کے کھلے میدان میں سکھوں کا قدیمی جھنڈا آج بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس کو ''کھنڈا'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سمادھ کے داخلی دروازے کے ساتھ مشرقی سیدھ میں آج بھی نیچے کو قدیمی راستہ باؤلی کو جا ملتا ہے۔ ان عمارات تک عام آدمی کی کوئی رسائی نہیں۔ یہاں صرف سکھ مذہب کے لوگوں کو جانے کی اجازت ہے۔
دیگر افراد کو انتظامیہ سے اجازت لے کر داخل کیا جاتا ہے۔ 2015ء کے آخری مہینوں میں سمادھ کے سامنے قائم کئے گئے وہ دفاتر جو تقسیم کے بعد تعمیر کئے گئے تھے ان کو گرا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ پر نئی تعمیرات کا منصوبہ ہے۔ ان عمارات کی نگرانی متروکہ وقف املاک بورڈ کرتا ہے۔ نئی تعمیرات کے باعث مختلف جگہوں پر جب کھدائیاں کی گئیں تو نیچے سے کشتیوں کو لنگرانداز کرنے والے اوزاوں کے ساتھ لمبے لمبے بانس بھی ملے جو کشتیوں کو دریا سے کنارے پر کھینچنے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ دریائے راوی کا اس قدیم شہر سے کتنا گہرا تعلق تھا اس بات کی گواہیاں ان قدیم عمارات کی بنیادوں اور مختلف جگہوں سے ملتی ر ہتی ہیں۔
سمادھی کے باہر دو گلے موجود ہیں جن میں زائرین چندہ ڈالتے ہیں۔ ایک گلہ سیوک کا اور ایک سرکار پاکستان کا ہے۔ سمادھی کی اندرونی عمارت بالکل اسی طرح موجود ہیں جس طرح کنہیا لال نے اپنی لکھت میں ذکر کیا۔آج کل رضوان بٹ اس جگہ کی نگرانی کرتے ہیں جو کہ محکمہ اوقاف کے ملازم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ اوقاف کے زیرنگرانی کچھ تعلیمی ادارے بھی چلائے جاتے ہیں جن میں سے چند ایک کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1- عائشہ ڈگری کالج اسٹیشن
2- بے نظیر ہائر سکینڈری سکول بادامی باغ
3- ٹرسٹ ماڈل سکول روٹی برانڈ روڈ راوی روڈ لاہور
4- نواز شریف سکول اسٹیشن
5- ننکانہ صاحب سکول ننکانہ
سمادھ کے داخلی دروازے اور اوپر کلس دونوں پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہوا ہے اور گرمکھی میں کلام کے ساتھ ساتھ گرو نانک کی تصاویر بھی موجود ہیں۔ سمادھی میں موجود گرنتھ انتہائی عزت و تکریم کے ساتھ رکھا گیا ہے اوراسی عقیدت کے ساتھ پڑھا بھی جاتا ہے۔ سمادھ میں داخلے کے لئے جرابیں تک اتارنا لازم ہے۔ سمادھ کی جنوب مغرب میں گردوارے کی عمارت کو ازسرنو تعمیر کیا جا رہاہے۔
یہاں پر گرو گوبند سے منسلک روایت کے مطابق ایک بڑے برتن میں پانی ڈال کر اس میں ایک ڈوئی کو پانچ سکھ افراد اکٹھا پکڑ کر پھیرتے ہیں۔ اس سے یہ پانی مقدس ہو جاتا ہے۔اگر کوئی سکھ مذہب اختیار کرنا چاہے تو یہ پانی پلا کر اسے سکھ بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں پرانے سکھ وہی مانے جاتے ہیں جو کہ پشتو بھی جانتے ہوں کیونکہ تقسیم کے دوران جو بربادی ہوئی اس کے باعث پنجاب میں موجود اکثریت سکھ ہندوستان چلے گئے اور پنجاب ہی میں موجود اکثریتی مسلمان پاکستان آ گئے۔
گرو ارجن سنگھ مذہب یا سکھ مت کے پانچویں گرو ہیں۔ ان کا جنم 18 وساکھ (بیساکھ) بروز منگل 1610بکرمی بمطابق 1563ء کوگوبند وال کے مقام پر ہوا۔ ان کے والد کا نام گرو رام داس جی تھا اور ان کی والدہ کا نام ماتا بھانی تھا جو کہ تیسرے گرو، گرو امر داس کی صاحبزادی تھیں۔
جب ان کے شوہر گرو رام داس جی انتقال کر گئے تو ان کی جگہ پر ارجن دیو جی کو 1571ء میں گرو کی مسند پر بٹھایا گیا۔ گرو ارجن کی شادی 1644 بیساکھ بکرمی کو چندن سنگھ سوڈی کی صاحبزادی ماتا گنگا کے ساتھ ہوئی اور ان ہی کے بطن سے چھٹے گرو، گرو ہرگوبند جی نے جنم لیا۔ گرو ارجن نے مغل شہنشاہ اکبر اور شہنشاہ جہانگیر دونوں کا عہد دیکھا تھا۔ اکبر نے ہندوستان میں ایک خاص قسم کی مذہبی آزادی اور رواداری روا رکھی تھی۔
اکبر نے سکھ مت کے گرووں کو ایک سہولت یہ بھی دی تھی کہ کچھ زرعی علاقے جو ان سکھوں کی دسترس میں تھے ان کو لیز، لگان یا ٹیکس فری علاقہ قرار دیا ہوا تھا۔ اکبر کے بعد جہانگیر نے بھی یہی حکمت عملی اپنائے رکھی۔ گرو ارجن نے مسند سنبھالتے ہی کچھ ایسے کام کئے جن کی بنیادوں پر سکھ مت کی مضبوط عمارت تعمیر ہوئی۔
ان میں سب سے اہم کام گرووں کے کلام کو اکٹھا کرنا تھا۔ گرو نانک سے شروع ہوئے اشلوک سکھ مذہب میں ''گرُبانی'' کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے بعد دوسرے گرو، گرو انگدیو جی، تیسرے گرو، گرو امر داس جی، چوتھے گرو، گو رام داس جی کا کلام بھی گرُبانی کے نام ہی سے جانا جاتا ہے۔ گرو ارجن نے ان اشلوکوں کو مختلف راگوں اور تالوں کی تقسیم کے ساتھ ترتیب دیا اور اس مجموعہ کلام کو ''آدگرنتھ'' کا نام دیا جاتا ہے۔
گرو ارجن دیو جی نے دوسرا اہم کام یہ کیا کہ انہوں نے سکھوں کی جانب سے دیئے گئے نذرانوں کو ایک خاص طریقہ کار میں پرویا۔ گرو ارجن نے اکٹھی ہونے والی رقم سے دو کام کئے۔ پہلا کام تو یہ کیا کہ انہوں نے سکھ نوجوانوں کی ایک خاص قسم کی فوجی تربیت شروع کی اوراس مقصد کے لئے گھوڑوں اور تلواروں کی خریداری بھی کی جاتی تھی جس سے مختصر عرصہ میں ہزاروں سکھ ایک طاقت کی شکل اختیار کر گئے۔
دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اپنے والد گرو رام داس کے ادھورے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اسی عہد میں گرو ارجن نے امرتسر کے مشہور تاریخی گردوارے (گولڈن ٹیمپل) کی بنیاد رکھی۔ گرو ارجن نے اس بات کی نیت کی تھی کہ وہ اس گردوارے کی بنیاد اس دور کی سب سے نیک اور انسانیت پرست شخصیت سے رکھوائیں گے۔ پورے ہندوستان میں ان کی نگاہ حضرت میاں میرؒ پر پڑی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس گردوارے کا سنگ بنیاد رکھیں۔ حضرت میاں میرؒ نے ان کی درخواست قبول کی اور انہوں نے اس گردوارے کا سنگ بنیاد 1589ء میں رکھا۔
انہی ایام میں جہانگیر اور خسرو کے جھگڑے بڑھتے گئے۔ شہر لاہور کا دیوان جو اس عہد میں وزیر خزانہ بھی تھا اور دیوان نانک چندو کے نام سے جانا جاتا تھا' اس کا گرو جی کے ساتھ اپنی بیٹی کے رشتے پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔ نانک اور پرتھی کی ریشہ دوانیوں کے باعث گرو ارجن تمام عمر مشکل میں رہے۔
دوسری جانب باغی خسرو پکڑا گیا تو جہانگیر نے تیموری روایات اور جہانگیری قانون کے مطابق فیصلے کئے اور باغی کا ساتھ دینے والوں کو کڑی سزائیں دی گئیں۔ دیوان چندو کی سازش اور گرو ارجن کا خسرو سے پیار گرو ارجن کو مغل سرکار کے زیرعتاب لے آیا۔ پروفیسر محمد شجاع الدین نے نقوش لاہور نمبر (ص 60 ) پر اس واقعے کو دکھ بھرے الفاظ میں تحریر کیا ہے۔
''بدقسمتی سے سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو بھی اس لپیٹ میں آ گئے۔ جب باپ کا باغی خسرو لاہور کی جانب آتا ہوا گوبند وال کے پاس ٹھہرا تو گرو جی نے نہ صرف اس کی مالی مدد کی بلکہ اس کے ماتھے پر زعفران کا ٹیکا لگاتے ہوئے اسے آشیرباد دی۔ ظاہر ہے کہ اس سے گرو جی کے تمام معتقد خسرو کے ہواخواہ بن گئے۔ بادشاہ نے خسرو کے بعد ان کی تمام جائیداد ضبط کر لی اور انہیں قتل کرا دیا۔''
گرو ارجن کی وفات کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں۔ سید لطیف نے مرگی کے باعث تحریر کیا ہے۔ مفتی غلام سرور قریشی نے زہر خورانی وجہ بتلائی ہے جبکہ کنہیا لال ہندی اور نور احمد چشتی نے گرو جی کا دریائے راوی میں اشنان کے واقعے کو درست مانا ہے۔ ان کے دریائے راوی میں غوطے کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے تاریخ پنجاب (ص 31) پر اس طرح لکھا ہے۔
''غرض گرو ارجن اس حراست کے ساتھ چندو کے مکان سے دریائے راوی کو روانہ ہوا۔ آخر گرو دریا پر پہنچا اور کپڑے اتار کر صافہ باندھا اور دریا میں کود پڑا۔ پہلے ہی غوطے میں ایسا گم ہوا کہ پھر اس کا نشان کسی نے نہ دیکھا۔ ساعت بھر محافظ منتظر رہے مگر جب پھر بھی گرو پانی سے نہ نکلا تو سب کے سب پانی میں کودے اور پانی میں بہت تلاش کیا، کہیں سراغ نہ ملا۔ گرو ارجن نے چوبیس سال مسند نشینی کی۔ آخر 1663 بکرمی مطابق سنہ 1606 عیسوی و سنہ 1024 ہجری اس جہان فانی سے کوچ کیا۔''
ان کی موت کے بعد جہانگیر کے سامنے شاید اصل حالات آئے یا کوئی سیاسی مصلحت تھی کہ اس نے گرو ارجن کے بیٹے گرو ہرگوبند رائے جو کہ چھٹے گرو تھے، دیوان چندو کو ان کے حوالے کر دیا۔ اس سارے معاملے کا احوال مولوی نور احمد چشتی نے طبقات چشتی (ص 132) پر اس طرح بیان کیا ہے۔
''اس بات سے اس پر قہر سلطانی ہوا، گرو صاحب نے قصاص کا دعویٰ اس پرکیا۔ بادشاہ نے چندو لعل کو قید کر کے حوالہ گرو ہرگوبند صاحب کر دیا کہ جس طرح آپ کی مرضی ہو۔ اس سے اپنے باپ کا بدلہ لیں۔ ہم اس سے بری ہوئے۔''
گرو ارجن نے تمام عمر انسانیت کا درس دیا۔ وہ بادشاہی اور جاگیردارانہ نظام کی ایک خاص سمجھ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ مسلمان صوفیاء کرام کے ساتھ بھی خاص تعلقات تھے۔ ان کے کلام کا یہ نمونہ ان کی سوچ کی غمازی کرتا ہے:
کوئی بولے رام رام کوئی بولے خدا
کوئی سیوے گوسیاں کوئی اللہ
کارن کریم کرپا دھار رحیم
کوئی نہاوے تیرتھ کوئی حج نوں جا
سکھ روایات میں بدھو کا آواسے منسوب کرامات گرو جی ہی کی مانی جاتی ہیں۔ چونا منڈی میں دیوان خانہ اور سنہری مسجد کے ساتھ گردوارہ باؤلی صاحب کی عمارات بھی گرو ارجن ہی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ روایات میں یہ بھی ہے کہ انہیں ایک مرتبہ دیوان چندو کے اصرار پر موچی دروازے کے اندر موجود ''لال کھوہ'' (سرخ کنواں) میں نہانا بھی پڑا۔ اسی اشنان کے باعث سکھ اس جگہ کو بھی گرو ارجن کا گردوارہ مانتے ہیں۔
احوال عمارت سمادھ:
گرو ارجن کی نعش سرکاری اہلکار بازیاب نہ کر سکے۔ سکھ مذہب میں ان کی اس شہادت کو کرامت کے طور پر مانا گیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے اور جانشین گرو ہرگوبند جی جو کہ سکھ مذہب کے چھٹے گرو بھی تھے۔
ان کی ہدایت پر قلعے کے ساتھ بہتے دریائے راوی کے اسی مقام پر ایک چھوٹی سی سمادھ بطور یادگار تعمیر کر دی گئی اور اس کو انتہائی متبرک مانا گیا۔ اس کے بعد برسہابرس سکھ مذہب کے ماننے والے یہاں آ کر ماتھا ٹیکتے رہے۔ جب رنجیت سنگھ کی سرکار آئی تو اس نے پرانی سمادھ کا احاطہ بڑھاتے ہوئے ایک قابل دید سمادھی تعمیر کروائی۔ اس کی تفصیل کنہیا لال ہندی نے تاریخ لاہور (ص 217) پر اس طرح بیان کی ہے۔
''پہلے یہ مکان مختصر تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت یہ عالی شان مکان بنایا گیا۔ احاطہ مکان کا پختہ چونہ گچ منڈیر کا تھا، تین دروازے ہیں۔ دو بند رہتے ہیں اور مشرقی دروازہ کلاں سے آمد ورفت ہوتی ہے۔ اس کی پیشانی پر بہ خط گرمکھی حروف لکھے ہوئے ہیں۔ تصویر بھی گرو ارجن کی تحریر ہے۔
جب دروازے سے اندر جائیں تو بہ طرفِ جنوب ایک مکان چونہ گچ بنا ہے۔ ایک دروازہ اس کا غرب کو اور ایک شمال کو ہے۔ اس مکان کو سکھوں کی دیگ کہتے ہیں۔ اس باعث سے کہ اس میں ایک دروازہ پتھر کا زمین کے اندر گاڑا ہوا ہے اور ایک لکڑی موٹی جس کو ڈنڈا کہتے ہیں، بھنگ گھوٹنے کے واسطے پاس رکھی ہے۔ سکھ آ کر اس دورے میں سکہہ یعنی بھنگ گھوٹتے اور پیتے ہیں۔
اس کے جنوب کی طرف متصل دیوار شرق کے ایک سہ درہ دالان ہے۔ اس کے باہر گوشہ نیرت میں چاہ کلاں باؤلی یعنی چاہ پختہ وار بنا ہوا ہے۔ اس کی باؤلی کا زینہ شمال سے چل کر جنوب کی طرف چاہ میں جا ملتا ہے۔ گیارہ سیڑھیاں نیچے اتریں تو زمین پر ایک سل سنگ سرخ کی لگی ہوئی ہے۔ وہاں کھڑا ہو کر آدمی چاہ سے پانی لے سکتا ہے۔ گوشہ ایساں میں قد آدم چار سماد ھیں بنی ہیں۔ ایک سمادھ ان میں سے زوجہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی والدہ کی ہے۔
شمال کی طرف بھی چند کوٹھڑیاں سکھوں کے آرام کے واسطے بنی ہیں۔ جنوب کی سمت کو چار دیواری کے اندر گنبد عالی شان سمادھ کا پختہ چونہ گچ بنا ہوا ہے۔ شمال کی طرف مکان سمادھ کے ایک عالی شان بلکہ ایک دالان کے تین دالان ہیں۔ اس میں گرنتھ صاحب، بہ آدابِ تمام رکھا رہتا ہے۔ سمادھ کا چبوترہ پختہ چونہ گچ ہے۔ چبوترے کے گوشہ ایساں میں ایک اور چھوٹا چبوترہ ہے۔
اس پر جھنڈا نصب ہے۔ خاص سمادھ کا مکان مربع پختہ عمارت کا اور دروازہ شمالی سمت کو ہے۔ مندر کے اندر میانہ میں خاص سمادھ کا چبوترہ سنگ مرمر کا ہے۔ کٹہرے اس کو سنگ مرمر کے لگے ہیں۔ یہ مقام نہایت عجیب وغریب عمارت کا تعمیر ہوا ہے۔ تمام مکان نقشوں اور تصویروں سے سجایا گیا ہے۔ چھت مطلاً آئینہ دار ہے۔ آئینے کے بیل بوٹے نہایت خوبی کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔
سمادھ کے اوپر جانے کے لئے زینہ پختہ بنا ہوا ہے۔ جب اوپر جائیں تو درمیانی گنبد بلند کے اردگرد انسان پھر سکتا ہے اور چاروں دیواروں کے گوشوں کے اوپر چار گنبدیاں کلاں اور دیواروں کی منڈیروں پر انیس انیس گنبدیاں خرد کلس دار چار طرف بنی ہیں اور بیچ میں اونچا گنبد سمادھ کا نہایت مقطع معلوم دیتا ہے۔
گنبد کی صورت پہاڑی دار مدور ہے اور کلس طلائی بڑے گنبد پر اور چاروں گوشوں کی گنبدیوں اور سات سات گنبدیوں منڈیروں پر لگائے گئے ہیں۔ گرنتھ رکھنے کا دالان بھی نہایت مکلف بنا ہے۔ اس میں ایک آوہ گرنتھ اور دوسرا گرو گوبند سنگھ کا گرنتھ رکھا رہتا ہے اور طاقچوں میں سکھوں کے دس گرووں کی تصویریں مطلاً لکھی ہوئی ہیں۔''
عہد حاضر میں قلعہ لاہور تک رسائی بھی آئے روز بدلتی رہتی ہے۔ ترقی کے نام پر لاہور کی قدامت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کی خواہش تو یہی دکھائی دیتی ہے کہ لاہور کو دبئی کی شکل دے دی جائے۔ قلعہ لاہور کے منٹو پارک کی جانب سے آتے ہوئے راستے کے آغاز ہی میں مغربی سیدھ میں سکھوں کی مذہبی اور تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ اس گردوارہ کی شمالی سیدھ میں کرکٹ کا ایک چھوٹا سا سٹیڈیم، عتیق سٹیڈیم کے نام سے موجود تھا۔
اس کو اس کی بنیادوں سے اکھاڑ کر ختم کر دیا گیا۔ سکھوں کی یہ عمارت گردوارہ ڈیرہ صاحب بھی کہلاتی ہیں۔ داخلی دروازے کی جنوبی سیدھ میں سب سے پہلے سمادھ گرو ارجن دیو ہی آتی ہے۔ اس کے کھلے میدان میں سکھوں کا قدیمی جھنڈا آج بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس کو ''کھنڈا'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سمادھ کے داخلی دروازے کے ساتھ مشرقی سیدھ میں آج بھی نیچے کو قدیمی راستہ باؤلی کو جا ملتا ہے۔ ان عمارات تک عام آدمی کی کوئی رسائی نہیں۔ یہاں صرف سکھ مذہب کے لوگوں کو جانے کی اجازت ہے۔
دیگر افراد کو انتظامیہ سے اجازت لے کر داخل کیا جاتا ہے۔ 2015ء کے آخری مہینوں میں سمادھ کے سامنے قائم کئے گئے وہ دفاتر جو تقسیم کے بعد تعمیر کئے گئے تھے ان کو گرا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ پر نئی تعمیرات کا منصوبہ ہے۔ ان عمارات کی نگرانی متروکہ وقف املاک بورڈ کرتا ہے۔ نئی تعمیرات کے باعث مختلف جگہوں پر جب کھدائیاں کی گئیں تو نیچے سے کشتیوں کو لنگرانداز کرنے والے اوزاوں کے ساتھ لمبے لمبے بانس بھی ملے جو کشتیوں کو دریا سے کنارے پر کھینچنے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ دریائے راوی کا اس قدیم شہر سے کتنا گہرا تعلق تھا اس بات کی گواہیاں ان قدیم عمارات کی بنیادوں اور مختلف جگہوں سے ملتی ر ہتی ہیں۔
سمادھی کے باہر دو گلے موجود ہیں جن میں زائرین چندہ ڈالتے ہیں۔ ایک گلہ سیوک کا اور ایک سرکار پاکستان کا ہے۔ سمادھی کی اندرونی عمارت بالکل اسی طرح موجود ہیں جس طرح کنہیا لال نے اپنی لکھت میں ذکر کیا۔آج کل رضوان بٹ اس جگہ کی نگرانی کرتے ہیں جو کہ محکمہ اوقاف کے ملازم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ اوقاف کے زیرنگرانی کچھ تعلیمی ادارے بھی چلائے جاتے ہیں جن میں سے چند ایک کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1- عائشہ ڈگری کالج اسٹیشن
2- بے نظیر ہائر سکینڈری سکول بادامی باغ
3- ٹرسٹ ماڈل سکول روٹی برانڈ روڈ راوی روڈ لاہور
4- نواز شریف سکول اسٹیشن
5- ننکانہ صاحب سکول ننکانہ
سمادھ کے داخلی دروازے اور اوپر کلس دونوں پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہوا ہے اور گرمکھی میں کلام کے ساتھ ساتھ گرو نانک کی تصاویر بھی موجود ہیں۔ سمادھی میں موجود گرنتھ انتہائی عزت و تکریم کے ساتھ رکھا گیا ہے اوراسی عقیدت کے ساتھ پڑھا بھی جاتا ہے۔ سمادھ میں داخلے کے لئے جرابیں تک اتارنا لازم ہے۔ سمادھ کی جنوب مغرب میں گردوارے کی عمارت کو ازسرنو تعمیر کیا جا رہاہے۔
یہاں پر گرو گوبند سے منسلک روایت کے مطابق ایک بڑے برتن میں پانی ڈال کر اس میں ایک ڈوئی کو پانچ سکھ افراد اکٹھا پکڑ کر پھیرتے ہیں۔ اس سے یہ پانی مقدس ہو جاتا ہے۔اگر کوئی سکھ مذہب اختیار کرنا چاہے تو یہ پانی پلا کر اسے سکھ بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں پرانے سکھ وہی مانے جاتے ہیں جو کہ پشتو بھی جانتے ہوں کیونکہ تقسیم کے دوران جو بربادی ہوئی اس کے باعث پنجاب میں موجود اکثریت سکھ ہندوستان چلے گئے اور پنجاب ہی میں موجود اکثریتی مسلمان پاکستان آ گئے۔