نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جمعہ کو کابل سے دہلی جاتے ہوئے لاہور اچانک پہنچ گئے۔


Editorial December 27, 2015
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جمعہ کو کابل سے دہلی جاتے ہوئے لاہور اچانک پہنچ گئے۔ فوٹو: اے ایف پی

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جمعہ کو کابل سے دہلی جاتے ہوئے لاہور اچانک پہنچ گئے۔ لاہور ایئرپورٹ پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کابل سے افغانستان کے دورے کے دوران ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ دہلی واپس جاتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے ملنے کے لیے لاہور رکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنے ''آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ'' میں کہا تھا کہ میں جمعہ کی سہ پہر کو لاہور وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کروں گا جہاں میں دہلی واپس جاتے ہوئے رکوں گا۔

لاہور ایئرپورٹ سے انھیں بذریعہ ہیلی کاپٹر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا رائیونڈ لایا گیا جہاں دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے بعد وزیراعظم نریندر مودی اسی رات واپس دہلی چلے گئے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دونوں وزرائے اعظم نے تعلقات کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

سرکاری ٹی وی نے دفتر خارجہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے لاہور میں ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ روابط بڑھانے، تعلقات کی بہتری اور امن کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ امن کا مقصد پاک بھارت عوام کی خوشحالی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے تعلقات کی بہتری کے لیے باہمی کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بھارتی وزیراعظم کی دہلی روانگی کے بعد ایئرپورٹ پر میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم نریندر مودی کا یہ دورہ خیرسگالی کا دورہ تھا۔ اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ان کے سلامتی کے مشیر بھی موجود تھے۔ یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ سیکریٹری خارجہ کا یہ کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو انھوں نے ان کی سالگرہ کی مبارکباد دی۔

وزیراعظم نریندر مودی کو وزیراعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی کا پتہ نہیںتھا۔ بہرحال معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، بھارتی وزیراعظم کا دورہ افغانستان کے بعد کابل سے دہلی جاتے ہوئے لاہور آنا اور یہاں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مثبت پیشرفت ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستان آمد اور وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کو مثبت قرار دیا ہے۔ اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر بھی ملاقات ہو چکی ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بظاہر اچانک لاہور پہنچے ہیں لیکن سفارتی امور کی نزاکتوں اور حساسیت کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ایسی ملاقاتیں کیسے ہوتی ہیں۔ بہرحال اس ملاقات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخی اور تناؤ میں کمی آئے گی۔ جب سے نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں، ان کی پاکستان کے بارے میں پالیسی جارحانہ رہی ہے۔ نریندر مودی اپنے جلسوں میں بھی پاکستان کے بارے میں خاصی جارحانہ زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔

اب ایسا لگتا ہے کہ صورتحال میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ہارٹ آف دی ایشیا کانفرنس کے موقع پر بھارتی کی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی اسلام آباد تشریف لائی تھیں۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ان کا پاکستان آنا بھی ایک مثبت پیشرفت تھی۔ سیاسی ماہرین کا اندازہ تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات آگے بڑھیں گے۔ پچھلے دنوں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی دہلی گئے تھے جہاں انھوں نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان مثبت پیشرفت چل رہی تھی۔

اب وزیراعظم نریندر مودی لاہور تشریف لے آئے اور انھوں نے رائیونڈ میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی برف مزید پگھلی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح پر باقاعدہ طور پر شیڈولڈ ملاقات ہوں۔

دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان باقاعدہ ملاقات ہو تو اس کے نتائج زیادہ بہتر نکلیں گے۔ دونوں ملکوں کو خیرسگالی کا پیغام دینے کے لیے خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر جامعہ مذاکرات کا سلسلہ فوری طور پر شروع کرنا چاہیے۔ اس کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان باقاعدہ ملاقات ہو جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تمام متنازعہ امور پر بات چیت ہو۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جب تک متنازعہ امور پر نتیجہ خیز بات چیت نہیں ہوتی اور ان متنازعہ امور کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا، اس وقت تک اچانک ملاقاتیں بے فائدہ رہیں گی۔ ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود تنازعات جوں کے توں ہی رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ حالیہ اچھے ماحول سے فائدہ اٹھائیں اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے عملی قدم اٹھائیں۔ جب تک تنازعات طے نہیں ہوتے، پاکستان اور بھارت کے درمیان پائیدار بنیادوں پر امن کا قیام ممکن نہیں ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں