یہ قاتل پروٹوکول
آخری خبریں آنے تک وہ زندہ سلامت تھا اور تازہ ترین خبروں میں بھی وہ زندہ ہے
FAISALABAD:
آخری خبریں آنے تک وہ زندہ سلامت تھا اور تازہ ترین خبروں میں بھی وہ زندہ ہے حالانکہ اس نے کسی قسم کے پروٹوکول اور حفاظتی دستوں کے بغیر لاہور کی ایک معروف مارکیٹ کا دورہ کیا اور وہاں موجود تھانے تک کا معائنہ بھی کیا اور کافی وقت اس مارکیٹ میں گھوما پھرا۔ اگر میں کرایہ دار قسم کا لاہوری نہ ہوتا جو کچھ پہلے تک اسی غالب مارکیٹ کا رہائشی تھا تو اس سے میرے جیسے غیرپروٹوکولی کی ملاقات بھی ہو سکتی تھی۔
گھر کا سارا سامان اسی غالب مارکیٹ سے آتا تھا اور 'ایکسپریس' کا دفتر بھی چند قدم کے فاصلے پر تھا لیکن میاں شہباز شریف کا یہ دورہ پاکستانیوں کو یہ بتانے کے لیے تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی اور موت کا اختیار اب تک اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے اور کسی تھکے ماندے نڈھال کندھوں کے سہارے گردن کو تھامے ہوئے کانسٹیبل کے پاس نہیں ہے۔ خدا نے ہماری ایمانی کمزوری کو بھانپ کر چند معاملات کے فیصلے اپنے پاس رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
جن میں زندگی اور موت بھی ہے۔ اگر ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی کسی ایک مختصر ترین لمحے کے لیے بھی زندگی اور موت کو کسی اور کے حوالے کر دیں تو ہم اتنے وقت کے لیے مسلمان نہیں رہتے بلکہ ہمارے یہ پروٹوکول وغیرہ اس بات کا وج گج کے اعلان ہوتے ہیں کہ ہم اللہ کی زندگی و موت کی بات پر یقین نہیں کرتے اور اپنی پولیس وغیرہ پر اعتبار کرتے ہیں جسے اپنے کسی وی آئی پی کی زندگی کی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں یعنی ہم زندگی اور موت کا خدائی اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں یعنی خدا بن بیٹھتے ہیں مگر ایسی کئی مثالیں ہیں کہ ہمارے بڑے جن سے ہم نے اسلام کی تعلیمات حاصل کی ہیں، کچھ اور قسم کے لوگ تھے۔
مسجد میں ایک صحن میں ایک ایسا شخص بھی بیٹھا تھا جسے دیکھ کر حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ شخص مجھے قتل کر دے گا۔ خلیفہ وقت کی زبان سے یہ سن کر حضرت عمرؓ کے قریب موجود صحابہ نے کہا کہ اسے ابھی حراست میں لے لیتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے خلیفہ اور وہ بھی حضرت عمرؓ کی بات کے سچ ہونے پر یقین تھا لیکن قانون اور انصاف کے پابند خلیفہ نے جواب دیا مگر اس نے ابھی تک ایسا کوئی فعل کیا تو نہیں کہ آپ اسے گرفتار کر لیں۔ بعد میں حضرت عمرؓ کی بات سچ ثابت ہوئی اور ان کے شک کے مطابق اسی ایرانی شخص مسمی فیروز نے حضرت عمرؓ کو شہید کر دیا۔
ہمارے پروٹوکول کے اس مسلسل چلنے والے ڈرامے نے کسی کی حفاظت تو کی ہے یا نہیں، کئی زندگیاں خطرے میں ضرور ڈال دی ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال تو ایک معصوم بچی کی ہے جسے پورے پاکستان نے بھاگتے دوڑتے باپ کی بانہوں میں دیکھا جو اسپتال تک تو پہنچ گیا مگر اسے اسپتال کے اندر کسی نے جانے نہ دیا۔
وہ ہاتھوں میں جاں بلب بچی کو اٹھا کر ٹکریں مارتا رہا لیکن کسی نے دروازہ نہ کھولا کیونکہ اس وقت شہزادہ بلاول اور ان کا وزیر اعلیٰ اس اسپتال کے ایک شعبے کا افتتاح کر رہے تھے، بالکل اسی وقت جب اس اسپتال میں علاج کے لیے آنے والی بچی زندگی و موت کی کشمکش میں تھی اور اس کشمکش میں موت غالب آ گئی اور موت کی پوری مدد اس پروٹوکول نے کی جس نے ایک مریض بچی کو ڈاکٹر تک جانے نہ دیا۔ بعد میں ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر بچی اندر آ جاتی تو ہم شاید اسے بچا لیتے لیکن کیسے بچاتے جب کہ پروٹوکول بھی وہاں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود نہ ہوتا جو ہر ایک کا راستہ روک رہا تھا اور اسپتال کے دروازے بند تھے۔
ڈاکٹر بھی اندر اسپتال میں بے بس کھڑے تھے۔ بچی بسمہ جو ایک غریب کی بیٹی تھی، کسی بھی رکاوٹ کا مقابلہ نہ کر سکی اور اس کے دکھی باپ کی غربت کا یہ حال تھا کہ صاحبان اقتدار نے جب اس سے کہا کہ تم بچی کو بھول جاؤ ہم تمہیں ایک سرکاری نوکری دے دیتے ہیں تو اس نے یہ نوکری قبول کر لی۔ بیٹی تو چلی گئی لیکن بھوک گھر میں بدستور موجود تھی اور پکی اور سرکاری نوکری اس کا ایک علاج تھی۔ غریبی بچوں کے دکھ بھی دبا دیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر جناب بلاول اپنے پروٹوکول میں اتنی گنجائش رکھنے کی اجازت دے دیتے کہ کوئی مریض کسی راستے سے اسپتال میں داخل ہو سکتا ہے تو اس سے ان کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور جہاں تک زندگی اور موت کا تعلق ہے جیسا کہ کہا ہے کہ یہ دونوں چیزیں صاف الفاظ میں اللہ نے اپنے پاس رکھ لی ہیں اور اپنی کتاب میں اس کا اعلان بھی کر دیا ہے تو اگر ہم کلام پاک کو مانتے ہیں تو پھر اللہ کے کسی واضح فرمان کو بھی تسلیم کرنے میں تأمل نہیں کرنا چاہیے۔ بلاول صاحب کے نانا اور ان کی والدہ کی سیکیورٹی تھی یا نہیں اور کتنی تھی دونوں مجبوری کی موت میں چلے گئے اور بلاول روتے رہ گئے۔
یہ پروٹوکول یعنی حفاظتی انتظامات بھی عجیب سلسلہ ہے۔ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی مکمل پروٹوکول کے ساتھ جا رہی تھیں کہ ان کے ایک باڈی گارڈ نے ان کو ہلاک کر دیا یعنی پروٹوکول ہلاکت کا باعث بن گیا یا حفاظت کرنے والا خود قاتل بن گیا۔ اگر اندرا گاندھی سکھوں پر ظلم نہ کرتیں تو سکھوں میں یہ انتقامی کیفیت پیدا نہ ہوتی۔ مجھے آنجہانی خوشونت سنگھ نے بتایا کہ میں نے اندرا جی کو بہت روکا کہ وہ سکھوں کے خلاف اس قدر سخت اقدامات نہ کریں جس سے ان کے اندر بدلے کا جذبہ پیدا ہو کیونکہ سکھ قوم ایک بہادر اور بدلہ لینے والی قوم ہے لیکن اندرا جی نے میری کوئی بات نہ مانی جب کہ وہ مجھ پر اعتماد کرتی تھیں۔
سکھوں پر جو ظلم ہوا وہ اس میں مرتے تو گئے لیکن سب کچھ یاد بھی رکھتے گئے چنانچہ جب امن قائم ہوا تو اندرا گاندھی کے باڈی گارڈ میں موجود ایک سکھ نے موقع پا کر ان کو قتل کر دیا اور اپنی قوم کے قتل عام کا بدلہ لے لیا۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستانی کوئی مردہ قوم نہیں ہیں اور زیادتی کو یاد رکھتے ہیں۔
اگر کوئی حکمران یا بڑا آدمی اور منصب دار ان پر زیادتی کرتا ہے تو وہ توفیق بھر اس کا بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور یہیں سے حفاظتی پروٹوکول کا چکر شروع ہوتا ہے جو کسی کے طمطراق کی وجہ بھی بن جاتا ہے۔ بہرحال پروٹوکول بھی جاری رہے گا اور بسمہ بھی فوت ہوتی رہے گی۔ شکر یہ ہے صوبہ خیبر پختونخوا کا جہاں یہ پروٹوکول سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے دوسرے صوبے بھی اس کی پیروی کرنے پر تیار ہو جائیں۔ ویسے یہ تو کسی حکومت کا ایک فالتو بوجھ اتارنے والی بات ہے اور بے گناہوں کے قتل سے بچ جانے والی بات بھی ہے۔