جھوٹ سننے کے عادی مجرم
افلاطون نے کہا ہے ’’جو آج مفت کی نصیحت قبول نہیں کرے گا، کل اسے مہنگے داموں افسوس خریدنا پڑیگا‘
افلاطون نے کہا ہے ''جو آج مفت کی نصیحت قبول نہیں کرے گا، کل اسے مہنگے داموں افسوس خریدنا پڑیگا''۔ اب جھوٹ بولنے والوں کی بات کیا کیجیے، جب ہم خود جھوٹ سننے کے عادی مجرم ہو چکے ہیں، ہمیں اب جھوٹ سننے میں ہی تسکین ملتی ہے، جھوٹ سن کر ہی ہمیں نیند آتی ہے۔
جس روز جھوٹ نہیں سنیں تو اسے سننے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، ہمار ی حالت ہیروئین پینے والوں جیسی ہو گئی ہے کہ جب جھوٹ سننے میں دیر ہو جاتی ہے اور پہلے جھوٹ کا نشہ ٹوٹنے لگتا ہے، تو ہم اپنے جسموں کو نوچتے ہوئے ایک ایک سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں کہ خدا کے واسطے ہمیں جھوٹ سنا دو، کوئی بھی جھوٹ کیسا بھی جھوٹ، لیکن ہو وہ جھوٹ ہی، تا کہ ہمیں چین مل سکے، سکون مل سکے، تسکین مل سکے۔
ایک محفل میں جس میں فیض احمد فیض بھی موجود تھے، باتیں ہو رہی تھیں کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا، کسی نے کہا انارکی ہو جائے گی، کسی کے خیال میں بڑے پیمانے پر خون خرابہ اور کچھ کے خیال میں ملک مزید بھی ٹوٹ سکتا ہے، ایسے میں فیض صاحب کی رائے پوچھی گئی تو انھوں نے اپنے مخصو ص انداز میں کہا کہ بھئی میرے خیال میں اس سے بھی برا ہو گا۔ سب نے حیران ہو کر پوچھا وہ کیسے؟
فیض صاحب نے جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ ملک ایسا ہی چلتا رہے گا۔ فیض صاحب کا اس وقت کا ڈر آج ہمارے لیے ڈرائونی چڑیل بن کر رہ گیا ہے، جو ہر موڑ پر آ کر ہم پر اس بری طرح سے ہنستی ہے کہ دل دہل کے رہ جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے آج بھی سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے، جیسا فیض صاحب کے وقت چل رہا تھا، اگر آج بھی کسی دوسرے فیض احمد فیض سے پوچھ کر دیکھ لو، وہ بھی وہی کچھ کہیں گے جو فیض احمد فیض بول چکے تھے۔
برسوں بعد بھی کچھ نہیں بدلا، سب کا سب ویسا کا ویسا ہی ہے، جیسا برسوں پہلے تھا۔ پہلے بھی لوگ جھوٹی کہانیوں میں مست تھے، آج بھی ان ہی کہانیوں میں مست ہیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں فیض صاحب کے زمانے کے حکمرانوں کے بیانات اٹھا کر پڑھ لیں اور آج کے حکمرانوں کے بیانات کو بھی دیکھ لیں۔ اگر ذرا برابر فریق ملے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔۔
اس وقت کے عام لوگوں کی زندگیوں کی چھوٹی چھوٹی کہانیوں پر نظر ڈال لیں اور آج کے عام لوگوں کی زندگیوں کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو فرق صرف ناموں کا ہی ملے گا، جب کہ کہانیاں جوں کی توں ہوں گی، اگر آپ کسی بھی طرح سے اس وقت کی گلیوں، محلوں، چوراہوں اور گھروں میں بیٹھے لوگوں کی باتیں سن سکتے ہیں تو سن کر دیکھ لیں۔ اور ساتھ ہی آج ملک کی گلیوں، محلوں، چوراہوں میں پھر کر دیکھ لیں۔
تو آپ سکتے میں آ جائیں گے کہ سب کی سب باتیں ویسی کی ویسی ہو رہی ہیں، لوگ وعدوں، دعوئوں، کہانیوں پر خوب مست ہو رہے ہیں، حکمرانوںکو دل کھول کر داد پہ داد دے رہے ہیں، ہر آنے والوں کا زور زور سے تالیاں بجا بجا کر استقبال کر رہے ہیں، اور جانے والوں کو جی بھر بھر کر برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے شعور میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے لیکن ہم نے جہاں ان کی دیگر اور باتیں غلط ثابت کی ہیں، ان کی یہ بات بھی ہم نے غلط ثابت کر دی ہے۔
ہم 68 سال پہلے بھی ایسے ہی تھے، جیسے آج ہیں۔ ہماری ہی وجہ سے دنیا کے بہت سے نامور ماہر نفسیات اپنا پیشہ ترک کر کے آج کل چائے کا ہوٹل چلا رہے ہیں اور جب کوئی غلطی سے ان کے سامنے نفسیات کی بات کر بیٹھتا ہے تو پھر وہ صیحح سلامت واپس نہیں جاتا ہے یا تو ایمبولینس میں جاتا ہے یا اسے جانے کے لیے چند لوگوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔
اصل میں ہم تبدیل ہونا اور وقت کے ساتھ چلنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، بقول ہمارے، تبدیل ہونیوالے چھچھورے ہوتے ہیں، کمزور اور عورتوں کی خصلت والے ہوتے ہیں، جب کہ ڈٹے رہنا، اپنی بات پر قائم رہنا مردوں کی شان ہے، چاہے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے، چاہے کتنی ہی بربادی کیوں نہ ہو جائے۔ نہ ہمارے بزرگ کبھی بدلے تھے اور نہ ہم بدلیں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم تبدیل ہو جائیں اور وقت کے ساتھ چلیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
اگر اس نے یہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ایسی منہ کی کھائے گا کہ پھر کبھی اپنا منہ دوبارہ دکھا نے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ ایک بات جس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ ایک بہت سنجیدہ مسئلہ بڑی ہی خاموشی کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے، یہ کہ لوگ ایک ہی قسم کے جھوٹ یعنی ملک میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے، دو تین سال میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا، ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، عوام قربانیاں دینے کے لیے تیار ہو جائیں، پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں اب بھی کم ہیں، ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کو ختم کر دیں گے۔
ملک اب مزید کرپشن اور لوٹ مار کا متحمل نہیں ہو سکتا، ملک سے غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، ملک میں اچھی طرز حکمرانی قائم کریں گے اور اقربا پروری کا خاتمہ کر دیں گے۔ خاندانی سیاست کو دفن کر دیں گے۔ تعلیم کو عام کریں گے، صحت کی سہولیات ہر خاص و عام کو مفت مہیا کریں گے، ہم عوام کے خادم ہیں، وغیر ہ وغیرہ، سے اب اکتانے لگے ہیں۔ جھوٹ بولنے والوں سے درخواست ہے کہ خدارا وہ وقت کے ساتھ ساتھ چلیں، وہ اپنی نہ سہی کم از کم وقت کی ہی عزت کر لیں، چونکہ یہ بیسویں صدی ہے۔
اس لیے جھوٹ بھی بیسویں صدی کے عین مطابق ہونے چاہییں، نا کہ انیسویں صدی کے مطابق تا کہ ایک تو سننے والے اکتاہٹ اور یکسانیت کا شکار نہ ہوں اور چونکہ بیسویں صدی کے جھوٹ انتہائی دلکش اور دل لبھانے والے ہوں گے تو سننے والوں کو بھی لطف اور سرور حاصل ہوتا رہے گا اور وہ اس کے سریلی سروں میں خوب جھومتے رہیں گے۔یہ میں آپ کو مفت کی نصیحت دے رہا ہوں، لے لیجیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کل آپ کو مہنگے دام افسوس خریدنا پڑجائے اور جاگنے والے جاگ جائیں، بند کان کھل جائیں، زبانوں پر پڑے تالے ٹوٹ جائیں اور جھوٹ کی وہ مٹی پلید ہو جائے کہ جس کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا ہے۔
یاد رہے کہ کبھی بدلنے میں بھی دیر نہیں لگتی ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ آج ہو رہا ہے، ویسا کل بھی ہوتا رہے، جب جاگنے والے جاگتے ہیں تو وہ زمین پر قیامت ہوتی ہے، جیسی کہ فرانس اور روس میں ہو چکی ہے اور قیامت ہمیشہ گناہ گاروں اور جھوٹوں پر بڑی ہی سخت ہوتی ہے، اس روز صرف سچ ہی سچ ہوتا ہے اور وہ جھوٹ کے پیچھے ہوتا ہے۔ آگے آپ کی مرضی۔
جس روز جھوٹ نہیں سنیں تو اسے سننے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، ہمار ی حالت ہیروئین پینے والوں جیسی ہو گئی ہے کہ جب جھوٹ سننے میں دیر ہو جاتی ہے اور پہلے جھوٹ کا نشہ ٹوٹنے لگتا ہے، تو ہم اپنے جسموں کو نوچتے ہوئے ایک ایک سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں کہ خدا کے واسطے ہمیں جھوٹ سنا دو، کوئی بھی جھوٹ کیسا بھی جھوٹ، لیکن ہو وہ جھوٹ ہی، تا کہ ہمیں چین مل سکے، سکون مل سکے، تسکین مل سکے۔
ایک محفل میں جس میں فیض احمد فیض بھی موجود تھے، باتیں ہو رہی تھیں کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا، کسی نے کہا انارکی ہو جائے گی، کسی کے خیال میں بڑے پیمانے پر خون خرابہ اور کچھ کے خیال میں ملک مزید بھی ٹوٹ سکتا ہے، ایسے میں فیض صاحب کی رائے پوچھی گئی تو انھوں نے اپنے مخصو ص انداز میں کہا کہ بھئی میرے خیال میں اس سے بھی برا ہو گا۔ سب نے حیران ہو کر پوچھا وہ کیسے؟
فیض صاحب نے جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ ملک ایسا ہی چلتا رہے گا۔ فیض صاحب کا اس وقت کا ڈر آج ہمارے لیے ڈرائونی چڑیل بن کر رہ گیا ہے، جو ہر موڑ پر آ کر ہم پر اس بری طرح سے ہنستی ہے کہ دل دہل کے رہ جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے آج بھی سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے، جیسا فیض صاحب کے وقت چل رہا تھا، اگر آج بھی کسی دوسرے فیض احمد فیض سے پوچھ کر دیکھ لو، وہ بھی وہی کچھ کہیں گے جو فیض احمد فیض بول چکے تھے۔
برسوں بعد بھی کچھ نہیں بدلا، سب کا سب ویسا کا ویسا ہی ہے، جیسا برسوں پہلے تھا۔ پہلے بھی لوگ جھوٹی کہانیوں میں مست تھے، آج بھی ان ہی کہانیوں میں مست ہیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں فیض صاحب کے زمانے کے حکمرانوں کے بیانات اٹھا کر پڑھ لیں اور آج کے حکمرانوں کے بیانات کو بھی دیکھ لیں۔ اگر ذرا برابر فریق ملے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔۔
اس وقت کے عام لوگوں کی زندگیوں کی چھوٹی چھوٹی کہانیوں پر نظر ڈال لیں اور آج کے عام لوگوں کی زندگیوں کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو فرق صرف ناموں کا ہی ملے گا، جب کہ کہانیاں جوں کی توں ہوں گی، اگر آپ کسی بھی طرح سے اس وقت کی گلیوں، محلوں، چوراہوں اور گھروں میں بیٹھے لوگوں کی باتیں سن سکتے ہیں تو سن کر دیکھ لیں۔ اور ساتھ ہی آج ملک کی گلیوں، محلوں، چوراہوں میں پھر کر دیکھ لیں۔
تو آپ سکتے میں آ جائیں گے کہ سب کی سب باتیں ویسی کی ویسی ہو رہی ہیں، لوگ وعدوں، دعوئوں، کہانیوں پر خوب مست ہو رہے ہیں، حکمرانوںکو دل کھول کر داد پہ داد دے رہے ہیں، ہر آنے والوں کا زور زور سے تالیاں بجا بجا کر استقبال کر رہے ہیں، اور جانے والوں کو جی بھر بھر کر برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے شعور میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے لیکن ہم نے جہاں ان کی دیگر اور باتیں غلط ثابت کی ہیں، ان کی یہ بات بھی ہم نے غلط ثابت کر دی ہے۔
ہم 68 سال پہلے بھی ایسے ہی تھے، جیسے آج ہیں۔ ہماری ہی وجہ سے دنیا کے بہت سے نامور ماہر نفسیات اپنا پیشہ ترک کر کے آج کل چائے کا ہوٹل چلا رہے ہیں اور جب کوئی غلطی سے ان کے سامنے نفسیات کی بات کر بیٹھتا ہے تو پھر وہ صیحح سلامت واپس نہیں جاتا ہے یا تو ایمبولینس میں جاتا ہے یا اسے جانے کے لیے چند لوگوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔
اصل میں ہم تبدیل ہونا اور وقت کے ساتھ چلنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، بقول ہمارے، تبدیل ہونیوالے چھچھورے ہوتے ہیں، کمزور اور عورتوں کی خصلت والے ہوتے ہیں، جب کہ ڈٹے رہنا، اپنی بات پر قائم رہنا مردوں کی شان ہے، چاہے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے، چاہے کتنی ہی بربادی کیوں نہ ہو جائے۔ نہ ہمارے بزرگ کبھی بدلے تھے اور نہ ہم بدلیں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم تبدیل ہو جائیں اور وقت کے ساتھ چلیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
اگر اس نے یہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ایسی منہ کی کھائے گا کہ پھر کبھی اپنا منہ دوبارہ دکھا نے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ ایک بات جس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ ایک بہت سنجیدہ مسئلہ بڑی ہی خاموشی کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے، یہ کہ لوگ ایک ہی قسم کے جھوٹ یعنی ملک میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے، دو تین سال میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا، ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، عوام قربانیاں دینے کے لیے تیار ہو جائیں، پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں اب بھی کم ہیں، ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کو ختم کر دیں گے۔
ملک اب مزید کرپشن اور لوٹ مار کا متحمل نہیں ہو سکتا، ملک سے غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، ملک میں اچھی طرز حکمرانی قائم کریں گے اور اقربا پروری کا خاتمہ کر دیں گے۔ خاندانی سیاست کو دفن کر دیں گے۔ تعلیم کو عام کریں گے، صحت کی سہولیات ہر خاص و عام کو مفت مہیا کریں گے، ہم عوام کے خادم ہیں، وغیر ہ وغیرہ، سے اب اکتانے لگے ہیں۔ جھوٹ بولنے والوں سے درخواست ہے کہ خدارا وہ وقت کے ساتھ ساتھ چلیں، وہ اپنی نہ سہی کم از کم وقت کی ہی عزت کر لیں، چونکہ یہ بیسویں صدی ہے۔
اس لیے جھوٹ بھی بیسویں صدی کے عین مطابق ہونے چاہییں، نا کہ انیسویں صدی کے مطابق تا کہ ایک تو سننے والے اکتاہٹ اور یکسانیت کا شکار نہ ہوں اور چونکہ بیسویں صدی کے جھوٹ انتہائی دلکش اور دل لبھانے والے ہوں گے تو سننے والوں کو بھی لطف اور سرور حاصل ہوتا رہے گا اور وہ اس کے سریلی سروں میں خوب جھومتے رہیں گے۔یہ میں آپ کو مفت کی نصیحت دے رہا ہوں، لے لیجیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کل آپ کو مہنگے دام افسوس خریدنا پڑجائے اور جاگنے والے جاگ جائیں، بند کان کھل جائیں، زبانوں پر پڑے تالے ٹوٹ جائیں اور جھوٹ کی وہ مٹی پلید ہو جائے کہ جس کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا ہے۔
یاد رہے کہ کبھی بدلنے میں بھی دیر نہیں لگتی ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ آج ہو رہا ہے، ویسا کل بھی ہوتا رہے، جب جاگنے والے جاگتے ہیں تو وہ زمین پر قیامت ہوتی ہے، جیسی کہ فرانس اور روس میں ہو چکی ہے اور قیامت ہمیشہ گناہ گاروں اور جھوٹوں پر بڑی ہی سخت ہوتی ہے، اس روز صرف سچ ہی سچ ہوتا ہے اور وہ جھوٹ کے پیچھے ہوتا ہے۔ آگے آپ کی مرضی۔