4حکومتیں بدل گئیں7جج تبدیل 6چالان 100پیشیاںبے نظیر بھٹو شہید کا قتل آج بھی ایک پُراسرارکہانی
عوام کی محبوب راہ نما اور سابق وزیراعظم کی آٹھویں برسی اپنے ساتھ پُرانے سوال لیے آگئی
KARACHI:
ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے پورے8 سال بیت گئے، مگر ان کی موت کا غم آج بھی تازہ ہے۔ انہیں27 دسمبر 2007 کو سہ پہر کے وقت راولپنڈی کے تاریخی گراؤنڈ لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کے23کارکن بھی جاں بحق اور117زخمی ہوئے تھے۔ اس سانحے کے بعد 4 حکومتیں آچکیں اور8سال بیت گئے، تاریخوں پر تاریخیں پڑ رہی ہیں کہانی اب بھی وہیں کی وہیں ہے۔
بے نظیر بھٹو کی طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان آمد پر جو کچھ ہوا اس سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ پاکستان میں آمدہ قومی انتخابات (2008) خون رنگ ہوں گے۔ کراچی میں بے نظیر بھٹو کے جلوس پر خودکش حملے سے یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ حالات کس رُخ پر جارہے ہیں۔ بے نظیربھٹو کے قتل کی4انکوائریاں کرائی گئیں۔ پہلی انکوائری پولیس کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے کی، مگر قتل کا کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔
اسکاٹ لینڈیارڈ کی ٹیم کو کروڑوں روپے خرچ کر کے بلوایا گیا، قتل کی گتھی نہ کھل سکی۔ اقوام متحدہ کی ٹیم نے کئی ماہ لگا کر انکوائری کی، حقیقت پھر بھی سامنے نہ آسکی۔ آخر میں انکوائری کی ذمے داری اس وقت کے وزیرداخلہ رحمان ملک نے ایف آئی اے کو سونپی، ایف آئی اے نے نئی انکوائری میں سابق صدر جنرل پرویزمشرف کو بھی ملزم بنادیا اور اس وقت کے ڈی آئی جی راولپنڈی سعود عزیز اور ایس پی سٹی خرم شہزاد بھی ملزم ٹھیرے۔ تینوں کی گرفتاریاں ہوئیں مگر چند ہی ماہ بھی تینوں ضمانتوں پر رہا ہوگئے۔
قتل کے ڈیڑھ ماہ کے دوران پولیس نے ملک کے مختلف حصوں سے5ملزمان کو گرفتار کیا، جن میں اعتزاز شاہ، شیر زمان، رفاقت حسین، حسنین گل، عبدالرشید شامل ہیں۔ ان پانچوں کے مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف جرم کے بیانات ریکارڈ کرائے گئے، مگر پانچوں ٹرائل کورٹ میں آکر اعترافی بیانات سے منحرف ہوگئے۔
یہ پانچوں ملزمان گذشتہ آٹھ سالوں سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ بے نظیر بھٹو کا قتل اتنا پراسرار بھی نہیں کہ اس کا سراغ نہ لگایا جاسکے، اگر پنجاب پولیس کے کسی بھی سب انسپکٹر کو مکمل آزادی اور اختیارات کے ساتھ یہ ذمے داری سونپ دی جائے کہ قاتل پکڑے جائیں تو یہ کام ہفتوں میں نہیں دنوں میں ہوسکتا ہے۔ چالان کا ہر ورق سازش کی نشان دہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس جس نے اس کیس کی تفتیش کی ہے آف دی ریکارڈ وہ چونکا دینے والے انکشافات کرتا ہے، مگر آن دی ریکارڈ لب سی لیتا ہے اور اتنا ہی کہتا ہے جتنی حالات کے مطابق ضرورت ہے۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ سماعت کے لیے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں گیا۔ آٹھ سال میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے7 جج تبدیل ہوئے اور3 مدت ملازمت مکمل کرکے ریٹائر ہوگئے، مگر کوئی بھی اس کیس کی سماعت مکمل نہ کر سکا۔
اس نہایت اہم مقدمے کی سماعت کے لیے2011 میں انسداد دہشت گردی کی تیسری عدالت قائم کرکے رانا نثار علی خان کو بطور خاص بھیجا گیا، مگر ایک سال تک بھی اس کیس سے پنجہ آزمائی کرنے کے بعد وہ تبدیل ہوگئے بل کہ ان کی عدالت ہی ختم کردی گئی اور یہ مقدمہ پھر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر1میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ بے نظیر بھٹو قتل کیس ملک کا واحد مقدمہ ہے جس کے مجموعی طور پر6چالان عدالت پیش کیے گئے۔
27دسمبر2007کو تھانہ سٹی راولپنڈی میں اس قتل کا مقدمہ درج ہوا، مئی2013 میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی، اس کیس میں مجموعی طور پر عدالتی ریکارڈ کے مطابق100پیشیاں ہوچکی ہیں۔
اس قدر پیشیوں میں گرفتار اور ضمانتوں پر رہا تمام ملزمان کے وکیل صرف8مرتبہ ایک ساتھ ایک ہی دن عدالت میں پیش ہوئے، ورنہ ہر تاریخ پر6میں سے2سے3 ملزمان کے وکیل غائب رہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مجموعی طور پر 85 فی صد التوا ملزمان اور ان کے وکلاء کی عدم پیشی کے باعث ہوا، جب کہ15فی صد کی ذمے دار حکومت رہی۔ کیس کی سماعت میں ایسے بھی موڑ آئے کہ ایک گواہ کا بیان ہوا مگر اس پر جرح1سال بعد مکمل ہوئی۔ مقدمے میں کُل سرکاری گواہان کی تعداد 141ہے، جن میں سے اب تک60کے بیان ریکارڈ ہوچکے، 65 سرکاری گواہان کو غیرضروری قرار دے کر تَرک کردیا گیا اور اب صرف16گواہ رہ گئے ہیں۔
ان میں معروف امریکی صحافی مارک سیگل بھی شامل ہیں۔ ان کا بیان ریکارڈ ہوچکا ہے، جب کہ ان پر جرح کے لیے20جنوری2016کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ عدالت کے جج رائے محمد ایوب خان مارتھ نے جرح کے لیے وڈیو لنک کے انتظامات کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کمشنر راولپنڈی کے دفتر میں ایک بڑے ہال کو عارضی عدالت ڈکلیئر کردیا گیا ہے۔ وڈیو لنک کے ذریعے بیان و جرح کے لیے الیکٹرانک انتظامات کیے جارہے ہیں۔
مارک سیگل واشنگٹن، امریکا میں پاکستانی سفارت خانے سے اپنے بیان پر جرح کا سامنا کریں گے، ملزم پرویزمشرف کے وکیل محمد الیاس صدیقی ان پر جرح کریں گے۔ قبل ازیں جنرل پرویزمشرف نے مارک سیگل کے وڈیو لنک بیان کو چیلینج کیا تھا، مگر عدالت نے وڈیو لنک بیان کو قانون و آئین کے مطابق قرار دیا۔ اب پرویزمشرف نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلینج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے باعث 20 جنوری کو مارک سیگل کے بیان پر جرح میں حائل رکاوٹ بھی ختم ہوگئی ہے۔
تفتیشی ٹیم کے مطابق مارک سیگل پر جرح کے بعد وہ صرف مزید 3 تفتیشی ٹیم کے افسران کو بطور گواہ پیش کریں گے اور فروری کے آخر تک اس کیس کو ہر صورت مکمل کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے لیے ہائی کورٹ اور ایک سابق چیف جسٹس نے حکم دیا تھا، مگر اس پر وکلا کے بھرپور احتجاج کے باعث عمل نہیں ہوسکا تھا۔
پنجاب بھر کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کی مانیٹرنگ کرنے والے دو ججز جسٹس ملک منظوراحمد اور جسٹس محمود مقبول باجوہ نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کو ہر صورت دسمبر2014 تک مکمل کرنے کے سخت احکامات جاری کیے تھے، مگر ان پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ ہائی کورٹ کے موجودہ مانیٹرنگ جج جسٹس محمود مقبول باجوہ نے اب یہ کیس31دسمبر 2015تک مکمل کرنے کا حکم دیا ہے، مگر اس حکم پر بھی عمل ناممکن ہوگیا ہے، کیوںکہ اس کیس کی آئندہ سماعت4جنوری کو ہوگی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی راہ نما سابق وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کے بھائی بھی خود کش حملے میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ شہید ہوگئے تھے، مگر ان سمیت پیپلزپارٹی بہ حیثیت جماعت یا بھٹو خاندان بطور فیملی یا بینظیر بھٹو کے بطور خونی وارث اس کیس میں آج تک فریق نہیں بنی۔ عدالت نے بھٹو خاندان کو بھی نوٹس جاری کیا تھا مگر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پیپلزپارٹی اپنی پانچ سالہ حکومت کے خاتمے کے قریب اس کیس میں بطور جماعت فریق بنی۔ پارٹی کی طرف سے سابق گورنر سردار لطیف خان کھوسہ پیش ہوئے، مگر دو پیشیوں بعد غائب ہوگئے۔
پیپلزپارٹی آٹھ سالوں میں مختلف وقفوں کے ساتھ3 بار اس کیس میں فریق بنی اور تینوں مرتبہ دو تین ہی پیشیوں کے بعد منظر سے غائب ہوگئی۔ اس کیس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس مقدمے میں مجموعی طور پر پولیس نے چالان میں پرویزمشرف، ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کے علاوہ10ملزمان نام زد کیے ان میں سے5گرفتار ہوگئے جو اس وقت بھی اڈیالہ جیل میں قید ہیں جب کہ دیگر5ملزمان طالبان کمانڈر بیت اللّہ محسود، فیض کسکٹ، قاری نادر، عبداﷲ عرف صدام اور قاری اسماعیل حساس اداروں کے ساتھ مختلف مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں۔
پولیس چالان کے مطابق سابق وزیراعظم کو27دسمبر کو ہر صورت قتل کرنے کی پلاننگ کی گئی تھی۔ خودکش حملے کے لیے2 خودکش بم بار لائے گئے تھے۔ ایک لیاقت باغ کے مرکزی گیٹ پر تھا، جس نے دھماکا کیا، اگر اس خودکش حملے میں سابق وزیراعظم محفوظ رہتیں تو دوسرا بم بار بلال لیاقت باغ چوک کے قریب کھڑا کیا گیا تھا، جسے پہلے کام یاب دھماکے کے بعد واپس جنوبی وزیرستان پہنچا دیا گیا تھا، وہ بعدازاں ایک مقابلے میں مارا گیا۔
بینظیر بھٹو کی گاڑی کے ڈرائیور جاوید خان کے عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق بے نظیر بھٹو کو گاڑی کے سن روف سے باہر نکل کر جیالوں کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دینے کے لیے ناہید خان اور صفدر عباسی نے کہا تھا اور انہوں نے ہی سن روف کھولا تھا۔ ایک پولیس آفیسر نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی میں لگے لاؤڈ اسپیکر سے بھی نعرے لگائے جارہے تھے، جس کی وجہ سے کارکنان جمع ہوتے چلے گئے۔
جب کہ مقدمے کے پہلے تفتیشی افسر اور مقدمے کے مدعی اس وقت کے تھانہ سٹی کے ایس ایچ او انسپکٹر کاشف ریاض نے اپنے بیان میں عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اسے جائے وقوعہ سے ایک عورت کٹا ہوا ہاتھ بھی ملا تھا، جس پر منہدی لگی ہوئی تھی۔ یہ ہاتھ فرانزک لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے اس نے بھجوایا تھا یا ہاتھ کس کا تھا؟ اس بابت فرانزک لیبارٹری سے کیا رپورٹ آئی اس کا پورے کیس اور چالان میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسے نہیں پتا کے اس رپورٹ کو تبدیل کر دیا گیا یا نہیں۔
اس مقدمے کے گواہان کی فہرست میں مخدوم امین فہیم، ڈاکٹر بابر اعوان، شیری رحمان، ناہید خان، صفدرعباسی بھی شامل ہیں، مگر انہیں بطور گواہ طلب نہیں کیا گیا۔ اس کیس کو تیزی کے ساتھ مکمل کرانے کی بھرپور کوششیں کرنے والے ایک سینئر پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کو شہید کر دیا گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے مقدمے میں اس قدر تاخیر کی وجوہات پر سرکاری اور ملزمان میں وکلاء میں بھی شدید اختلافات ہیں۔
ملزمان کے وکلاء نصیر احمد تنولی، ملک جواد خالد ایڈووکیٹس کا موقف ہے کہ پہلے اسکارٹ لینڈ یارڈ، پھر اقوام متحدہ اور پھر ایف آئی اے کی تفتیش تاخیر کی وجوہات ہیں۔ ان تینوں تفتیشوں پر اڑھائی سال لگ گئے، جب کہ سرکاری پراسیکیوٹر چودہری اظہر اور خواجہ امتیاز نے ایکسپریس کو بتایا کہ مقدمے میں تاریخ پر تاریخ پڑنے کی وجہ ملزمان کے وکلاء کا رویہ ہے، کئی کئی ماہ تک جرح ہی نہیں کی جاتی، آٹھ سالوں میں صرف آٹھ بار تمام ملزمان کے وکلاء عدالت ایک ساتھ پیش ہوسکے ہیں۔
سنیئر پبلک پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے ایکسپریس کو بتایا کہ اب انہیں صرف مارک سیگل کے بیان پر جرح مکمل ہونے کا انتظار ہے۔ باقی 16گواہان کی شارٹ لسٹنگ کرلی گئی ہے۔ ان میں سے صرف3تفتیشی افسران بطور گواہ پیش کیے جائیں گے اور امید ہے کہ مارچ2016 میں یہ مقدمہ مکمل ہوجائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکاری پراسیکیوٹر اس عرصے میں یہ مقدمہ مکمل کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں یا نہیں!
عوام کی محبوب راہ نما کے قتل کا مقدمہ ہمارے قانونی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ بے نظیر بھٹو سے پیار کرنے والے کروڑوں لوگوں کی آنکھوں میں آج آنسوؤں کے ساتھ یہ سوال بھی ہے کہ ان کی لیڈر کے قتل کی سازش رچنے والے آخر کب پکڑے جائیں گے؟
ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے پورے8 سال بیت گئے، مگر ان کی موت کا غم آج بھی تازہ ہے۔ انہیں27 دسمبر 2007 کو سہ پہر کے وقت راولپنڈی کے تاریخی گراؤنڈ لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کے23کارکن بھی جاں بحق اور117زخمی ہوئے تھے۔ اس سانحے کے بعد 4 حکومتیں آچکیں اور8سال بیت گئے، تاریخوں پر تاریخیں پڑ رہی ہیں کہانی اب بھی وہیں کی وہیں ہے۔
بے نظیر بھٹو کی طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان آمد پر جو کچھ ہوا اس سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ پاکستان میں آمدہ قومی انتخابات (2008) خون رنگ ہوں گے۔ کراچی میں بے نظیر بھٹو کے جلوس پر خودکش حملے سے یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ حالات کس رُخ پر جارہے ہیں۔ بے نظیربھٹو کے قتل کی4انکوائریاں کرائی گئیں۔ پہلی انکوائری پولیس کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے کی، مگر قتل کا کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔
اسکاٹ لینڈیارڈ کی ٹیم کو کروڑوں روپے خرچ کر کے بلوایا گیا، قتل کی گتھی نہ کھل سکی۔ اقوام متحدہ کی ٹیم نے کئی ماہ لگا کر انکوائری کی، حقیقت پھر بھی سامنے نہ آسکی۔ آخر میں انکوائری کی ذمے داری اس وقت کے وزیرداخلہ رحمان ملک نے ایف آئی اے کو سونپی، ایف آئی اے نے نئی انکوائری میں سابق صدر جنرل پرویزمشرف کو بھی ملزم بنادیا اور اس وقت کے ڈی آئی جی راولپنڈی سعود عزیز اور ایس پی سٹی خرم شہزاد بھی ملزم ٹھیرے۔ تینوں کی گرفتاریاں ہوئیں مگر چند ہی ماہ بھی تینوں ضمانتوں پر رہا ہوگئے۔
قتل کے ڈیڑھ ماہ کے دوران پولیس نے ملک کے مختلف حصوں سے5ملزمان کو گرفتار کیا، جن میں اعتزاز شاہ، شیر زمان، رفاقت حسین، حسنین گل، عبدالرشید شامل ہیں۔ ان پانچوں کے مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف جرم کے بیانات ریکارڈ کرائے گئے، مگر پانچوں ٹرائل کورٹ میں آکر اعترافی بیانات سے منحرف ہوگئے۔
یہ پانچوں ملزمان گذشتہ آٹھ سالوں سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ بے نظیر بھٹو کا قتل اتنا پراسرار بھی نہیں کہ اس کا سراغ نہ لگایا جاسکے، اگر پنجاب پولیس کے کسی بھی سب انسپکٹر کو مکمل آزادی اور اختیارات کے ساتھ یہ ذمے داری سونپ دی جائے کہ قاتل پکڑے جائیں تو یہ کام ہفتوں میں نہیں دنوں میں ہوسکتا ہے۔ چالان کا ہر ورق سازش کی نشان دہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس جس نے اس کیس کی تفتیش کی ہے آف دی ریکارڈ وہ چونکا دینے والے انکشافات کرتا ہے، مگر آن دی ریکارڈ لب سی لیتا ہے اور اتنا ہی کہتا ہے جتنی حالات کے مطابق ضرورت ہے۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ سماعت کے لیے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں گیا۔ آٹھ سال میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے7 جج تبدیل ہوئے اور3 مدت ملازمت مکمل کرکے ریٹائر ہوگئے، مگر کوئی بھی اس کیس کی سماعت مکمل نہ کر سکا۔
اس نہایت اہم مقدمے کی سماعت کے لیے2011 میں انسداد دہشت گردی کی تیسری عدالت قائم کرکے رانا نثار علی خان کو بطور خاص بھیجا گیا، مگر ایک سال تک بھی اس کیس سے پنجہ آزمائی کرنے کے بعد وہ تبدیل ہوگئے بل کہ ان کی عدالت ہی ختم کردی گئی اور یہ مقدمہ پھر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر1میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ بے نظیر بھٹو قتل کیس ملک کا واحد مقدمہ ہے جس کے مجموعی طور پر6چالان عدالت پیش کیے گئے۔
27دسمبر2007کو تھانہ سٹی راولپنڈی میں اس قتل کا مقدمہ درج ہوا، مئی2013 میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی، اس کیس میں مجموعی طور پر عدالتی ریکارڈ کے مطابق100پیشیاں ہوچکی ہیں۔
اس قدر پیشیوں میں گرفتار اور ضمانتوں پر رہا تمام ملزمان کے وکیل صرف8مرتبہ ایک ساتھ ایک ہی دن عدالت میں پیش ہوئے، ورنہ ہر تاریخ پر6میں سے2سے3 ملزمان کے وکیل غائب رہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مجموعی طور پر 85 فی صد التوا ملزمان اور ان کے وکلاء کی عدم پیشی کے باعث ہوا، جب کہ15فی صد کی ذمے دار حکومت رہی۔ کیس کی سماعت میں ایسے بھی موڑ آئے کہ ایک گواہ کا بیان ہوا مگر اس پر جرح1سال بعد مکمل ہوئی۔ مقدمے میں کُل سرکاری گواہان کی تعداد 141ہے، جن میں سے اب تک60کے بیان ریکارڈ ہوچکے، 65 سرکاری گواہان کو غیرضروری قرار دے کر تَرک کردیا گیا اور اب صرف16گواہ رہ گئے ہیں۔
ان میں معروف امریکی صحافی مارک سیگل بھی شامل ہیں۔ ان کا بیان ریکارڈ ہوچکا ہے، جب کہ ان پر جرح کے لیے20جنوری2016کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ عدالت کے جج رائے محمد ایوب خان مارتھ نے جرح کے لیے وڈیو لنک کے انتظامات کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کمشنر راولپنڈی کے دفتر میں ایک بڑے ہال کو عارضی عدالت ڈکلیئر کردیا گیا ہے۔ وڈیو لنک کے ذریعے بیان و جرح کے لیے الیکٹرانک انتظامات کیے جارہے ہیں۔
مارک سیگل واشنگٹن، امریکا میں پاکستانی سفارت خانے سے اپنے بیان پر جرح کا سامنا کریں گے، ملزم پرویزمشرف کے وکیل محمد الیاس صدیقی ان پر جرح کریں گے۔ قبل ازیں جنرل پرویزمشرف نے مارک سیگل کے وڈیو لنک بیان کو چیلینج کیا تھا، مگر عدالت نے وڈیو لنک بیان کو قانون و آئین کے مطابق قرار دیا۔ اب پرویزمشرف نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلینج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے باعث 20 جنوری کو مارک سیگل کے بیان پر جرح میں حائل رکاوٹ بھی ختم ہوگئی ہے۔
تفتیشی ٹیم کے مطابق مارک سیگل پر جرح کے بعد وہ صرف مزید 3 تفتیشی ٹیم کے افسران کو بطور گواہ پیش کریں گے اور فروری کے آخر تک اس کیس کو ہر صورت مکمل کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے لیے ہائی کورٹ اور ایک سابق چیف جسٹس نے حکم دیا تھا، مگر اس پر وکلا کے بھرپور احتجاج کے باعث عمل نہیں ہوسکا تھا۔
پنجاب بھر کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کی مانیٹرنگ کرنے والے دو ججز جسٹس ملک منظوراحمد اور جسٹس محمود مقبول باجوہ نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کو ہر صورت دسمبر2014 تک مکمل کرنے کے سخت احکامات جاری کیے تھے، مگر ان پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ ہائی کورٹ کے موجودہ مانیٹرنگ جج جسٹس محمود مقبول باجوہ نے اب یہ کیس31دسمبر 2015تک مکمل کرنے کا حکم دیا ہے، مگر اس حکم پر بھی عمل ناممکن ہوگیا ہے، کیوںکہ اس کیس کی آئندہ سماعت4جنوری کو ہوگی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی راہ نما سابق وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کے بھائی بھی خود کش حملے میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ شہید ہوگئے تھے، مگر ان سمیت پیپلزپارٹی بہ حیثیت جماعت یا بھٹو خاندان بطور فیملی یا بینظیر بھٹو کے بطور خونی وارث اس کیس میں آج تک فریق نہیں بنی۔ عدالت نے بھٹو خاندان کو بھی نوٹس جاری کیا تھا مگر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پیپلزپارٹی اپنی پانچ سالہ حکومت کے خاتمے کے قریب اس کیس میں بطور جماعت فریق بنی۔ پارٹی کی طرف سے سابق گورنر سردار لطیف خان کھوسہ پیش ہوئے، مگر دو پیشیوں بعد غائب ہوگئے۔
پیپلزپارٹی آٹھ سالوں میں مختلف وقفوں کے ساتھ3 بار اس کیس میں فریق بنی اور تینوں مرتبہ دو تین ہی پیشیوں کے بعد منظر سے غائب ہوگئی۔ اس کیس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس مقدمے میں مجموعی طور پر پولیس نے چالان میں پرویزمشرف، ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کے علاوہ10ملزمان نام زد کیے ان میں سے5گرفتار ہوگئے جو اس وقت بھی اڈیالہ جیل میں قید ہیں جب کہ دیگر5ملزمان طالبان کمانڈر بیت اللّہ محسود، فیض کسکٹ، قاری نادر، عبداﷲ عرف صدام اور قاری اسماعیل حساس اداروں کے ساتھ مختلف مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں۔
پولیس چالان کے مطابق سابق وزیراعظم کو27دسمبر کو ہر صورت قتل کرنے کی پلاننگ کی گئی تھی۔ خودکش حملے کے لیے2 خودکش بم بار لائے گئے تھے۔ ایک لیاقت باغ کے مرکزی گیٹ پر تھا، جس نے دھماکا کیا، اگر اس خودکش حملے میں سابق وزیراعظم محفوظ رہتیں تو دوسرا بم بار بلال لیاقت باغ چوک کے قریب کھڑا کیا گیا تھا، جسے پہلے کام یاب دھماکے کے بعد واپس جنوبی وزیرستان پہنچا دیا گیا تھا، وہ بعدازاں ایک مقابلے میں مارا گیا۔
بینظیر بھٹو کی گاڑی کے ڈرائیور جاوید خان کے عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق بے نظیر بھٹو کو گاڑی کے سن روف سے باہر نکل کر جیالوں کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دینے کے لیے ناہید خان اور صفدر عباسی نے کہا تھا اور انہوں نے ہی سن روف کھولا تھا۔ ایک پولیس آفیسر نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی میں لگے لاؤڈ اسپیکر سے بھی نعرے لگائے جارہے تھے، جس کی وجہ سے کارکنان جمع ہوتے چلے گئے۔
جب کہ مقدمے کے پہلے تفتیشی افسر اور مقدمے کے مدعی اس وقت کے تھانہ سٹی کے ایس ایچ او انسپکٹر کاشف ریاض نے اپنے بیان میں عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اسے جائے وقوعہ سے ایک عورت کٹا ہوا ہاتھ بھی ملا تھا، جس پر منہدی لگی ہوئی تھی۔ یہ ہاتھ فرانزک لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے اس نے بھجوایا تھا یا ہاتھ کس کا تھا؟ اس بابت فرانزک لیبارٹری سے کیا رپورٹ آئی اس کا پورے کیس اور چالان میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسے نہیں پتا کے اس رپورٹ کو تبدیل کر دیا گیا یا نہیں۔
اس مقدمے کے گواہان کی فہرست میں مخدوم امین فہیم، ڈاکٹر بابر اعوان، شیری رحمان، ناہید خان، صفدرعباسی بھی شامل ہیں، مگر انہیں بطور گواہ طلب نہیں کیا گیا۔ اس کیس کو تیزی کے ساتھ مکمل کرانے کی بھرپور کوششیں کرنے والے ایک سینئر پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کو شہید کر دیا گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے مقدمے میں اس قدر تاخیر کی وجوہات پر سرکاری اور ملزمان میں وکلاء میں بھی شدید اختلافات ہیں۔
ملزمان کے وکلاء نصیر احمد تنولی، ملک جواد خالد ایڈووکیٹس کا موقف ہے کہ پہلے اسکارٹ لینڈ یارڈ، پھر اقوام متحدہ اور پھر ایف آئی اے کی تفتیش تاخیر کی وجوہات ہیں۔ ان تینوں تفتیشوں پر اڑھائی سال لگ گئے، جب کہ سرکاری پراسیکیوٹر چودہری اظہر اور خواجہ امتیاز نے ایکسپریس کو بتایا کہ مقدمے میں تاریخ پر تاریخ پڑنے کی وجہ ملزمان کے وکلاء کا رویہ ہے، کئی کئی ماہ تک جرح ہی نہیں کی جاتی، آٹھ سالوں میں صرف آٹھ بار تمام ملزمان کے وکلاء عدالت ایک ساتھ پیش ہوسکے ہیں۔
سنیئر پبلک پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے ایکسپریس کو بتایا کہ اب انہیں صرف مارک سیگل کے بیان پر جرح مکمل ہونے کا انتظار ہے۔ باقی 16گواہان کی شارٹ لسٹنگ کرلی گئی ہے۔ ان میں سے صرف3تفتیشی افسران بطور گواہ پیش کیے جائیں گے اور امید ہے کہ مارچ2016 میں یہ مقدمہ مکمل ہوجائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکاری پراسیکیوٹر اس عرصے میں یہ مقدمہ مکمل کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں یا نہیں!
عوام کی محبوب راہ نما کے قتل کا مقدمہ ہمارے قانونی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ بے نظیر بھٹو سے پیار کرنے والے کروڑوں لوگوں کی آنکھوں میں آج آنسوؤں کے ساتھ یہ سوال بھی ہے کہ ان کی لیڈر کے قتل کی سازش رچنے والے آخر کب پکڑے جائیں گے؟