سانحہ صفورا کیس کے حیران کن انکشافات

غیرملکی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل اور اعلی عہدوں پر فائز افراد دہشتگردوں کے سہولت کار نکلے

غیرملکی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل اور اعلی عہدوں پر فائز افراد دہشتگردوں کے سہولت کار نکلے: فوٹو: فائل

کراچی میں 13 مئی کو پیش آنے والے سانحہ صفورا کی تحقیقات کے وسیع ہوتے دائرے نے ایسے ایسے پڑھے لکھے چہرے سامنے لاکھڑے کیے ہیں، جنھیں دیکھ کر یا جن کے بارے میں سن کر وہم و گمان بھی نہیں ہوتا کہ ایسے افراد بھی دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔

نہ صرف ملک کے مایہ ناز تعلیمی اداروں بلکہ امریکا کی معروف یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد بھی دہشت گردوں کے سہولت کار اور انھیں مالی معاونت کرنے والوں کی فہرست میں نکلے۔ یہ افراد نہ صرف بیچلرز، ماسٹرز اور انجینئرنگ کی ڈگریوں کے حامل ہیں بلکہ سرکاری و نجی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے تعلیم یافتہ افراد قانون کے شکنجے میں آئے جوکہ مختلف کالعدم تنظیموں سے وابستہ رہے اور ان کے لیے کسی نہ کسی طرح کام کرتے رہے۔

دہشت گردی کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ اس میں ایسے افراد ملوث ہوتے ہیں، جن کی مالی حالت انتہائی کمزور ہو یا وہ زندگی کے مصائب و آلام اور مشکلات کو جھیلنے میں ناکام ہوں۔ اس قسم کے افراد چونکہ دہشت گرد تنظیموں کے لیے ترنوالہ ہوتے ہیں، لہٰذا وہ ان کی برین واشنگ کرتے ہیں اور انھیں بھاری رقوم کے عوض اپنی تنظیم میں شامل کرلیتے ہیں، لیکن سانحہ صفورا نے نہ صرف تحقیقاتی اداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ شہریوں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

سانحے صفورا میں گرفتار کیا جانے والا طاہر حسین منہاس عرف سائیں نذیر عرف زاہد عرف نوید عرف خلیل عرف شوکت عرف موٹا وہ واحد شخص ہے، جو محض میٹرک پاس ہے لیکن وہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے نائب ایمن الظواہری سے ملاقاتیں بھی کرچکا ہے، 1998ء سے وہ جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ دوسرا ملزم سعد عزیز عرف ٹن ٹن عرف جون نے آئی بی اے سے بی بی اے کیا تھا، یہ دہشت گردی کا لٹریچر بنانے پر مہارت رکھتا ہے جبکہ پولیس رپورٹس کے مطابق مقامی این جی او کی سربراہ سبین محمود کے قتل کا ماسٹر مائنڈ بھی یہی تھا۔

گرفتار ملزم حافظ ناصر عرف یاسر نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور یہ برین واشنگ کا ماہر ہے۔ ملزم اظہر عشرت عرف ماجد نے سرسید یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے جو بم بنانے کا ماہر ہے ، پانچواں ملزم اسد الرحمن عرف ملک ہے۔

اسی کیس میں رینجرز نے بھی کچھ گرفتاریاں کیں، گرفتار ملزمان میں سلطان قمر صدیقی ولد قمر الحسن صدیقی ، اس کے بھائی حسین عمر صدیقی عرف شبلی ولد قمر الحسن صدیقی اور محمد نعیم ساجد عرف بینا ولد عبدالغفور ساجد شامل ہیں۔ واقعے میں استعمال کیا جانے والا پستول جوکہ سعد عزیز نے استعمال کیا تھا، ملزمان نعیم ساجد اور حسین عمر شبلی نے ایک مفرور ملزم محمد عمر ولد افضل احمد کے لائسنس پر مالک دکان زاہد موتی والا سے خریدا تھا۔ ملزمان غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے۔

ملزم نعیم ساجد نے پانچ اسلحہ لائسنس زاہد موتی والا سے بنواکر ملزم حسین عمر شبلی کو دیے تھے۔ مقدمے کے چالان میں زاہد موتی والا کو سہولت کار ملزم گردانتے ہوئے نامزد کیا گیا جو اب تک گرفتاری کے خوف سے روپوش ہے۔


پولیس چالان کے مطابق اب بھی گیارہ ملزمان مفرور ہیں جن میںحافظ محمد عمر عرف جواد عرف حیدر عباس عرف مرزا غالب ولد افضل احمد، علی الرحمن عرف ٹونا عرف چھوٹو ولد آصف الرحمن، عبداللہ عبدالعزیز ولد یوسف (ماسٹر مائنڈ)، طیب، محمود، عبداللہ منصوری، مستری پٹھان، دائود، پٹھان، زاہد موتی والا ولد عبدالقادر شامل ہیں۔ ملزمان القاعدہ سے باقاعدہ وابستہ رہے ہیں اور دو دھڑے بننے کے بعد ملزمان اس دھڑے میں شامل ہوگئے جس کا الحاق داعش سے ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی (کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ) بھی سانحہ صفورا کی تحقیقات میں سرگرم رہا اور متعدد ملزمان کو گرفتار کیا۔ انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے ایک ایئر لائن میں بطور انجینئر اپنے فرائض انجام دینے والے خالد یوسف باری کو گرفتار کیا، یہ ملزم بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نکلا۔

اس کے علاوہ ملزم عادل مسعود بٹ نے1987ء میں انڈیانا یونیورسٹی سے بی بی اے اور نیویارک فورڈیم یونیورسٹی سے 1992ء میں ایم بی اے میں کیا جبکہ پاکستان واپسی کے بعد 1994ء میں انسٹیٹیوٹ قائم کیا، ملزم پہلے تنظیم اسلامی سے وابستہ رہا لیکن اختلافات کے بعد تنظیم چھوڑ دی ، اسی دوران اس کی القاعدہ کے رہنما ڈاکٹر اکمل وحید سے ملاقات ہوئی اور فنڈنگ کا آغاز کیا۔ بعدازاں عمر عرف جلال چانڈیو این ای ڈی یونیورسٹی کی پارکنگ میں ملتا رہا۔

سانحہ صفورا کے ماسٹر مائنڈ عبداللہ یوسف اور اس کے بھائی فرحان یوسف کا قریبی دوست سلیم احمد بھی پکڑا گیا، عبداللہ یوسف کا بہنوئی محمد سلیمان سعید جوکہ بظاہر ایک لائبریری کا مالک تھا لیکن درحقیقت وہ اس کی آڑ میں برین واشنگ کرتا تھا۔ یہ تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سانحہ صفورا سے کسی نہ کسی طرح منسلک رہے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ ماسٹر مائنڈ اور دیگر افراد اب تک گرفتار نہیں ہوسکے۔

کالعدم تنظیم حزب التحریر کے کارندے سہام قمر کو بھی سی ٹی ڈی حکام نے27 نومبر کو گرفتار کیا۔ ایس پی سی ٹی ڈی نوید نثار خواجہ کے مطابق ملزم کراچی میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک میں بطور ڈپٹی جنرل منیجر تعینات تھا جوکہ مکینکل انجینئر ہے، ملزم کے قبضے سے ہتھیار بھی برآمد ہوئے۔

ایس پی سی ٹی ڈی نوید نثار خواجہ نے ہی ایک اور کارروائی میں القاعدہ برصغیر شاخ کے سرگرم کارکن شیبہ احمد کو بھی گرفتار کیا۔ شیبہ احمد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے جوکہ پاکستان سمیت مختلف ممالک میں کیمیکل کا بزنس کرتا ہے۔ ملزم شبیہ احمد کے بارے میں سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ شبیہ احمد سانحہ صفورا کے ملزمان کی مالی معاونت میں شامل ہے، ملزم کی گرفتاری لاہور میں گرفتار ایک ملزم کی نشاندہی پر عمل میں آئی تھی ۔

امید ہے سانحہ صفورا کی تحقیقات جلد مکمل کرلی جائیں گی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں ملوث افراد کب قانون کی گرفت میں آسکیں گے اور اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آخر اتنے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یہ افراد دہشت گرد تنظیموں کی جانب مائل کیوں اور کیسے ہوگئے؟ کیا ہمارے نظام تعلیم میں کوئی خرابی ہے یا ہمارا کمزور معاشرتی ڈھانچہ اس کا باعث بن رہا ہے۔

وجہ جو بھی ہو حکومت کو جلد از جلد ایسے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے کہ مستقبل میں آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوسکیں اور اعلیٰ تعلیمی یافتہ افراد دہشت گردی یا ان کے سہولت کار و معاون بننے سے بچ سکیں اور اپنی تعلیم کے بل بوتے پر ملک و قوم کی مثبت انداز میں خدمت کر سکیں۔
Load Next Story