تنازعہ کشمیر اور بھارت کی قیادت کی ذمے داری

اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کسی قابل قبول فارمولے پر پہنچے۔


Editorial December 28, 2015
گیند بھارتی قیادت کی کورٹ میں ہے۔ بھارتی قیادت چاہے تو تنازعہ کشمیر حل ہو سکتا ہے۔ فوٹو : فائل

KARACHI: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اچانک لاہور آمد اور جاتی امرا رائے ونڈ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی بازگشت ابھی تک سنی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے مختلف تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کی لاہور آمد کے پس پردہ حقائق کے بارے میں خیال آرائیاں جاری ہیں۔یہ باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ اس دورے کا بھارت تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم اس ساری سرگرمی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ پاک بھارت مذاکرات کی بات مزید آگے بڑھی ہے اور مسئلہ کشمیر کی باتیں بھی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔

سرکاری ٹی وی نے حکومتی ذرایع کے حوالے سے بتایا کہ ملاقات میں نریندر مودی کا کہنا تھاکہ ہمیں یورپ کے ممالک کی طرح مل جل کر رہنا چاہیے، جس طرح یورپ کے لیڈر ملتے ہیں ہم کیوں نہیں مل سکتے۔ادھر پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے حوالے سے اخبارات میں خبر شایع ہوئی ہے جس میںانھوں نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کی اچانک پاکستان آنے کی وجہ سے فوجی قیادت مذاکرات کا حصہ نہیں بنی لیکن بھارت کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کے معاملے پر پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہے، نوازشر یف اور نر یندری مودی ملاقات میں پاک بھارت امن عمل جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے، پاک بھارت سیکریٹری خارجہ ملاقات جنوری کے وسط میں پاکستان میں ہوگی۔

دفتر خارجہ سے جاری اعلامیہ کے مطابق نواز، مودی ملاقات میں عوام کے مفاد میں پاک، بھارت مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ یہ ساری باتیں بڑی حوصلہ افزا ہیں' اس سے یہی لگتا ہے کہ معاملات آگے بڑھیں گے۔ ادھر گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اسلام آباد میں کشمیر تھنک ٹینک کانفرنس سے خطاب 'میڈیا سے گفتگو اور ایک بیان میں کہا کہ چین نے تجویز دی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جائے جو ہم نے ہانگ کانگ،تائیوان اور مکاؤ کے حوالے سے کیا۔

چین نے ہانگ کانگ تائیوان اور مکاؤ میں طاقت کا استعمال نہیں کیااس لیے مسائل کے حل کے لیے نئی تجاویز پر دل و دماغ سے غور کرنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جدوجہد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔استصواب رائے کے ذریعے سے کشمیر کی قیادت ان کے ہاتھ میں دی جائے اور اس کے لیے بھارتی شہریوں اور بھارت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کو بھی اپنے مؤقف میں شامل کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے انتخابات میں بھارتی مداخلت ناقابل برداشت ہے جس کے لیے بھارت کوجوابدہ ہونا پڑیگا۔مسئلہ کشمیر کو حل کی طرف ہم ہی لے کر جائینگے اورکشمیری عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنے ووٹ سے کرینگے۔

پاک بھارت تعلقات کی نوعیت کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کسی قابل قبول فارمولے پر پہنچے۔ اب دنیا کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ دنیا کے مہذب ممالک تنازعات سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور اپنی ترجیح اقتصادی ترقی کو بنانا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں اقتصادی بلاک بن رہے ہیں۔ بلاشبہ تنازعات کے حوالے سے عوامی جمہوریہ چین کی قیادت میں بڑی ذہانت اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔چین نے ہانگ کانگ کے مسئلے کو بڑے صبر سے حل کیا اور اسی طرح مکاؤ کے مسئلے کو بھی حل کیا۔ تائیوان کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔چین نے طاقتور ہونے کے باوجود ان معاملات پر بڑی حکمت کا مظاہرہ کر کے یورپی قوتوں کو رام کیا۔ پاک بھارت تنازعات اور پھر مسئلہ کشمیر پر غور کریں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس معاملے میں بھارتی قیادت کو زیادہ لچک اور ذہانت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

بھارت ایک بڑا ملک ہے اور وہ دنیا کی بڑی اقتصادی قوت کا روپ دھارنا چاہتا ہے۔یہی نہیں بلکہ وہ دنیا کی بڑی عسکری قوت بھی بننا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا خواہاں ہے۔ بھارتی قیادت کو یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے یہ مقاصد اس وقت تک حل نہیں کر سکتا جب تک اس کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ تنازعات کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تنازعات موجود ہیں۔ نیپال کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ سری لنکا والے بھی بھارت سے نہ خوش ہیں۔ ایسی صورت میں بھارت کبھی اقتصادی قوت نہیں بن سکتا۔ بھارتی قیادت کو چاہیے کہ وہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے جلد از جلد کشمیریوں کے جذبات کو سامنے رکھ کر کوئی حل سامنے لائے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے تیار ہے۔ گیند بھارتی قیادت کی کورٹ میں ہے۔ بھارتی قیادت چاہے تو تنازعہ کشمیر حل ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں