الیکشن کمیشن

ہندوستان کی حکومت نے گزشتہ برس مئی میں آرمی چیف کی تعیناتی کرنی تھی۔


راؤ منظر حیات December 28, 2015
[email protected]

ہندوستان کی حکومت نے گزشتہ برس مئی میں آرمی چیف کی تعیناتی کرنی تھی۔ یہ ایک انتظامی فیصلہ تھاجس پرکسی فریق نے کبھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایاتھا۔مگرحکومت نے الیکشن کمیشن کوخط لکھااور تعیناتی کی اجازت لی۔ چیف الیکشن کمشنر نے بذریعہ خط مرکزی حکومت کواجازت دیدی ۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اوردفاعی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کا کوئی کوئی تعلق ہے؟ہرگزنہیں۔ مگرپوچھنے کی نوبت صرف اس وجہ سے آئی کیونکہ انڈیا میں الیکشن ہورہے تھے اور الیکشن کے دوران حکومت کوئی بھی انتظامی فیصلہ نہیں کرتی ۔ تمام کے تمام اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس منتقل ہوجاتے ہیں۔کیاہمارے ملک میںایسا ہوسکتا ہے؟جواب آپ مجھ سے بہت بہترجانتے ہیں۔

ہمارا ہر الیکشن ایک نئے المیہ کوجنم دیتا ہے۔ایک ایسا بحران جس سے نمٹتے نمٹتے چارپانچ سال کاعرصہ ضایع ہوجاتا ہے۔ آخرکیاوجہ ہے کہ ہم بہترین قوم ہونے کے باوجود ناکامی کے گول دائروں میں چکرلگارہے ہیں۔ ہم ناکام ریاست نہ سہی مگراس کے نزدیک ضرورپہنچ چکے ہیں۔ صاحبان!اس کی ایک بڑی وجہ اداروں کاکمزورہونا ہے۔ بلاخوف تردیدعرض کرناچاہوںگاکہ اداروں کوکمزور رکھنا ایک حکمتِ عملی ہے۔اس حکمتِ عملی کی بدولت ہم لوگ، ہمار اووٹ،ہماری آوازاورہمارامستقبل بے معنی ہوگیا ہے۔

اداروں کودرست کرنے کے بہت سے طریقے ہیں مگر ایک برق رفتارطریقہ، ادارے کے لیے کسی ایسے سربراہ کاانتخاب ہے جوہمت والاہو۔نئی بات سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہوااوراس کا ادارے سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہ ہو۔ ہندوستان میں آج سے بیس برس پہلے حکومت نے ایساہی فیصلہ کیااورایک سرکاری ملازم ٹی این سیشن(T.N. Seshan)کوالیکشن کمشنرمقررکردیا۔ پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔مگرہمارے طرزِعمل سے یکسر مختلف وہاں اس شخص کواس آئینی ادارے کاسربراہ مقرر کیا جاتا ہے جو حاضر سروس سرکاری ملازم ہواورجوساکھ کے اعتبارسے مضبوط انسان ہو۔ریٹائرڈجج یاریٹائرڈسرکاری ملازم کو الیکشن کمیشن کے نزدیک تک نہیں پھٹکنے دیاجاتا۔

ٹی این سیشن نے پہلے دن دفترآکرتمام افسران کوجمع کیا اوربتایاکہ اسے انتخابات کے قوانین کابالکل ادراک نہیں ہے مگروہ صرف ایک بات جانتاہے کہ اس کے تمام فیصلے آئین اورقانون کے مطابق ہوںگے۔چندہفتوں میں سیشن نے انتخابی قوانین پر دسترس حاصل کرلی۔اب وہ مختلف فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آچکاتھا۔اس کا پیشروایک کیس کی سماعت کررہا تھا ۔کیس انتہائی حساس اوردوررس نتائج کاحامل تھا۔ اس کاعنوان'' سبرامنیم بنام جنتاپارٹی''تھا ۔ سیشن نے ایک ہفتہ لگاکرکیس کوباریکی سے پڑھا۔ فریقین کوبلایااورانھیں سننا شروع کردیا۔صرف ایک دن کی سماعت کے بعد مقدمے کا فیصلہ کردیا۔پورے ہندوستان میں ایک سیاسی بھونچال آگیا مگرسیشن ٹس سے مس نہ ہوا۔اس شخص نے اپنے چھ سال کے دورانیے میں چودہ ہزار امیدواروں کوپورے سیاسی نظام سے باہرنکال دیا ۔ اس شخص نے چالیس ہزارامیدواروں کے اخراجات کے گوشواروں کوپڑھااوران پرفیصلہ صادرکردیا ۔ دوصوبوں نے اس کے احکامات ماننے میں چوں چراں کی تو اس نے وہاں الیکشن ہی ختم کرڈالا۔ یہ صوبہ بہاراورہندوستان کا پنجاب تھا۔پورے ہندوستان میں سیاست دانوں کوعلم ہو گیا کہ الیکشن کمیشن کیاہوتاہے۔

ہندوستان میں الیکشن کے دوران عبوری حکومت وجود میں نہیں آتی بلکہ پرانی حکومت موجودرہتی ہے۔مگراسکے تمام انتظامی اختیارات الیکشن کمیشن کومنتقل ہوجاتے ہیں ۔ سیشن نے اپنے نظام میں یہ خرابی محسوس کی کہ ہرصوبے میں افسران کسی نہ کسی سیاسی رہنماکی مدد سے اپنے عہدے پرفائز ہیں۔ لامحالہ وہ الیکشن میں اپنے محسن کاخوب خیال کرتے ہیں۔ سیشن نے ہر ریاست میں سرکاری ملازموں کوسمجھایاکہ انھیں یہ قومی فریضہ غیرجانبداری سے سرانجام دیناہوگا ۔کسی نے الیکشن کمشنرکی بات کوسنجیدگی سے نہ لیا ۔ سیشن نے ایک انتہائی مشکل اوردوررس فیصلہ کرڈالا۔ اس نے جس جس جگہ الیکشن ہورہے تھے،وہاں کے تمام افسروں کوتبدیل کردیا۔دوردرازکے علاقوں سے نئے افسروں کوذمے داری دے دی گئی۔ جس نے تھوڑاسانخرہ کیا،اس کو معطل کردیا۔

افسران سیاسی رہنماکی آغوش میں جھولے لے رہے تھے۔ان کی طبیعت صاف کرنے کے لیے کچھ کوجیل بھیج دیا۔خیرہمارے ملک میں اتنے سخت فیصلے کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔ صوبائی وزراء اعلیٰ نے قیامت ڈھادی۔ان کے لگے ہوئے افسران کے تبادلہ کا مطلب صاف تھاکہ اب وہ الیکشن غیرجانبدارانتظامیہ کے تحت لڑیں گیاوراس کامطلب ان کی ہارتھا ۔ ریاستوں نے سیشن کے احکامات کے خلاف بغاوت کردی۔سیشن سپریم کورٹ چلاگیا۔ عدالت نے فیصلہ دیاکہ شفاف الیکشن کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کا قدم بالکل درست ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تمام صوبوں کو پابند کردیاگیا کہ وہ الیکشن کمشنرکے احکامات کومن وعن تسلیم کریںگے۔اب ساراانتظامی نظام سیشن کے ہاتھ میں تھا۔اس نے اس طاقت کوصرف ایک مقصدکے لیے استعمال کیااوروہ تھا شفاف اورغیرجانبدار الیکشن کاانعقاد ۔ سیشن کے صرف ایک فیصلہ سے ہندوستان میں جمہوری نظام مضبوط ہوگیا۔

1992سے پہلے ہندوستان میں ووٹ ڈالنے کے لیے تصویروالے کارڈکی ضرورت نہ تھی۔ سیشن نے محسوس کیاکہ اس سے جعلی ووٹ پڑتے ہیں کیونکہ پریذاڈنگ افسرکوبالکل معلوم نہیں ہوتاکہا اصل ووٹر کون ہے۔ حکومت کوحکم دیاکہ وہ تمام ووٹروںکوتصویروالے کارڈمہیاکرے۔سیاستدانوںنے آسمان سرپراٹھالیا۔ پارلیمنٹ میں قراردادیں منظورہونی شروع ہوگئیں کہ سیشن اپنے اختیارات سے تجاوزکررہاہے۔ سیشن خاموش رہا ۔ اس نے صرف ایک آرڈرپاس کیاکہ اگرووٹرکے پاس تصویروالاکارڈنہیں ہوگا تو1995کے بعدپورے ہندوستان میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔اب حکومت نے ہنگامی طورپرکارڈبنانے کی مہم شروع کردی۔صرف چھ ماہ میں کروڑوں کارڈمکمل کردیے گئے۔

ہماری طرح وہاں بھی انتخابات کے دوران امیدواروں کی مہم پراخراجات پرکنٹرول کرنے کا مسئلہ ہے۔ہم توخیر فیل ہوچکے ہیں۔مگرسیشن ایک فعال الیکشن کمشنرتھا۔اس نے ہرسطح کے الیکشن کے لیے اخراجات کی ایک خاص حد مقرر کر دی۔ وزیراعظم نرسیماراؤ نے اس حدکوبڑھانے کی کوشش کی توسیشن نے وزیراعظم کوجھاڑپلادی۔1993کے انتخابات میں اس نے ایک کنٹرول روم بنایا ۔ یہ چوبیس گھنٹہ کام کرتا تھا۔ ہر ریاست کے لیے ایک افسرکنٹرول روم میں بیٹھارہتا تھا۔ وہ امیدواروں کے انتخابی اخراجات کاتخمینہ لگاتاتھا۔ رپورٹ ہرچوبیس گھنٹے کے بعد سیشن کی میزپرہوتی تھی۔صرف ان رپورٹس کی بنیاد پرسیشن نے لوک سبھاکے پندرہ سو امیدوار نااہل قراردے ڈالے ۔سیشن صرف یہاں نہیں رکا ۔اس نے انتخاب میں وال چاکنگ،پوسٹرزاورایک خاص سطح سے بلند لاؤڈسپیکرپربھی پابندی لگادی۔ہندوستان جیساملک جہاں اسی کروڑسے زیادہ ووٹر ہیں، اس میں تمام احکامات کوسو فیصد نافذالعمل کردیاگیا۔سیشن اس درجہ متحرک انسان تھاکہ وہ ہر ضلع،ہریونیورسٹی،میں جانے کی کوشش کرتاتھا۔وہاں طالبعلموں اورعام لوگوں کوووٹ کی طاقت کے متعلق لیکچر دیتا تھا۔بتاتاتھاکہ اس کی موجودگی میں کسی بھی شخص کاووٹ چرایا نہیں جاسکتا۔کوئی ڈبے نہیں بھرسکتا۔کوئی بھی سیاستدان الیکشن کے نظام پراثراندازنہیں ہوسکتا۔انڈیامیں پہلے بھی الیکشن کمیشن بہت فعال تھامگرسیشن نے اس ادارے کووہ طاقت اورہمت دے ڈالی کہ طاقتورسے طاقتوروزیراعظم اور وزیراعلیٰ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوتے ہیں۔

ادارہ کی مضبوطی کااندازہ لگایاکہ2015میں تلنگانہ صوبے میں الیکشن ہورہے ہیں۔ وہاں کے آئی ٹی کے وزیر تراکارما نے اپنے دفترمیں چندلوگوں کی درخواست پر صرف یہ لکھ دیاکہ ان کے علاقے میں سڑکیں ٹوٹی ہوئیں ہیں لہذا وہاں سڑکوں کی مرمت کردی جائے۔ وزیر موصوف کایہ حکم نامہ الیکشن کمیشن میں پیش کردیاگیا اوران کی پیشی ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ نے فیصلہ دیاکہ وزیرنے اپنی سرکاری حیثیت کاناجائزفائدہ اٹھایاہے اور مقامی الیکشن پرا ثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ یہ حکم نامہ تراکاراماکوجب سنایاگیا تو وہ لرزرہاتھا۔اسکوصرف تنبیہ کی گئی کہ وہ آیندہ اس طرح کی حرکت نہ کرے ورنہ اسے جیل بھیج دیاجائے گا۔

دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت میں شفاف الیکشن کا انعقادکراناانتہائی مشکل کام ہے۔مگرایک مضبوط، طاقتور اور غیرجانبدارالیکشن کمیشن کی بدولت یہ دشوارمرحلہ انتہائی آسانی سے طے ہوتاجاتا ہے۔کسی بھی سیاسی فریق نے آج تک الیکشن کمیشن پرکوئی الزام نہیں لگایا۔کمیشن کے ممبران پرکبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔یہ مضبوط ادارہ ہمسایہ ملک میں جمہوریت کا ضامن ہے۔ میں اپنے نظام میں ٹی این سیشن جیسافعال اور غیرجانبدارچیف الیکشن کمیشن تلاش کرنے کی ناکام کوشش کررہاہوں۔ پتہ نہیں کیوں میں اپنے ملک کے الیکشن کمیشن کے متعلق کچھ نہیں لکھناچاہتا!کچھ بھی نہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں