سیاسی جماعتوں کا کردار
دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں عوامی جذبات واحساسات کی ترجمانی کا ذریعہ ہوتی ہیں،
لاہور:
دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں عوامی جذبات واحساسات کی ترجمانی کا ذریعہ ہوتی ہیں، جو اپنے نظریات، افکار اور سیاسی منشور کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ عوام کی جانب سے تفویض کی گئی نمایندگی کی بنیاد پر ریاست اور معاشرے کے درمیان تعلق استوار کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ عوام میں مقبولیت حاصل کرکے اقتدار تک پہنچنا سیاسی جماعتوں کا بنیادی نصب العین ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشور میں عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انھی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کو دائیں، بائیں، Right to centre، یا Left to centre کی کیٹیگری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
امریکا میں ری پبلکن پارٹی امیر طبقات کی نمایندگی کرتی ہے۔ اسی بنیاد پر یہ دائیں بازو کی جماعت کہلاتی ہے۔ تقریباً ایک صدی سے اس کا انتخابی نشان ہاتھی چلا آرہا ہے، جو اس کے حلقہ انتخاب کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکا کی دوسری بڑی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی ہے۔ یہ متوسط اور نچلے متوسط طبقہ کی جماعت ہے، جو لبرل خیالات کی حامل ہے۔ چونکہ یہ عام آدمی کی نمایندگی کرتی ہے، اس لیے اس نے اپنے لیے گدھے کا انتخابی نشان رکھا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں لیبر پارٹی اپنے نام کے اعتبار سے محنت کشوں یا عام لوگوں کی جماعت ہے، جو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ جب کہ ٹوری پارٹی امریکا کی ریپبلکن پارٹی کی طرح امراء کی جماعت ہے اور یہ خود کو قدامت پرست کہلوانا پسند کرتی ہے۔ اس لیے یہ دائیں بازو کی جماعت کہلاتی ہے۔ بھارت میں کمیونسٹ اور مختلف سوشلسٹ پارٹیاں بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس اپنے سیکولر نظریات کی وجہ سے Centralist جماعت کہلاتی ہے۔ اس کے برعکس BJP سمیت ہندو قوم پرستی کا پرچار کرنے والی سیاسی جماعتیں دائیں بازوسے تعلق رکھتی ہیں۔
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ درج بالا عالمی رجحانات سے قطعی مختلف ہے۔ اس وقت پاکستان میں 100 سے زائد چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ جن میں صرف چند ہی قومی دھارے یا Mainstream جماعتیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت علاقائی اور مذہبی شناخت رکھتی ہے۔ علاقائی جماعتوں کی بنیاد لسانی اور قومیتی ہے، جب کہ خود کو مذہبی کہلوانے والی جماعتیں فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر منظم ہیں۔ ان میں سے بھی صرف چند جماعتیں ہی اپنا مخصوص حلقہ انتخاب رکھتی ہیں۔ باقی جماعتیں محض پریشر گروپس کے طور پر کام کرتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ Mainstream جماعتیں بھی سکڑ کر علاقائی شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے قومی سیاست تقریباً دھندلا گئی ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو دہائیوں سے سیاسی جماعتوں کی نظریاتی شناخت بھی تقریباً ختم ہوچکی ہے۔
قیام پاکستان سے قبل اس خطے میں وہ تمام سیاسی جماعتیں اپنا وجود رکھتی تھیں، جو برٹش انڈیا میں فعال تھیں۔ مگر کچھ علاقائی جماعتیں بھی اس خطے میں قبولیت رکھتی تھیں۔ جیسے پنجاب میں یونینسٹ پارٹی۔ سندھ میں سندھ آزاد پارٹی اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی وغیرہ۔ قیام پاکستان کے بعد یہ جماعتیں یا تو ازخود تحلیل ہوگئیں یا انھیں ختم ہوجانے پر مجبور کیا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس قیام پاکستان کے فوراً بعد عملاً ختم ہوگئی۔ گو باچا خان سمیت کانگریس کی کئی بڑی شخصیات یہاں موجود تھیں۔ اس کے برعکس بھارت میں مسلم لیگ ختم نہیں ہوئی اور برسہا برس تک کیرالہ سمیت کئی ریاستوں سے انتخابات میں حصہ لے کر ایک یا دو نشستیں حاصل کرتی رہی۔
کمیونسٹ پارٹی گو اس خطے میں اپنا وجود رکھتی تھی، مگر بنگال اور جنوبی ہند کی ریاستوں کی طرح مقبولیت نہیں رکھتی تھی۔ اس جماعت میں زیادہ تر غیر مسلم تھے، جو تقسیم ہند کے نتیجے میں بھارت نقل مکانی کرگئے۔ آنجہانی سوبھوگیان چندانی سمیت گنتی کے چند غیر مسلم کمیونسٹ رہنما یہاں رہ گئے۔ مسلمان کمیونسٹ رہنماؤں کی تعداد بھی بہت معمولی تھی۔ مرزا ابراہیم، دادا فیروز الدین حیدر اور دادا امیر حیدر جیسی چند ایک بڑی شخصیات موجود تھیں۔ چنانچہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنے کلکتہ کنونشن میں سجاد ظہیر مرحوم کو پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی منظم کرنے کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی دو دہائیوں کے دوران کمیونسٹ پارٹی میں بھی اکثریت ہجرت کرکے آنے والے رہنماؤں اور کارکنو ں ہی کی رہی۔
جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے، تو ان میں احرار، خاکسار، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے ہند اس خطے میں اپنی شاخیں ضرور رکھتی تھیں، مگر مرکزی قیادت ہندوستان کے ان علاقوں سے تھی، جو پاکستان میں شامل نہیں ہوئے۔ عوامی سطح پر کوئی خاص مقبولیت نہیں تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ان میں سے بیشتر جماعتوں کے سربراہان نے پاکستان کا رخ کیا اور اپنی جماعتوں کو ازسرنو منظم کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ جب کہ جمعیت علمائے ہند سے تعلق رکھنے والے پاکستانی علماء نے اپنی جماعت کو جمعیت علمائے اسلام کا نام دے کر پاکستان میں فعال کیا۔ بریلوی مسلک کے علماء نے مولانا عبدالحامد بدایونی کی قیادت میں جمعیت علمائے پاکستان کی بنیاد رکھی، جسے 1970 کے عشرے میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم نے ایک فعال اور مقبول جماعت کی شکل دی۔
درج بالا صورتحال ملک کے مغربی حصے کا سیاسی منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ جب کہ مشرقی حصے میں سیاسی فعالیت خاصی حد تک بہتر تھی اور وہ تمام سیاسی جماعتیں جو برٹش انڈیا میں فعال تھیں، سابقہ مشرقی پاکستان میں اپنی جڑیں رکھنے کی وجہ سے تقسیم ہند کے بعد بھی موجود رہیں۔ خاص طور پر کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر جماعتیں۔ ان جماعتوں نے پاکستان میں یک جماعتی آمریت کو روکنے اور سیاسی عمل کو فعال رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی اور فیوڈل سیاستدان سابقہ مشرقی پاکستان کی اس سیاسی فعالیت سے نالاں رہتے تھے۔ بنگالیوں کی سیاسی قوت کا زور توڑنے کے لیے انھوں نے پیریٹی جیسے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کیے۔ جس کا نتیجہ بالآخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد مغربی حصہ پر فوجی آمریتوں کی راہ ہموار ہوئی اور غیر نمایندہ اشرافیہ کی گرفت ملکی انتظامی ڈھانچہ پر مزید مضبوط ہوگئی۔
دراصل جس خطے پر پاکستان بنا ہے، اس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ صدیوں سے قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کے چنگل میں پھنسے ہونے کے سبب سول سوسائٹی کا کبھی بھی کوئی خاطر خواہ وجود نہیں رہا۔ سیاسی جماعتوں پر بھی قبائلی اثرات کی وجہ سے موروثیت غالب ہے اور ان کی قیادت کی روش غیر جمہوری ہوتی ہے۔ نتیجتاً جمہوری ادارے وہ طاقت حاصل نہیں کرسکے، جو ایک جمہوری معاشرے کی بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نوآبادیاتی دور سے وراثت میں ملنے والے انتظامی ادارے انتہائی منظم اور طاقتور ہیں۔ جو ریاست اور سیاست میں توازن قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
سول سوسائٹی کی نمایندگی پیشہ ور تنظیمیں (Professional Bodies)، ٹریڈیونینیں اور طلبا تنظیمیں کرتی رہیں، مگر بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مختلف نوعیت کی پابندیوں کے باعث ان کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ ٹریڈیونین اور طلبا تحریک کو جنرل ضیا کے دور میں جو بھیانک نقصان پہنچا، وہ تو تاریخ کا سیاہ باب ہے، لیکن خود مسٹر بھٹو کے جمہوری دور میں ٹریڈیونین اور طلبا تحاریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا اور انھیں تقسیم در تقسیم کا شکار کرکے دانستہ کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، جس کے اثرات سیاست پر مرتب ہونا شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ مڈل کلاس کیڈر کی سیاسی جماعتوں میں آمد کا سلسلہ تقریباً رک گیا۔ یہ صورتحال سیاسی عمل کے پھیلاؤ اور جمہوری اداروں کی تشکیل و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
1980کے عشرے سے جب سماجی تنظیمیں ظہور پذیر ہونا شروع ہوئیں اور ذرایع ابلاغ نے فعالیت اور مستعدی کا اظہار کرنا شروع کیا، تو جمہوری کلچر کی راہیں ہموار ہونا شروع ہوئیں۔ مگر اسٹبلشمنٹ کی بے پناہ منظم طاقت اور سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی پر مبنی عاقبت نااندیش پالیسیوں کے سبب سیاست ایک بار پھر بازنجیر ہوتی نظر آرہی ہے۔ ذرایع ابلاغ میں شامل کالی بھیڑیں اور ان کے غیر جمہوری قوت کے ساتھ روابط اور سول سوسائٹی کی عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں پر مختلف نوعیت کے قدغن، دراصل جمہوری سیاسی عمل کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اس تناظر میں سندھ کی صوبائی اور اسلام آباد کی وفاقی حکومت کے درمیان رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے بڑھتا ہوا تناؤ کسی بھی وقت خطرناک سمت اختیار کرسکتا ہے، جو جمہوری سیاسی عمل کے تسلسل کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں فی الحال اپنے فروعی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر جمہوری عمل کو بچانے پرتوجہ دیں۔