مسلم دنیا کا بحران
مصر میں جمال عبدالناصر کی حکومت تھی ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ سامراج اور اسرائیل دشمن تھے
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آخر کار طویل بحث کے بعد شام میں خانہ جنگی کے خاتمے اور قیام امن کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک قرارداد کی مشترکہ طور پر منظوری دیدی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عرب بہار نے جمہوریت کیا لانی تھی بلکہ اس کے نتیجے میں یہ خطہ ایسا افراتفری کا شکار ہوا جس سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اب ثابت ہو گیا کہ عرب بہار کے ذریعے اخوان المسلمین کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ مصر میں حسنی مبارک کی آمریت کا خاتمہ کرکے اس سے بھی بدترین آمریت مسلط کر دی گئی۔ لیبیا پر انتہا پسندوں کا قبضہ ہو گیا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ عرب بہار کے ذریعے کم از کم عرب بادشاہتوں کے آمرانہ اختیارات کو کم کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو اقتدار اعلیٰ میں شریک کیا جا سکے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
ادھر عراق میں قتل و غارت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ شام جو حافظ الاسد اور ان کے بعد بشار الاسد کے اقتدار میں ایک مستحکم ریاست تھی، اب افراتفری کا شکار ہو گئی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں سمیت عرب بادشاہتوں نے بشار حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے باغی گروہوں کو منظم کیا جو شام اور بیرون شام سے تعلق رکھتے تھے۔ حتی کہ یورپ اور امریکا میں مقیم لوگوں کو شام پہنچنے کے لیے سہولتیں مہیا کی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شام بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اسی تباہی و بربادی میں صرف بشار مخالف باغی گروہوں کا ہی حصہ نہیں بلکہ امریکی اور اسرائیلی فضائیہ بھی بمباری کر کے سویلین ہلاکتوں میں حسب توفیق حصہ ڈال رہی ہے۔ شام، عراق اور بحرین میں فرقہ واریت کو استعمال کیا گیا۔ بہر حال اس سب کے ذمے دار برطانیہ اور فرانس ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے زیر اقتدار سرزمین حجاز کی بندر بانٹ کرتے ہوئے درجنوں ملک تخلیق کیے اور اس طرح کیے کہ ان کی بنیادوں پر فساد بو دیے تاکہ ان کے مفادات محفوظ رہیں اور مسلمان آپس میں لڑتے رہیں۔ عراق و شام میں بعث پارٹی حکمران تھی، ایک وقت آیا کہ دونوں ملک متحد بھی ہو گئے۔
مصر میں جمال عبدالناصر کی حکومت تھی ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ سامراج اور اسرائیل دشمن تھے اور سوویت یونین ان کا دوست تھا' جس نے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں ہر برے وقت سیاسی سفارتی جنگی محاذ پر ان ملکوں کا بھرپور ساتھ دیا لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عیارانہ سازشوں نے پہلے مصر میں قوم پرست لیڈر جمال عبدالناصر کی حکومت کا خاتمہ کیا پھر انوار السادات کو لایا گیا۔ یہی کچھ عراق میں ہوا۔ مقصد صرف ایک ہی تھا کہ اسرائیل کو محفوظ بنایا جائے۔ اب اس راستے کی آخری رکاوٹ شام ہے جہاں باغی گروہوں کے ذریعے شام کو میدان جنگ بنا دیا گیا ہے۔ شام خوبصورت لوگوں کا ملک جس میں رواداری اور برداشت اس درجہ کی تھی کہ اس خانہ جنگی سے پہلے سنی مسلک کے لوگ شیعہ مساجد میں نماز پڑھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے اور یہی حال شیعوں کا تھا اور اب یہ حال ہے کہ مذہب کے نام پر ہی موت کا بازار گرم ہے۔
شام کے حوالے سے ایران کا کردار بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے مخالفین کی تنقید کاجواب دیتے ہوئے ایرانی سپریم کورٹ لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی اکبر ولایتی کا کہنا ہے کہ اگر امریکا عراق پر قبضہ کر لیتا تو وہ ایران کی حدود کے قریب سمندر میں اپنا اڈہ بنا لیتا۔ اس لیے عراق میں ایران کو اپنے تحفظ کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔ اگر ہم آگے بڑھ کر شام میں اپنے دشمن کا مقابلہ نہ کرتے تو وہ آج ہماری سرحدوں پر پہنچ چکا ہوتا۔
ایران میں آج سے چھتیس سال پہلے جب اسلامی انقلاب برپا ہوا تو کہا گیا کہ ہم اس انقلاب کو برآمد کریں گے۔ سامراجیوں کے تو مزے ہوگئے، انھوں نے اس فقرے کو بھرپور طور پر استعمال کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کومسلکی انقلاب بنا کر پیش کیا تاکہ مسلمانوں میں یہ خوف پیدا کیا جا سکے کہ ایران اس انقلاب کے ذریعے پوری اسلامی دنیا پر قبضہ کر لے گا۔ ایسا سوچنا بھی جہالت کی انتہا تھی کیونکہ یہ تو سامراجیوں کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف تھا۔کیا ایران اس بات کو افورڈ کر سکتا تھا کہ وہ امریکا اس کے اتحادیوں اور مسلم دنیا سے بیک وقت لڑے۔ یہ لڑائی تو امریکا اور ایران کے درمیان تھی، اس کا مسلم دنیا سے کیا تعلق۔
ایران میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا خاتمہ ہوا تھا نہ کہ مسلم دنیا کا ایران اور امریکا کا کوئی مقابلہ اور جوڑ ہی نہیں۔ نہ سیاسی نہ معاشی اور نہ ہی جنگی سطح پر۔ جو امریکا سوویت یونین جیسی سپر طاقت کو توڑ سکتا ہے۔ اس کے آگے بھلا ایران کی کیا حیثیت؟ لیکن سامراجی میڈیا کو داد دیں جس نے دنیا کو خاص طور پر مسلم دنیا میں ایران کی کامیابی سے ایک عفریت بنا کر پیش کیا کہ مسلم دنیا میں اچھے بھلے پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں نے سامراجی سبق' طوطے کی طرح دہرانا شروع کر دیا کہ ایران اپنا انقلاب برآمد کر کے مسلم دنیا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ان سمجھدار لوگوں نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ جب وہ یہ بات کرتے ہیں تو امریکی سازش میں معاون مدد گار بنتے ہیں کہ مسلمانوں کو شیعہ سنی کے نام پر آپس میں لڑایا جائے ۔
ہر انقلاب کا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ ایرانی انقلاب کو برآمد کرنے کا مطلب یہ تھا کہ مسلم دنیا میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ جس طرح ایرانی عوام نے امریکی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے، اس طرح مسلم دنیا امریکا اور اپنے ان حکمرانوں سے نجات حاصل کرے جو امریکی ایجنٹ ہیں کیونکہ مسلم دنیا کی تباہی کے ذمے دار صرف اور صرف امریکا اور اس کے ایجنٹ حکمران ہیں۔ انقلاب برآمد کرنے کا مقصد مسلم دنیا کو نظریاتی طور پر سامراج کے حوالے سے اپنا ہم خیال بنانا تھا نہ کہ مسلم دنیا کو فتح کرنا ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلم دنیا کے وسائل پر سامراجی لوٹ مار کا خاتمہ کر کے مسلم دنیا میں غربت بے روز گاری اور بھوک کا خاتمہ کر کے انھیں خوشحال اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنایا جا سکے۔ تو کیا ایران کی یہ سوچ مسلم دنیا سے دوستی ہے یا دشمنی؟۔ اس کا فیصلہ مسلمانوں کو خود ہی کرنا ہے... اور ہاں ایک اور بات ایران مسئلہ فلسطین پر پچھلے 37سالوں سے فلسطینی مسلمانوں کی ہر طرح طرح مالی جنگی سیاسی سفارتی مدد کر کے امریکا اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے غیض و غضب کا شکار ہو کر' بے پناہ تباہی و بربادی کا سامنا کر رہا ہے۔ اگر وہ یہ جرم نہ کرے تو امریکی بارگاہ میں اس سے زیادہ لائق التفات کوئی اور نہ ہو... ہے نامزے کی بات۔
ادھر عراق میں قتل و غارت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ شام جو حافظ الاسد اور ان کے بعد بشار الاسد کے اقتدار میں ایک مستحکم ریاست تھی، اب افراتفری کا شکار ہو گئی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں سمیت عرب بادشاہتوں نے بشار حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے باغی گروہوں کو منظم کیا جو شام اور بیرون شام سے تعلق رکھتے تھے۔ حتی کہ یورپ اور امریکا میں مقیم لوگوں کو شام پہنچنے کے لیے سہولتیں مہیا کی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شام بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اسی تباہی و بربادی میں صرف بشار مخالف باغی گروہوں کا ہی حصہ نہیں بلکہ امریکی اور اسرائیلی فضائیہ بھی بمباری کر کے سویلین ہلاکتوں میں حسب توفیق حصہ ڈال رہی ہے۔ شام، عراق اور بحرین میں فرقہ واریت کو استعمال کیا گیا۔ بہر حال اس سب کے ذمے دار برطانیہ اور فرانس ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے زیر اقتدار سرزمین حجاز کی بندر بانٹ کرتے ہوئے درجنوں ملک تخلیق کیے اور اس طرح کیے کہ ان کی بنیادوں پر فساد بو دیے تاکہ ان کے مفادات محفوظ رہیں اور مسلمان آپس میں لڑتے رہیں۔ عراق و شام میں بعث پارٹی حکمران تھی، ایک وقت آیا کہ دونوں ملک متحد بھی ہو گئے۔
مصر میں جمال عبدالناصر کی حکومت تھی ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ سامراج اور اسرائیل دشمن تھے اور سوویت یونین ان کا دوست تھا' جس نے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں ہر برے وقت سیاسی سفارتی جنگی محاذ پر ان ملکوں کا بھرپور ساتھ دیا لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عیارانہ سازشوں نے پہلے مصر میں قوم پرست لیڈر جمال عبدالناصر کی حکومت کا خاتمہ کیا پھر انوار السادات کو لایا گیا۔ یہی کچھ عراق میں ہوا۔ مقصد صرف ایک ہی تھا کہ اسرائیل کو محفوظ بنایا جائے۔ اب اس راستے کی آخری رکاوٹ شام ہے جہاں باغی گروہوں کے ذریعے شام کو میدان جنگ بنا دیا گیا ہے۔ شام خوبصورت لوگوں کا ملک جس میں رواداری اور برداشت اس درجہ کی تھی کہ اس خانہ جنگی سے پہلے سنی مسلک کے لوگ شیعہ مساجد میں نماز پڑھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے اور یہی حال شیعوں کا تھا اور اب یہ حال ہے کہ مذہب کے نام پر ہی موت کا بازار گرم ہے۔
شام کے حوالے سے ایران کا کردار بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے مخالفین کی تنقید کاجواب دیتے ہوئے ایرانی سپریم کورٹ لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی اکبر ولایتی کا کہنا ہے کہ اگر امریکا عراق پر قبضہ کر لیتا تو وہ ایران کی حدود کے قریب سمندر میں اپنا اڈہ بنا لیتا۔ اس لیے عراق میں ایران کو اپنے تحفظ کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔ اگر ہم آگے بڑھ کر شام میں اپنے دشمن کا مقابلہ نہ کرتے تو وہ آج ہماری سرحدوں پر پہنچ چکا ہوتا۔
ایران میں آج سے چھتیس سال پہلے جب اسلامی انقلاب برپا ہوا تو کہا گیا کہ ہم اس انقلاب کو برآمد کریں گے۔ سامراجیوں کے تو مزے ہوگئے، انھوں نے اس فقرے کو بھرپور طور پر استعمال کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کومسلکی انقلاب بنا کر پیش کیا تاکہ مسلمانوں میں یہ خوف پیدا کیا جا سکے کہ ایران اس انقلاب کے ذریعے پوری اسلامی دنیا پر قبضہ کر لے گا۔ ایسا سوچنا بھی جہالت کی انتہا تھی کیونکہ یہ تو سامراجیوں کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف تھا۔کیا ایران اس بات کو افورڈ کر سکتا تھا کہ وہ امریکا اس کے اتحادیوں اور مسلم دنیا سے بیک وقت لڑے۔ یہ لڑائی تو امریکا اور ایران کے درمیان تھی، اس کا مسلم دنیا سے کیا تعلق۔
ایران میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا خاتمہ ہوا تھا نہ کہ مسلم دنیا کا ایران اور امریکا کا کوئی مقابلہ اور جوڑ ہی نہیں۔ نہ سیاسی نہ معاشی اور نہ ہی جنگی سطح پر۔ جو امریکا سوویت یونین جیسی سپر طاقت کو توڑ سکتا ہے۔ اس کے آگے بھلا ایران کی کیا حیثیت؟ لیکن سامراجی میڈیا کو داد دیں جس نے دنیا کو خاص طور پر مسلم دنیا میں ایران کی کامیابی سے ایک عفریت بنا کر پیش کیا کہ مسلم دنیا میں اچھے بھلے پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں نے سامراجی سبق' طوطے کی طرح دہرانا شروع کر دیا کہ ایران اپنا انقلاب برآمد کر کے مسلم دنیا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ان سمجھدار لوگوں نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ جب وہ یہ بات کرتے ہیں تو امریکی سازش میں معاون مدد گار بنتے ہیں کہ مسلمانوں کو شیعہ سنی کے نام پر آپس میں لڑایا جائے ۔
ہر انقلاب کا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ ایرانی انقلاب کو برآمد کرنے کا مطلب یہ تھا کہ مسلم دنیا میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ جس طرح ایرانی عوام نے امریکی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے، اس طرح مسلم دنیا امریکا اور اپنے ان حکمرانوں سے نجات حاصل کرے جو امریکی ایجنٹ ہیں کیونکہ مسلم دنیا کی تباہی کے ذمے دار صرف اور صرف امریکا اور اس کے ایجنٹ حکمران ہیں۔ انقلاب برآمد کرنے کا مقصد مسلم دنیا کو نظریاتی طور پر سامراج کے حوالے سے اپنا ہم خیال بنانا تھا نہ کہ مسلم دنیا کو فتح کرنا ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلم دنیا کے وسائل پر سامراجی لوٹ مار کا خاتمہ کر کے مسلم دنیا میں غربت بے روز گاری اور بھوک کا خاتمہ کر کے انھیں خوشحال اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنایا جا سکے۔ تو کیا ایران کی یہ سوچ مسلم دنیا سے دوستی ہے یا دشمنی؟۔ اس کا فیصلہ مسلمانوں کو خود ہی کرنا ہے... اور ہاں ایک اور بات ایران مسئلہ فلسطین پر پچھلے 37سالوں سے فلسطینی مسلمانوں کی ہر طرح طرح مالی جنگی سیاسی سفارتی مدد کر کے امریکا اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے غیض و غضب کا شکار ہو کر' بے پناہ تباہی و بربادی کا سامنا کر رہا ہے۔ اگر وہ یہ جرم نہ کرے تو امریکی بارگاہ میں اس سے زیادہ لائق التفات کوئی اور نہ ہو... ہے نامزے کی بات۔