مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر

نائن الیون کے سانحے کے بعد امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو طوفان آج سے چند سال پہلے کسی حد تک تھم چکا تھا

اکبر جمال

نائن الیون کے سانحے کے بعد امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو طوفان آج سے چند سال پہلے کسی حد تک تھم چکا تھا وہ فرانس کے دارالحکومت پیرس اور بعدازاں امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان برناڈینو میں ہونے والے سانحے کے باعث پھر برپا ہو چکا ہے، اس واردات میں پاکستانی نژاد امریکی نوجوان سید فاروق رضوان اور ان کی پاکستانی اہلیہ تاشفین ملک کے ملوث ہونے کے امریکی دعویٰ کے بعد پھر دوبارہ امریکی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر زور پکڑ رہی ہے۔

امریکی ایف بی آئی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرتوں میں 60 سے 70 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور شاذ و نادر ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ مسلم عبادت گاہوں اور مسلمانوں کو دھمکی آمیز فون کال اور ای میل نہ بھیجی جاتی ہو، مختلف ریاستوں میں مسجدوں کو جلانے یا نقصان پہنچانے کی اطلاعات آتی رہتی ہیں اور ان نفرتوں کو بھڑکانے میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سرفہرست ہیں۔ اگرچہ تعلیم یافتہ امریکی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکا کی آزادی سے لے کر اب تک اس ملک کی ترقی میں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے یہاں امریکی تاریخی کتابوں کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ امریکی آزادی سے قبل 14 ویں صدی سے ہی شروع ہو گیا تھا جب کہ امریکی خانہ جنگی میں بھی مسلمانوں نے تعداد کم ہونے کے باوجود جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

1861ء سے 1865ء کے درمیان لڑی جانے والی سول وار میں موسیٰ عثمان کی قیادت میں 292 مسلمانوں نے حصہ لیا اور امریکی جنگ آزادی کا حصہ بنے اور فتح حاصل کی، امریکا میں مسلمانوں کے کردار کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ نیویارک میں دنیا بھر کے سیاحوں کا تفریحی مرکز Statue of Liberty ایک مصری مسلمان خاتون کا ہے اور جسے مصر میں تیار کیا گیا تھا، بعدازاں اسے فرانس لے جایا گیا بعد میں 28 اکتوبر 1886ء میں فرانسیسی حکمرانوں نے بطور تحفہ اسے امریکا کو دے دیا۔ امریکا کی ترقی میں بھی مسلمانوں کا کردار شروع سے ہی اہم رہا ہے، اب بھی امریکی افواج سمیت مختلف شعبوں میں مسلمان اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔


امریکی افواج میں 6 ہزار سے زائد مسلمان مختلف عہدوں پر فائز ہیں تاہم ری پبلکن کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف شر انگیز تقاریر اور پروپیگنڈے نے مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کو عروج پر پہنچا دیا۔ ایف بی آئی تقریباً 80 سے زائد ایسے Hate Crime کی تحقیقات کر رہی ہے جس میں مسلمانوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ ان کی املاک اور عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے جب کہ امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں چند سفید فام طالب علموں نے حمزہ نامی 16 سالہ مسلمان لڑکے کو شدید زدوکوب کرنے کے بعد 6 منزلہ کالج کی بلڈنگ سے نیچے پھینک دیا، جس سے وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔ مسلم کمیونٹی نے اس واقعہ پر شدید احتجاج کیا اور ایف بی آئی سے اس واقعہ کی مکمل تحقیقات اور ملزموں کو گرفتار کرنے کی اپیل کی تاہم اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔

مسلمانوں کے خلاف پھیلنے والی نفرت کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ اگر اس سلسلے کو نہیں روکا گیا تو حالات ابتر ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ اگرچہ مستقبل قریب میں مسلمانوں کے خلاف کسی بڑے پرتشدد واقعہ کے آثار نہیں ملتے تاہم اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ڈونلڈ ٹرمپ کے نا صرف مسلمانوں بلکہ ہسپانوی باشندوں کے خلاف بیانات اور نفرت انگیز پروپیگنڈے کے بعد ہسپانوی نژاد امریکیوں کی ایک درجن سے زائد تنظیموں نے برملا اعلان کیا ہے کہ ان کی کمیونٹی 2016ء کے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن کی طرف سے صدارتی امیدوار منتخب ہوئے تو 52 ملین ہسپانوی باشندے ان کے خلاف ووٹ دیں گے اور ان کو شکست سے دوچار کرائیں گے، ادھر سیاہ فام امریکیوں نے بھی ٹرمپ کے خلاف انتخاب میں شکست دینے کا اشارہ دیا ہے سیاہ فام امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے اقلیتوں کے خلاف زہرآلود اور نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے نالاں ہوئے ہیں۔

واضح طور پر امریکی عوام منقسم ہو چکے ہیں حال ہی میں کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشن (CAIR) کے سربراہ ابراہیم ہوپر کا کہنا ہے کہ پیرس اور کیلی فورنیا کے واقعہ کے بعد مسلمانوں کے اندر جو بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت دیکھنے میں آئی ہے یہ شدت 9/11 کے سانحہ کے بعد بھی نہیں تھی ٹرمپ کے شرانگیز بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس کے بعد مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور متعدد گھروں کو شرپسندوں نے نقصان پہنچایا اب یہ حقیقت ہے کہ امریکی عوام آپس میں بٹ چکے ہیں، آیندہ آنے والے انتخابات میں مسلمان، ہسپانوی اور سیاہ فام امریکی ایک پلیٹ فارم پر نظر آتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ دوسری طرف سفید فام امریکی جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، اس ارب پتی انتہائی متعصب انسان نے امریکیوں کو آپس میں تقسیم کر دیا ہے۔
Load Next Story