کہاں بلاول… کہاں بسمہ

پھر تھوڑی ہی دیر میں فیصل کی لرزتی کانپتی آواز میں ایک بھاری بھرکم آواز شامل ہو گئی

میری بیٹی کو وی آئی پی پروٹوکول نے مارا ہے۔ وہ بیمار تو تھی مگر زندہ تھی۔ میں اسے اسپتال کے اندر لیجا رہا تھا مگر سیکیورٹی والے مجھے روک رہے تھے۔ میں ایک گھنٹے تک اپنی بسمہ کی جان بچانے کی کوشش کرتا رہا۔ دروازے نہیں کھلے اور پھر وہ مر گئی۔ بدھ کے دن پاکستان کے تمام نیوز چینلز پر کراچی کے علاقے لیاری میں رہنے والے محنت کش فیصل کی یہی آواز گونج رہی تھی۔ اور اس آواز پر منظر تھا باپ کے ہاتھوں میں دس ماہ کا جگر کا ٹکڑا اور چہرے پر بے بسی۔

پھر تھوڑی ہی دیر میں فیصل کی لرزتی کانپتی آواز میں ایک بھاری بھرکم آواز شامل ہو گئی۔ اگر بچی کی ہلاکت سیکیورٹی کی وجہ سے ہوئی ہے تو اس کا انتہائی دکھ ہے مگر بلاول بھٹو زرداری ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ ان کے خاندان کو سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں اور یہ آواز تھی پیپلز پارٹی کے انتہائی سینئر رہنماء نثار کھوڑو صاحب کی۔ نثار کھوڑو کے اس جملے نے تو جیسے آگ ہی لگا دی۔ میڈیا کو جس کی تلاش تھی وہ جملہ مل گیا اور پھر سندھ کی سائیں سرکار پر میڈیا نے ہلہ بول دیا۔ سب اس دوڑ میں لگ گئے کہ کسی بھی طرح کر کے بسمہ کے قتل کو بلاول بھٹو زرداری اور قائم علی شاہ جیسی معصوم شخصیات پر ڈال دیا جائے اور نثار کھوڑو کا نام کم از کم مشورے میں تو ضرور شامل ہونا چاہیے۔

کسی نے بھی نہیں سوچا کہ نثار کھوڑو نے کہا کیا اور اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا کھوڑو صاحب نے کوئی جھوٹ بولا ہے، دھوکہ دیا ہے یا کوئی راز چھپایا ہے۔ میرے خیال میں تو نثار کھوڑو کو انعام ملنا چاہیے، ایسا ننگا سچ بولنے کے لیے جسے بولنے کی جرا ت کسی عام سیاسی شخصیت میں نہیں ہو سکتی۔ آپ خود ہی موازنہ کیجیئے کہ کس طرح ممکن ہے کہ بلاول اور بسمہ ایک جیسے ہوں؟ کہاں بلاول ایک وزیر اعظم کا بیٹا اور ایک وزیر اعظم کا نواسہ اور کہاں بسمہ جس کے باپ کو لوگ آج صرف اس لیے جانتے ہیں کہ اس کی بیٹی وی آئی پی پروٹوکول کے راستے میں ماری گئی۔ کہاں بلاول پاکستان کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک کی اولاد اور کہاں بسمہ جس کا دادا اس کی موت والے دن بھی لیاری کی ایک گلی میں اس لیے کھیر بیچ رہا تھا کہ رات کے کھانے کے پیسے اکٹھے کرنے ہیں۔ کہاں بلاول جسے پیدا ہوتے ہی دنیا کی ہر سہولت ملی، ملک کے بڑے شہروں میں اس کے نام کے بلاول ہاؤس بن گئے اور کہاں بسمہ جس کے دادا کے انتہائی چھوٹے سے گھر کے بھی کئی حصہ دار ہیں اور گھر بھی ایسا کہ غربت کی بدترین مثال۔

کہاں بلاول جس کے خاندان میں کوئی بھی بیمار ہو تو پورا محکمہ صحت ہل جائے۔ بیرون ملک علاج کے انتظامات شروع ہو جائیں اور کہاں بسمہ جس کی بیماری سے اس کے ماں باپ کے سوا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کہاں بلاول جو جب چلتا ہے تو کوئی اس کے راستے میں نہیں آ سکتا اور کہاں بسمہ جس نے تو ابھی چلنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ اور اس کے باپ کے لیے سول اسپتال کے تینوں راستے بند تھے۔ کہاں بلاول جو نکلے تو اس کی گاڑیوں کی گنتی مشکل ہے اور کہاں بسمہ جس کا باپ موٹر سائیکل رکشہ پر سسکتی بیٹی کو لیے مارا مارا پھرتا رہا۔ کہاں بلاول جس سے ملنے کے لیے لوگ وقت مانگتے ہیں اور کہاں بسمہ جس کا باپ ڈیڑھ ماہ سے بیکار بیٹھا ہے۔ ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں پہلو ہیں جہاں بسمہ کا بلاول سے کوئی موازنہ نہیں تو پھر میڈیا شور کیوں مچاتا رہا۔ ہم نثار کھوڑو کی بتائی اس حقیقت کو مان کیوں نہیں لیتے کہ بلاول بھٹو زرداری ہمیں زیادہ عزیز ہونا چاہیے کیونکہ وہ حاکم ہے اور بسمہ جیسے لوگ محکوم۔

سمجھدار کو اشارہ کافی ہوتا ہے مگر شائد ابھی ہم اتنے سمجھدار نہیں ہوئے کہ اس نظام میں ایلیٹ کلاس کے سامنے اپنی حیثیت کو ہی سمجھ سکیں۔ پچیس جون دو ہزار پندرہ کو گرمی کی شدت اور لوڈ شیڈنگ سے ہلاکتیں ہوئیں تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب مریضوں کو دیکھنے کراچی کے جناح اسپتال میں تشریف لائے سیکیورٹی کے لیے ایمرجنسی سمیت تمام دروازے بند کر دیے گئے اور مریض دورہ ختم ہونے تک بلکتے رہے۔


آٹھ اکتوبر دو ہزار چودہ کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی اپنے پروٹوکول کے ساتھ لاہور ڈیفنس زیڈ بلاک سے گزر رہے تھے کہ موٹر سائیکل سوار دو بھائی طاہر ملک اور وحید نے ان کے قریب آنے کی جرا ت کی۔ صاحب کی سیکیورٹی کا خون کھول اٹھا اور گولی مار کر طاہر ملک کو موقعے پر ہی ہلاک کر دیا۔

دس مارچ دو ہزار چودہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ تھر کے قحط زدہ باسیوں کے دکھوں پر مرہم رکھنے کے لیے مٹھی کے اسپتال میں پہنچے جہاں سیکیورٹی کی وجہ سے دروازے نہ کھلنے اور بروقت علاج نہ ملنے پر تین سالہ سلمیٰ جان سے گئی۔

سترہ جنوری دو ہزار چودہ لاہور کے علاقے دھرم پورہ کی طیبہ کو بچے کی پیدائش کے لیے اسپتال لیجایا جا رہا تھا کہ راستے میں میاں نواز شریف صاحب کا پروٹوکول آ گیا جو اس وقت طلبہ سے اپنی پرانی یادیں تازہ کرنے گورنمنٹ کالج جا رہے تھے۔ کسی نے ایک نہ سنی اور طیبہ نے رکشے میں ہی اپنی بیٹی کو جنم دیا۔

تیرہ ستمبر دو ہزار دس وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے چلڈرن اسپتال لاہور کا وزٹ کیا جہاں محمد فاروق نامی گجرانوالہ کا رہائشی ایک شخص کافی دیر تک اپنا بچہ اٹھائے علاج کی دہائی دیتا رہا۔ مگر علاج نہ ملا اور محمد فاروق کا بچہ بھی پروٹوکول کی یہ دنیا چھوڑ گیا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جہاں بلاول کے پروٹوکول میں بسمہ نے جان دی ہو۔ مگر ہمیں خصوصا پاکستان کے میڈیا کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ ملک صرف نام کی حد تک عوام کا ہے۔ اس کے اصل مالک تو یہ پروٹوکول والے وی آئی پیز ہیں۔ جنھیں کسی کی زندگی یا موت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نثار کھوڑو کی بات کسی اور کو سمجھ آئے یا نا آئے بسمہ کے باپ نے اسے خوب اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ کیونکہ بسمہ کی موت والی رات ہی فیصل وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کے ساتھ ایک بار پھر میڈیا کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے دائیں بائیں حکومت سندھ کے وزراء ، بڑے بڑے پولیس والے اور سرکاری افسران کھڑے تھے۔ چہرے پر وہی بے بسی آواز میں ویسی ہی اداسی تھی میں نہیں سمجھتا کہ میری بیٹی کسی پروٹوکول کی وجہ سے مر گئی۔ بس اس کی زندگی ہی اتنی تھی۔ فیصل پھر بول رہا تھا مگر اب اس کے الفاظ اور تاثرات ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
Load Next Story