مشکل سوال
امریکا کی ایک عدالت میں خاتون جج تشریف لائیں۔ ان کے سامنے ایک ملزم کا مقدمہ پیش کیا گیا
امریکا کی ایک عدالت میں خاتون جج تشریف لائیں۔ ان کے سامنے ایک ملزم کا مقدمہ پیش کیا گیا۔ دونوں طرف کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد انھوں نے کٹہرے میں کھڑے شخص کو سزا سنا دی۔ اسی دوران خاتون جج نے مجرم سے اس کے تعلیمی کیریئر کے حوالے سے ایک دو سوالات پوچھے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ہم کلاس فیلو رہ چکے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں، ایک ہی شہر کے ایک ہی اسکول میں پڑھنے والے دو طالب علم۔ یہ اس مجرم کے لیے انوکھا انکشاف تھا۔
یہ جان کر مجرم رونے لگا کہ جج صاحبہ اس کی کلاس فیلو رہ چکی ہیں۔ کیمرے اب دفتروں، کلاس رومز، بینکس اور عدالتوں بلکہ سڑکوں اور چوراہوں تک لگ چکے ہیں۔ دلچسپ واقعات اب صرف زبانی یا تحریری طور پر نہیں بلکہ کیمرے کی مدد سے دیکھے جاتے ہیں۔ سزا سن کر نہ رونے والا کلاس فیلو والی بات جان کر کیوں ضبط نہ کر سکا؟ اس لیے کہ اس کی قسمت کا فیصلہ سنانے والی شخصیت اور اس میں کوئی زیادہ فرق نہ تھا۔ زمانہ طالب علمی میں انیس بیس کے فرق نے آج اسے مجرم اور دوسرے کو منصف بنا دیا ہے۔ تدبیر کیا ہے اور تقدیر کہاں کام کرنا شروع کر دیتی ہے؟ بڑے مشکل سوال پر آج کالم لکھا جا رہا ہے۔
آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آنے والی تھی۔ بائیں بازو سے اکثر کھیلنے والوں کے توڑ کے لیے منیجر مشتاق محمد اور کپتان جاوید میانداد کو ایک اچھے آف اسپنر کی تلاش تھی۔ وہ الیاس نامی ایک بالر پر غور کر رہے تھے کہ کسی نے ان سے توصیف کا ذکر کیا۔ آزمانے پر تمام لوگوں کو ان کی کارکردگی پسند آئی۔ انھیں پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹھہرنے کا کہا گیا تو شاہ فیصل کالونی کے کھلاڑی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ پہلے میچ میں سات وکٹیں لینے والے نے ٹیم میں اپنی جگہ بنا لی۔ پھر شارجہ میں میانداد کو چھکا لگانے کے لیے اسٹرائیک توصیف نے ہی دی تھی۔ یوں ایک کھلاڑی بین الاقوامی شہرت پا گیا تو دوسرا گمنام رہ گیا۔
سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو اس پر لاہور میں حملہ ہو گیا۔ کوچ کا ڈرائیور کھلاڑیوں کو گولیوں کی بوچھاڑ سے بچا کر نکال لے گیا۔ اس کے کارنامے کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ جن کھلاڑیوں کی جان بچ گئی وہ اس ڈرائیور کے دیوانے ہو گئے۔ کسی جانی نقصان نہ ہونے پر حکومت پاکستان نے بھی اس ڈرائیور کو سراہا اور نقد انعام دیا۔ سری لنکا کی حکومت نے اس عام سے شخص کی سرکاری پذیرائی کی اور انعامات کی بارش کر دی۔ اب وہ عام سا ڈرائیور لکھ پتی بن گیا۔ اگر کوئی اور ڈرائیور ہوتا تو ممکن ہے وہ بھی یہی کرتا۔ یہ بات اس کے ساتھی ڈرائیور سوچ رہے ہوں گے جو دیگر کھلاڑیوں کو ہوٹل سے اسٹیڈیم پہنچانے کی ڈیوٹی پر مامور تھے۔ وہ آج تک اسی شعبے سے وابستہ ہیں جب کہ ان کا ساتھی کہیں کا کہیں نکل گیا۔ تقدیر کیا ہے اور تدبیر کیا ہے؟ واقعی مشکل سوال ہے۔
دو بہنیں ایک جیسی شکل و صورت جب کہ ایک جیسے گھروں میں بیاہی گئیں۔ دونوں کے شوہر جو ہم زلف تھے تو واقعی ایک دوسرے کی زلف کے اسیر بھی تھے۔ اچانک ایک کے بچوں کو کوئی کاروباری لائن ملی اور وہ کروڑ پتی ہو گئے۔ اب دونوں بہنوں کی کلاس بدل گئی۔ پچیس سال کی ہم زلفی کہیں کھو گئی اور عمر کی نصف صدی بہنوں و سہیلیوں کی طرح گزارنے والیوں کے درمیان سونے چاندی کی دیوار حائل ہو گئی۔ یہ کیا ہے؟
کرکٹ ٹیم میں دو کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا۔ دونوں بلے باز تھے۔ ایک نے تیس رنز بنائے اور دوسرے نے چالیس۔ اب مشہور بیٹسمین کے فٹ ہو کر ٹیم میں آنے پر ایک کھلاڑی کی ہی گنجائش بچتی تھی۔ سلیکٹرز نے زیادہ اسکور کرنے والے کو برقرار رکھا۔ دوسرا بارہواں کھلاڑی بنا۔ اب جسے بیٹنگ کا موقع ملا اس نے دوسرے ٹیسٹ میں ساٹھ رنز بنائے یوں اس نے اپنا اگلا میچ بھی پکا کر لیا۔ تیسری مرتبہ منتخب ہونے پر اس کھلاڑی نے سنچری بنا لی۔ یوں ایک کھلاڑی کو بھلا دیا گیا جب کہ دوسرے کھلاڑی نے ٹیم میں جگہ پکی کر لی۔ پہلے ٹیسٹ میں ان کے بنائے گئے اسکور میں زیادہ فرق نہ تھا۔ اگلی سیریز تک ایک کھلاڑی مشہور ہوتا گیا اور دوسرا گمنام۔ اگلے سات آٹھ برسوں میں چالیس رنز بنانے والا کپتان بن گیا جب کہ صرف دس بارہ رنز کم بنانے والا گمنامی کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ جب دونوں ٹیم میں آئے تو ان کے ریکارڈز، کارکردگی اور عمروں میں زیادہ فرق نہ تھا۔ صرف انیس بیس کے فرق سے ایک کہیں کا کہیں نکل گیا اور دوسرا کہیں کا نہ رہا۔ یونس خان اور سعید انور کے ساتھ پہلے ٹیسٹ میچ میں ایک نئے بیٹسمین کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ وہ کون تھے اور اب کہاں ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم؟
وہ دونوں فوج میں بریگیڈیئر تھے یعنی ستاروں والے افسر۔ پکے دوست ایسے جنھیں ہم پیالہ ہم نوالہ کہہ سکتے ہیں۔ ایک ترقی پا کر میجر جنرل بن گیا تو دوسرا وہیں کا وہیں رہا۔ پھر ایک کو وردی پر تیسرا ستارہ لگا اور وہ لیفٹیننٹ جنرل اور کور کمانڈر بن گیا۔ یہ وہی دن تھے جب ایک دوست ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا تو اس کے ساتھی کا نام آرمی چیف کے لیے زیر غور تھا۔ ایک دوست ایک ستارے کے ساتھ ریٹائر ہو گیا تو دوسرا لاکھوں جوانوں و افسروں کی آرمی کا سربراہ بن گیا۔ مارشل لا لگا تو وہ کچھ عرصے بعد صدر پاکستان بن گیا۔ دنیا بھر کے دورے اور بین الاقوامی شخصیات سے ملاقات۔ جب دونوں ایک عہدے پر تھے تو یکساں تھے۔ اب ایک کو بچہ بچہ جانتا ہے اور دوسرے کو گلی کے لوگ بھی نہیں جانتے۔ یہ کیا ہے؟ ایوب، ضیا اور مشرف جب بریگیڈیئر ہوں گے تو واقعی ان کے کچھ ساتھی اسی عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہوں گے۔
دو نوجوان فلمی ہیروز کی فلمیں ایک مہینے کے وقفے سے ریلیز ہوتی ہیں۔ ایک کامیاب ہیرو بن جاتا ہے تو دوسرا گمنام شخص کہلاتا ہے۔ ایک جیسی ملازمت کرنے والے دو لوگ۔ ایک کو باہر جانے کا موقع مل گیا یوں وہ فارن پلٹ آدمی ہو گیا تو دوسرا وہیں کا وہیں رہا۔ یوں ایک کا شمار امیروں میں ہونے لگا تو دوسرا غریب ہی رہا۔ ایک ساتھ سائنس کے مضمون میں بارہویں کلاس پاس کرنے والوں کا نتیجہ آیا۔ چند نمبروں کے فرق سے ایک کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا تو دوسرا رہ گیا۔ ایک گھر میں رہنے والے دو غریب بھائیوں میں سے ایک کا بیٹا پیٹرو کیمیکل انجینئر بن گیا، جسے گلف ریاست میں شاندار جاب مل گئی۔ ایک بھائی بنگلے میں چلا گیا اور دوسرا کوارٹر میں ہی رہ گیا۔ اف خدا اسے کیا کہیں؟ تقدیر یا تدبیر؟
دو دوست ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔ ایک نے دور مشرف میں پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا تو دوسرے نے انکار کر دیا۔ لگتا تھا کہ اس کا فیصلہ صحیح ہے جو کرسی پر بیٹھا ہے۔ وکلا تحریک آگے بڑھی تو دو سال بعد جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کر دیا گیا۔ انھوں نے چار مختلف مراحل میں عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے والوں کو نکال دیا اور ''اصول'' پر قائم رہنے والوں کو برقرار رکھا۔ ایک جج صاحب صوبے کی ہائی کورٹ کے چیف بننے کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس بن گئے جب کہ دوسرے واپس وہیں آ گئے جہاں سے چلے تھے۔
تقدیر و تدبیر کا سوال کبھی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا اور یہ ہر دور میں ایک مشکل سوال رہا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تدبیر ایک سیڑھی ہے۔ ہر کوئی آہستہ آہستہ راستے کو عبور کر کے منزل تک پہنچنا چاہتا ہے جب کہ تقدیر ایک لفٹ ہے جو آپ کو کم سے کم وقت میں اوپر پہنچا دیتی ہے۔ جب دنیا کے بڑے بڑے عقلمند لوگ اس گتھی کو نہ سلجھا سکے تو ہم بھی صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ سیڑھی اور لفٹ والی بات شاید جواب ہو اس مشکل سوال کا۔
یہ جان کر مجرم رونے لگا کہ جج صاحبہ اس کی کلاس فیلو رہ چکی ہیں۔ کیمرے اب دفتروں، کلاس رومز، بینکس اور عدالتوں بلکہ سڑکوں اور چوراہوں تک لگ چکے ہیں۔ دلچسپ واقعات اب صرف زبانی یا تحریری طور پر نہیں بلکہ کیمرے کی مدد سے دیکھے جاتے ہیں۔ سزا سن کر نہ رونے والا کلاس فیلو والی بات جان کر کیوں ضبط نہ کر سکا؟ اس لیے کہ اس کی قسمت کا فیصلہ سنانے والی شخصیت اور اس میں کوئی زیادہ فرق نہ تھا۔ زمانہ طالب علمی میں انیس بیس کے فرق نے آج اسے مجرم اور دوسرے کو منصف بنا دیا ہے۔ تدبیر کیا ہے اور تقدیر کہاں کام کرنا شروع کر دیتی ہے؟ بڑے مشکل سوال پر آج کالم لکھا جا رہا ہے۔
آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آنے والی تھی۔ بائیں بازو سے اکثر کھیلنے والوں کے توڑ کے لیے منیجر مشتاق محمد اور کپتان جاوید میانداد کو ایک اچھے آف اسپنر کی تلاش تھی۔ وہ الیاس نامی ایک بالر پر غور کر رہے تھے کہ کسی نے ان سے توصیف کا ذکر کیا۔ آزمانے پر تمام لوگوں کو ان کی کارکردگی پسند آئی۔ انھیں پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹھہرنے کا کہا گیا تو شاہ فیصل کالونی کے کھلاڑی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ پہلے میچ میں سات وکٹیں لینے والے نے ٹیم میں اپنی جگہ بنا لی۔ پھر شارجہ میں میانداد کو چھکا لگانے کے لیے اسٹرائیک توصیف نے ہی دی تھی۔ یوں ایک کھلاڑی بین الاقوامی شہرت پا گیا تو دوسرا گمنام رہ گیا۔
سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو اس پر لاہور میں حملہ ہو گیا۔ کوچ کا ڈرائیور کھلاڑیوں کو گولیوں کی بوچھاڑ سے بچا کر نکال لے گیا۔ اس کے کارنامے کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ جن کھلاڑیوں کی جان بچ گئی وہ اس ڈرائیور کے دیوانے ہو گئے۔ کسی جانی نقصان نہ ہونے پر حکومت پاکستان نے بھی اس ڈرائیور کو سراہا اور نقد انعام دیا۔ سری لنکا کی حکومت نے اس عام سے شخص کی سرکاری پذیرائی کی اور انعامات کی بارش کر دی۔ اب وہ عام سا ڈرائیور لکھ پتی بن گیا۔ اگر کوئی اور ڈرائیور ہوتا تو ممکن ہے وہ بھی یہی کرتا۔ یہ بات اس کے ساتھی ڈرائیور سوچ رہے ہوں گے جو دیگر کھلاڑیوں کو ہوٹل سے اسٹیڈیم پہنچانے کی ڈیوٹی پر مامور تھے۔ وہ آج تک اسی شعبے سے وابستہ ہیں جب کہ ان کا ساتھی کہیں کا کہیں نکل گیا۔ تقدیر کیا ہے اور تدبیر کیا ہے؟ واقعی مشکل سوال ہے۔
دو بہنیں ایک جیسی شکل و صورت جب کہ ایک جیسے گھروں میں بیاہی گئیں۔ دونوں کے شوہر جو ہم زلف تھے تو واقعی ایک دوسرے کی زلف کے اسیر بھی تھے۔ اچانک ایک کے بچوں کو کوئی کاروباری لائن ملی اور وہ کروڑ پتی ہو گئے۔ اب دونوں بہنوں کی کلاس بدل گئی۔ پچیس سال کی ہم زلفی کہیں کھو گئی اور عمر کی نصف صدی بہنوں و سہیلیوں کی طرح گزارنے والیوں کے درمیان سونے چاندی کی دیوار حائل ہو گئی۔ یہ کیا ہے؟
کرکٹ ٹیم میں دو کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا۔ دونوں بلے باز تھے۔ ایک نے تیس رنز بنائے اور دوسرے نے چالیس۔ اب مشہور بیٹسمین کے فٹ ہو کر ٹیم میں آنے پر ایک کھلاڑی کی ہی گنجائش بچتی تھی۔ سلیکٹرز نے زیادہ اسکور کرنے والے کو برقرار رکھا۔ دوسرا بارہواں کھلاڑی بنا۔ اب جسے بیٹنگ کا موقع ملا اس نے دوسرے ٹیسٹ میں ساٹھ رنز بنائے یوں اس نے اپنا اگلا میچ بھی پکا کر لیا۔ تیسری مرتبہ منتخب ہونے پر اس کھلاڑی نے سنچری بنا لی۔ یوں ایک کھلاڑی کو بھلا دیا گیا جب کہ دوسرے کھلاڑی نے ٹیم میں جگہ پکی کر لی۔ پہلے ٹیسٹ میں ان کے بنائے گئے اسکور میں زیادہ فرق نہ تھا۔ اگلی سیریز تک ایک کھلاڑی مشہور ہوتا گیا اور دوسرا گمنام۔ اگلے سات آٹھ برسوں میں چالیس رنز بنانے والا کپتان بن گیا جب کہ صرف دس بارہ رنز کم بنانے والا گمنامی کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ جب دونوں ٹیم میں آئے تو ان کے ریکارڈز، کارکردگی اور عمروں میں زیادہ فرق نہ تھا۔ صرف انیس بیس کے فرق سے ایک کہیں کا کہیں نکل گیا اور دوسرا کہیں کا نہ رہا۔ یونس خان اور سعید انور کے ساتھ پہلے ٹیسٹ میچ میں ایک نئے بیٹسمین کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ وہ کون تھے اور اب کہاں ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم؟
وہ دونوں فوج میں بریگیڈیئر تھے یعنی ستاروں والے افسر۔ پکے دوست ایسے جنھیں ہم پیالہ ہم نوالہ کہہ سکتے ہیں۔ ایک ترقی پا کر میجر جنرل بن گیا تو دوسرا وہیں کا وہیں رہا۔ پھر ایک کو وردی پر تیسرا ستارہ لگا اور وہ لیفٹیننٹ جنرل اور کور کمانڈر بن گیا۔ یہ وہی دن تھے جب ایک دوست ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا تو اس کے ساتھی کا نام آرمی چیف کے لیے زیر غور تھا۔ ایک دوست ایک ستارے کے ساتھ ریٹائر ہو گیا تو دوسرا لاکھوں جوانوں و افسروں کی آرمی کا سربراہ بن گیا۔ مارشل لا لگا تو وہ کچھ عرصے بعد صدر پاکستان بن گیا۔ دنیا بھر کے دورے اور بین الاقوامی شخصیات سے ملاقات۔ جب دونوں ایک عہدے پر تھے تو یکساں تھے۔ اب ایک کو بچہ بچہ جانتا ہے اور دوسرے کو گلی کے لوگ بھی نہیں جانتے۔ یہ کیا ہے؟ ایوب، ضیا اور مشرف جب بریگیڈیئر ہوں گے تو واقعی ان کے کچھ ساتھی اسی عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہوں گے۔
دو نوجوان فلمی ہیروز کی فلمیں ایک مہینے کے وقفے سے ریلیز ہوتی ہیں۔ ایک کامیاب ہیرو بن جاتا ہے تو دوسرا گمنام شخص کہلاتا ہے۔ ایک جیسی ملازمت کرنے والے دو لوگ۔ ایک کو باہر جانے کا موقع مل گیا یوں وہ فارن پلٹ آدمی ہو گیا تو دوسرا وہیں کا وہیں رہا۔ یوں ایک کا شمار امیروں میں ہونے لگا تو دوسرا غریب ہی رہا۔ ایک ساتھ سائنس کے مضمون میں بارہویں کلاس پاس کرنے والوں کا نتیجہ آیا۔ چند نمبروں کے فرق سے ایک کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا تو دوسرا رہ گیا۔ ایک گھر میں رہنے والے دو غریب بھائیوں میں سے ایک کا بیٹا پیٹرو کیمیکل انجینئر بن گیا، جسے گلف ریاست میں شاندار جاب مل گئی۔ ایک بھائی بنگلے میں چلا گیا اور دوسرا کوارٹر میں ہی رہ گیا۔ اف خدا اسے کیا کہیں؟ تقدیر یا تدبیر؟
دو دوست ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔ ایک نے دور مشرف میں پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا تو دوسرے نے انکار کر دیا۔ لگتا تھا کہ اس کا فیصلہ صحیح ہے جو کرسی پر بیٹھا ہے۔ وکلا تحریک آگے بڑھی تو دو سال بعد جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کر دیا گیا۔ انھوں نے چار مختلف مراحل میں عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے والوں کو نکال دیا اور ''اصول'' پر قائم رہنے والوں کو برقرار رکھا۔ ایک جج صاحب صوبے کی ہائی کورٹ کے چیف بننے کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس بن گئے جب کہ دوسرے واپس وہیں آ گئے جہاں سے چلے تھے۔
تقدیر و تدبیر کا سوال کبھی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا اور یہ ہر دور میں ایک مشکل سوال رہا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تدبیر ایک سیڑھی ہے۔ ہر کوئی آہستہ آہستہ راستے کو عبور کر کے منزل تک پہنچنا چاہتا ہے جب کہ تقدیر ایک لفٹ ہے جو آپ کو کم سے کم وقت میں اوپر پہنچا دیتی ہے۔ جب دنیا کے بڑے بڑے عقلمند لوگ اس گتھی کو نہ سلجھا سکے تو ہم بھی صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ سیڑھی اور لفٹ والی بات شاید جواب ہو اس مشکل سوال کا۔