پولیس مقدمات میں ملوث پیٹی بند بھائیوں کے تحفظ کیلیے سرگرم
اہلکاروں کو بچانے کیلیے گھنائونے مقدمات کو بوگس قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے
پولیس اپنے پیٹی بند بھائیوں کیخلاف درج مقدمات میں انھیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کیلیے کسی بھی قسم کا غیرقانونی اقدام کرنے سے دریغ نہیں کرتی، گھنائونے مقدمات میں ملوث پولیس اہلکاروں و افسران کے مقدمات کو بوگس قرار دینے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے، عدالت کے نوٹس لینے پر مقدمات کے چالان کیے جاتے ہیں ورنہ مقدمہ تھانے میں ہی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،
پولس کے اس دہر ے معیار کے باعث پولیس میں موجود کالی بھیڑیں پروان چڑھ رہی ہیں، ماتحت عدالتوں میں پولیس کیخلاف درجنوں مقدمات کو بوگس قرار دیا جاچکا ہے جبکہ متعدد مقدمات گواہوں کی عدم حاضری کے باعث التوا کا شکارہیں، پولیس کے غیرقانونی اقدامات کا اندازہ ان مقدمات سے لگایا جاسکتا ہے جن میں پولیس نے اپنے پیٹی بند بھائیوں کیخلاف درج مقدمات کو غیرقانونی طریقے سے نمٹانے کی کوشش کی تھی تاہم عدالت کے نوٹس لینے پر انھیں مجبوراً اپنے پیٹی بند بھائیوں کیخلاف چالان جمع کرانا پڑا تھا،
تفصیلات کے مطابق تھانہ گذری نے اقدام قتل کے الزام میں ملزمان اعوان بادشاہ اور خرم کو گرفتار کیا تھا اور تفتیشی افسر نے جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی حاتم عزیز کی عدالت سے ملزمان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا، دوران ریمانڈ ملزم جاوید خرم تھانے سے فرار ہوگیا یا فرار کرادیا گیا تاہم پولیس نے ایک ملزم کو اگلے روز عدالت میں پیش کیا، اس موقع پر پبلک پراسیکیوٹر سید شمیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے دو ملزمان کو گرفتار کیا تھا لیکن ایک ملزم کو پیش کیا گیا ہے جس پر فاضل عدالت نے نوٹس لیا اور فرار ہونے والے ملزم کی رپورٹ طلب کی،
بعدازاں عدالت کے نوٹس پر اعلیٰ پولیس افسر کے حکم پر سب انسپکٹر محمد اقبال اور سب انسپکٹر عبدالرسول کیخلاف مقدمہ الزام 62/12 زیر دفعہ 223/224/34 کے تحت غفلت ولاپروائی کا مقدمہ تھانہ گذری میں درج کیا گیا لیکن مذکورہ کسی بھی افسر کو گرفتار نہیں کیا اور تفتیشی افسر رانا اصغر علی نے پولیس افسران کیخلاف چالان جمع کرنے کے بجائے غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے مقدمے کو بوگس قرار دینے سے متعلق رپورٹ پیش کی کہ پولیس افسران کیخلاف کوئی شواہد موصول نہیں ہوئے،
ملزم واش روم کے روشن دان سے فرار ہوگیا تھا اور اس میں پولیس افسران ملوث نہیں، انکے خلاف کوئی شواہد موصول نہیں ہوئے اور مقدمے کو خارج کرنے کی استدعا کی تھی، اس موقع پر فاضل عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور فوری ملزمان کے خلاف چالان جمع کرانے کا حکم دیا جس پر پولیس افسر نے چند منٹ بعد ہی ملزمان پولیس افسران کیخلاف چالان جمع کرادیا،
پولس کے اس دہر ے معیار کے باعث پولیس میں موجود کالی بھیڑیں پروان چڑھ رہی ہیں، ماتحت عدالتوں میں پولیس کیخلاف درجنوں مقدمات کو بوگس قرار دیا جاچکا ہے جبکہ متعدد مقدمات گواہوں کی عدم حاضری کے باعث التوا کا شکارہیں، پولیس کے غیرقانونی اقدامات کا اندازہ ان مقدمات سے لگایا جاسکتا ہے جن میں پولیس نے اپنے پیٹی بند بھائیوں کیخلاف درج مقدمات کو غیرقانونی طریقے سے نمٹانے کی کوشش کی تھی تاہم عدالت کے نوٹس لینے پر انھیں مجبوراً اپنے پیٹی بند بھائیوں کیخلاف چالان جمع کرانا پڑا تھا،
تفصیلات کے مطابق تھانہ گذری نے اقدام قتل کے الزام میں ملزمان اعوان بادشاہ اور خرم کو گرفتار کیا تھا اور تفتیشی افسر نے جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی حاتم عزیز کی عدالت سے ملزمان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا، دوران ریمانڈ ملزم جاوید خرم تھانے سے فرار ہوگیا یا فرار کرادیا گیا تاہم پولیس نے ایک ملزم کو اگلے روز عدالت میں پیش کیا، اس موقع پر پبلک پراسیکیوٹر سید شمیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے دو ملزمان کو گرفتار کیا تھا لیکن ایک ملزم کو پیش کیا گیا ہے جس پر فاضل عدالت نے نوٹس لیا اور فرار ہونے والے ملزم کی رپورٹ طلب کی،
بعدازاں عدالت کے نوٹس پر اعلیٰ پولیس افسر کے حکم پر سب انسپکٹر محمد اقبال اور سب انسپکٹر عبدالرسول کیخلاف مقدمہ الزام 62/12 زیر دفعہ 223/224/34 کے تحت غفلت ولاپروائی کا مقدمہ تھانہ گذری میں درج کیا گیا لیکن مذکورہ کسی بھی افسر کو گرفتار نہیں کیا اور تفتیشی افسر رانا اصغر علی نے پولیس افسران کیخلاف چالان جمع کرنے کے بجائے غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے مقدمے کو بوگس قرار دینے سے متعلق رپورٹ پیش کی کہ پولیس افسران کیخلاف کوئی شواہد موصول نہیں ہوئے،
ملزم واش روم کے روشن دان سے فرار ہوگیا تھا اور اس میں پولیس افسران ملوث نہیں، انکے خلاف کوئی شواہد موصول نہیں ہوئے اور مقدمے کو خارج کرنے کی استدعا کی تھی، اس موقع پر فاضل عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور فوری ملزمان کے خلاف چالان جمع کرانے کا حکم دیا جس پر پولیس افسر نے چند منٹ بعد ہی ملزمان پولیس افسران کیخلاف چالان جمع کرادیا،