عالمی امن کے لیے انسانی حقوق کا تحفظ ناگزیر ہے

’’پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


احسن کامرے December 28, 2015
’’پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور دین اسلام انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ حضورؐ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانی حقوق کا چارٹر دیا اور گورے، کالے، عربی و عجمی کے فرق کو ختم کردیا۔

آئین پاکستان تمام پاکستانیوں کے انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور آئین کے آرٹیکل آٹھ سے 40تک انسانی حقوق کا احاطہ کرتے ہیں۔ آئین پاکستان کے مطابق روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، جان و مال کا تحفظ، روزگار، انصاف و دیگر ضروریات زندگی انسانی حقوق میں شامل ہیں اور آئین حکومت کو انسانی حقوق کا پابند بناتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ ''پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ''کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی ، مذہبی،سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے ۔

خلیل طاہر سندھو (وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)

انسانی حقوق الہامی ہیں جبکہ آئین صرف ان کی گارنٹی دیتا ہے۔ دین اسلام انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور جنیوا کنونشن میں حضرت محمدﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر تمام لوگ اس خطبہ حجۃ الوداع کو سامنے رکھ لیں تو بہت سارے مسائل خود بخودحل ہوجائیں گے۔ ہم گلوبل ویلیج میں رہتے ہیں اور کسی ملک سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ اس وقت دنیا میں 47ممالک پر مشتمل ہیومن رائٹس کونسل بنی ہوئی ہے اور پاکستان اس کا ممبر ہے۔ پنجاب کی ہیومن رائٹس کونسل میں وزیراعلیٰ کی ہدایت پر علماء کرام اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا گیا ہے اس کے علاوہ اب مرکز میں بھی انسانی حقوق کی الگ وزارت قائم ہے۔ ہم نے پنجاب میں فرینڈلی قوانین بنائے ہیں۔ خواتین پر گھریلو تشدد اور وراثت میں حق کے حوالے سے بھی واضح قوانین موجود ہیں جبکہ خواتین پر تیزاب پھینکنے والے پر دہشت گردی کی دفعات لگائی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے آڈیو اور ویڈیو کو بھی قابل ادخال شہادت قرار دے دیا ہے۔ اب پولیس تفتیشی افسر چالان کے ساتھ ساتھ مدعی کی وڈیو بھی منسلک کرے گاتاکہ وہ عدالت میں اپنے بیان سے مکر نہ سکے۔

ہم نے 25ہزار خواتین کو فیصلہ سازی میں شریک کیا ہے۔ پاکستان، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، لیبر، چائلڈ لیبر و دیگر حوالے سے 27کنونشن اور ٹریٹیز کا سگنیٹری ہے۔ ہمارے پاس جی ایس پی پلس کا سٹیٹس بھی ہے اور ہم اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت اقلیتوں کے حقوق کا بھرپور تحفظ کررہی ہے، ہم نے ہندو میرج ایکٹ کا بل تیار کرلیا ہے جسے بہت جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ مینارٹی ایڈوائزری کونسل اپنا کام کررہی ہے،اب یونین کونسل میں اقلیتوں کی شادیوں کا ریکارڈ بھی درج کیا جائے گا جو پہلے نہیں ہوتا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کوقبرستان کے لیے بھی آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کے برابر جگہ دی جائے گی۔ یورپی ممالک جو آج انسانی حقوق کے علمبردار ہیں انہوں نے بھی بہت قتل و غارت اور مسائل و مصائب کے بعد سیکھا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ قتل وغارت فرانس میں ہوئی اور انقلاب فرانس کی تاریخ سب کے سامنے ہے۔امریکا جو آج انسانی حقوق کا چمپئن بنتا ہے، 1954ء تک وہاں عورت کی تنخواہ مرد کے اکاؤنٹ میں جاتی تھی لیکن ہمارے ملک میں ایسی صورتحال نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی کے لیے نصاب میں بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں اوراب انسانی حقوق سے متعلق مضامین نصاب میں شامل کیے جائیں گے۔

آزادی اظہار رائے کا احترام کرنا انسانی حقوق میں آتا ہے اور کسی کی دل آزاری کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی واقعہ کو دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا حالانکہ مذہب پیار کا نام ہے لہٰذا دہشت گردی کے واقعات کو اسلام سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہت بہتر ہورہی ہے، بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر دنیا کی خاموشی دوہرا معیار ہے لہٰذا پاکستان کو لابنگ کی ضرورت ہے اور ہمیں عالمی سطح پر اپنے قوانین کی تشہیر کرنی چاہیے۔ میرے نزدیک صرف مضبو ط قوانین سے صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی بلکہ ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنے ضرورت ہے۔ دنیا کے مقابلے میں ہمارے ہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہت بہترہے۔ یہاں اقلیتوں کا مسئلہ نہیں بلکہ امیر غریب کا مسئلہ ہے اور غریب ،غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ ہم معاشی مسائل کے حل کے لیے اقدامات کررہے ہیں اور جی ایس پی پلس سٹیٹس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہم نے ہر محکمے میں عملدرآمد سیل قائم کیا ہے تاکہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جاسکے۔ اقلیتوں کے حقوق بھی یقینی بنائے جارہے ہیں اور ایک سے 17 گریڈ تک تمام ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے کوٹہ مخصوص ہے اور انہیں ملازمتیں بھی دی جارہی ہیں۔

حافظ زبیر احمد ظہیر (رہنما جمعیت اہلحدیث)

فرانس کے ہیومن رائٹس کے اعلان ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن سے بھی صدیوں پہلے سرکار دوعالم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں جو خطاب فرمایا تھا ، جتنی بھی انسانی حقوق کی باتیں ہوتی ہیں وہ اسی کی روشنی میں کی جاتی ہیں ۔ حضور اقدس ﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میںیہ ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارا خدا بھی ایک ہے اورتمہارا باپ بھی ایک ہے۔ تم میں سے کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ میرے نزدیک حضرت محمدﷺ کاخطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کا سب سے پہلا اعلان تھا۔خطبہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ نے عورتوں کے حقوق اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کی عزت، آبرو،جان اور مال کی حفاظت کی بات، انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ کی۔حضوراقدسﷺ نے آزاد فلاحی ریاست کی بات کی۔

میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کے چارٹر کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اور ان میں ہمارے لیے رہنمائی ہے۔ دنیا کی تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ آج دنیا بھر میں جس طرح مسلمانوں کا بے دریغ قتل ہورہا ہے ، مسلمانوں نے کسی کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کیا۔ یہ باعث افسوس ہے کہ دنیا میں جو ممالک یا ادارے انسانی حقوق اور امن و امان کے علمبردار بنے ہوئے ہیں وہی لوگ مسلمانوں کی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی نظر فلسطین اور کشمیر پر نہیں پڑتی اور دنیا بھر میں جہاں بھی مظلوم مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے اور ان کے ساتھ ظلم ہورہا ہے وہاں ان کا قانون حرکت میں نہیں آتا۔ میرے نزیک انسانی حقوق کے حوالے سے حکومت پاکستان کو بہت زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور پاکستان کو دنیا بھر میں ایک مثال قائم کرنی چاہیے۔ انسانی حقوق بالکل درست ہیں اور خواتین، اقلیتوں سمیت تمام انسانوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے پہلے خطبہ خلافت میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ایک کمزور آدمی جس کے حقوق کسی نے دبائے ہوئے ہیں، جب تک میں اس کے حقوق میں لیکر نہ دوں وہ ہمارے لیے سب سے بڑا طاقتور آدمی ہے اور وہ آدمی جس نے حقوق دبائے ہوئے ہیں جب تک میں اس سے حقوق لے کر نہ دے دوں تب تک وہ ہمارے لیے سب سے کمزور اور کم تر آدمی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی بھوکا مرجائے تو اس کی ذمہ داری بھی عمرؓ پر ہوگی۔ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر دنیا کا وہ ردعمل سامنے نہیںآیا جو ہمارے ملک میں کسی معمولی مسئلے پر سامنے آتا ہے۔ اسی طرح پیرس میں جو کچھ ہوا اس پر شدید ردعمل سامنے آیا لیکن ہمارے ہاں پشاور میں معصوم بچوں کو شہید کردیا گیا لیکن اس پر دنیا کا ایسا ردعمل ددیکھنے میںنہیں آیا۔ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے لہٰذا اب دنیا کو انصاف کی طرف جانا پڑے گا۔ اگر سب کو انسانی حقوق میسر ہوں گے تو امن قائم رہے گا لیکن اگر کسی ایک طبقے یا مذہب کو دبا کر امن کی خواہش کی جائے گی تو پھر امن ممکن نہیں ہوگا۔

سائنس کی ترقی کیو جہ سے فاصلے کم اور رابطے زیادہ ہوگئے ہیں۔ اب ہمیں بھی چاہیے کہ قدرت کا ساتھ دیں اور نفرتیں، تعصب، قدورت، ظلم اور جبر پھیلانے والی پالیسیوں، فکر، سوچ اور رویوں کو تبدیل کریںا ور اس راستے پر چلیں جہاں فطرت ہمیں لیجارہی ہے لیکن اگر ہم انہیں تبدیل نہیں کریں گے اور فطرت کے خلاف جنگ لڑیں گے تو پھر انسانیت تباہ ہوجائے گی ۔ آج شام میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ استعماری قوتیں مسلم ممالک کو میدان جنگ بناکر تیسری عالمی جنگ کی طرف جانا چاہتی ہیں۔ میرے نزدیک تمام انصاف پسند قوتوں اور لوگوں کو اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لہٰذا اسے کسی ایک مذہب کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔ جن ممالک کو االلہ نے بڑا بنایا ہے، انسانی حقوق، مساوات، امن و امان و دیگر حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ میرے نزدیک اللہ عدل و انصاف کرنے والے ممالک کو آگے بڑھائے گااور جو اس کی نفی کریں گے ان کا انجام عبرت ناک ہوگا۔

آئمہ محمود (سربراہ ورکنگ وویمن آرگنائزیشن)

انسانی حقوق کا مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کو درپیش ہے۔ اس وقت دنیا میں مہاجرین کا مسئلہ ہے اور کوئی بھی شامی و دیگر مہاجرین کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس کے علاوہ غربت بہت بڑا مسئلہ ہے جو پوری دنیا کو درپیش ہے۔ خاص طور پر افریقا اور ایشیا کے لوگ انتہائی غربت کا شکار ہیں،بے روز گاری میں اضافہ ہورہاہے جبکہ مختلف قسم کے معاشی بحران بھی نظر آرہے ہیںاور جمہوری اداروں کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ میرے نزدیک اس وقت دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف جارہی ہے لہٰذا ان حالات میں انسانی حقوق کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔انسانی حقوق کے حوالے سے اگر دنیا کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے اورانسانی حقوق کے اس عالمی دن کے موقعہ پر سڑکوں پر آگاہی کے لیے بینرز بھی نظر آئے جو خوش آئند بات ہے ۔ اس کا کریڈٹ انسانی حقوق کی وزارت کو جاتا ہے جن کی کاوشوں سے آگاہی کے عمل کا آغازہوا ہے لیکن اب اس عمل کو بینرز سے آگے بڑھنا چاہیے اورانسانی حقوق کے لیے کام کرنے و الے اداروں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔

آئین پاکستان ریاست کو لوگوں کی تعلیم، صحت، تحفظ، روزگار، برابری کے حقوق، تنظیم سازی کا حق، آزادی رائے سمیت تمام انسانی حقوق کے تحفظ کا پابندکرتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی کے 68سال بعد بھی پاکستان میں 62فیصد آبادی غربت کا شکار ہے ۔آج ترقی صرف معاشی ترقی نہیں ہے، اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑاہونا چاہتے ہیں تو ہمیں انسانی ترقی کو بھی دکھانا ہے۔ افسوس ہے کہ187 ممالک میں سے ہیومن رائٹس انڈیکس میں ہمارا نمبر 146 ہے جبکہ بنگلہ دیش، بھارت اور نیپال ہم سے آگے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کو تحفظ دینے کے لیے آئیڈیل قوانین موجود ہیں لہٰذادیکھنا یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں غلطی کہاں ہورہی ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں قوانین بہت سخت بنائے گئے ہیں، وویمن امپاورمنٹ، وراثت میں حق اور کام کی جگہ پر تحفظ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن آج بھی خواتین اور بچیاں گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق70 سے 90 فیصد خواتین اور بچیاں گھریلو تشدد کا شکار ہیں اس کے علاوہ سالانہ 5ہزار خواتین گھریلو تشدد کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔دین اسلام نے اللہ کے حقوق سے زیادہ حقوق العباد کو اہمیت دی ہے لیکن آج ہم مختلف قسم کے بحث مباحثے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہم اس پر بات ہی نہیں کررہے کہ ہمارے بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، محنت کش کو 12سے 14 گھنٹے کام کرنے کے باوجود اس کا معاوضہ نہیں مل رہا۔ ہماری عورتیں معاشرے میں محفوظ نہیں ہیں اور بعض ایسے قوانین ہیں جو اقلیتوں کو اس ملک میں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں اور ان قوانین کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ ان مسائل کی نشاندہی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم حکومت یا ملک کے خلاف بات کررہے ہیں بلکہ ہم اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں اور ایسااسی صورت میں ہی ممکن ہے کہ مسائل کی نشاندہی کے بعد ان کی اصلاح کا پہلو نکالا جائے۔

میرے نزدیک انسانی حقوق کے حوالے سے حکومت، میڈیا، مذہبی جماعتیں، سول سوسائٹی سب کو ایک پیج پر آنا ہوگا ۔ آج اگر ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم دینی ہے، خواتین کو تحفظ دینا ہے، مزدوروں کو ان کا معاوضہ اور ان کا حق دینا ہے، آزادی اظہار رائے کا حق دینا ہے، جمہوری اداروں کو مضبوط بنانا ہے، مذہبی آزادی فراہم کرنی ہے ، اقلیتو ں کو تحفظ دینا ہے تو پھر ہم سب کو اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ افسوس ناک بات ہے کہ قانون نافذ کرنے اور ان پر عملدرآمد کروانے والے ادارے خود کرپشن کا شکار ہیں لہٰذا جن معاشروں میں انصاف نہ ہو اور قانون پر عملدرآمد نہ ہو وہاں انسانی حقوق کی صورتحال مایوس کن ہوتی ہے۔ہمیں قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے تشکیل دینا پڑیں گے جو ان پر عملدرآمد یقینی بنا سکیں۔ اداروں میں جنسی برابری کو فروغ دینا پڑے گا۔ میرے نزدیک ہمیں تمام اداروں میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ پالیسی سازی میں علماء، سول سوسائٹی، اقلیتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو شامل کرے تاکہ بہتر پالیسی بنائی جاسکے اور پھر اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

محمد علی گیلانی (چیئرمین ہیومن سیفٹی کمیشن)

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔اسلام انسانی حقوق کا مذہب ہے اور انسانی حقوق ہماری تربیت میں شامل ہیں۔ والدین کے حقوق سمیت دیگر انسانی حقوق ہمیں پرائمری کی سطح پر پڑھا دیے جاتے ہیں جبکہ دینی مدارس میں بھی چھوٹی عمر میں بچوں کو انسانی حقوق سکھائے جاتے ہیں ۔دنیا کے تمام ممالک میں سے پاکستان، دنیا کے لوگوں کے انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ 77ء میں جب ایران میںانقلاب آیا تو ایرانیوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان ہجرت کرکے آگئی اور ہم نے بھائی چارہ دکھاتے ہوئے انہیں گلے سے لگایا اورانہیں پناہ دی ۔ اسی طرح 89ء میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین یہاں آئے اور ہم نے انہیں پناہ دے کر اپنی اسلامی تربیت کو واضح کیا اور انہیں انسانی حقوق دیے۔

اُس وقت یہاں اتنی آگاہی نہیں تھی اور این جی اوز بھی 2000ء کے بعد یہاں آئی ہیں لہٰذا اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے اور پاکستان دنیا کے حقوق کا احترام کرتا ہے جبکہ اقوام متحدہ اور یورپی ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں ان کا کردار محض دکھاوا ہے اور ان کے اپنے بنائے ہوئے انسانی حقوق کے قوانین پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا۔ مشرقی لندن میں ایک مسجد جلائی گئی لیکن کسی نے اس کی مذمت نہیں کی۔اسی طرح مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ فلسطین کے مسئلے پربھی مسلسل خاموشی ہے۔ان عالمی طاقتوں نے ہمارے مسائل حل کرنے کے بجائے ہمیں دہشت گردی، نسلی تضاد اور دیگر مسائل میں الجھا رکھا ہے۔

یورپ میں ہر ملازم خاتون کو ہراساں کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا بہت احترام ہے اور یہ احترام ہماری تربیت میں شامل ہے۔پورے یورپ میں گورے اور کالے کا امتیاز ہے اور وہاں گورے کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ وہاں مذہبی اعتبار سے بھی مختلف مسائل ہیں لیکن کوئی ان پر بات نہیں کرتا۔ ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال بہت بہتر ہے لیکن ہم اپنے کردار کی وجہ سے ہیومن رائٹس انڈیکس میں 146ویں نمبر پر ہیں کیونکہ ہم دنیا کو یہ بتاتے ہی نہیں کہ ہم انسانی حقوق کی محافظ قوم ہیں۔یہ ہمارے ذمہ داروں اور حکمرانوں کا قصور ہے کہ وہ دنیا کو ہمارے ملک کی اچھی چیزیں نہیں دکھاتے۔ انہیں چاہیے کہ ملک کی اچھی اور بہتر چیزوں کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے مہم چلائیں ۔ ہم تھرڈ ورلڈ کے لوگ نہیں ہیں، ہمارے ملک کی معیشت اتنی کمزور نہیں جتنا دکھایا جاتا ہے اور یہ سب مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ ہمارے حکمران اس حوالے سے موثر کام نہیں کررہے۔

بھارت میں اس وقت انتہا پسندی بہت زیادہ ہے اورشیو سینا وہاںجو کررہی ہے اس پر دنیا خاموش ہے۔ نریندر مودی جب بھارت کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے سب سے پہلے قابل اور محب وطن لوگوں پر مشتمل مختلف قسم کے 10 تھنک ٹینک بنائے جو حکومت کو پالیسیاں بنا کر دے رہے ہیں لہٰذا پاکستان کو بھی ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے مگر ہمارے ہاں ایسی روایت نہیں ہے۔ ہمارے حکمران قرضے کے حصول کے لیے دنیا کے سامنے پاکستان کو کمزور دکھا رہے ہیں اور انہیں ملک کی خامیاں بتا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ، فوج اور اسلحہ کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی بہت عرصے سے ہے، یہاں زور ہلاکتیں ہوتی ہیں لیکن کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے جبکہ پیرس میں صرف دو دھماکے ہوئے ہیں اور وہ تیسری عالمی جنگ کرنے پر آ گئے ہیں۔ اگر ہمارے لوگ اور ہماری حکومت عالمی فورمز پر درست آواز اٹھاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں