گپ شپ یا۔۔۔
بہت سوں نے اسے 'گپ شپ' کا نام دے کر اس پر پردہ ڈالا ہوا ہوتا ہے، جب کہ ہمارے مذہب میں اس کے بارے میں سخت ممانعت ہے، کہ وہ مسلمان ہی نہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں۔ غیبت کی کراہیت کو اپنے مردہ بھا ئی کے گوشت کھانے کے مترادف بتایا گیا ہے۔
مگر بہت سی خواتین میں یہ عادت نہایت پختہ ہے۔ اس بارے میں نہ تو سننا پسند کرتی ہیں اور نہ ہی عمل کرنا۔ فیشن اور ٹرینڈز پر ساری توجہ رکھتے ہوئے جدید طرز زندگی کو اپنا کر اپنے مذہب اور روایات کو بالائے طاق رکھے بیٹھی ہیں۔ اپنے سوشل سرکل میں آئے روز ہو نے والی گپ شپ سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہیں۔
ایک وقت تھا جب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، جب بہت سی خواتین محلے اور رشتے دار خواتین سے بد گمان ہونے تک ہی محدود تھیں، جنہیں 'بی جمالو' کا نام دیا جا تا تھا، وہ لوگوں پر طرح طرح کی باتیں بنانے کی ماہر تصور کی جاتی تھیں، جس سے فقط لگائی بجھائی مقصود ہوتی تھی۔ یہی صورت حال اب ٹیکنالوجی کے فرق کے ساتھ بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب فاصلے سمٹ گئے ہیں، لوگوں سے فیس بک، موبائل، وٹس ایپ، اسکائپ اور دیگر جدید ذرایع سے بات کرنا آسان ہو گیا ہے، اس لیے اس عادت پر عمل کرنے کے مواقع زیادہ ملنے لگے ہیں۔ اکثر گھروں میں بڑوں کی طرح بچیوں میں بھی یہ عادت پنپنے لگتی ہے۔
خواتین کسی کی برائی کرتے ہوئے اپنے حسد اور نفرت کی آگ میں اتنا جل رہی ہوتی ہیں کہ یہ سوچنا اور دیکھنا بھول جاتی ہیں کہ ان کے بچے اس نفرت بھری گفتگو سے کتنے متاثر ہو رہے ہیں، اور ان کے ننّھے ذہنوں پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں، نفرت، بدگمانی، ضد اورغصہ ان کی شخصیت کو تباہ کر سکتا ہے۔ وہ خودسر ہو سکتے ہیں اور پھر یہی خودسری ان کے لیے نقصان کا سبب بن سکتی ہے، وہ دوسروں کا مذاق اڑانا اور ایذا رسانی کو تفریح کا ذریعہ سمجھنے لگتے ہیں، کسی کے جذبات سے کھلواڑ کو وہ شرارت کا نام دیتے ہیں۔ اصل وجہ یہ ہو تی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول سے یہ سب سیکھتے ہیں۔
اسی جلن اور حسد کی وجہ سے بہت سی خواتین خود ہی نقصان اٹھاتی ہیں۔ ان کی صحت براہ راست متاثر ہوتی ہے، کم عمری میں ہی ان کے چہرے پر جھریاں پڑنے لگتی ہیں۔ یہی جلن اور حسد ان میں چڑچڑا پن پیدا کر دیتا ہے اور اکثر اس کا نتیجہ اپنے معصوم بچوں پر غصے کی صورت میں نکلتا ہے، اس سے بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اور گھر کا ماحول الگ خراب ہوتا ہے۔ ایسی ماؤں کے بچوں میں احساس کم تری اور جھجھک پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی نظر میں قریبی رشتے بھی اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں، انہیں ہر فرد میں خود غرضی اور برائی نظر آتی ہے، اسی لیے وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جب وہ کوئی کام کریں گے، تو دوسرے بھی ان کا اسی طرح مذاق اڑائیں گے، جیسے وہ یا ان کے گھر والے بناتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر مثبت سرگرمیوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
کسی کی جاسوسی کرنا، اس کے روپے پیسے اور جائیداد کے بارے میں تجسس، اس کے کسی سے کیسے روابط ہیں، کس سے ان بن ہے، کچھ خواتین ان باتوں کو جا ننے میں بے انتہا متجسس ہوتی ہے۔ کسی کا راز جاننے کے بعد جب تک اس بات کا ڈھنڈورا نہ پیٹ لیں، چین ہی نہیں پڑتا۔ ان تمام وقت میں وہ بچوں کے اوپر توجہ نہیں دے پاتیں، لیکن بچے اپنی ماں کے ہر فعل کو بخو بی محسوس کر رہے ہوتے ہیں، جس کے بعد منفی نتائج سامنے آتے ہیں، بچے بھی اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، انہی فضول چیزوں میں دل چسپی لینے لگتے ہیں اور اپنی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین کے کچھ ایسے ہی موضوعات کے گرد گھومتے ڈرامے انہیں بے حد پسند ہوتے ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار دیکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ان ڈراموں سے ہمیں بہت کچھ ''سیکھنے'' کو ملتا ہے۔ ہم مخالف سمت سے آنے والے ''حملوں'' سے محتاط ہو جاتی ہیں، جب کہ ماں اور دیگر رشتے دار خواتین کی ایسے ڈراموں میںد ل چسپی دیکھ کر بچے خود بخود ایسے ڈراموں کی جانب کھچتے ہیں اور ان سے مکروفریب اور غلط بیانی کا ہنر سیکھتے ہیں، جو انہیں منفی رخ دیتا ہے، ان کے معصوم ذہنوں میں ابتدا سے ایسے رویے ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔
دوسری خواتین کے پہناوے اور رہن سہن سے حسد اور ڈپریشن جیسے عارضوں میں مبتلا ہو جانا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات حسد سے مجبور خواتین کی لگائی بجھائی سے سنگین مسا ئل جنم لینے لگتے ہیں۔ بہت سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، خونی رشتے تک بکھر کے رہ جاتے ہیں، ایسے میں ہر شخص پرایا اور دشمن نظر آنے لگتا ہے۔ تنہائی، ڈپریشن، عصابی کمزوری اور مختلف امراض کو بڑھا دیتی ہے، تو دوسری جانب ان الزامات کی زد میں آنے والی خا تون بھی پر سکون نہ رہتے ہو ئے ان امراض میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ جب ماں خود ان تمام بیماریوں میں مبتلا ہو تو بھلا وہ کیسے اپنے بچوں کو اچھی تر بیت کر نے میں فعال ہو سکتی ہے۔
کسی کے خلاف سازش کر کے اسے تباہ کرنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر نے والی خواتین یہ بھول جا تی ہیں کہ محبت اور خلوص سے بڑھ کر دنیا میں کو ئی نعمت نہیں، جب کہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے، جو کچھ آپ بوتے ہیں، وہی کاٹتے ہیں، جو برائی آپ دوسروں کو نیچا دکھانے میں کر رہی ہیں، دراصل اسی کے منفی اثرات خود آپ کی ذات پر اور آپ کے بچوں کے مستقبل پر براہ راست پڑ رہے ہیں، جیسا کہ کہا جاتا کہ کسی پر کیچڑ اچھالنے سے خود پر بھی چھیٹیں آتی ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ایک مثبت زندگی چاہتی ہیں یا منفی۔ اس لیے خود بھی پر سکون رہیں اور دوسروں کو بھی چین سے رہنے دیں۔ اپنی زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے اپنی عادات میں تبدیلی لانا اور دوسروں کے غلط عمل کو معاف کرنا بے حد ضروری ہے۔ بچے اپنے گھر کے ماحول سے ایسی چیزیں سیکھتے ہیں، اس لیے ہمیشہ بچوں کے سامنے بات کرتے ہوئے سوچ سمجھ کر بات کریں اور بہتر رویوں کو پرونا چڑھائیں۔