فلم ریویو شُدرا دی رائزنگ
ڈائریکٹر سنجیو جیسوال نے ’’ شُدرا: دی رائزنگُ‘‘ میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی پستی کی انتہاؤں کو چھوتی ہوئی زندگی۔۔۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار بھارت ذات پات کی ناقابل شکست زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
ہندوستانی معاشرے میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ اونچی ذات کے ہندو شرم ناک طرز عمل روا رکھتے ہیں، اور یہ کوئی ایک دو صدی پرانی بات نہیں بلکہ ہندو مت کے آغاز ہی سے اُس معاشرے میں یہ تفریق موجود ہے۔ بھارت میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے اس امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے اور اونچی سطحوں پر کچھ تبدیلی بھی آئی ہے لیکن نچلی سطحوں پر یہ فرق اسی طرح موجود ہے۔ بالخصوص دور دراز دیہات میں اونچی ذات کے ہندو نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو صدیوں پہلے ان کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔
ڈائریکٹر سنجیو جیسوال نے '' شُدرا: دی رائزنگُ'' میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی پستی کی انتہاؤں کو چھوتی ہوئی زندگی اور ان پر اونچی ذات کے ہندوؤں کے وحشیانہ مظالم کو پیش کیا ہے۔ یہ فلم ہندوستان میں دلتوں کی قابل رحم صورت حال کی منظر کشی کرتی اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق پر یقین رکھنے والوں سے سوال کرتی ہے۔ اس فلم کے نمایاں اداکاروں میں عارف راجپوت، پروین بے بی، کرن شرد، شجیع چوہدری اور رادھا شری واستو شامل ہیں۔
فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک دور دراز گاؤں میں دو دلت اپنے مُکھیا کے مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتے ہیں۔ مکھیا اونچی ذات کا ہندو ہے اور اپنی ذات کے دیگر ہندوؤں کے ساتھ مل کر شودروں پر بے انتہا ظلم ڈھاتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک بوڑھے بیمار دلت کو پینے کا پانی دینے سے انکار کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ایک پانچ سالہ دلت بچے کو اس لیے مارا پیٹا جاتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے مقدس کلمات ادا کرنے کی گستاخی کرتا ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جب چاہتے ہیں دلت عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس فلم میں اس طرح کے کئی سین ہیں۔
'' شدرا'' دلتوں پر ماضی میں ہونے والے مظالم کی تصویر کشی کرتی اور اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی بہت سے علاقوں میں دلتوں کے ساتھ وہی سب کچھ ہورہا ہے۔ کیا ذات پات کی تفریق انسانیت سے زیادہ اہم ہے؟ ذات پات کا نظام کیسے وجود میں آیا؟'' شدرا'' ذات پات کے قدیم نظام پر اندھا اعتقاد رکھنے والوں کے سامنے یہ دو سوال اٹھاتی ہے۔
'' شدرا '' جذباتی فلم ہے۔ اس فلم میں کئی سین ایسے ہیں جن میں دلتوں کی مظلومیت انتہا پر نظر آتی ہے۔ ان تمام مناظر میں کسی بھی حساس آنکھ کو نم کردینے کی صلاحیت موجود ہے۔ بامقصد ہونے کی وجہ سے '' شدرا'' کمرشیل فلم سے زیادہ ایک ڈاکومینٹری نظر آتی ہے۔ غم و اندوہ کے مناظر سے بھرپور ہونے کے باوجود یہ فلم اپنا پیغام کام یابی سے دیکھنے والے تک پہنچاتی ہے۔
'' شدرا'' میں کوئی نمایاں اداکار شامل نہیں، لیکن ان اداکاروں کی پرفارمینس دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اداکاروں کا لباس، میک اپ، آرٹ ڈائریکشن، سنیماٹوگرافی سمیت ہر چیز بہت موزوں ہے۔ موسیقی بھی دلوں کو چُھولینے والی ہے۔ مجموعی طور پر '' شدرا: دی رائزنگ'' ایک معیاری اور بامقصد فلم ہے۔
ہندوستانی معاشرے میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ اونچی ذات کے ہندو شرم ناک طرز عمل روا رکھتے ہیں، اور یہ کوئی ایک دو صدی پرانی بات نہیں بلکہ ہندو مت کے آغاز ہی سے اُس معاشرے میں یہ تفریق موجود ہے۔ بھارت میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے اس امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے اور اونچی سطحوں پر کچھ تبدیلی بھی آئی ہے لیکن نچلی سطحوں پر یہ فرق اسی طرح موجود ہے۔ بالخصوص دور دراز دیہات میں اونچی ذات کے ہندو نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو صدیوں پہلے ان کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔
ڈائریکٹر سنجیو جیسوال نے '' شُدرا: دی رائزنگُ'' میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی پستی کی انتہاؤں کو چھوتی ہوئی زندگی اور ان پر اونچی ذات کے ہندوؤں کے وحشیانہ مظالم کو پیش کیا ہے۔ یہ فلم ہندوستان میں دلتوں کی قابل رحم صورت حال کی منظر کشی کرتی اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق پر یقین رکھنے والوں سے سوال کرتی ہے۔ اس فلم کے نمایاں اداکاروں میں عارف راجپوت، پروین بے بی، کرن شرد، شجیع چوہدری اور رادھا شری واستو شامل ہیں۔
فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک دور دراز گاؤں میں دو دلت اپنے مُکھیا کے مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتے ہیں۔ مکھیا اونچی ذات کا ہندو ہے اور اپنی ذات کے دیگر ہندوؤں کے ساتھ مل کر شودروں پر بے انتہا ظلم ڈھاتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک بوڑھے بیمار دلت کو پینے کا پانی دینے سے انکار کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ایک پانچ سالہ دلت بچے کو اس لیے مارا پیٹا جاتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے مقدس کلمات ادا کرنے کی گستاخی کرتا ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جب چاہتے ہیں دلت عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس فلم میں اس طرح کے کئی سین ہیں۔
'' شدرا'' دلتوں پر ماضی میں ہونے والے مظالم کی تصویر کشی کرتی اور اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی بہت سے علاقوں میں دلتوں کے ساتھ وہی سب کچھ ہورہا ہے۔ کیا ذات پات کی تفریق انسانیت سے زیادہ اہم ہے؟ ذات پات کا نظام کیسے وجود میں آیا؟'' شدرا'' ذات پات کے قدیم نظام پر اندھا اعتقاد رکھنے والوں کے سامنے یہ دو سوال اٹھاتی ہے۔
'' شدرا '' جذباتی فلم ہے۔ اس فلم میں کئی سین ایسے ہیں جن میں دلتوں کی مظلومیت انتہا پر نظر آتی ہے۔ ان تمام مناظر میں کسی بھی حساس آنکھ کو نم کردینے کی صلاحیت موجود ہے۔ بامقصد ہونے کی وجہ سے '' شدرا'' کمرشیل فلم سے زیادہ ایک ڈاکومینٹری نظر آتی ہے۔ غم و اندوہ کے مناظر سے بھرپور ہونے کے باوجود یہ فلم اپنا پیغام کام یابی سے دیکھنے والے تک پہنچاتی ہے۔
'' شدرا'' میں کوئی نمایاں اداکار شامل نہیں، لیکن ان اداکاروں کی پرفارمینس دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اداکاروں کا لباس، میک اپ، آرٹ ڈائریکشن، سنیماٹوگرافی سمیت ہر چیز بہت موزوں ہے۔ موسیقی بھی دلوں کو چُھولینے والی ہے۔ مجموعی طور پر '' شدرا: دی رائزنگ'' ایک معیاری اور بامقصد فلم ہے۔