ہاکی پلیئر نہ ہوتا تو ضرور بس ڈرائیور ہوتا

ورلڈ کلاس کھلاڑی کتابوں سے نہیں، ’’ریاض‘‘ سے بنتا ہے، حنیف خان


Iqbal Khursheed October 29, 2012
لڑنے جھگڑنے والا بچہ تھا، میٹرک تک ہاکی گرائونڈ نہیں دیکھا تھا، حنیف خان فوٹو : فائل

قصّہ ایک فسوں گر کا، جس کی شعلے سی رفتار تحیر کو جنم دیتی، گیند پر گرفت حواس مختل کر دیتی، حریفوں کی دفاعی دیوار ڈھاتے ہوئے یہ ساحر گول پوسٹ تک پہنچ جاتا، پھر ایک زوردار ہٹ، اور نتیجہ، ایک شان دار گول!

یہ حنیف خان کی کہانی ہے جیسے وہ اُسی روانی اور سہولت سے بیان کرتے ہیں، جسے وہ میدانوں میں اپنا جادو جگایا کرتے تھے۔ اپنے دس برس پر محیط حیران کُن کیریر میں اُنھوں نے اولمپکس اور ہاکی ورلڈ کپ سمیت متعدد بڑے ٹورنامینٹس میں صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اِس عظیم کھلاڑی نے لگ بھگ 150 میچز کھیلے، جن میں 145 گول اسکور کیے۔ ناقدین اُن میں سے بیش تر گولز کو ''عجوبہ'' قرار دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ گول ہندوستان کے خلاف داغے۔ دو ہیٹ ٹرکس بھی روایتی حریف ہی کے خلاف کیں۔ میدانوں سے دُور ہونے کے بعد بھی کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔

پیشہ ورانہ سفر میں پہلے حبیب بینک سے جُڑے، 78ء میں کسٹمز سے نتھی ہوگئے، آج بھی اسی ادارے کا حصہ ہیں، اور اسسٹنٹ کلیکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اُن کے مزاج میں بلا کی بذلہ سنجی اور بے ساختگی ہے۔ طبیعت کی بشاشت، جسم میں دوڑتی توانائی کو اپنی مثبت فکر کا عکس قرار دیتے ہیں۔ کہنا ہے، وہ کبھی کسی کا برا نہیں سوچتے۔ ''اگر آپ کسی کے کام آسکتے ہیں، تو ضرور آئیں۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے، تو خاموشی سے دُور کھڑے رہیں، تنقید مت کریں۔'' خود کو فٹ رکھنے کے لیے باقاعدگی سے ٹینس کھیلتے ہیں۔ ہاکی اسٹک تھام کو آسٹروٹرف پر دوڑنے میں تو کبھی تامل نہیں کرتے۔

5 جولائی 1955 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں آنکھ کھولنے والے ہاکی کے اِس مایۂ ناز کھلاڑی کے اجداد کا تعلق نرسنگھ پور، مدھیہ پردیش سے ہے۔ یوسف زئی پٹھان ہیں۔ اُن کے والد، عبدالحمید خان ہندوستان میں محکمۂ پولیس کی ہاکی ٹیم کا حصہ رہے۔ پاکستان آنے کے بعد وہ کے ڈی اے میں ملازم ہوگئے۔ ہاکی کے شوق نے یہاں بھی متحرک رکھا۔ وہ لیاقت آباد کے سٹی کلب سے کھیلا کرتے تھے۔ کوچنگ بھی کی۔ بہ طور باپ وہ انتہائی شفیق اور کم گو انسان تھے۔ اولاد اور اُن کے درمیان احترام کا فاصلہ ہمیشہ قائم رہا۔ سزا دینے کے وہ قائل نہیں تھے، البتہ ایک موقع ایسا ضرور آیا، جب نٹ کھٹ حنیف کو اِس مرحلے سے گزرنا پڑا۔ بتاتے ہیں، محلے کا ایک لڑکا گھر سے بھاگ گیا تھا، لوگوں کے کہنے پر اُسے پکڑنے گئے، تو اُس نے اِنھیں تھپڑ رسید دیا۔ ''ہم نے بھی پلٹ کر اُس کی ناک پر مُکا مار دیا۔ اُس کی ناک پھوٹ گئی۔ اس کی ماں روتی ہوئی ہمارے گھر آگئی۔ بس اُس روز مار پڑی!''

بھرا پُرا گھرانا، اور ایک کمانے والا، خاندان کا معاشی مسائل سے جوجھنا تو یقینی تھا، البتہ جُوں جُوں عبدالحمید خان کے صاحب زادے عملی زندگی میں قدم رکھتے گئے، مسائل کی گمبھیرتا میں کمی آتی گئی۔ آٹھ بھائیوں میں ساتویں حنیف خان ماضی کھنگالتے ہوئے اُس محبت اور رواداری کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جو اب عنقا ہوگئی ہے۔ ''جب میں کوئی ٹورنامینٹ کھیلتا تھا، تو لیاقت آباد تھانے سے میرے گھر تک کا راستہ سجایا جاتا۔ لوگوں میں بہت پیار تھا، بڑوں کا احترام تھا، اب تو یہ سب ختم ہوگیا۔'' بتاتے ہیں، اُس وقت کراچی اتنا گنجان نہیں تھا، کچھ ہی علاقوں میں چہل پہل تھی، ورنہ بڑے حصے پر سناٹے کا راج تھا۔ اُن کے گھر سے نیشنل اسٹیڈیم کی دیوار نظر آتی تھی۔ میچ کھیلنے کے لیے کراچی یونیورسٹی کی طرف جانا ہوتا، تو ویرانی کے پیش نظر چار پانچ دوست اکٹھے نکلتے۔ اپنے کم سنی کے مزاج کو انتہائی خطرناک بتاتے ہیں۔ ''میں بہت بدتمیز اور لڑنے جھگڑنے والا بچہ تھا۔ شاید ماحول کا اثر تھا، لیکن بعد میں جب دنیا دیکھی، لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا، تو مزاج میں تبدیلی آئی۔''

شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوتا تھا۔ 74ء میں میٹرک کرنے کے بعد اُنھوں نے نیشنل کالج سے انٹر کیا۔ وہیں سے بی اے پارٹ ون کے چار پرچے دیے، پھر کھیل کا عشق پڑھائی سے دور لے گیا۔ ہاکی سے محبت اُنھیں وراثت میں ملی۔ کسی اور کھیل کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوئے، تاہم یہ امر خاصا دل چسپ ہے کہ اُنھوں نے میٹرک تک ہاکی گرائونڈ نہیں دیکھا تھا۔ ''دراصل گھر کی طرف سے اجازت نہیں تھی۔ اُس زمانے میں میٹرک کی بہت اہمیت تھی۔ گھر والے کہتے تھے، پہلے میٹرک کرو، پھر ہاکی کھیلنا۔ تو میٹرک کے بعد ہی گرائونڈ میں پہنچا۔'' ہاں، علاقے کی گلیوں میں ہاکی ضرور کھیلی، جہاں مقابلے کی فضا سخت تھی۔

''وہیں سے تو ہم پلیئر بنے۔ چھوٹی سی گلی تھی، اس میں پندرہ بیس لڑکے کھیل رہے ہیں، تو 'ڈاج' کیسے دینا ہے، اسٹک کیسے استعمال کرنی ہے، یہ سب وہیں سیکھا۔ وہ ہی تربیت بعد میں کام آئی۔'' بتاتے ہیں، اُن کے بڑے بھائی، عظیم خان نیشنل کالج کی ہاکی ٹیم کے کپتان تھے، لیکن یہ رشتہ کام نہیں آیا، باقاعدہ ٹرائل دیا، جس کے بعد داخلہ ہوا۔ کالج میں قدم رکھنے کے بعد یہ شوق عروج پر پہنچ گیا۔ نیشنل کالج کی طرف سے کھیلتے ہوئے دو بار انٹر کالجیٹ چیمپیئن شپ جیتی۔ ایک بار یہ کارنامہ اُن کی کپتانی میں انجام دیا گیا۔ آغاز اچھا تھا، لیکن یہ خیال کبھی ذہن میں نہیں آیا کہ مستقبل میں پاکستان کی نمایندگی کریں گے۔ ہاں، ڈومیسٹک لیول پر کھیلنے کی خواہش ضرور تھی۔ کہتے ہیں،''میں بہت دبلا تھا۔ فقط 109 پونڈ وزن تھا، پانچ فٹ چار انچ قد۔ اب ایسا کھلاڑی بھلا نیشنل ٹیم کے لیے کھیلنے کا سوچ سکتا تھا!''

کالج کے زمانے میں صلاحیتوں کے ایسے جوہر دکھائے کہ 74ء میں کراچی کی ٹیم کا حصہ بن گئے، جس کی جانب سے دو بار نیشنل چیمپیئن شپ کے مقابلوں میں شرکت کی۔ کارکردگی متاثر کن رہی، جسے دیکھتے ہوئے 76ء میں اولمپکس کے لیے اسلام آباد میں لگنے والے قومی ٹیم کے کیمپ سے بلاوا آگیا۔ یوں زندگی نے ایک نیا موڑ لیا، کام رانیوں کے سفر کا آغاز ہوا۔ بتاتے ہیں، کیمپ میں اُن کی کارکردگی حیران کن رہی، ایسے ایسے عجوبہ گول کیے کہ سب ششدر رہ گئے۔

گوکہ حنیف خان نے یہ نہیں سوچا تھا کہ انھیں منتخب کر لیا جائے گا، لیکن مونٹریال اولمپکس میں شرکت کرنے والی ٹیم میں وہ شامل تھے۔ پہلا میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا، جس میں اُن کا داغا ہوا گول، ٹورنامینٹ کا بہترین گول قرار پایا۔ اگلا میچ آسٹریلیا کے خلاف تھا۔ بتاتے ہیں، آسٹریلوی ٹیم منفی سوچ کے ساتھ میدان میں اتری تھی، اُن کا مقصد فقط پاکستانی کھلاڑیوں کو زخمی کرنا تھا، اِسی باعث بریگیڈیر عاطف نے انھیں میدان میں نہیں بھیجا کہ یہ دھان پان سا نوجوان کہیں زخمی نہ ہوجائے۔ میچ کے بعد اِس فیصلے پر بہت تنقید ہوئی۔ بعد میں ہالینڈ کے خلاف تیسری پوزیشن کے میچ میں اُنھیں میدان میں اتارا گیا۔ انھوں نے گول اسکور کیا۔ ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی کہ جب سترہ سالہ حنیف ہالینڈ کے خلاف کھیل سکتا تھا، تو آسٹریلیا کے خلاف بھی اُسے آزمانا چاہیے تھا۔ خیر، جب پاکستانی ٹیم لوٹی، کھلاڑیوں کے گلے میں کانسی کا تمغہ جھول رہا تھا، اور حنیف خان نے سپراسٹار کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔ اس تعلق سے کہتے ہیں، شہرت نے اُنھیں مغرور نہیں کیا۔ ''یہ تو میرے رب کا احسان تھا۔ انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ خود سے کچھ بن سکے!''

اولمپکس کے بعد، قائد اعظم کے صد سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے لاہور میں انٹرنیشنل ٹورنامینٹ منعقد ہوا، جس میں اِس نوجوان کو ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ پاکستان ٹورنامینٹ کا فاتح رہا، اور وہ مقابلے کے ٹاپ اسکورر۔ گیارہ بار اُن کی ہٹ نے گیند نیٹ میں پہنچائی۔

78ء میں ارجنٹینا میں ہونے والے ہاکی ورلڈ کپ میں اُنھوں نے پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اُس بڑے مقابلے میں اُنھوں نے 8 گول کیے۔ 80ء میں پاکستان میں ہونے والی چیمپیئز ٹرافی تو کئی معنوں میں یادگار رہی۔ اُس ٹورنامینٹ میں ہندوستان کے خلاف اُنھوں نے ہیٹ ٹرک کی، جس کے بعد اُنھیں ''گول کرنے کی مشین'' کہا جانے لگا۔

82ء میں ممبئی میں ہونے والے ورلڈکپ میں وہ اپنے عروج پر تھے۔ اُس ٹورنامینٹ میں اُنھوں نے 7 گول داغے۔

83ء میں پہلی بار اُنھیں کپتانی سونپی گئی۔ ہوم سیریز اور ہانگ کانگ میں ہونے والے ٹورنامینٹ میں یہ ذمے داری نبھائی۔ 84ء میں منظور جونیئر کپتان ہوگئے۔ اُسی برس لاس اینجلس اولمپکس منعقد ہوئے۔ مقابلے کے باقاعدہ آغاز سے قبل، کیمپ میں وہ زخمی ہوگئے، جس کی وجہ سے ڈیڑھ ہفتے پریکٹس سے دُور رہے۔ اسی وجہ سے انفرادی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کلیدی کھلاڑی کے ''آئوٹ آف فارم'' ہونے کے باوجود اولمپکس میں پاکستان نے گولڈ میڈل جیت لیا۔ آج حنیف خان اُس جیت کو ایک معجزہ قرار دیتے ہیں کہ اُس وقت ٹیم زوال کی جانب جارہی تھی۔ ''بس، یہی کہا جاسکتا ہے کہ اﷲ کی دَین تھی، قوم کی دعائیں تھیں!''

یہیں سے کپتانی کا موضوع نکل آیا، جو اولمپکس مقابلوں کے سمے اُن سے روٹھی ہوئی تھی۔ کہنے لگے، ہاکی میں ''سینیارٹی'' دیکھی جاتی ہے۔ جب وہ کپتان بنے تھے، اُس وقت منظور سینئر اور منظور جونیئر ٹیم سے باہر تھے، جب منظور جونیئر ٹیم میں آئے، تو ''سینیارٹی'' کی بنیاد پر وہ کپتان بن گئے۔ حنیف خان کے مطابق اُنھوں نے کبھی کپتانی کو مسئلہ نہیں بنایا۔ ''یہ نیک نیتی ہی تھی کہ ہم نے لاس اینجلس اولمپکس جیت لیے۔ ہوسکتا ہے، میری کپتانی میں پاکستان چھٹے نمبر پر آتا۔ (قہقہہ!)''

اولمپکس کے کچھ عرصے بعد کپتانی پھر اُن کے پاس چلی آئی۔ 86ء تک کپتان رہے۔ اُسی برس پرتھ میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی اُن کا آخری ٹورنامینٹ تھا۔

فقط 27 برس کی عمر میں انٹرنیشنل ہاکی سے علیحدگی کیا بگڑتے حالات کا شاخسانہ تھی؟ اِس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں،''جب کوئی کھلاڑی ہاکی کھیلنا شروع کرتا ہے، تو اس کے دل میں یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے کسی اچھے ادارے میں نوکری مل جائے۔ نوکری مل جاتی ہے، تو گزارہ ہونے لگتا ہے۔ جب وہ قومی ٹیم میں آجاتا ہے، تو خوشی دُگنی ہوجاتی ہے۔ کوئی اور خواہش نہیں رہ جاتی۔ پانچ چھے سال کھیلنے کے بعد شہرت اور دولت، دونوں اُسے مل جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فقط اپنے ملک اور عزت کے لیے کھیلتا ہے۔ اگر اُس عمر میں حالات بگڑتے ہیں، سیاست ہوتی ہے، تو وہ یہی مناسب سمجھتا ہے کہ ٹیم سے الگ ہوجائے۔ مجھے بھی جتنی ہاکی عزت سے کھیلنی تھی، کھیل لی۔''

93ء میں اُنھیں کوچنگ کی پیش کش ہوئی، جسے قبول کیا، البتہ ایک ٹورنامینٹ میں یہ ذمے داری نبھانے کے بعد، بہ قول اُن کے، گروپنگ کی وجہ سے یہ عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اگلی بار 2000 میں یہ منصب سنبھالا۔ اُس زمانے میں پاکستانی ٹیم نے اذلان شاہ کپ میں کام یابی حاصل کی، اولمپکس کے کوالیفائنگ رائونڈ میں دوسری پوزیشن اپنے نام کی۔ اِس بار بھی خود ہی علیحدہ ہوئے۔ 2001 میں ایک بار پھر پیش کش ہوئی۔ اِس بار ایک برس ذمے داری نبھائی۔ 2010 میں چیف سیلیکٹر ہوگئے۔ اولمپکس 2012 تک کا معاہدہ تھا۔ اب کوچنگ کے لیے کمر کس چکے ہیں۔ اِس ذمے داری کو طبیعت کے قریب پاتے ہیں، بہ طور چیف سیلیکٹر کرسی پر بیٹھ کر میچ دیکھنا ذرا مشکل تھا۔

حنیف خان کے نزدیک پاکستان ہاکی کو دوبارہ عروج پر لے جانا کسی طور آسان نہیں۔ ''بنیادی خامی ایک ہے۔ استاد، یعنی کوچ اتنے قابل نہیں ہیں کہ وہ لڑکوں کو کچھ سکھا سکیں۔ لڑکوں کو الزام نہ دیں، یہ ہماری ذمے داری ہے کہ اُنھیں سکھائیں۔'' ان کے مطابق اچھے کوچز کو بھی وقت دینا ہوگا کہ ''گراس روٹ لیول'' پر کئی مسائل پیدا ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے بہتری میں چار پانچ برس لگ سکتے ہیں۔ وہ نچلی سطح پر باقاعدگی سے ٹورنامینٹس منعقد کروانے، اور اچھے کوچ تعینات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ''کوالیفائیڈ کوچ'' کی اصطلاح سے متفق نہیں۔ فطری صلاحیتوں پر، محنت پر یقین ہے۔ کہنا ہے، ورلڈ کلاس کھلاڑی کتابوں سے نہیں، ''ریاض'' سے بنتا ہے، اور ایسا کھلاڑی آنکھیں بند کرکے بھی گول کر سکتا ہے۔

87ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹے، علی اذلان خان سے نوازا، جس نے جونیئر لیول پر ہاکی کھیلی، پاکستان وائٹس کی نمایندگی کی، آج وہ پورٹ قاسم سے وابستہ ہے۔ اولاد سے دوستانہ رشتہ رہا۔ بہ طور باپ چوبیس گھنٹے خوں خوار رہنے کے قائل نہیں۔ لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ کھانے میں دال چاول سے رغبت ہے۔ ٹھنڈے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہالینڈ کے میدانوں میں کھیل کر زیادہ لطف اندوز ہوئے۔ احمد فراز کی شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں۔ جوش کی ''یادوں کی برات'' پڑھ کر لطف اندوز ہوئے۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے توجہ ڈسکوری چینل پر مرکوز رہتی ہے۔ مزاحیہ پروگرام اچھے لگتے ہیں، نیوز پروگرامز میں دل چسپی نہیں۔

اداکاری میں معین اختر اور عمر شریف کا نام لیتے ہیں۔ راجیش کھنا کی فلم ''امر پریم'' اچھی لگی۔ مہدی حسن کی آواز بھاتی ہے۔ منور الزماں کو ہاکی کی تاریخ کا سب سے بڑا کھلاڑی قرار دیتے ہیں۔ کہنا ہے، اُن سا ہاکی پلیئر شاید پھر پیدا نہ ہو۔ اپنے جونیئرز میں نعیم اختر اور شاہد علی خان کو سراہتے ہیں۔ موجودہ کھلاڑیوں کے تو نام بھی نہیں جانتے، کسی کا ذکر کرنا تو دور کی بات ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں، اگر وہ ہاکی پلیئر نہ ہوتے، تو ضرور بس ڈرائیور ہوتے کہ بس چلانے کا بہت شوق ہے۔ ''آج تک چلائی تو نہیں، لیکن سوچ رہا ہوں کہ ایک بس خرید لوں، پھر جی بھر کر چلائوں۔ (قہقہہ!)

پاکستان بہ مقابلہ بھارت، اختتامی اسکور 7-1
82ء میں دہلی میں ہونے والے ایشین گیمز کا فائنل زندگی کا یادگار ترین مقابلہ تھا۔ اُس روز انکلوژر میں ہندوستانی صدر اور وزیر اعظم سمیت پوری کیبنٹ موجود تھی۔ میچ کے پندرہویں منٹ تک ہندوستان کو برتری حاصل تھی۔ انیسویں منٹ پر پاکستان نے پہلا گول اسکور کیا۔ پہلے ہاف میں مجموعی طور تین اور دوسرے ہاف میں چار گول داغے۔ اختتامی سیٹی بجی، تو اسکور 7-1 تھا۔ اُس مقابلے میں گول کرنے کی مشین، حنیف خان نے تین بار گیند نیٹ میں پہنچائی۔ کہتے ہیں،''دنیا میں آپ کسی کے خلاف کھیل لیں، لیکن ہندوستان کے خلاف کھیلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ایک تو اسٹائل ایک ہے، پھر جذبۂ حب الوطنی بھی ہے۔ جب آپ اُن کی زمین پر کھیلتے ہیں، اُنھیں شکست دیتے ہیں، تو میدان میں آپ کا جھنڈا لہرایا جاتا ہے، ترانہ بجتا ہے۔ بھلا اِس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوگی!''

''کرکٹ تو ہماری وجہ سے اوپر آئی!''
ناقدری اور ہاکی سے برتی جانے والی عدم توجہی کا موضوع زیر بحث آیا، تو کرکٹ کا بھی ذکر نکلا کہ کرکٹرز آج شہرت کی بُلندیوں پر ہیں، جب کہ چار ورلڈ کپ اپنے نام کرنے کے باوجود ہاکی کے بیش تر کھلاڑی گُم نام۔ اِس پر وہ کہنے لگے۔ ''کرکٹ تو ہماری وجہ سے اوپر آئی ہے۔ ایک زمانے میں کرکٹرز کو کوئی نہیں پوچھتا تھا، سب ہاکی والوں ہی کے پیچھے بھاگتے تھے۔ اخبارات میں ہاکی پلیئرز کی تصاویر شایع ہوتی تھیں۔ ہم خود زوال کی جانب گئے ہیں، تو کرکٹ کو عروج ملا ہے۔ اگر ہاکی نیچے نہیں جاتی، تو کرکٹرز کو کبھی اُبھرنے کا موقع نہیں ملتا۔''

نوجوانوں کی ہاکی سے دُوری کے تعلق سے کہتے ہیں،''اِن حالات میں کون اپنے بچے کو ہاکی کھیلنے کے لیے بھیجے گا۔ پہلے اگر بچہ پڑھتا نہیں تھا، تو کہتے تھے، اسے ہاکی میں لگا دو، نوکری تو مل جائے گی۔ مگر اب نوکری کہاں ہے۔ ایسے میں بھلا کون گرائونڈ میں آئے گا!''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں